مہاراشٹر میں اورنگزیب پر سیاست

نہال صغیر
مئی 2025

مہاراشٹر کے ممبر اسمبلی ابوعاصم اعظمی کو اورنگزیب پر تاریخی حقائق بتانے کے ’جرم‘ میں مہاراشٹر اسمبلی سے پورے بجٹ سیشن کیلئے معطل کردیا گیا ہے ۔انہوں نے اسمبلی اسپیکر کو خط لکھ کر یہ واضح بھی کیا ہے کہ انہوں نے جو کچھ بیان کیا وہ تاریخ میں درج ہے ۔ لیکن ظاہر ہے کہ ابو عاصم کی وضاحت کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ، کیوں کہ  زعفرانی عناصر نے جو عزم کر رکھا ہے اسے وہ ہر حال میں پورا کرکے چھوڑ تے ہیں ۔ اورنگزیب ؒ ان کے سامنے اس لئے ملامت زدہ ہیں کہ ان کے دور میں شیواجی سے ٹکراو ہوا اور وہ اورنگزیب کی قید میں رہے ۔ اس کو سیاسی کشمکش کے بجائے سنگھی ٹولہ ایک مذہبی کشمکش تصور کرتا ہے ۔ جیسا کہ آج کل جہاد جیسی پاکیزہ اصطلاح کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے جگہ جگہ استعمال کرتے ہیں ،لو جہاد، ووٹ جہاد ، نوکری جہاد اور نہ جانے کیا کیا الم غلم بکواس کرنا اس ٹولہ کی پرانی روش ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ سنگھی ٹولہ اچھی طرح  جانتا ہے کہ یہاں اکثریتی آبادی کی بڑی تعداد جاہل اور ضعیف الاعتقادی کا شکار ہے ۔ انہیں جو بتایا جاتا ہے اسے وہ من و عن قبول کرلیتے ہیں ۔ اس کی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ جو باتیں انہیں بتائی گئی ہیں کہ ان میں سچائی کتنی ہے ؟ بہر حال اورنگزیب ؒ کے ایشو پر ایک ہنگامہ بپا کردیا گیا اور وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ابو عاصم جیل جائیں گے ۔ پتہ نہیں انہیں کچھ قانون کا پتہ ہے بھی کہ نہیں ، مجھے نہیں لگتا انہیں پتہ نہیں ہے لیکن وہ محض مذہبی ہیجان کو برقرار رکھنے کیلئے اس قسم کی سخت بیان بازی کررہے ہیں ۔اس کے علاوہ فرقہ پرستی کیلئے بدنام یوپی کے وزیر اعلیٰ بھی بدزبانی کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے ۔ اصل میں یہ ٹولہ چاہتا ہے کہ یہ جو کچھ بولے اسے ہی قانون سمجھا جائے اور اسی کی سب مل کر تائید کریں ۔ لیکن ایک بڑی تعداد آج بھی ان کی مخالف ہے لیکن جمہوریت کے طفیل بڑی اکثریت کی مخالفت کے باوجود ایسے فرقہ پرست عناصر آج مرکز اور کئی ریاستوں میں حکومت میں ہیں ۔

ماضی میں بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے والی شیو سینا جس کی وجہ سے سنگھی پارٹی کو یہاں استحکام ملا اور آج اس کا وزیر اعلیٰ ریاست کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے ، کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے سب سے آگے بڑھ کر کہا کہ ابو عاصم کو صرف ایک سیشن کیلئے ہی نہیں ہمیشہ کیلئے اسمبلی سے معطل کیا جاناچاہئے تھا ۔جب کہ وہ اور ان کی پارٹی ایک ایسے گروپ سے وابستہ ہیں جس میں کئی سیکولر پارٹی شامل ہیں اور جنہوں نے مشترکہ طور پر ڈھائی سال مہاراشٹر میں حکومت کی ہے اور ابھی بھی وہ اسی گروپ کا حصہ ہیں ۔تعجب یہ ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے نمائندے اور مسلم ارکان اسمبلی نے بھی ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کی جب کہ  انہیں عاصم کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا اور یہی وہ موقع ہے جب تاریخی حقائق کو سب کے سامنے رکھنا چاہئے تھا ،لیکن وہ خاموش ہی رہے اسی لئے مسلم ارکان پارلیمنٹ و اسمبلی کو پارٹی کا نمائدہ کہا جاتا ہے جسے وہ بار ہا ثابت بھی کرچکے ہیں ۔یہ موقع تھا جسے مسلم ارکان نے گنوا دیا ، اگر انہیں اسمبلی میں بولنے کی آزادی نہیں تھی تو وہ پریس کے سامنے آکر تاریخی حقائق کو حوالوں کے ساتھ پیش کرسکتے تھے ۔ ہندو عوام یا مراٹھا عوام بھی کہہ سکتے ہیں یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گویا اورنگزیب ؒ کی تعریف شیواجی کی توہین ہے۔انہیں یہی باور کرانے کی ضرورت تھی کہ اورنگزیب کی سچائی بتانا شیوجی کی توہین بالکل نہیں ہے ۔ یہی موقع تھا جب غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جاسکتی تھی اور پھر گفتگو کا لمبا دور چلتا جس میں یہ واضح ہوتا کہ شیواجی نے اورنگزیب ؒ کو خط لکھا تھا جس میں جزیہ کے تعلق سے یہ کہا تھا کہ یہ اس وقت جائز ہوتا جب ایک خوبصورت عورت زیورات سے لدی ہوئی سفر کرتی اور اسے کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا۔ مطلب شیواجی کا اختلاف بھی اصولی تھا۔

اسی کے ساتھ اور بھی کئی حقائق عوام کے سامنے آتے جسے ہمیشہ چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے ان پر مندورں کو ڈھانے کا الزام وغیرہ ۔جب کہ  انہوں نے جو منادر توڑے وہ ہندو راجاؤں کی اپیل پر  توڑے۔ عوام کو معلوم ہوتا کہ وہ مندر کیوں توڑے گئے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اورنگزیب ؒ نے مندروں کی رکھوالی کے لئے جائیدادیں دیں جس کے تحریری دستاویز آج بھی موجود ہیں ۔بی جے پی یا اس کا سنگھی ٹولہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اسے الفاظ کو توڑ مروڑ کر اپنے مطلب کی باتیں کیسے نکالنی ہیں ۔یہاں بھی اس نے یہی کیا بس ایک تاریخی بیان پر ہنگامہ کھڑا کردیا اب اس ہنگامے میں کوئی سمجھ ہی نہیں رہا ہے کہ سچائی کیا ہے اور ان ہنگامہ آرائیوں کے پس پشت کیا مقاصد ہیں ۔ جیسے شیو سینا ادھو کے ترجمان سنجے راوت نے کہا کہ اس بیان کو اس لئے طول دیا گیا تاکہ دھننجے منڈے کے معاملہ کو دبایا جاسکے ۔ دھننجے منڈے بیڑ کے سرپنچ کے قتل کی وجہ سے مشکل میں ہیں اسی کے ساتھ یہ مخلوط حکومت بھی سیاسی طور سے پریشانی میں مبتلا تھی لیکن ابو عاصم اعظمی کے معاملہ کو طول دیا گیا تاکہ عوام کی توجہ ادھر ہٹ جائے اور گودی میڈیا کو بھی ایک سنسنی پھیلانے کی وجہ مل جائے ۔ بہر حال مہاراشٹر حکومت کو جو حاصل کرنا تھا وہ اس نے کرلیا ، کیوں کہ  دھننجے منڈے کا معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہوگیا یا عارضی طور پر حکومت کو راحت مل گئی۔ پھر یہاں کے عوام کی یاد داشت اتنی کمزور ہے یا روزگار اور مہنگائی سے جوجھ رہے لوگ کیا یاد رکھ پائیں گے ۔انہیں تو ہر روز اپنے گھر اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہوتی ہے  جس سے انہیں وقت ہی نہیں مل پاتا کہ وہ عوامی مسائل پر کوئی توجہ دے سکیں ۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اپوزیشن نے شیواجی کے مجسمہ کے انہدام پر بی جے پی سے معافی کا مطالبہ کیا تو فڑنویس نے کہا کہ پہلے اپوزیشن نہرو کے ذریعہ شیواجی کی توہین پر معافی مانگے۔ جواباً سنجے راوت نے بھی کہا کہ ساورکر نے بھی شیواجی کی توہین کی ہے۔ مطلب شیواجی کے ایشو پر بحث و مباحثہ کا دور ختم نہیں ہورہا ہے۔
موجودہ حکومت کے آنے کے بعد ہر چند کہ اندرونی چپقلش کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن انہوں نے کچھ لوگوں کو کام پر لگا رکھا ہے کہ وہ ریاست میں مذہبی منافرت کو ہوا دیتے رہیں جس سے کہ بی جے پی کو ارتکاز ووٹ کا فائدہ ملتا رہے ۔ معلوم ہو کہ آئندہ چند ماہ میں شہری اکائیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں ۔ یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ممبئی کارپوریشن تین سال سے بغیر انتخاب کے کام کررہی ہے ۔ حکومت اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ، اسی ایجنڈے کے تحت پونے میں ایک بہت بڑے علاقے کو زمین بوس کردیا گیا جس سے لاکھوں کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔ بیروزگاری کی مار جھیل رہے عوام میں مزید ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے ۔ یہ بہت بڑی کارروائی تھی ، اس کے علاوہ ریاست بھر میں چھوٹی چھوٹی کارروائیاں جاری ہیں ۔

اکیسویں صدی کے بھارت میں نیا سلسلہ چل پڑا ہے کہ جس کسی (مسلمان) پر کوئی الزام لگایا جائے فورا اس کے گھروں کو مسمار کردیا جاتا ہے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ سندھو درگ کے مالوان میں ایک نابالغ کے ذریعہ پاکستان زندہ باد کے نعرہ لگانے پر اس کے والدین کو گرفتار کرلیا گیا اور اس کی دوکان ڈھادی گئی ۔ اس طرح کے واقعات کثرت سے ظہور پذیر ہورہے ہیں لیکن مسلمانوں کی جانب سے آواز میں کمزوری آتی جارہی ہے ۔ تنظیمی اور عوامی دونوں سطحوں پر ایسا محسوس کیا جارہاہے کہ مسلمانوں نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ جب جرم کریں گے تو اس کی سز ملے گی ہی ۔ کوئی بھی واقعہ ہوتے ہی میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کو اجتماعی مجرم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اسی تیز پروپگنڈہ کا اثر ہے کہ مسلمانوں میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے ۔ جب ہر طرف سناٹا ہو کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہ ہو تو ہم تو یہی سمجھیں گے کہ مسلمانوں نے فرقہ پرست اور فسطائی پارٹیوں اور حکومتوں کے آگے سر تسلیم خم کردیا ہے ۔ یہ خطرناک صورت حال ہے۔ اس طرح تو فسطائی حکومت کے حوصلے قوی ہوجائیں گے اور انہیں کہیں سے احتجاج کا خوف نہیں ہونے کی صورت میں بہت سی مسلم بستیاں ذرا ذرا سی بات پر ان کی زد میں آجائیں گی ۔ مسلم تنظیموں کو تھوڑا حوصلہ دکھا کر اس طرح کے حالات سے لڑنے کیلئے کمربستہ ہونا ہی پڑے گا ، ورنہ عوام میں ان کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.