مہاراشٹر اسمبلی الیکشن میں باغی امید وار سیاسی پارٹیوں کا کھیل بگاڑ سکتے ہیں تو نظر انداز کئے جانے کے سبب مسلمانوں میں مایوسی بھی اپنا اثر دکھا سکتی ہے ۔حالیہ الیکشن 2024 کا آخری الیکشن ہے جس میں جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے جھارکھنڈ اسمبلی کے الیکشن دو مرحلوں 13 ؍ اور 20؍ کو ہوں گے جب کہ مہاراشٹر میں ایک ہی مرحلہ میں 20؍ نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور 23 ؍ نومبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا ۔ مہاراشٹر میں انتخاب کافی دلچسپ اور کثیر رخی ہوگا ۔ اس انتخابی دنگل میں ان مسائل کی جانب زیادہ توجہ دی جارہی ہے جو مسائل ہیں ہی نہیں اور جو اہم عوامی مسائل ہیں اس پر فی الحال گفتگو نہیں ہورہی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ اس جانب نامزدگی کے ہنگاموں کے سبب توجہ نہیں ہو رہی ہو ۔ کیوں کہ این ڈی اے ہو یا انڈیا اتحاد دونوں طرف باغیوں نے سیاستداں اور سیاسی پارٹیوں کے چھکے چھڑا رکھے ہیں اور دونوں جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ 4؍ نومبر تک جو کہ نام واپس لینے کی آخری تاریخ ہے، معاملہ سلجھا لیا جائے گا یعنی باغیوں کو منا لیا جائے گا ۔ بہر حال اگر باغیوں کا معاملہ حل نہیں کیا جاسکا تو دونوں سیاسی اتحادیوں کو بڑا نقصان ہوگا اور وہ اپنی ہار یا ہونے والے نقصان کا ٹھیکرا باغیوں کے ہی سر پھوڑیں گے ۔ اس طرح وہ اپنی شکست کی اہم وجہ بتانے کی شرمندگی سے ضرور محفوظ رہیں گے ۔ ہر انتخابی دنگل کے بعد نقصان اٹھانے والی سیاسی جماعت کہتی ہے کہ وہ حالات کا تجزیہ کرے گی کہ اسے یہ دن کیوں دیکھنا پڑا لیکن شاید وہ وجہ کبھی اس کی جانب سے قبول نہیں کی جاتی جو اصل ہوتی ہے ۔
واضح رہے کہ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو لوک سبھا انتخاب میں ہونے والے نقصان نے پریشان کردیا تھا اور بی جے پی جہاں اپنے ڈی این اے میں موجود فرقہ واریت کے سبب مسلمانوں کے خلاف منافرت کی آبیاری میں زیر زمین مصروف ہوگئی تاکہ زیادہ سے زیادہ ہندو ووٹوںکا ارتکاز ہو اور اس کی ریاستی اسمبلی کی راہ آسان ہوجائے وہیں اس حکومت نے ریوڑیوں کی تقسیم میں بھی بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کیا اور لاڈلی بہن منصوبہ کے تحت خواتین کو پندرہ سو روپئے ماہانہ دینے کی شروعات کی ۔ اس میں شندے حکومت نے ایسی تیزی دکھائی کہ اسے کابینہ سے پاس کرواکر فوری طور سے نافذ بھی کردیا ۔شندے حکومت کے اس منصوبہ سے اپوزیشن انڈیا اتحاد شش و پنج میں ہے ۔ کئی صحافیوں جو زمینی حقیقت سے واقف ہیں کا کہنا ہے کہ لاڈلی بہن منصوبہ کچھ نہ کچھ اثر دکھائے گا ۔ ان کا ماننا ہے کہ کم از کم ایک فیصد ووٹ تو ضرور این ڈی اے یعنی شندے حکومت اور ان کے اتحادیوں کے خیمے میں جائے گا ۔ایک فیصد ووٹ بھی کافی اہمیت رکھتا ہے ،حالانکہ بادی النظر میں ایسا نہیں ہے کہ محض اس ایک منصوبہ سے ووٹروں کا سوچنے کا نظریہ تبدیل ہوجائے ۔
الیکشن کے ہنگاموں میں یہ بتاپانا تو دشوار ہے کہ کس اتحاد کی جانب عوام کا جھکاو زیادہ ہوگا ۔ یہاں اصلی اور نقلی شیو سینا اور این سی پی کا معاملہ اب بھی زیر بحث ہے گرچہ اس کی تمازت میں کمی آئی ہے ۔بی جے پی جہاں زیر زمین نفرت کی آبیاری جیسے اپنے پرانے ہتھکنڈے پر مسلسل کام کررہی ہے تو وہیں اس کی حلیف شیوسینا شندے اور این سی پی اجیت دادا پوار عوام میں بانٹی گئی ریوڑیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔دوسری جانب جرانگے پاٹل جن کی جڑیں مراٹھوں میں ریزرویشن کی تحریک کی وجہ سے کافی مضبوط ہوئی ہیں اور ان کی جانب سے بی جے پی اور اس کا خاص چہرہ دیویندر فرنویس کو کھل کر اور واشگاف انداز میں غدار کہنے کی وجہ سے مراٹھوں کو اس سے مزید دور کرنے کا سبب بنے گا ۔ واضح ہو کہ لوک سبھا کے الیکشن کے بعد جرانگے پاٹل نے کئی بار کہا کہ دیویندر فرنویس نے مراٹھوں سے غداری کی ہے اور انہوں نے سازش کرکے مراٹھوں کے ریزرویشن میں رخنہ اندازی کی ہے ۔ ایک اور بات جو قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن انڈیا اتحاد کے تعلق سے صحافیوں اور سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ شرد پوار انڈیا اتحاد میں ایک ایسی شخصیت ہیں جو تنازعات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ کئی جگہوں پر نظر بھی آیا ۔جیسے سیٹوں کی تقسیم کا معاملہ ہے جسے انہوں نے خوش اسلوبی سے حل کرلیا ۔ یہ شرد پوار کا ہی کمال بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے شیو سینا بی جے پی کی دہائیوں پرانے اتحاد کو توڑ لیا اور اب شیو سینا انڈیا اتحاد کا حصہ ہے ۔
ان ساری بحثوں سے الگ اگر مہاراشٹر میں کوئی بہت ہی اہم مسئلہ اٹھے گا تو وہ ہے مہاراشٹر سے صنعتوں کی گجرات منتقلی کا۔ کیوں کہ ایک تقریب میں شرد پوار نے 2014 سے قبل کے ایک واقعہ کا انکشاف کرکے یہ واضح کردیاہےکہ اپوزیشن اسے زور شور سے اٹھائے گا اور یہ عوام کو بی جے پی اور اس کے اتحادیوں سے برگشتہ کرسکتا ہے ۔ شرد پوار نے کہا کہ رتن ٹاٹا طیارہ سازی کا کارخانہ مہاراشٹر کے ناگپور میں لگانا چاہتے تھے ، اس کیلئے زمین کی فراہمی کو بھی نشان زد کرلیا گیا تھا لیکن 2014 میں نریندر مودی کی حکومت بنتے ہی اسے گجرات منتقل کردیا گیا ۔ اس کے علاوہ بھی کئی انڈسٹریز کو گجرات منتقل کیا گیا جس میں ویدانتا فاکسکون پروجیکٹ کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ پتہ نہیں لوک سبھا الیکشن میں یہ مسئلہ اپوزیشن سے کیسے چوک گیا۔ہوسکتا ہے کہ لوک سبھا میں اصلی نقلی کا معاملہ زیادہ موضوع بحث تھا۔ عوام نے باغی شیو سینا اور این سی پی کو سبق بھی سکھا دیا اس لئے اب اپوزیشن نے شعور سے کام لیا تو انڈسٹریز کی منتقلی کا معاملہ کو سیاسی ایشو بننا چاہئے ۔فرقہ وارانہ تخریب کاری کا جواب معیشت کے ذریعہ ہی دیا جاسکتا ہے ۔
ہر الیکشن میں مسلمان مرکز گفتگو ہوتے ہیں خاص طور سے پارلیمنٹ اور اسمبلی میں مسلم نمائندگی کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے لیکن آبادی کے تناسب سے نمائندگی نہیں مل پاتی ۔ لوک سبھا الیکشن کے موقع سے انڈیا اتحاد نے کافی مایوس کیا اس کے باوجود مسلمانوں نے یک طرفہ طور پر انڈیا اتحاد کے حق میں ووٹ کیا اور ان کے ووٹ دینے کے تناسب میں بھی اضافہ ہوا ۔کیوں کہ ان کے سامنے فسطائی طاقتوں کو شکست دینے کا مسئلہ تھا ۔ کئی دہائیوں سے مسلمانوں نے ملک میں جمہوریت اور سیکولرزم کو بچانے کی ذمہ داری کا بار اپنے سر لے رکھا ہے ۔’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ والا معاملہ ہے کہ انہوں نے جس قدر کوشش کی نتیجہ عام طور پر اس کے الٹ نکلا ۔صرف 2024 کے لوک سبھا الیکشن کا معاملہ ہی ایسا ہے جہاںمسلمانوں کی کوششوں سے بی جے پی کو تقریبا 60 سیٹوں کا نقصان ہوا ۔ ہم یہاں اس بحث میں نہیں جائیں گے کہ کس پارٹی نے مسلمانوں کو کتنی نمائندگی دی ۔ کہنا صرف اتنا ہی ہے کہ صرف مسلمان ہی سیکولرزم اور جمہوریت کی حفاظت کیلئے قربانی کیوں دے آخر دوسری کمیونٹی اس سلسلے میں آگے کیوں نہیں آتی ؟ کیا فسطائی قوتوں سے صرف مسلمانوں کا نقصان ہے ؟ ملک اور ریاست مہاراشٹر میں اس قوت کے پنپنے سے ہندوؤں کی پسماندہ برادریوں کا زیادہ نقصان ہے ۔انہیں ملنے والے ریزرویشن کو نقصان ہوگا اور ہورہا ہے اس لئے ان کے لیڈر اپنی کمیونٹی کوبتائیں ۔ آخری بات یہ کہ انڈین ایکسپریس نے ایک مسلم سوشل ایکٹیوسٹ کے حوالہ سے یہ رپورٹ کیا ہے کہ نمائندگی کی کمی کے سبب مسلمان ناراض تو ہیں لیکن بہت زیادہ نہیں ۔ یہ ایک غلط فہمی ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ نمائندگی کی کمی کے سبب مسلمانوں میں الیکشن کے تعلق سے وہ جوش خروش نہیں ہے جو لوک سبھا کے الیکشن میں نظر آرہا تھا ۔اس کی وجہ سے ریاستی اسمبلی کے اس الیکشن میں انڈیا اتحاد کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہےاور بی جے پی فائدہ ہوسکتا ہے ۔ کیوں کہ ایم آئی ایم اور ونچت بہوجن اگھاڑی مسلمانوں کو بھرپور نمائندگی دے رہی ہے ۔