قارئین کرام
سلام مسنون
دسمبر کے اوائل میں مشرق وسطی میں ایک اہم تاریخی موڑ اس وقت آیا جب اچانک دنیا کو پتہ چلا کہ شام میں 53 سالہ دور استبداد کا خاتمہ ہوگیا اور شامی حکمران بشار الاسد جنہوں نے اپنے باپ حافظ الاسد کے مرنے کے بعد اقتدار سنبھالا تھا بغاوت کی تاب نہ لاسکے اور راہ فرار اختیار کی۔ اس طرح 15مارچ 2011 میں بہار عرب کی جو چنگاری اٹھی تھی بالآخر دسمبر 2024 میں اپنے حتمی انجام کو پہنچی۔ اس جبر و استبداد کی خونچکان داستانیں تو پہلے بھی چھن چھن کر دنیا کے سامنے آرہی تھی لیکن اب جو پردہ ہٹا تو دنیا کو پہلی بار معلوم ہوا کہ یہ انقلاب کتنا خون آشام تھا۔ ظلم وجبر کتنی ہولناک داستانیں اس کے اندر پنہاں تھیں۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس درمیاں تقریبا 6 لاکھ 18 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے، جن میں عام شہریوں کی تعداد تقریبا دو لاکھ 19 ہزار ہے۔ ملک کے اندر تقریبا 60 لاکھ پچاس ہزار افراد کو دربدر ہونا پڑا اور تقریبا 60 لاکھ ساٹھ ہزار افراد دنیا کے دوسرے ملکوں میں ہجرت پر مجبور ہوئے۔ بشار الاسد کے ہٹنے کے بعد تہہ خانوں پر مشتمل خفیہ جیلوں سے جو سینکڑوں لوگ برآمد ہورہے ہیں، ان میں سے کسی نے 40سال بعد اور کسی نے 30 سال بعد سورج کی روشنی دیکھی اور کئی کے توصرف ڈھانچے ہی ملے۔ ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی نے سرورق کی کہانی“ شامی انقلاب اور بدلتا مشرق وسطی میں بہت تفصیل سے شام کی تاریخ اور کرب و الم کی داستان پر پڑے دبیز پردے کو ہٹایا ہے۔ ماضی اور حال میں شام کو کن بیرونی ممالک کی چیرہ دستیون کا سامنا کرنا اس کی تفصیل بھی بہت دردناک ہے۔ شام کے انقلاب کا فلسطیں کے مظلومین پر کیا اثر پڑے گا اس کا جائزہ لیا ہے معتصم احمد دلول نے۔
ہندوستانی مسلمان اس وقت ملکی سیاست کا محور بن گئے ہیں۔ حکمران طبقہ ان کو نشانہ بناکر اور سماج کو دولخت کرکے اپنا ووٹ بینک بنارہا ہے۔ کبھی مسجدوں کے نیچے مندر تلاش کئےجارہے ہیں، کبھی وقف جائیدادوں کو ہڑپ کرنے کی سازش رچی جارہی ہے تو کبھی نفرت آمیز تقاریر کے ذریعہ سماج میں زہر گھولا جارہا ہے۔ اس سے نہ صرف اکثریت کے ذہن و دماغ کو مسموم کیا جارہا بلکہ عامتہ الناس کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی بھی جارہی ہے۔ دوسری طرف حزب اختلاف بھی حکمران طبقہ کی اس سازش پر یا تو خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے یا پھر روایتی انداز کے دوچار جملے اچھال دیتا ہے۔ سینئر صحافی قاسم سید نے“ مسلمان۔۔ ہندوستانی سیاست کا منظر پس منظر “ میں ان امور کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔
کلکتہ ہائی کورٹ نے منڈل کوٹہ کے تحت پس ماندگی کی بنیاد پر مسلم ریزرویشن پھر رد کردیا ہے اور یہ سوال کھڑا کیا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کسی بھی طبقہ کو ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا۔ حالانکہ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ منڈل کمیشن کی فہرست میں مسلمانوں کی کئی برادریوں کو پس ماندگی کی بنیاد پر شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح بی جے پی کے دور اقتدار میں کرناٹک میں جو 4 فیصد ریزرویشن مسلمانوں کو مل رہا تھا اسے ان سے چھین کر ہندوؤں کی دیگر ذاتوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ یہ معاملات اب سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ نوراللہ جاوید نے مسلم ریزرویشن کے مسئلہ پر کئی بنیادی سوال اٹھائے ہیں اپنے مضمون “ مسلم ریزرویشن پر قانونی بحث“ میں۔
اس کے علاوہ کئی اہم امور جیسے، سنبھل کی شاہی جامع مسجد کا مسئلہ، ہند۔ بنگل دیش تعلقات، دہلی اسمبلی الیکشن پر اہم قلمکاروں کی تحریریں ملاحظہ فرمائیں۔بابری مسجد انہدام کی برسی سے متعلق سینئر صحافی افتخار گیلانی کی ایک اہم تحریر“ بابری مسجد جہاں انصاف کو دفن کیا گیا“ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
والسلام
ناشر