ناشر کا خط

نومبر 2024

قارئین کرام

سلام مسنون

ڈونالڈ ٹرمپ  نے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں جیت حاصل کرلی ہے۔ ان کی پارٹی ریپبلیکن پارٹی دونوں ہی ایوانوں میں بھی اکثریت حاصل کرلی ہے- ٹرمپ کا پچھلا دورصدارت  ان کی نت نئی پالیسیوں کی وجہ سے کافی ہنگا مہ خیز رہا تھا۔ خاص طور پر تارکین وطن کے حوالے سے ان کی پالیسیوں پر مسلسل تنقیدہوتی رہی ہے۔ اپنی انتخابی مہم میں ٹرمپ نے   دعویٰ کیا کہ ان کے دور اقتدار میں امریکہ نے کوئی نئی جنگ نہیں شروع کی، بلکہ جنگوں کو ختم کیا اور جیتنے کے بعد بھی وہ ایسا ہی کریں گے۔ ان کے صدر بننے سے دنیا بالخصوص مشرق وسطیٰ اور ہندوستان پر کیا اثرات منتج ہوں گے، ان تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ سرورق کی کہانی ” ڈونالڈ ٹرمپ-ہم کو ان سے وفا کی ہے امید۔۔” اور ” ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب” میں قاسم سید اور ڈاکٹر اسلم عبداللہ نےلیا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ کئی دہائیوں سے ملت اسلامیہ کا ایک اہم ایشو رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ نے اکثریت رائے   سےکسی بھی ادارے کو اقلیتی کردار ملنے کے خطوط طے کردئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے سابقہ فیصلہ عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا کو کالعدم قراردیا ہے جس کے مطابق اے ایم یو ایک اقلیتی ادار نہیں تھا۔ البتہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں ،اس کا فیصلہ اب سپریم کورٹ کی ایک تین رکنی بنچ کرے گی۔ ابوظفر عادل اعظمی نے اس فیصلہ اور اس سے متعلق امور کا جائزہ لیا ہے۔

آسام میں شہریت کامسئلہ بہت قدیم ہے۔آسامی اور غیر آسامی کے نام پر یہاں متعدد بار قتل و غارت گری بھی ہوچکی ہے۔جغرافیائی حالات اور غربت کی وجہ سے نقل مکانی عام بات ہے۔ ماضی میں بنگلہ دیش کے قیام کےوقت بھی دونوں طرف سے نقل مکانی ہوئی تھئ۔ یہ معاملہ کہ آسامی شہری کون ہے اور غیر ملکی اور خارجی کون، کافی دنوں سے عدالت میں زیر غور رہا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کا اس ضمن میں فیصلہ آیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے اور اس سے پڑنے والے اثرات کا تفصیلی تجزیہ نوراللہ جاوید نے اپنے مضمون” آسام میں شہریت کے سوال پر سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ-امیداور مایوسی کے بادل اب بھی چھائے ہوئے ہیں” میں کیا ہے۔

فسادات ہمارے ملک میں نئے نہیں ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے فسادیوں کا طریقہ کار ایک جیسا ہی رہتا ہے اور عموما پولیس اور انتظامیہ شرپسندوں کی ہی پشت پناہی کرتی ہے۔ اکتوبر میں اترپردیش کے ضلع بہرائچ کے ایک قصبہ میں درگا وسرجن کے دوران فساد پھوٹ پڑا۔ شروع دن سے ایسا لگ رہا تھا کہ انتظامیہ اور پولیس فسادیوں کی پشت پناہی کررہی ہے، جس کی تصدیق ایک غیر سرکاری تنظیم کی حالیہ  رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ مشتاق عامر نے اپنے مضمون ” بہرائچ مسلم مخالف فساد-حقائق اور اسباب” میں اس کا جائزہ لیا ہے۔

دہلی میں   اب سانس لینا دشوار ہے ۔ آلودگی کی سطح اتنی زیادہ ہے  کہ تعلیمی ادارے بند ہوگئے ہیں، تعمیرات پر پابندی ہے اور بہت ساری کمپنیاں اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دے رہی ہیں۔  گرچہ ہر سال دیوالی کے بعد پٹاخوں اور پڑوسی ریاستوں میں فصلوں کے باقی ماندہ زائد حصے کو جلانے سے یہاں آلودگی بڑھ جاتی ہے لیکن اس سال صورت حال کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔ سہیل انجم نے  اپنے مضمون ” دہلی دنیا کا سب سے آلودہ شہر” میں اس کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے۔

اس کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی مضامین اس شمارے کا حصہ ہیں۔ اس شمارے پر آپ کے تاثرات کا انتظار رہے گا-

 

والسلام

ناشر

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.