وقف قانون میں اندھا دہند  ترمیمات

حکومت کا یہ داؤ کہیں الٹا نہ پڑجائے ؟

ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس
مئی 2025

ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس

اوقاف کے معاملات کو شفاف، مفید اور مسلمانوں کے پسماندہ و مفلوک الحال افراد کی غربت کو دور کرنے کے لمبے چوڑے اعلانات کے ساتھ مرکزی حکومت نے وقف قانون میں جو متازعہ ترمیمات کی ہیں وہ دراصل اوقافی املاک کو ہڑپنے کی ایک ناپاک سازش اور شاطرانہ چال کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس مذموم کوشش کے ذریعہ بی جے پی حکومت نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ اورمسلم قیادت نے نہ صرف اس سے لوہا لینے کا عزم کیا ہے بلکہ ایک کل ہند تحریک کا آغاز بھی کردیا۔ حکومت کے ناپاک عزائم کی راہ میں مسلمانوں کے علاوہ  اپوزیشن پارٹیاں، سول سوسائٹی، اقلیتی طبقات، دلت اور ادیواسی رہنماء بھی میدان میں آگئے ہیں۔ مرکزی حکومت، ہندتوا عناصر اور گودی میڈیا اس کے خلاف ایک متبادل بیانیہ گھڑ رہے ہیں۔ اس پورے منظرنامے کا اصل ہدف ملت کو دوسرے درجہ کا شہری بنانا، ہندو مسلم منافرت کے ذریعہ دو قوموں کے درمیاں خلیج اور وسیع کرنا اور مسلمانوں کا رشتہ اپنے دین، ایمان اور شریعت سے کاٹنا ہے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ، متعدد دینی و ملی تنظیموں، ممبران پارلیمنٹ اور  کئی افراد نے اس قانون کو عدالت عظمی میں چیلنج کیا ہے اور مسلم پرسنل بورڈ نے اس کے خلاف تحفظ اوقاف کے نام سے ایک عوامی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنی پہلی ہی سماعت میں سرکار سے کئی چبھتے سوال کئے، جس پر سالیسیٹر جرنل سے جواب نہیں بن پایا اور وہ  عدالت سےمزید وقت کی درخواست کرنے لگے۔ البتہ دوسری سماعت میں انہوں نے عدالت کو یہ حلفیہ بیان دیا کہ حکومت اگلی تاریخ تک نئے قانون کا اطلاق وقف بطور استعمال کی املاک پر نہیں کرے گی  نیز  یہ کہ وقف کونسل اور وقف بورڈوں میں تقرریاں نہیں کی جائیں گیں۔ گو کہ سپریم کورٹ نے ابھی کوئی اسٹے نہیں دیا ہے، تاہم چیف جسٹس آف انڈیا کے تلخ سوالات نے حکمران جماعت کی صفوں میں کھبلی مچادی ہے۔ بی جے پی کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے تو بالواسطہ کورٹ کو دھمکی دے دی کہ اگر اس نے اس قانون پر اسٹے دیا تو ملک میں خانہ جنگی پیدا ہوجائے گی۔ دوسری جانب نائب صدر جمہوریہ نے اپنے منصب کا لحاظ کئے بغیر سپریم کورٹ کے حدود و اختیارات کو ہی چیلنج کردیا۔

وقف ترمیمات کیا اور کیوں:

بی جے پی نےوقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے قبل جوبیانیہ ترتیب دیا وہ جھوٹ، کذب و افتراء اور غلط بیانیوں کا ایک پلندہ تھا اور پھر اس کے آئی ٹی سیل، سوشل میڈیا فوج اورگودی میڈیا نے  وہ طومار باندھا کہ خدا کی پناہ۔ کہا گیا وقف کے پاس ملٹری اور انڈین ریلوے سے بھی زیادہ زمینیں ہیں، وقف بورڈ جس زمین پر ہاتھ رکھ دیتا ہے وہ اس کی ہوجاتی ہے، سرکاری زمینوں پر بھی وقف نے قبضہ کر رکھا ہے۔ کبھی کیرالہ کے ارناکلم کا حوالہ دیا گیا اور کبھی تامل ناڈو کے ایک پورے گاؤں کو بطور مثال پیش کیا گیا۔ کبھی کہا گیا کہ وقف کے تنازعات کو طے کرنے میں وقف ٹریبونل کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور اس پر کہیں اپیل نہیں ہوسکتی۔  وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور اقلیتی امور کے وزیر کرن ری جیجیو کے وقفہ وقفہ سے دیئے جانے والے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ انہی ہنگامہ خیز ماحول میں پارلیمنٹ میں وقف بل پیش کردیا گیا۔ وقف ترمیمی بل پر لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ہونے والی بحث کئی اعتبار سے تاریخی اور کافی اہم تھی۔ ایک طرف حکمراں پارٹی کے زورآوراورمضحکہ خیز دعوے اور لن ترانیاں تھیں تو دوسری طرف حزب مخالف کی مدلل بحث اور سوالات۔ حزب مخالف نے حکومت کی کمزور دلیلوں کا ایسا پوسٹ مارٹم کیا کہ اللہ کی پناہ۔ افسوس کہ وزیر داخلہ اور اقلیتی امور کے وزیر نے اتنے سفید جھوٹ بولے کہ اس سے قبل پارلیمنٹ کے فلور پر کبھی کسی بل اور قانون کے دفاع میں اتنی کمزور دلیلوں اور کذب بیانیوں سے شاید ہی کبھی کام لیا گیا ہوگا۔ بہرحال طویل بحث و مباحثے کے بعد رات 2:30 بجے بل منظور کرلیا گیا۔ اسی طرح دوسرے دن ٹھیک یہی کچھ راجیہ سبھا میں بھی ہوا۔

وقف قانوں کے ساتھ کھلواڑ :

وقف قانون میں حکومت نے اپنی عددی طاقت کی بنیاد جو 48 ترمیمات کیں وہ نہ صرف امتیاز و تفریق پر مبنی ہیں بلکہ دستور ہند  سے بھی متصادم ہیں۔ وہ دستور کے بنیادی حقوق کی دفعات 14, 25, 26 اور 29 کے سراسر خلاف اور مسلمانوں کو اپنے شرعی اور دستوری حقوق سے محروم کرتی ہیں۔ قانون کا آسان اور عام فہم نام ( Waqf Act 1995) کو بدل کرایک لمبا چوڑا نام رکھ دیا گیا اور اس کا مخفف کچھ اس طرح بنایا گیا کہ وہ UMWEED(امید) بن گیا حالانکہ پورا قانون تضادات اور محرومیوں کا پلندہ ہے۔ یوں تو پوری 48 ترمیمات قابل رد ہیں تاہم بعض ترمیمات انتہائی سنگین اور وقف کی املاک کو ہڑپنے کا راستہ ہموار کردیتی ہیں۔ مثلاً:

۱- وقف بطور استعمال( Waqf by User) پر تلوار:

ایسی بہت ساری وقف املاک جو صدیوں سے بطور وقف استعمال ہورہی تھیں جن میں مساجد، عیدگاہ، خانقاہیں، درگاہیں، مدارس، یتیم خانے اور قبرستان وغیرہ شامل ہیں لیکن ان کا کوئی دستاویزی ریکارڈ ( لینڈ ریکارڈ، ریویونیو ریکارڈ، رجسٹری وغیرہ ) موجود نہیں ہے۔ انہیں وقف قانون میں وقف املاک مان لیا گیا تھا۔ اب حالیہ ترمیم کے بعد ایسی تمام املاک کے لئے یہ ضروری کردیا گیا ہے کہ وہ اپنی دستاویزات کے ساتھ نئے قانون کے تحت خود کو رجسٹرڈ کروالیں۔ ظاہر بغیر دستاویز کہ وہ رجسٹرنہیں ہوں گیں اس طرح اپنی وقف حیثیت کھو دیں گی۔ اسی طرح اگر کسی “وقف بطور استعمال“ پر کسی کا کوئی دعوی ہے یا مستقبل میں کردے تو وہ اس زمرے سے نکل جائیں گی اور قانوں کے ذریعہ ان پر ناجائز قبضے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ دوسری جانب دیگر مذاہب کی ایسی املاک محفوظ رہیں گیں۔

۲۔ قبضہ مخالفانہ قانون سے استثنیٰ ختم:

ہندوستان میں قبضہ مخالفانہ قانون( Law of Limitation)سے نہ صرف وقف املاک بلکہ ہند و، سکھ، بودھ اور سرکاری املاک کو بھی اس سے مستثنی رکھا گیا تھا۔ البتہ اب نئی ترمیم کے ذریعہ صرف وقف املاک کو اس استثنیٰ سے محروم کردیا گیا نتیجتاً اب حکومت اور جن جن لوگوں نے وقف کی املاک پر ناجائز قبضے کر رکھے ہیں وہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائیں گی۔ پنجاب اور ہریانہ کے علاوہ ملک کے طول عرض میں ایسی متعدد املاک موجود ہیں جن پر غاصبانہ قبضے ہیں۔

۳۔ آثار قدیمہ کے زیر انتظام املاک کی وقف حیثیت ختم:

ملک میں محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام بہت ساری وقف املاک ہیں جن میں متعدد مساجد ہیں۔ جن کا انتظام و انصرام تو آثار قدیمہ کے تحت ہے لیکن وہ وقف املاک ہیں اور قانون کے مطابق ان میں نماز کی ادائیگی کی اجازت ہے۔ تاہم وقف قانوں  میں ترمیم کرکے اب ان کی وقف کی حیثیت ختم کردی گئی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اب ان میں نماز کی ادائیگی پر پابندی لگادی جائے۔ دہلی کی جامع مسجد بھی آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہے۔

۴۔ سرکاری قبضوں کو  جواز حاصل ہوجائے گا:

وقف ایکٹ میں ایک نئی دفعہ کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں، میونسپل کارپوریشنوں یانیم خود مختار سرکاری اداروں کے قبضوں کے معاملات اب وقف ٹریبیونل کے بجائے سرکار کی جانب سے نامزد افسران طے کریں گے۔ ظاہر ہے سرکار کی طرف سے نامزد ارکان کس کے حق میں فیصلہ کریں گے یہ واضح ہے۔ ملک کے طول عرض میں حکومتوں اور حکومتی اداروں نے متعدد اہم مقامات پر وقف کی کئی ایکٹر املاک پر ناجائز قبضے کر رکھے ہیں۔

۵۔  وقف کونسل اور وقف بورڈوں میں غیرمسلموں کی شمولیت:

وقف ایکٹ میں وقف املاک کے انتظام و انصرام اور واقف کی منشاء کو بروئے کار لانے کے لئے دو اہم ادارے موجود ہیں جن میں متعدد زمروں سے جو لوگ منتخب ہوتےتھے ان کے لئے شرط یہ تھی کہ وہ لازماً مسلمان ہوں گے تاہم اب یہ شرط ختم کردی گئی ہے اور اس کے علاوہ دو غیر مسلموں کی شمولیت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پہلے یہ ممبران منتخب ہوکر آتے تھے لیکن اب وہ حکومت کی طرف سے نامزد ہوں گے۔

۶۔ سی ای او (CEO) کا مسلمان ہونا ضروری نہیں:

سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں کے انتظام وانصرام کے لئے جو سرکاری افسران منتخب کئے جاتے تھے ان کا بھی مسلمان ہونا ضروری ہوتا تھا لیکن اب یہ شرط بھی ہٹادی گئی۔

۷۔ واقف کے لئے پانچ سال باعمل مسلمان ہونے کی شرط:

نئے قانون میں واقف کے لئے ایک مضحکہ خیز اور غیر شرعئی اور غیر دستوری شق کا اضافہ کردیا گیا کہ وہ کم از کم پانچ سال تک باعمل مسلمان ہو۔ باعمل سے مراد کیا ہے اور کون اس کا فیصلہ کرے گا، قانون میں اس کی وضاحت نہیں ہے۔

۸۔ اوقافی املاک کا سروے کلکٹر کے ماتحت:

نئے قانون میں اوقافی املاک کے سروے کی ذمہ داری اب کلکٹر کے حوالے کردی گئی ہے جب کہ اب تک یہ کام وقف بورڈوں کے تحت تھا۔ ریاستی وقف بورڈ سروے کمشنر کا تقرر کرکے اس کام کو انجام دیتے تھے۔ گو کہ سروے کمشنر سرکاری افسر ہی ہوا کرتا تھا تاہم وہ وقف بورڈ کو جوابدہ تھا۔ اس سے اس بات کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ حکومت کلکٹر کے ذریعہ وقف کے معاملات میں مداخلت کرتی رہے گی۔

۹۔ وقف علی الاولاد میں مداخلت:

وقف قانون کی ایک اہم شق وقف علی الاولاد کی ہے۔ جس میں ایک شخص اپنی زندگی میں ہی اپنی اولاد کے لئے وقف کرسکتا تھا، اب اس قانون میں اس بات کا اضافہ کردیا گیا کہ ایسا کرتے وقت وارثین کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہییں۔ حالانکہ شریعت میں وارثین کا حق باپ کے مرنے کے بعد ہی ہوتا ہے اور اپنی زندگی کوئی بھی شخص جسے چاہے اور جتنی چاہے اپنی جائیداد دے سکتا ہے۔ یہ ترمیم ملکی قانون سے بھی متصادم ہے۔

۱۰۔ وقف کونسل اور وقف بورڈوں پر حکومت کا کنٹرول:

سابقہ وقف ایکٹ میں سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں کے لئے ممبران مختلف کٹیگریز سےمنتخب ہوکر آتے تھے۔ لیکن حالیہ ترمیم کے بعد اب یہ سب حکومت کے ذریعہ نامزد ہونگے۔ جس سے اس بات کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اب ان آزاد اور خود مختار اداروں پر حکومت کا بالواسطہ کنٹرول ہوجائے گا۔

مسلمانوں کا ردعمل:

جس وقت حکومت نے وقف املاک پر طرح طرح غلط بیانیوں کے ذریعہ یہ بیانیہ بنانا شروع کیا کہ وقف بورڈوں بہت ساری حکومت کی املاک پر قبضہ کر رکھا ہے، وقف بورڈ جس پراپرٹی پر ہاتھ رکھ دیتا ہے وہ اس کی ہوجاتی ہے، وقف کے معاملات میں شفافیت نہیں ہے اور وہ وقف قانون نیز وقف کے معاملات میں شفافیت لانے کی لئے بہت جلد ایک ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔ حکومت کے ارادوں کو بھاپنتے ہوئے  مسلم پرسنل بورڈ نے اپوزیشن پارٹیوں سے ملاقات کرکے انہیں حکومت کے عزائم سے باخبر کیا اور مطالبہ کیا کہ جب بھی اس طرح کا کوئی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے تو حزب مخالف حکومت کے منشاء کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کرے۔ دریں اثناء جب بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا، بورڈ نے مسلم تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک پریس کانفرنس کی اور مطالبہ کیا کہ اوقافی املاک کو ہڑپنے والا یہ بل مسلمانوں کو ہرگز بھی منظور نہیں، حکومت اسے فی الفور واپس لے۔ اپوزیشن کی زبردست مخالفت  کے بعد جب جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی اور اس نے تمام شہریوں اور حکومتی اداروں اور مرکزی وزارتوں کو پیش ہوکر بل پر اپنا موقف پیش کرنے  کے لئے مدعو کیا تو بورڈ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وقف کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے لہذا جے پی سی کو صرف انہی کا موقف جاننا چاہیے۔ اس کے بعد بورڈ نے اور دیگر دینی و ملی تنظیموں اور اداروں نے جی پی سی کے سامنے مدلل انداز میں اپنا موقف پیش کیا اور جب جے پی سی نے ای میل کے ذریعہ عام شہریوں سے رائے مانگی تو مسلم پرسنل بورڈ اور دیگر ملی اداروں کی کوششوں سے تقریباً پانچ کروڑ ای میل جے پی سی کو بھیجے گئے۔ اسی دوران بی جے پی کی حلیف جماعتوں کے سربراہوں سے مل کر ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بل کی مخالفت کریں۔ چھ ماہ کی ڈرامہ بازی، مسلمانوں کی مدلل اور اجتماعی مخالفت نیز  جے پی سی کے حزب مخالف ممبران کی 44 ترمیمات کو نظر انداز کرکے جب جے پی سی نے اپنی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی تو پتہ چلا کہ ترمیمات کو مزید سخت بنادیا گیا ہے۔ مسلم پرسنل نے فوری طور دہلی کے جنتر منتر، پٹنہ اور وجے واڑہ میں دھرنے منعقد کرکے بل کی پرزور مخالفت کی اوراپوزیشن پارٹیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسے منظور نہ ہونے دیں۔

ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں کسی مسلم مسئلہ پر اپوزیشن جماعتوں کی پرزور اور مدلل مخالفت اس سے پہلے اس انداز میں شاید ہی کبھی سامنے آئی ہو۔ دن اور رات کی طویل بحث و مباحثہ کے بعد لوک سبھا میں علی الصبح 4 بجے بل منظور ہوا اور پھر یہی کچھ منظر راجیہ سبھا میں بھی دیکھنے کو ملا۔ مہلک ترمیمات پارلیمنٹ سے پاس ہوکر اور صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد جب قانون کی شکل اختیار کرگئیں تو مسلم پرسنل بورڈ نے اس کے خلاف قانونی اور جمہوری راستوں سے ایک ملک گیر تحریک کا اعلان کردیا۔ مسلم پرسنل بورڈ، دینی جماعتوں اور کچھ ممبران پارلیمنٹ نے فوراً اسے عدالت عظمی میں چیلنج کردیا۔ اس طرح اب تک  درجنوں   افراد اور تنظیموں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ان میں سے پانچ پٹیشن کو سماعت کے لئے قبول کیا اور باقی درخواستوں کو مداخلت کار کی حیثیت دے دی۔ پہلی ہی سماعت میں عدالت نے سالیسیٹر جنرل سے بہت چبھتے ہوئے سوالات کئے، جس کا جواب دینے کے بجائے سالیسیٹر جرنل نے ایک ہفتہ کی مہلت مانگی، مگر عدالت کو یہ تنبیہ بھی کر ڈالی کہ اسے اس قانون سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے متاثر ہوئے بغیر چیف جسٹس نے انہیں اگلے ہی دن  عدالت کے سوالوں کا جواب دینےکے لئے کہا۔ دوسرے دن سالیسیٹر جرنل نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑائی کہ حکومت اگلی تاریخ تک اس قانون کی بنیاد پر نہ تو وقف بورڈوں اور سینٹرل وقف کونسل میں تقرریاں کرے گی اور نہ اس کااطلاق وقف بائی یوزر کی املاک پر ہوگا۔ عدالت نے اسے حکومت کے وعدے کےطورپر تسلیم کرتے ہوئے اگلی سماعت تک کے لیے اس کو مؤخر کردیا۔

دوسری طرف مسلم پرسنل بورڈ نے ایک تفصیلی روڈ میپ کے ذریعہ کل ہند  تحریک کا آغاز کردیا۔ دہلی، حیدرآباد،ممبئی ، کولکاتہ ، پربھنی، مالیگاؤں اور جمشیدپور میں ہزاروں کی تعداد میں امڈی بھیڑ اور ہر مسلک و مکتب فکر کی نمائندگی سے یہ واضح ہوگیا کہ مسلمانوں میں نہ صرف زبردست غم و غصہ ہے بلکہ اس معاملہ میں ان کے درمیان غیر معمولی اتحاد بھی ہے۔ مسلم اتحاد کا غیر معمولی مظاہرہ 30 اپریل کی بتی گل تحریک میں دیکھنے کو ملا، جب پرسنل بورڈ کی آواز پر کیا شہر اور کیا دیہات، کیا محلے اور کیا بازار، آسام سے گجرات اور کشمیر سے کنیا کماری تک رات 9 بجے سب تھم  سےگئے ۔ ان پروگراموں میں برادران وطن کی نمائندگی بھی یہ تاثر دے رہی ہے وہ تفریق پر مبنی اور دستور ہند  سے متصادم ترمیمات کے خلاف ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔ اتحاد کے اس غیر معمولی مظاہرہ نے مٹھی بھر حکومتی حاشیہ بردار منافقین کی زبانیں بند کردیں۔ دوسری طرف مسلم پرسنل بورڈ کو مسلمانوں اور غیر مسلموں نے بھی مسلمانوں کے ایک حقیقی نمائندہ پلیٹ فارم کے بطور تسلیم کرلیا بلکہ اس کی پرامن اور جمہوری جدوجہد کی خوب پذیرائی بھی کی۔

متنازعہ قانون کے بعد مسلمانوں کی حکمت عملی

بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والے ایام اس پہلو سے کافی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ اوراس میں سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ بھی اہم کردار ادا کرے گا، بالخصوص اس لئے بھی کہ یہ چیف جسٹس آف انڈیا کا اس کیس میں اپنے ریٹائرمنٹ سے پہلے آخری فیصلہ ہوگا۔ اس درمیان ہونے والے بعض واقعات اور اس پر گودی میڈیا کی ہڑبڑاہٹ یہ پتہ دے رہی ہے حکومت کی صفوں میں سب خیریت نہیں ہے۔ چاہے پہلگام واقعہ میں ہوئی سیکورٹی میں ہوئی غلطی کا اعتراف ہو، چاہے پاکستان سے لوہا لینے کی لن ترانیاں ہوں یا عجلت میں لیا گیاذات پر مبنی مردم شماری کا فیصلہ۔۔۔ ہر چیز یہ بتارہی ہے کہ حکومت کو یہ خوف ستارہا ہے کہ کہیں اس کا یہ داؤ الٹا نہ پڑجائے۔ پرسنل لاء بورڈ کی تحریک کی مسلمانوں میں بڑھتی مقبولیت، اتحاد و یکجہتی کے غیر معمولی مظاہرے، سول سوسائٹی، اقلیتی طبقات، حزب مخالف کی غیر معمولی حمایت اور سپریم کورٹ سے حزیمت اٹھانے کا اندیشہ حکومت کے خوف کے اسباب  میں سے ہیں۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.