مودی کی غلط  امیج کی پول کھل گئی

بزرگ سیاست داں یشونت سنہا سے خصوصی انٹرویو

عبدالباری مسعود
جون 2025

 

آپریشن  سندور کے حوالے سے اس وقت نہ صرف  ملکی  بلکہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بحث کا سلسلہ  جاری ہے، جس میں  رافیل جنگی طیاروں کے علاوہ  ہندوستان کی خارجہ پالیسی خصوصی طور پر موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ مئی 2014میں برسر اقتدار آنے کے بعد  نریندر مودی ملک کے پہلے ایسے وزیر اعظم ہیں جنہوں  گزشتہ 11 سالوں میں 89 بیرونی اسفار میں 72ملکوں کی سرزمین پر قدم رکھا جو ایک ریکارڈ ہے، جن پر  اخراجات کے بارے میں پارلیمان کو بتایا گیا تھا  کہ 234کروڑ  روپے خرچ ہوئے۔ ان دوروں کے حوالے  سے حکمراں گروہ کی طرف سے  یہ ڈنکا پیٹا جاتا رہا کہ مودی وشو گرو ( عالمی رہنما) بن گئے ہیں۔ لیکن اس دعوی کی آپریشن سندور نے قلعی کھول دی، سوائے اسرائیل کے دنیا کا کوئی ایک ملک حتی کہ امریکہ بھی  انڈیا کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔  چنانچہ  اس ناکامی  کے پیش نظر  مودی اور ان کے نور نظر  وزیر خارجہ  ا یس  جئے شنکر خاصی تنقید کا نشانہ  بن رہے ہیں۔

سابق وزیر خارجہ  یشونت  سنہا اس ناکامی کے پر بڑے مضطرب نظر آتے ہیں ۔  افکار ملی  کے لئے عبدالباری مسعود کے ساتھ ایک خصوصی  انٹرویو میں یشونت سنہا نے کہا کہ مودی کوئی  طاقتور شخص strong man نہیں ہیں بلکہ یہ جھوٹ موٹ کی ایک امیج  بنائی گئی ہے، جس کی قلعی آپریشن سندور نے اتار کر رکھ دی ہے۔ وزیر خارجہ جئے شنکر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کی حیثیت  ایک سیکریٹری سے زیادہ  نہیں ہے اور امور خارجہ کا سارا کام  مودی کے ہی ہاتھ میں ہے۔

86سالہ سنہا کا تعلق بہار سے ہے  وہ سیاست میں آنے سے قبل  پروفیسر بعدازاں  آئی اے ایس افسر رہے۔  انہوں نے جنتا پارٹی  سے اپنی سیاسی زندگی آغاز کیا۔  نوے کی دہائی میں بی جے پی میں شمولیت اخیتار کی اور پارٹی کے چوٹی کے رہنمائوں میں شمار ہونے لگے ۔ بہرحال جیٹھ ملانی  اور دیگر رہنمائو ں کے ساتھ سنہا بھی مودی کو  بی جے پی کا لیڈر بنانے کے ذمہ دار ہیں  لیکن اقتدار میں آتے ہی مودی نے اپنے تمام محسنوں کو  ایک ایک کرکے کنارے کردیا۔ سنہا  نے  2018میں  بی جے پی سے ناطہ توڑ لیا۔ وہ  چندر شیکھر اور واجپئی کی حکومتوں میں وہ وزیر خزانہ  رہ چکے ہیں۔

انٹرویو کے اقتباسات

سوال :   ایس جئے شنکر کا بیان ہے کہ  آپریشن سندور  شروع کرنے سے پہلے پاکستان کو اطلاع دے دی گئی تھی؟  راہول گاندھی نے اس بیان کو ’’ غداری‘‘ سے تعبیر کیا ہے ؟

یشونت سنہا صاحب  آپ وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اس پر کیا تبصرہ کریں گے؟

جواب:  دیکھئے، جئے شنکر کا سیاست کا تجربہ بہت محدود ہے۔ اسی لئے ان  سے  اس طرح کی بھول ہوئی ہے۔ ہمیں کسی نے بتایا کہ پاکستان کے ساتھ  نیوکلیئر  معاملات کے حوالے سے جو سمجھوتہ ہوا ہے اس کے تحت  دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کو  حملہ کی قبل از وقت اطلاع دینا ضروری ہوتا ہے مگر  مجھے اس بارے ابھی وثوق سے کچھ معلوم نہیں ہے ۔  اگر  جئے شنکر نے اطلاع دی ہے تو اول یہ کہ انہیں  کھلے عام یہ  نہیں کہنا چاہیئے تھا یہ ان کی بہت  فاش غلطی ہے۔  دوم  یہ کہ پاکستان نے ہی کس سمجھوتے کا احترام کیا  ہے؟  میرے خیال سے اسے  آپریشن سندور کے بارے   اطلاع دینے کی ضرورت نہیں تھی۔

(    اصل حقیقت یہ ہے کہ 1991میں وزیر اعظم  چندر شیکھر  کے دور حکومت  میں  فوجی مشقوں کے حوالے سے یہ طئے پایا تھا کہ  جو بھی ملک فوجی مشق کرے گا وہ اس کی ا طلاع  دے گا اور معاہدہ پر نرسمہا رائو حکومت میں عمل شروع ہوا۔ افکار ملی)

س:  تاہم حزب اختلاف کی طرف  سے  جئے شنکر کا برطرف کرنے کا مطالبہ ہورہا ہے اور اس بیان کو ملک سے غداری  قرار دیا جارہا ہے؟

ج: میں مانتا ہوں کہ وزارت خارجہ میں  جئے شنکر کا بحیثیت  پیشہ ور سفارت کار ایک طویل  تجربہ ہے۔ لیکن  بحیثیت وزیر خارجہ  ملک کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں ان کا  رول  برائے نام ہے ۔   سب جانتے ہیں کہ موجودہ رجیم ( حکومت) میں  فارین پالیسی  مودی خود چلاتے ہیں۔ اس میں  جئے شنکر  محض  ایک سچیو ( سیکریٹری) بن کے رہ گئے ہیں وہ وزیر نہیں بن سکے۔

س: سیز فائر یا جنگ بندی کے اعلان کے بعد جس طرح  کے حالات پیدا ہوئے، ایسا محسوس  ہوتا ہے کہ امریکی صدر ڈولانڈ ٹرمپ بار بار وزیراعظم  نریندر مودی کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔  مودی کے قوم سے خطاب سے محض نصف ساعت قبل ٹرمپ  پھر ٹی وی اسکرین پر آتے  ہیں وہی سب کچھ دہراتے ہیں، جو انہوں نے پہلے کہا تھا۔ معنی خیز بات یہ ہے کہ مودی اپنی تقریر میں ایک مرتبہ بھی ٹرمپ  اور امریکہ کا نام نہیں لیتے ہیں ۔ ئنہ اشاروں اور کنایوں میں اس کی تردید کرتے ہیں۔ جب کہ انڈیا  کی غیر جابندار  خارجہ پالیسی رہی ہے وہ متاثر ہوئی ہے؟

ج:   آپ نے بالکل صحیح کہا ہے۔ ہمیں اس نکتہ کو دھیان میں رکھنا چاہئے کہ  ٹرمپ کس قماش کے آدمی ہیں ان کی شخصیت کس طرح کی ہے وہ  لاف زنی میں یقین رکھتے ہیں، وہ کوئی بات کو صیغہ راز میں نہیں  رکھتے ہیں میڈیا کے سامنے بیان کر دیتے ہیں۔  انہی  اوصاف کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں معاملہ کرنا چاہیئے تھا۔ ان  سے معاملات کرتے  ہوئے ہم نے اس نکتہ کو دھیان میں نہیں رکھا۔ اب  ہمیں ٹرمپ صاحب کو  جھیلنا پڑ رہا ہے۔ ٹرمپ صاحب کے بارے میں مودی جی کا کہنا تھا کہ وہ ان کے  وہ بہت خاص دوست ہیں  لیکن وہی اب مودی جی کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔

س: ہمارے  وزیراعظم کی وشو گرو بننے کی تمنا تھی  ان کے حواری کا اس کا خوب ڈھنڈورا پیٹتے تھے۔ گزشتہ 11 سالوں میں انہوں نے 89 بیرونی اسفار میں 72 ملکوں کا دورہ کیا اس میں امریکہ وہ  دس بار گئے، جو ایک ریکارڈ ہے اس پر 234کروڑ روپے خرچ ہوئے۔  وہ ہر ایک غیر ملکی سربراہ سے بغلگیر ہوتے ہیں، جسے Hug  Diplomacy یا Hug-lo-macy کا نام دیا گیا۔ لیکن جب پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ  رونما ہوا، نیز آپریشن سندور  کے  حوالہ سے کوئی بھی ملک سوائے اسرائیل کے ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ ہر ملک نے محض ایک معمول کا بیان جاری کیا جس میں پاکستان کا نام لے کر کوئی مذمت نہیں کی گئی۔ اس پورے منظر نامہ کو آپ  بحیثیت  سابق وزیر خارجہ کیسے  دیکھتے ہیں؟ کیا اسے فیسکو کہیں گے؟

ج:   اس موقع پر مودی جی کی  خارجہ پالیسی پوری طرح فیل ہوگئی۔ آ پ نے خو د کہا کہ مودی جی نے بھاری سرکاری  خرچ پر اتنے بڑے پیمانے پر دورے کئے ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں میں جاکر  انہوں نے ہیڈ آف  گورنمنٹ (سربراہ حکومت) کو گلے لگایا۔

مودی جی نے ایسا  سوچ لیا کہ ہم مہان ہیں ۔ ہم اتنے مہان ہیں کہ  ہم جاکے اسے گلے لگائیں گے اور وہ ہمار ا مرید ہوجائے گا۔ لیکن اس کے بارے میں اگر کوئی شک تھا تو  وہ شک اب دور ہوگیا۔ کیونکہ  اب پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کا اور اس کے بعد لڑائی کا جو مسئلہ کھڑا ہوا ہے اس میں کوئی دیش  سوائے  اسرائیل  اور افغانستان ہمارے ساتھ نہیں آیا، حتی کہ کوئی ہمسایہ ملک بھی نہیں آیا۔ چنانچہ  یہ بات عیاں ہے کہ  مودی جی نے دنیا بھر کی   سیر کرنے میں جتنا  وقت لگایا جتنا  پیسہ خرچ کیا،  وہ سب  اکارت  گیا۔ اس  خارجہ پالیسی کا  ملک کو کوئی فائدہ نہیں ملا۔

س:  جیسا کہ آپ نے کہا کہ خارجہ پالیسی ناکام ہوئی ہے  غالبا  یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ حکومت نے سات وفود باہر بھیجنے کا  فیصلہ کیا  مگر اس میں سیاست کی جارہی ہے۔پہلے حز ب اختلاف کی جماعتوں کو نام تجویز کرنے  کے لیے کہا جاتا ہے مگر ان کے تجویز کردہ نام کے بجائے اپنی پسندیدہ لوگوں کا شامل کیا جاتا ہے ؟ جیسے ششی تھرور کا معاملہ ہے جنہیں کانگریس نے نامزد نہیں کیا تھا۔

ج:     حکومت نے اس سلسلہ میں جو کچھ کیا وہ  غلط ہے۔ ایسے نازک موقعوں پر سیاسی جماعتوں سے پوچھا جاتا ہے کہ  اپنے نمائندوں کے نام تجویز کریں اور انہیں ہی دورے پر لیا جاتا ہے  یہ روایت نئی نہیں ہے ۔ اقوام متحدہ کا جب اجلاس ہوتا ہے تو  کوئی سرکاری وفد  ارکان پارلیمان کا  جاتا ہے تو وہ ان جماعتوں کے نامزد ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔  اس معاملہ میں حکومت  نے بالکل  غلط کام کیا ہے۔ اور اس پر سیاست کی ہے۔ اتنے اہم معاملہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

س:  کہا یہ جارہا کہ  اپوزیشن انڈیا الائنس کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ آپ اس محاذ کی طرف سے صدر جمہوریہ کے انتخاب میں امیدوار بھی تھے ؟

ج:  یہ بات پوری طرح سے صحیح نہیں ہے مگر میں یہ کہوں گا کہ  انڈیا محاذ کو جس طرح  موثر انداز میں کام کرنا چاہیے  وہ حالیہ چھ مہینوں میں نظر نہیں آیا۔مسائل اور اشوز کو لے کر سڑکوں پر اترنا چاہیئے تھا اور پارلیمان کے اندر  اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہے تھا  وہ نظر نہیں آیا۔ اس لیے محاذ کے کچھ مسائل ہیں اس کو محاذ کے رہنمائوں کو مل جل کر حل کرنا چاہیے۔ نہیں تو یہ محاذ  غیر موثر ہوکر رہ جائے گا۔

س: میں آپریشن سندور کی طرف آتا ہوں۔ جب بھی جنگ یا لڑائی  ہوتی کہ سب سے پہلا شکار سچائی بنتی ہے۔جو بھی خبریں گشت کر رہی تھیں ان میں سچائی کتنی ہے  اس کا پتہ لگانا مشکل تھا۔ رافیل طیارے گرانے کا پاکستان دعوی کررہا ہے  ہماری حکومت کی طرف سے کوئی  واضح جواب نہیں آ رہا ہے۔ اسی طرح  کشمیر کا معاملہ  دوبارہ عالمی فوکس  کا مرکز بن گیا نیز دہشت گردی کا معاملہ پس پشت چلا گیا ہے؟

ج: مجھے لگتا ہے کہ ٹرمپ صاحب نے اس پر بہت ساری باتیں کہی ہیں اور ثالثی کی پیشکش  بھی کی ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ ٹرمپ صاحب جو بول رہے ہیں ہماری طرف  اس کا سیدھا جواب خود مودی جی کو دینا چاہیے تھا اور کہنا چاہے تھا کہ ٹرمپ صاحب غلط بول رہے ہیں سیز فائر کرانے  میں ان کا کوئی رول نہیں ہے  اور کشمیر کے مسئلہ کو ہم پاکستان سے مل کر لیں گے اگر کوئی معاملہ بچا ہے تو۔اور اس میں کسی کی دخل اندازی کی ضرورت نہیں ہے، اس  طرح کا سخت بیان  ہمارے وزیر اعظم کی طرف سے آتا تو بڑا اچھا ہوتا اور پورے  ملک کو اطمینان ہوتا۔   یہ بات سرکاری ترجمان نے تو کہی ہیں  لیکن پتہ نہیں کیوں مودی جی اس پر خاموش ہیں، یہ ہماری کمزوری رہی ہے۔

س:  ہمارے وزیراعظم 56انچ کا سینہ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ان کی کیا مجبوری ہے کہ وہ ٹرمپ اور امریکہ کا نام زبان پرنہیں لاتے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ  اڈانی  کے بزنس مفاد اور ان کے خلاف  امریکہ میں چل  رہا معاملہ ہوسکتا ہے۔ اس میں کہاں تک سچائی ہے؟

ج:  بالکل کوئی  نہ کوئی خاص بات ضرور ہے۔ جس کے باعث مودی صاحب چپ ہیں ۔امریکہ کی عدالت میں اڈانی کے خلاف  مقدمہ چل رہا ہے  اس لیے مودی ان کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں  یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن اور بھی کوئی معاملہ ہوسکتا ہے  جس کی وجہ سے  مودی کو خاموشی اختیار کرنی پڑ رہی ہے۔انہیں ایسے  نازک موقع پر خاموش نہیں رہنا چاہیے چونکہ وہ ہر معاملہ پر بولتے ہیں۔  اس سے ایک غلط تاثر جارہا ہے۔

س:   آپ دیکھ رہے ہیں کہ فوج کو سیاسی مفاد کی خاطر استعمال کرنے کا سلسلہ   2019 میں شروع ہوا۔ کیا فوج کو سیاست میں گھسیٹنا صحیح ہے؟

ج:  یہ بہت ہی غلط بات ہے۔ اس سے غلط بات اور کوئی نہیں ہوسکتی ہے کہ فوج کو  سیاست میں گھسیٹا جائے۔ آزادی کے بعد سے فوج ہمیشہ سیاست سے دور رہی ہے، یہ بہت اچھی بات ملک کے لئے۔ اور اب  بھی اور آئندہ بھی  فوج کو راج نیتی سے دور رہنا چاہیے۔  بی جے پی ہو یا کوئی بھی سیاسی جماعت، فوج کو سیاست میں لانے کی کوشش نہیں ہونی چاہے۔

س:   بی جے پی کے لیڈران جس طرح کے بیانات دے رہے  ہیں، مثلاً کرنل صوفیہ کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کی گئی۔ مد  ھیہ پردیش کے نائب وزیر اعلی  کہتے  ہیں  کہ فوج مودی جی کے چرنوں میں ہے  اور ایک دوسرے  وزیر کرنل صوفیہ کو دہشت گروں کی بہن بتاتے ہیں ۔ایک ایسے وقت میں جب ہم  بحرانی کیفیت سے گذر رہے ہیں کیا اس میں قومی یکجتہی کی ضرورت نہیں ہے ؟

ج: جو  کچھ ہورہا ہے وہ بہت غلط ہورہا ہے۔ اس لئے میں نے زور دے کر کہا تھا کہ  مودی جی کو خود اس میں مداخلت کرنی چاہیے۔ اور ان لوگوں کو پارٹی سے نکال دینا چاہیے۔ جو باتیں ان لوگوں نے کہی ہیں وہ بہت غلط اور بے ہودہ  ہیں، وہ قطعی قابل برادشت  نہیں ہیں ۔ ہم فوج کے ساتھ کھڑے ہیں اور کمال کی فوج  ہے جو بھی کام دیا جاتا ہے وہ اسے پورا کرتے ہیں۔ فوج کی کوئی غلطی نہیں ہے یہ غلطی سیاسی قیادت کی ہے ۔

س:  اب  حکمرا ں جماعت کی طرف سے ترنگا ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ کانگریس نے بھی جوابی ریلیوں کا اعلان کیا ہے یعنی قومی مفاد  پیچھے چلا گیا ہے؟

ج:   سب سے زیادہ  ذمہ داری  حکمراں جماعت  کی  ہے نا ۔ اگر ہم  تاریخ میں جائیں تو 2019کے الیکشن میں  خود مودی نے انتخابی  جلسوں میں کیا کہا تھا۔  پلوامہ کے شہیدوں کے نام پر ہم کو ووٹ دو۔ کتنی گندی بات ہوئی تھی اور آج پھر وہی گندی بات  دہرائی جارہی ہے۔ مودی جی اور موجودہ بی جے پی  سلامتی کے امور کے  حوالے سے، اپنے  چناؤ مفاد کے خاطر فوج کو گھسیٹتے ہیں،  اس  کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ بہت ہی غلط حرکت ہے۔

س: ٹرمپ باربار یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ  پاکستان اور انڈیا کے  بات چیت  کو کسی  غیر جابندار مقام پر  رکھنے میں مدد  اور ثالثی کریں گے، خاص طور پر کشمیر کے مسئلہ پر۔  کیا اس کے خلاف مزاحمت ہوگی؟

ج:  میں نہیں سمجھتا کہ اس معاملہ میں ٹرمپ  صاحب کو کوئی کامیابی ملے گی۔ اگر مودی جی تیار بھی ہوجاتے ہیں تو  یہ دیش اس کے لئے کبھی تیار نہیں ہوگا۔ملک کے عوام اس  چیز برداشت نہیں کریں گے کہ ٹرمپ یا کوئی تیسری طاقت ہمارے معاملات میں مداخلت کرے۔

س:  اب جو حالات پیدا ہوئے ہیں کیا اس  سے نہیں لگتا کہ مودی کی اسٹرانگ مین کی امیج کو کہیں  نہ کہیں ضرب پہنچی ہے؟

ج:  مودی جی کبھی بھی اسٹرانگ مین  نہیں تھے ! انہوں نے جھوٹ موٹ کی  ایک غلط امیج بنا ئی تھی ۔  اب  ا ن کی پول کھل گئی ہے ۔ اس پورے  واقعہ میں کسی ایک شخص کی جو پول کھلی ہے وہ مودی جی ہیں۔

س:  حزب اختلاف کی طرف سے  پارلیمان کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جیسا کہ ما ضی میں ایسے واقعات کے حوالے سے ہوچکا ہے۔مودی حکومت اس سے دور کیوں بھاگ رہی ہے۔؟

ج: حکومت جانتی ہے کہ جو سوال اس سے پوچھے جائیں گے اس کا جواب اس کے پاس نہیں ہے۔ بات شروع ہوگی پہلگام حملہ سے ۔ کیوں وہاں   ایک بھی سپاہی موجود نہیں تھا جب کہ وہاں دوہزار سے زائد سیاح تھے۔ بہت سارے ایسے سولات ہیں جن کا جواب دینا پڑے گا۔ ایک کمزوری چھپانے کے لئے  کوئی دوسرا واقعہ ہوگا پھر تیسرا واقعہ ۔ لیکن یہ اب نہیں چل سکتا۔

س:  دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر کو  آرٹیکل 370اور35A سے  محروم کرنے سے قبل اس کے سلامتی پر پڑنے والے عواقب پر غور نہیں کیا گیا۔ نیتجتاً

چین  پاکستان کے ساتھ مکمل طور پر آگیا۔ اس پر  آپ کا کیا موقف ہے؟

ج:  میں مانتا ہوں کہ سرکار نے  آرٹیکل 370اور35A  ہٹانے کے حوالے سے جو بھی دعوے کئے تھے وہ کھوکھلے ثابت ہوئے۔ تاہم یہ ہمارا اندورنی معاملہ ہے اس  پر چین خوش ہو یا ناراض، ہمیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

س: آپ بھی بی جے پی میں رہے ہیں لیکن آج یہ جماعت   حکومت کے ہر امور کو  اپنی آئیڈیا لوجی  کے تحت انجام دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پر رائے زنی فرمائیں۔

ج: دیکھئے  آج کوئی آئیڈیا لوجی  باقی نہیں رہی ہے۔ بی جے پی کے پاس  ہندو۔ مسلمان کے سوا کچھ بچا نہیں ہے۔ وہ ہر معاملہ کو چناؤ کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہ کیسے  جیتا جائے۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.