قارئین کرام
سلام مسنون
ہمیں افسوس ہے کہ گزشتہ دو ماہ سے آپ افکار سے محروم ہیں۔ اس کی وجہ سیاہ وقف ترمیمات اور پھر انہیں قانون کا لبادہ اڑا دیا جانا، اس کے خلاف مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعہ کل ہند تحریک کا آغاز اور اس خاکسار کے نازک کاندھوں پر اس کا بوجھ اور پھر غیر معمولی مصروفیات کا لامتناہی سلسلہ۔
ہمیں یہ بھی احساس ہے کہ اس درمیاں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے، جن کا تجزیہ اور ان پر تبصرہ وقت کا تقاضہ تھا- بہرحال میری طرف سے معذرت قبول فرمائیں۔ ان شاءاللہ آئندہ آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا-
گزشتہ 8 ماہ سے مرکزی حکومت کے ذریعہ وضع کردہ سیاہ وقف ترمیمات، جے پی سی کی بھول بھلیوں سے گزکر حکومت کے مکروفریب اور چالبازیوں سے قانون کی شکل اختیار کرگئیں۔ سرورق کی کہانی میں مدیر افکار ملی کا مضمون جہاں ایک طرف ان ترمیمات سے متوقع نقصانات اور اندیشوں کو واضح کرتا ہے بلکہ اس میں پوشیدہ اس بڑے ڈیزائن کو بھی سامنے لاتا ہے جو آرایس ایس کے پیش نظر ہے۔ اس تجزیہ میں ان ترمیمات کے آنے کے بعد امت مسلمہ ہندیہ میں جو بیداری، اس کے خلاف صف آراء ہونے اور مسالک و مکاتب فکر اور جماعتوں کی تنگ دامانیوں سے بلند ہوکر مسلم پرسنل بورڈ کے پلیٹ فارم کے تحت جدوجہد کرنے کا جو جذبہ پیدا ہوا ہے اس کا بھی اس مضموں میں تفصیل سے ذکر ہے۔ اسی موضوع پر کچھ دوسرے زاویہ سے سینئر صحافی برادر افتخار گیلانی کی خصوصی تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں۔
موجودہ حکمران طبقہ اور اس کے حاشیہ بردار سماج میں ہندو مسلم منافرت پھیلانے کے لئے اکثر مسلم تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے رہتے ہیں، اس معاملے میں ان کے لئے سب سے مرغوب شخصیت اورنگ زیب ہے۔ حسب معمول اس بار جب انہوں نے ایک بار پھر اس کارڈ کو کھیلنے کی کوشش کی تو بہت سارے ھندو دانشور اور تاریخ نویس میدان میں آگئے اور انہوں نے تاریخ کے اوراق سے اورنگ زیب کی ان خدمات اور عطیات کے انبار لگادئے جو انہوں ھندوؤں، سکھوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں اور ان کے اداروں کو دئے تھے۔ کئی سال پہلے اڑیسہ کے سابق گورنر اور تاریخ نویس بشمبھر ناتھ پانڈے نے اپنی کتاب میں اورنگ زیب کے تقریباً سو ایسے فرمان شائع کئے تھے جس کے ذریعہ انہوں نے مندروں کو جاگیریں عطا کی تھیں۔ نہال صغیر نے اپنے مضموں “ مہاراشٹرا میں اورنگ زیب پر سیاست میں اور معصوم مرادآبادی نے اپنے مضموں “جب اورنگ زیب نے مندروں کو جاگیریں عطا کیں“ میں الگ الگ انداز میں ان امور کا جائزہ لیا ہے۔
اس شمارے میں ہم “دی کوئنٹ“ کی ایک اہم رپورٹ“ مسلم خواتین کے خلاف آن لائن تشدد“ کو پورٹل کے شکریہ کے ساتھ شائع کررہے ہیں۔ اس رپورٹ میں ھندتوا عناصر کی بے ہودہ حرکتوں کا تفصیل جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح یہ عناصر اوچھی حرکتوں پر اتر آئے ہیں۔ افسوس کہ ان عناصر کو سرکاری سطح پر جو چھوٹ ملتی ہے وہ انہیں اور شہہ دیتی ہے۔
ان کے علاوہ بہت کچھ ہے اس شمارے میں۔
آپ کی آراء اور مشوروں کا انتظار رہے گا۔
والسلام
ناشر