آج سے تقریبا پچیس برس قبل لفظ ” شخصے“ کان میں پڑا تھا۔ محترم استاد نے اس کا مطلب ایک شخص اور بقول شخصے کا ”ایک شخص کے قول کے مطابق“ بتایا تھا لیکن جیسے جیسے میرا تعلیمی سلسلہ آگے بڑھتا گیا، اس لفظ کے معنی و مفہوم میں تبدیلیاں ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ جب میں یونیورسٹی میں پڑھنے لگا تو میں اس لفظ کے تعلق سے کنفیوز ہو گیا ۔ سوچا، استاد محترم سے پوچھوں مگر ہمت نہ ہوتی تھی۔ ڈر اس بات کا تھا کہ اگر حضور جواب میں” اس کا مطلب نہیں جانتے؟“ کہہ بیٹھیں گے توپھر بڑی شرمندگی ہوگی ۔ بہر حال وقت گذرتا گیا۔ ہمارے استاد محترم پروفیسر دانشمند کلاس روم میں اکثر لکچر کے دوران” بقول شخصے“ کہا کرتے تھے بلکہ شاید ہی کبھی انھوں نے کسی نام کے حوالے سے کوئی بات کہی ہو۔ ایک مرتبہ میں نے اپنے ایک ہم جماعت دوست سے پوچھا تو اس نے تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ” افسوس تم شخصے کو نہیں جانتے؟ وہ روس میں پیدا ہوئے تھے اور ترقی پسند تحریک کے علم بردار تھے۔ کارل مارکس، لینن، سجاد ظہیر کے بعد انھیں کا نام لیا جاتا ہے۔ کیا تم کو کلاس میں سر نے کبھی نہیں بتایا!“
چونکہ میں اس وقت نیا نیا ادب میں داخل ہوا تھا ،اس لیے میں نے اپنے دوست سے کوئی بحث نہیں کی۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ استاد محترم ہمارے پاس سے گذرے ۔ ہم دونوں نے نہایت ادب سے ان کو سلام کیا۔ انھوں نے نہایت خندہ پیشانی سے جواب دیا اور پوچھا آپ دونوں کس بات پر بحث کر رہے تھے؟ ہم نے اپنی بات ان کے سامنے رکھی ، آں جناب نے فرمایا شخصے کسی شخصیت کا نام نہیں بلکہ کوئی شخص یا ایک شخص کو کہتے ہیں چونکہ ہم لوگ اب کل یگ میں پہنچ چکے ہیں، اس لیے ہماری یادداشت بہت کمزور ہو گئی ہے۔ اب کسی ادیب، شاعر یا دانشور کا نام یاد نہیں رہتا، اس لیے شخصے سے ہی کام چلاتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تم لوگ زیادہ سے زیادہ وقت مطالعے میں صرف کیا کرو۔ مجھے آج تک اس بات کا غم ہے کہ ہموم و غموم نے مجھے مطالعے کا وقت نہیں دیا ۔ البتہ جب سے ہم نے لکچر رشپ جوائن کی ہے، کبھی بھی اپنے فرائض سے کوتا ہی نہیں کی۔ تم لوگ جہد مسلسل کرتے رہنا اور اچھی تدبیر اختیار کرنا کیوں کہ تمھاری تدبیر ہی تمھاری تقدیر ہے۔ کیوں کہ بقول شخصے :
تو مسلماں ہے تو تقدیر ہے تدبیرتری
نیز بقول شخصے ؎
مسلسل کاوشوں سے ہی بناکرتی ہیں تقدیریں
جو تھک کر بیٹھ جاتے ہیں انہیں منزل نہیں ملتی
ہم لوگوں نے استاد محترم کی باتیں نہایت غور سے سنیں ۔ استاد محترم اکثر اپنی بات کسی نہ کسی شعر پر ختم کرتے تھے لیکن شاعر کا نام کبھی نہیں بتاتے تھے۔ ایک مرتبہ جناب عالی طلبہ کو نصیحت کر رہے تھے، درمیان میں فرمایا کہ فی زمانہ لوگ شریف و مہذب انسانوں کی قدر نہیں کرتے نیز انھیں طرح طرح کی اذیتیں بھی پہنچاتے رہتے ہیں۔ اگر چہ مرنے کے بعد تعریفوں کے ایسے پل باندھیں گے کہ گویا مرنے والا انسان نہیں بلکہ فرشتہ تھا۔ بقول شخصے ؎
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
اور اسی طرح بقول شخصے ؎
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات ہے کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
بہر حال ہم لوگوں نے استاد محترم سے بہت کچھ سیکھا اگر چہ اب مرحوم ہو چکے ہیں اللہ انھیں جنت الفردوس میں خاص جگہ عطا فرمائے کیوں کہ بقول شخصے ـ:
”خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں“
ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ نہایت شفقت سے پیش آتے تھے۔ وہ ڈاکٹر نہیں تھے۔ غم روزگار نے انھیں پی ایچ ڈی کرنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔ صرف ایم اے کی ڈگری کی بنیاد پر لکچرر ہو گئے تھے۔ وہ ہم لوگوں سے اکثر کہا کرتے تھے تم لوگ ریسرچ کی وادی میں جب قدم رکھنا تو صبر اور تحمل کی صفت پہلے اپنے اندر پیدا کر لینا کیوں کہ تحقیق کے مراحل بڑے صبر آزما ہوتے ہیں۔ مزید یہ بھی کہتے تھے کہ موجودہ دور میں جنھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے رکھی ہے اور زبان و ادب کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ نہیں کیا ہے، وہ بڑی حسرت و یاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی اس قابل عبرت زندگی کو دیکھ کرنئی نسل روزانہ پی ایچ ڈی سے بچنے کی دعا کرتی ہے بقول شخصے ؎
میرے اللہ پی ایچ ڈی سے بچانا مجھ کو
بعدبی اے کے تجارت پہ لگانا مجھ کو
ابھی چند روز پہلے کی بات ہے، راقم کے ایک دوست کے بھائی جو ملک کی ایک مایہ ناز یو نیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں، حالات سے مجبور ہو کر دہلی کے ایک مشہور یونانی دواخانہ میں بسلسلۂ ملازمت گئے۔ دواخانے کے مالک نے صاف صاف کہا کہ” بھئی! آپ کے لئے تو کوئی مناسب جگہ ہمارے یہاں نہیں ہے۔“ اس پر انھوں نے کہا کہ” ارے بھئی کوئی غیر مناسب جگہ ہی دے دیجئے ۔ میں تو ڈیلیوری بوائے کے طور پربھی کام کرنے کو تیار ہوں ۔“
” نہیں بھئی اگر آپ پی ایچ ڈی نہ ہوتے تو میں ضرور رکھ لیتا ۔“ انھوں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ بے چارے مایوس ہو کر لوٹ آئے ۔ بقول شخصے؎
صرف اپنوں کے تقرر کا ارادہ ہوگا
اور اخبار میں اعلانِ ضرورت دیں گے
پھر اگلے دن ایک اور صاحب ملازمت کے سلسلے میں مشورہ کے لیے آئے۔ رسمی تعارف کے بعد ہم نے پوچھا کہ آپ نے کہاں سے تعلیم حاصل کی ہے؟ کہنے لگے ہائی اسکول بھکاری داس سکنڈری اسکول سے،انٹر میڈیٹ دولت رام انٹر کالج سے، بی اے لچھمی دیوی ڈگری کالج سے اور ایم اے، ایم فل، پی ایچ ڈی ، دہلی کی ایک معروف یونیورسٹی سے کیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ ایم فل کے مقالے کا موضوع کیا تھا کہنے لگے ”اردو افسانوں میں عورتوں کے مخصوص مسائل کا تنقیدی تجزیہ( منٹو کے افسانوں کی روشنی میں)“۔ میں نے کہا واہ، شاباش !پھر تو آپ نے منٹو کے افسانوں کے تمام مجموعوں کا بطور خاص مطالعہ کیا ہوگا؟ انھوں نے کہا، نہیں! بلکہ ہر مجموعے سے ایک دو افسانےکو چن کر پڑھ لیتا تھا اور کام چل جاتا تھا۔ البتہ کالی شلوار ، ٹھنڈا گوشت، ہتک ، اوپر نیچے درمیان، وغیرہ ہم نے کئی بار پڑھے ہیں۔ میں نے اپنی ہنسی پوری طاقت سے روکی کیوں کہ جناب روزگار نہ ملنے کی وجہ سے نہایت غمگین تھے۔ مجبوراَہم نے گفتگو کا موضوع تیزی سے بدل دیا اور اسی وقت ایک پبلشر سے بات کی اور پتہ لکھ کر انھیں دیتے ہوئے کہاکہ آپ وہاں چلے جائیں اور پروف ریڈنگ کا کام شروع کر دیں۔ وہاں سے زیادہ تر ادبی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ ادبی مسودات کی تصحیح کرنے سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ اسی کے ساتھ آپ یو نیورسٹی وغیرہ میں درخواست دیتے رہیں اور کچھ وقت نکال کر گھر پر بھی مطالعہ جاری رکھیں۔ یقیناََ اللہ پاک آپ کی مدد فرمائے گا۔کیوں کہ بقول شخصے ؎
بے کار مباش کچھ کیا کر
کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر
مگر جناب اپنی ڈاکٹری کے زعم میں پروف ریڈنگ کے کاکام کو اپنے معیار کا نہ سمجھ کر پبلشر دوست کے یہاں جانے سے کترانے لگے۔ ہم نے جب بہت ضد کی تو کہنے لگے میری آج طبیعت ناساز سی لگ رہی ہے، ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ یہ کہہ کر گھر سے نکلے مگر کس ڈاکٹر کے پاس جانا ہے، یہ تو پتہ نہیں تھا۔ سامنے جس ڈاکٹر کی کلینک نظر آئی ، داخل ہو گئے۔ ڈاکٹر نے پوچھا، کہیے میں کیسے آپ کی مدد کر سکتا ہوں؟ فرمانے لگے، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ڈاکٹر نے تو کبھی اتنے پیار سے بات نہیں کی تھی، کیا آپ سچ میں ڈاکٹر ہیں؟ کہا ، جی میں ڈاکٹر ہوں اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائیکالوجیکل ریسرچ، پونے سے نفسیات میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ آپ بتائیں، کیسے آنا ہوا آپ کا؟ یہ سن کر ہمارے ڈاکٹر صاحب کی باچھیں کھل گئیں، وہ منٹو کی پوری کائنات سے ان کو متعارف کرانے پر آمادہ ہو گئے۔ اور ”بقول شخصے “کے سہارے منٹو کی نفسیات کوان کے سامنے پیش کرنے پر تُل گئے۔لیکن ڈاکٹر، ان کی فلسفیانہ باتوں کےتحمل پر تیار نہیں تھا۔ آغاز میں تو اس نے ان کی بیماری پکڑنے کے لیے غور سے سنا لیکن” بقول شخصے“ کی گردان نے اس کے دماغ کے تار کو ہلانا شروع کر دیا۔ جب تک وہ اس کشمکش سے خود کو باہر نکالتا، ہمارے ڈاکٹر صاحب نےمنٹو کے افسانے” کھول دو“ کا نفسیاتی مطالعہ پیش کر تے ہوئے کہا کہ افسانے کی مرکزی کردار ”سکینہ“ کا باپ اس کی حالت دیکھ کر شرم سے پانی پانی تو ہوگیا تھا لیکن بقول شخصے وہ خود بھی پچھلے فساد میں فسادیوں کے ساتھ تھا۔ ان کا اس طرح ادھوری نفسیات کے مطالعے کو دیکھ کر ڈاکٹر نے معذرت کرتے ہوئے ہاتھ جوڑ لیا کہ معاف فرمائیں جناب، آپ کا علاج یہاں نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ ”بقول شخصے، جو اپنی نہیں سنتا، وہ کسی کی بھی نہیں سنتا ۔“ ڈاکٹر کی زبان سے ”بقول شخصے“ سن کر وہ شرم سے پانی پانی ہو گیااور تھک ہار کر پبلشر کے آفس کے راستے کی طرف چل نکلا۔