نہال صغیر
عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جب کسی گروہ یا شخص کو ٹھوکر لگتی ہے کہ وہ سنبھل جاتا ہے اور آئندہ وہ ان راہوں کا انتخاب کرتا ہے جہاں سے آسانی سے گزر جائے ۔ لیکن کچھ لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہر حال میں انہی راہوں میں چلنا مرغوب ہوتا ہے جہاں سے انہیں ٹھوکر کھانی پڑی ہو ، کچھ بھی ہو جائے وہ اپنی روش سے باز نہیں آتے ۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بی جے پی اور ان سے وابستہ افراد کا ہے ۔ یہ درست ہے کہ انہیں اقتدار نفرت اور قتل و غارتگری کی راہوں پر چل کر ہی ملا ہے لیکن حالیہ لوک سبھا انتخابات میں انہیں جوکچھ نقصان اٹھانا پڑا وہ بھی منافرانہ سیاست کی ہی دین ہے ۔ یوپی کے بعد مہاراشٹر میں بی جے پی کو لوک سبھا میں سیٹوں کا زبردست نقصان ہوا ۔ اس نقصان کے بعد پارٹی کے اکثر لیڈروں کا کہنا تھا کہ وہ اس نقصان کی وجوہات پر غور کرکے اس کا سد باب کریں گے ۔ لیکن معاملہ وہی ڈھاک کے تین پات والا ہے ۔بی جے پی نے اپنی شکست سے کوئی سبق نہیں لیا وہ اپنے مقصد وجود یعنی نفرت اور افراتفری پھیلانے والی پرانی روش پر اب بھی گامزن ہے ۔ سوال یہ بھی ہے کہ جسے جو کچھ آتا ہے وہ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہے ؟ جب اس پارٹی کے ڈی این اے میں ہی نفرت تعصب اور فساد ہے تو کرے بھی تو کیا کرے ؟ ویسے انہیں خدشہ یہ بھی ہے کہ ایک بار پھر کسی نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے اس لئے نفرت کے ساتھ کہیں کہیں کچھ محبت کی دکان بھی چلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جیسے شندے کا کئی مقام پر مسلمانوں کے درمیان جانا، ان کی ترقی کے خواب دکھانا اور اب فڑنویس کا مسلم او بی سی کی میٹنگ کا انعقاد وغیرہ ۔ لیکن یہ کام ایسا ہی ہے جیسے کسی کو زہر دینے کیلئے شکر کا استعمال کیا جائے ۔
الیکشن کمیشن نے جموں و کشمیر اور ہریانہ کے الیکشن کا اعلان کیا تو ڈرامائی طور پر مہاراشٹر کے الیکشن کی تاریخوں کا اعلان نہیں کیا ۔ جب حزب اختلاف کی جانب سے تنقید ہوئی تو کہاگیا کہ مہاراشٹر میں تیوہاروں کی وجہ سے تاریخوں کا اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔اب جبکہ مہاراشٹر کا خاص تیوہار بھی گزر گیا ہے تو الیکشن کمیشن اپنی پرانی روش کے مطابق بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کیلئے اعلان کرنے کی بجائے دوسرے معاملات میں وقت کو ضائع کررہا ہے ۔شاید اکتوبر کے پہلے ہفتہ کے آخر یا پھر دوسرے ہفتہ میں انتخاب کی تاریخوں کا اعلان کیا جائے اور نومبر کے آخر میں ریاستی اسمبلی الیکشن کا اعلان ہو۔2014 کے بعد سے ملک کے عوام الیکشن کمیشن کی اس حکمت عملی کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔بہر حال الیکشن تو وقت بے وقت ہو ہی جائے گا ۔
بی جے پی اور اس کے چانکیہ کہے جانے والے انتخابی حکمت عملی طے کرنے اور پارٹی کے لئے زیادہ سے زیادہ راہیں ہموار کرنے میں مصروف ہیں ۔ان کے منصوبوں میں نفرت کو ہوا دے کر ہندو مسلم ووٹوں کا ارتکاز اور دوسری جانب انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے قبل فلاحی منصوبوں کا سنگ بنیاد کا پروگرام جاری ہےاور وزیر اعظم پوری طرح سے انتخابی تشہیر کے موڈ میں بار بار مہاراشٹر کا دورہ کررہےہیں۔
گزشتہ کئی ماہ سے ریاست میں رام گری کی بدزبانی اور توہین رسالت کا معاملہ زیر بحث ہے ۔ مسلمانوں میں اضطراب ہے جس کا اظہار انہوں نے درجن بھر سے زائد ایف آئی آر کی صورت میں کیا ہے لیکن حکومت بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رام گیری کو گرفتار نہ کرکے مسلمانوں کے اضطراب میں اضافہ کررہی ہے ۔ اسی اضطراب کے سبب جب ایم آئی ایم کے سابق ایم ایل اے اور ایم پی امتیااز جلیل نے اورنگ آباد سے ممبئی مارچ کا اعلان کیا تو ہزاروں مسلمان ان کے ہم رکاب ہوئے ۔انہیں ممبئی میں داخل تو نہیں ہونے دیا گیا لیکن یہ ریلی پرامن طور پر اختتام کو پہنچی ۔اس ریلی کے دوران ہلکی پھلکی افراتفری تو ہوئی اور ایک سے زائد ایف آئی آر درج ہوئی لیکن اطمینان کی بات رہی کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا ۔ یہ مسلمانوں کا اضطراب ہی تھا کہ ریلی میں ہزاروں مسلمان شامل ہوئے اور ہزاروں نے جگہ جگہ اس کا استقبال کیا ۔ان سب کے باوجود مہاراشٹر کی شندے حکومت جس کی لگام بی جے پی کے ہاتھوں میں ہے ، نے یہ فیصلہ کررکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دلی اذیت پہنچانے والوں کو اسی طرح چھوٹ دیتی رہے گی ۔ اس نے ریلی کے اثرات کو زائل کرنے کیلئے بدلا پور جنسی زیادتی کے ملزم کا انکاؤنٹر کروا کر میڈیا کے رخ کو کامیابی کے ساتھ موڑ دیا۔
ذرا غور کیجئے جو حرکت رام گیری یا اس قبیل کے دوسرے ہندو کرتے ہیں اور حکومت خاموش رہ کر ان کو حوصلہ دیتی ہے اگر یہی معاملہ مسلمانوں میں سے کسی کا ہو تو حکومت خاموش رہتی ؟ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں میں سےاگر کوئی ایسی حرکت نہ بھی کرے تو اس کے بیانوں کو توڑ مروڑ کر یا اس کی آڈیو ویڈیو میں چھیڑ چھاڑ کرکے گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔لیکن اسلام ، مسلمانوں اور ان کی مقدس شخصیات پر ہندو شدت پسندوں کی جانب سے مسلسل زبان درازی کی جارہی ہے مگر حکومت خاموش رہتی ہے ۔ شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہوگا جب مسلمانوں کو ان حالات سے نہیں گزرنا پڑتا ہوگا ۔
آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں کہ سوشل میڈیا یا کسی پروگرام میں مسلمانوں کی مقدس شخصیات کے خلاف توہین آمیز اور اشتعال انگیز بیان دیا جاتا ہے ۔ مسلمان احتجاج کرتے ہیں تو الٹا انہیں ہی گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی یا مسٹر مودی اور امیت شاہ کو اندرون ملک مسلمانوں کی بے چینی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، ہاں اگر خلیج کی مسلم ریاستوں سے کوئی سخت پیغام آئے تو ان کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں ۔ جیسا کہ نوپور شرما کے معاملہ میں دیکھا گیا ۔وقتی طور پر ہی سہی لیکن اسے بی جے پی کی ترجمان کے عہدہ سے ہٹایاگیا اور بیان دیا گیا کہ نوپور شرما کے اس بیان سے پارٹی کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی پارٹی کا ایسا کوئی موقف ہے ۔جبکہ پارٹی یا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو اندرون ملک مسلمانوں کی بے چینی پر توجہ دینی چاہئے۔ کیوں کہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک سو چالیس کروڑ بھارتیوں کے لیڈر ہیں۔
آخر حصول اقتدار کیلئے بی جے پی کتنا نیچے گرے گی ۔نفرت کی اس سیات سے اس کو سیری حاصل کیوں نہیں ہوتی ؟ کیا صرف انہیں انہی راہوں سے اقتدار ملے گا ؟ شاید یہ ان کی مسلمانوں سے ازلی دشمنی کے سبب ہے ۔ اگر یہی ایک راستہ ہے اقتدار پر قبضہ کرنے کا تو لوک سبھا میں انہیں نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ مہارشٹر کے عوام نے بھی بار بار بتایا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والوں کے پھندے میں نہیں آئیں گے ۔ اگر بی جے پی نے اپنی روش تبدیل نہیں کی تو آئندہ ریاستی اسمبلی کے انتخاب میں انہیں اپوزیشن کی سیٹ پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا اور اس کی وجہ سے اجیت پوار اور ایکناتھ شندے کے سیاسی کیریئر کا ستارہ ماند پڑ جائے گا ۔ اجیت پوار کو شاید شرد پوار کا سہارا مل جائے لیکن ایکناتھ شندے نہ گھر کے ہوں گےنہ گھاٹ کے ۔کیونکہ ادھو اور آدتیہ ٹھاکرے کی جانب سے کہا جاچکا ہے کہ غداروں کیلئے کوئی جگہ نہیں ۔دیکھئے مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھے لیکن اتنا تو طے ہے کہ این سی پی اور شیو سینا کے غداروں کی حالت عبرت ناک ہی ہوگی ۔کیونکہ مہاراشٹر کے عوام غداروں کو پسند نہیں کرتے اور اسمبلی انتخاب میں بھی مسلمان اپنے ووٹوں کا اسی طرح استعمال کریں گے جیسا انہوں نے لوک سبھا انتخاب میں کیا تھا ۔پھر بھی یہ بھارتی سیاست ہے یہاں چوہے بلی کا کھیل جاری رہے گا ۔