پہلگام کے مجرم کب پکڑے جائیں گے؟

معصوم مرادآبادی
جون 2025

پہلگام حملے  کو اب ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے۔لیکن اب تک اس وحشیانہ حملے کے مجرم قانون کی گرفت سے آزاد ہیں جب کہ وزیراعظم اور وزیردفاع نے کہا تھا کہ وہ ان مجرموں کو زمین کی تہہ سے بھی نکال لائیں گے، لیکن قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کی تمام ترکوششوں کے باوجود ابھی تک انھیں گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔ پانچ مجرموں میں سے تین کی شناخت پاکستانی دہشت گردوں کے طورپر کی گئی ہے اور ان کے سرپر بیس بیس لاکھ کا انعام بھی رکھا گیا ہے۔لیکن سیکورٹی ایجنسیوں کی تمام کوششوں کے باوجود یہ مجرم ابھی تک آزادہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ پہلگام میں سیاحوں پر کیا گیا حملہ انتہائی وحشیانہ اور بزدلانہ تھا ، جس میں 26؍بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیاتھا۔یہ وہ بے گناہ لوگ تھے جو کشمیر کی خوبصورت وادیوں سے لطف اندوز ہونے یہاں آئے تھے۔ انھیں کیا پتہ تھا کہ واپس ان کی لاشیں ہی جائیں گیں۔یہ حملہ اتنا وحشیانہ تھا کہ اس کے خلاف پورے ملک میں غم وغصے کی شدید لہر دوڑ گئی ۔حکومت ہند نے پورے جوش وخروش کے ساتھ پہلگام کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور ان کے آقاؤں کو سبق سکھانے کی بات ایک سے زائد بار کہی تھی۔

ہندوستان نے اس دہشت گردانہ کارروائی کے لیے پاکستان کو موردالزام ٹھہرا کر اتنے سخت قدم اٹھائے جو اس سے پہلے کبھی نہیں اٹھائے گئے تھے۔دونوں ملکوں کی سرحدیں ہی ایک دوسرے کے باشندوں کے لیے بند نہیں کی گئیں بلکہ فضاؤں پر بھی پہرے بٹھا دئیے گئے۔ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے سفارتکاروں کی تعداد محدود تر کردی گئی ۔ تمام قسم کی تجارت روک دی گئی۔ شملہ سمجھوتہ منسوخ کردیا گیا۔ سندھ طاس آبی معاہدہ منسوخ کرکے پاکستان کے حصے کا پانی روک لیا گیا ۔ غرض یہ کہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے خلاف جو بھی قدم اٹھائے وہ اتنے سخت تھے کہ اس کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔

ہندوستان نے پہلگام حملے کا انتقام لینے کی بات کہی اور فوج کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی سہولت کے حساب سے مقام اور وقت کا تعین کرے۔ لہٰذا فوج نے پوری تیاری کے ساتھ پاکستان میں ان ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جہاں خفیہ اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کے ٹریننگ کیمپ واقع تھے۔ ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف اپنی اس مہم کے دوران 9 ٹھکانوں پر حملے کرکے کم وبیش100؍افرادکو تہہ تیغ کردیا۔ اسے ’’آپریشن سندرو‘‘ کا نام دیا گیا تھا تاکہ ان بیواؤں کو سکون پہنچایا جاسکے جن کے شوہروں کو پہلگام میں تہہ تیغ کیا گیا تھا۔

“آپریشن سندور”سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اتنی بڑھی کہ دونوں جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے۔ جب صورتحال قابو سے باہر ہونے لگی تو بقول صدرٹرمپ انھوں نے دونوں کو جنگ بندی پر آمادہ کیا ۔حالانکہ اس بات پر اختلاف ہے ، لیکن اتنا ضرور ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی تیسری طاقت ضرور تھی جس نے دونوں کو عقل کے ناخن لینے کی صلاح دی۔ دراصل برصغیر کے یہ دونوں پڑوسی ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں اور دونوں کے درمیان کشیدگی کا مطلب محض دوپڑوسیوں کے درمیان کی کشیدگی نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ بات جوہری ہتھیاروں تک پہنچی تو اس کی زد میں پوری دنیا آجائے گی۔ یوں بھی دونوں ہی ملک غربت، افلاس اور بھکمری سے لڑرہے ہیں ۔ اس حالت میں کوئی بھی جنگ کا بوجھ برداشت کرنے کے لائق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا نے اس محاذآرائی کو روکنے کی اپیل کی۔

یہاں سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ22؍اپریل کے حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے لیے اب تک جو کوششیں کی گئی ہیں، ان کا کیا نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ این آئی اے نے ابتدائی مرحلے میں ہی مقامی پولیس سے تفتیش اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ اس نے تین ہزار سے زیادہ افراد کو پوچھ تاچھ کے لیے حراست میں لیا اور ان میں سے سو سے زائد کوگرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ،مگر پھر بھی اس اعتبار سے قومی تحقیقاتی ایجنسی کے ہاتھ خالی ہیں کہ وہ ابھی تک ایک بھی مجرم کو نہیں پکڑ سکی ہے۔ حالانکہ حملہ آوروں کے نہ صرف اسکیچ جاری کئے گئے بلکہ ان کی تصویریں بھی عام کی گئیں اور ان کے سروں پر بیس بیس لاکھ روپے انعام کا بھی اعلان کیا گیا ۔کانگریس نے 22؍اپریل کے حملے کے لیے وزیرداخلہ امت شاہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انھیں اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ پہلگام کے جس مقام پر یہ حملہ کیا گیا وہ پاکستان کی سرحد سے چارسو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ وادی کشمیر میں چپے چپے پر سیکورٹی فورسز تعینات ہیں اور ہر قسم کی نقل وحرکت پر خفیہ ایجنسیوں کی نظر ہے۔ اس کے علاوہ سیکورٹی ایجنسیوں کا اپنا جاسوسی نظام بھی سرگرم ہے ۔ اس سب کے باوجود دہشت گرد اپنا کام کرنے میں کامیاب کیوں ہوجاتے ہیں۔ یہی سب سے بڑاسوال ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ پہلگام کی بیسرن ویلی میں جب دہشت گردوں نے حملہ کیا تو وہاں سیاحوں کی سیکورٹی کا کوئی انتظام کیوں نہیں تھا۔  بتایا جاتا ہے کہ بیسرن ویلی میں دہشت گردانہ حملے کے وقت سیکورٹی یا پولیس کا ایک جوان بھی تعینات نہیں تھا۔

22؍اپریل کو دہشت گردوں نے جنگل کی طرف سے آکر سیاحوں پر گولیاں برسائیں اور پھر بڑے اطمینان کے ساتھ جنگلوں میں روپوش ہوگئے ۔ انھیں شاید اس بات کا اندازہ تھا کہ بیسرن ویلی میں سیکورٹی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔تبھی وہ اتنے اطمینان سے اپنا کام انجام دے کر واپس چلے گئے ۔ اب سیکورٹی فورسز ان کی تلاش میں سرگرم ہیں۔ کئی سرچ آپریشن ہوچکے ہیں، لیکن قصوروار ابھی تک سیکورٹی فورسز کی دسترس سے دور ہیں۔ جانچ میں تین نام سامنے آئے ہیں ۔ عادل، موسیٰ اور علی۔ ان تینوں پر ہی بیس بیس لاکھ کا انعام رکھا گیا ہے۔ ظاہر ہے انعام کی اتنی بڑی رقم حاصل کرنے کے لیے مقامی باشندے بھی سرگرم ہوں گے، لیکن حملہ آور ابھی تک سیکورٹی ایجنسیوں کی دسترس سے دور ہیں۔

دہشت گردوں تک پہنچنے میں ناکامی کے حوالے سے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ دو یا تین  ئ’’اوورگراؤنڈ‘‘ ورکرز سے ہی رابطے میں ہیں، جو انھیں ضروری سامان پہنچا رہے ہیں ۔ اتنے کم لوگوں سے رابطے میں ہونے کی وجہ سے ان تک پہنچنا یا ان کا پتہ لگانا مشکل ہورہا ہے ۔ تفتیش کاروں کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ دہشت گرد جنگلوں، غاروں یا خفیہ ٹھکانوں میں چھپے ہوئے ہوں کیونکہ رہائشی علاقوں میں بنائے گئے خفیہ ٹھکانوں سے خبر کے افشاں ہونے کا امکان موجود رہتا ہے۔

واضح رہے کہ وزارت داخلہ کی ہدایت پر 27؍اپریل کو این آئی اے نے پہلگام حملے کی جانچ باضابطہ طورپر اپنے ہاتھ میں لی تھی۔ اس جانچ کے سربراہ سدانند داتے نے خود پہلگام کی بیسرن ویلی میں پہنچ کر تفتیش کا آغاز کیا تھا اور اس کیس کی مسلسل نگرانی کررہے ہیں ۔ این آئی اے کی ایک ٹیم اب بھی پہلگام اور آس پاس کے علاقوں میں مسلسل تفتیش کررہی ہے۔ اب تک جن تین ہزار سے زائد افراد سے پوچھ تاچھ کی گئی ہے، ان میں سے کئی کو روزانہ پہلگام پولیس اسٹیشن میں حاضری دینے کے لیے طلب کیا جاتا ہے۔

یہاں سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ جب ہماری سیکورٹیاں ایجنسیاں جموں وکشمیرمیں سرگرم  دہشت گردوں کے منصوبوں کو ناکام کرنے کے لیے ہروقت ہائی الرٹ پر رہتی ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ دہشت گرد اپنا کام کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں وہ موقعہ واردات سے آسانی کے ساتھ فرار بھی ہوجاتے ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ وادی کشمیر کی نازک صورتحال کے سبب ہندوستانی سیکورٹی ایجنسیاں حددرجہ چاق وچوبند ہیں۔ کشمیر میں دہشت گردوں کی نقل وحمل کا پتہ لگانے کے لیے ملکی خفیہ نظام کے علاوہ اسرائیل سے حاصل شدہ انتہائی سرگرم خفیہ آلات بھی کام کررہے ہیں۔ ہندوستان کشمیر کے معاملے میں اسرائیل سے خفیہ اطلاعات کی فراہمی میں غیر معمولی تعاون کررہا ہے۔ حالیہ ’’آپریشن سندور ‘‘ کے دوران بھی اسرائیل نے ہندوستان کی بہت مدد کی ہے ، لیکن اس سب کے باوجود دہشت گرد اپنا خونی کھیل کھیلنے میں کیسے کامیاب ہوئے ۔ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب بہرحال ملک کے عوام کو ملنا چاہئے۔اسی پر مستقبل کے تحفظ کا دارومدار بھی ہے۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.