مودی تیسری بار اقتدار میں نہیں آسکتے، دوبارہ اقتدار میں آئے توہندوستان کا نقشہ اور آئین بدل جائے گا

ماہر معاشیات ڈاکٹر پرکالا پر بھاکر سے خصوصی انٹرویو

عبدالباری مسعود
مئی 2024

عبدالباری مسعود

2014 کے عام انتخابات کے موقع پرگیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ کنڑ ازبان کےممتاز ادیب اور دانشور ڈاکٹر یو آر اننت مورتی نے خبردار کیا تھا کہاگر نریندر مودی اقتدار میں آتے ہیں تو ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگیاور تشدد معمول بن جائے گا۔ پچھلے دس سالوں میں مورتی کی اس پیشن گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ اب جنوب ہی سے تعلقرکھنے والے ایک اور دانشور ڈاکٹر پرکالا پربھاکر نے متنبہ کیا ہے کہاگر 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں جس کی مہم جاری ، وزیر اعظمنریندر مودی دوبارہ منتخب ہوتے ہیں تو “ہندوستان کا نقشہ ہی باقی نہیں رہے گا ” اور ”پورے ملک میں لداخ اور منی پور جیسی صورتحالپیدا ہو جائے گی۔ ” لال قلعہ سے ”نفرت انگیز تقاریر” کا سلسلہ شروعہوجائے گا ۔
ڈاکٹر پربھاکر ایک ممتاز سیاسی ماہر معاشیات اور مصنف ہیں جنہوںنے لندن ا سکول آف اکنامکس سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ وفاقی وزیر خزانہ اور بی جے پی کی اہم لیڈرنرملا سیتا رمن کے شوہر بھی ہیں۔ لیکن وہ مودی اور ان کے طرزحکمرانی کے سخت ناقد ہیں۔
ڈاکٹر پربھاکر نے گزشتہ سال ایک نئی کتاب لکھی ہے ”دی کروکڈ ٹمبرآف نیو انڈیا: ایسز آن اے ریپبلک ان کرائسز” “The Crooked Timber of New India: Essays on a Republic in Crisis” ،۔ یہ کتاب سیاست، معیشت اور دیگر موضوعات پر مودی حکومت کے اقدامات اورطرز حکمرانی پر مضامین کا مجموعہ ہے۔ پربھاکر نے اپنی اس کتاب کااختتام ـِ ہاؤ ڈیموکریسی ڈائی: واٹ ہسٹری ریویلز اباؤٹ آؤرفیوچر’How Democracies Die: What History Reveals About Our Future’ , نامی کتاب کے مشہور اقتباس سے کیا ہے کہ ’’کوئیبھی سیاسی رہنما جمہوریت کو ختم نہیں کر سکتا۔ کوئی ایک سیاسی رہنما اسے نہیں بچا سکتا No single political leader can end a democracy; no single political leader can rescue one either”
یہ قول ہندوستان کے موجودہ حالات کی عکاسی کرتا ہے ۔
یہ کتاب اسٹیون لیوِٹسکی( )Steven Levitsky اور ڈینیئلزیبلاٹ(Daniel Ziblatt ) نے لکھی ہے۔
پربھاکر نے مودی کے بارے میں بھی ایک کتاب لکھی ہے جس کا اجراءامسال 15 مئی کو ہوگا ۔
65 سالہ ڈاکٹر پربھاکر کا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے ہے۔ ان کے والدکانگریسی تھے اور غیر منقسم آندھر پردیش کی حکومتوں میں کابینیوزیر تھے ۔ ڈاکٹر پربھاکر نے بھی مشیر کے طور پر خدمات انجام دیںاور جولائی 2014 اور جون 2018 کے درمیان آندھرا پردیش حکومت میںکابینہ کے عہدے پر فائز رہے۔ وہ پرجا راجیم پارٹی میں شامل ہونے سےپہلے آندھرا پردیش میں بی جے پی کے سرکاری ترجمان بھی تھے۔ اپنیبیوی نرملا سیتا رمن کی طرح ڈاکٹر پربھاکر بھی دہلی کی جواہر لالنہرو یونیورسٹی (JNU) کے سابق طالب علم ہیں اور یونیورسٹی میںکانگریس کی طلبہ ونگ NSUI کے صدر تھے۔
افکار ملی کے لیے عبدالباری مسعود کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر پربھاکر نے مودی کو ” انتہائی نااہل” اور ”آمر” قرار دیا اور کہا کہ مودی حکومت کی نا اہلیوں کے سبب ایک بڑی آبادی خطافلاس سے نیچے چلی گئی ۔ انہوں نے مودی کی تیسری بار کامیابیکے امکان کو مسترد کر دیااور زور دے کر کہا کہ بی جے پی 230 سےزیادہ نشستوں پر کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ ان کے مودی اور بی جے پی پر تنقیدی تبصرے خبروں کا موضوع بن رہے ہیں۔
انٹرویو کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں :
سوال : آپ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکمرانی کے بے لاگناقدرہےہیں ، اس حقیقت کے باوجود کہ آپ کی اہلیہ ان کی حکومت میںمالیات کا اہم قلمدان رکھتی ہیں؟
جواب : آپ پچھلے دس سالوں کا ریکارڈ دیکھیں: مودی کی ’حیران کننااہلی‘ نہ صرف معیشت بلکہ بیشتر امور حکومت میں پوری طرح سےبے نقاب ہوچکی ہے۔ مودی صرف لوگوں میں پوشیدہ نفرت انگیز جذباتکو ابھارنے میں ید طولی رکھتے ہیں۔ لیکن حکومت چلانے میں ان کیکمزوری سب پر عیاں ہے جس کے سبب آبادی کا ایک بڑا حصہ غربتکی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا ہے ۔ اس سال کے ابتداء میں عالمیتنظیم آکسفیم کی رپورٹ نے ہندوستان میں دولت کا چند ہاتھوں میںارتکاز اورمعاشی تفاوت میں بے تحاشہ اضافہ کو اجاگر کیا ہے ۔ مودیکے دور حکومت میں اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس سے آبادی کا ایک بڑا طبقہ متاثر ہواہے ۔ منی پور اور لداخ میں بد امنی پھیلی ہوئی ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی اور بدامنی کا اثر ہر جگہ واضح ہے۔ بےروزگاری کی شرح لبنان، شام اور یمن جیسے خانہ جنگی سے متاثر ملکوں کی شرح تک جا پہنچی ہے۔ اگرچہ ہندوستانی نوجوانوں کومعلوم ہے کہ روس اور یوکرین اور اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ جاری ہے جہاں ان کی جان جاسکتی ہے لیکن وہ بے روزگاریسے پریشان ہوکر ان ملکوں کا رخ اختیار کر رہے ہیں۔جو اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی صورت حال کس قدر تشویشناک ہے ۔ معیشت تباہی کا شکار ہے اور معاشی تفاوت اور عدم مساواتکئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اڈانی کا عروج اور مودی حکومت کا قیام متوازیرہا ہے۔
سوال: آپ مودی کو ’’ڈکٹیٹر‘‘ بھی قرار دیتے ہیں؟
جواب: جی ہاں، میں مانتا ہوں کہ مودی حکومت ”بالکل بھی جمہورینہیں” ہے کیونکہ وہ ایک آمر کی طرح حکمرانی کر رہے ہیں ۔ کیا کسیاور جمہوریت یا جمہوری ملک نے پارلیمنٹ کے 145 ارکان کو بیک وقتمعطل کر دیا ؟ کیا کسی اور ملک میں کوئی ایسا صوبہ ہے جو تقریباًایک سال سے تشدد و بد امنی کا شکار ہے اور اس طرف سربراہ حکومتکوئی توجہ نہ دے ۔ وزیر اعظم نے منی پور کا نہ دورہ کیا ،نہ اپنیزبان کھولی ۔ دستور نے ریاستوں کو جو اختیارات دیئے ہیں ان پر شبخون مارا جارہا ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ زراعت ملک کا سب سےبڑا پیشہ ہے، حکومت نے کسانوں سے مشاورت میں 10 منٹ بھی خرچکیے بغیر تین قوانین بغیر کسی بحث کے منظور کر لیے۔ آج بھی کساناحتجاج کر رہے ہیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ جمہوریمعاشرے میں ایسا نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں ، بی جے پی میں داخلیجمہوریت کی کمی اور اختیارات کا ارتکاز ہے۔
سوال: آپ نے اس وقت حکومت اور ملک کا جو نقشہ کھینچا ہے اس تناظر میں کیا آپ کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے اس الزام سے اتفاقکرتے ہیں کہ ”ہم دو ہمارے دو” یعنی مودی، شاہ، اڈانی اور امبانی — ملک چلا رہے ہیں؟
جواب: یہ بالکل واضح ہے ،اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ یہ کیا مذاقہے کہ مودی حکومت عوام کو پانچ کلو گرام اناج اور دو سلنڈر دے رہی ہے،لیکن وہ اپنے امیر دوستوں کو چھ ہوائی اڈے اور چار بندرگاہیں دے رہیہے (اڈانی پڑھیں)۔
سوال: آپ نے انتخابی بانڈ اسکیم کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا میں سب سے بڑا بد عنوانی کا معاملہ قرار دیا۔ کیا آپ اس کی وضاحت کرسکتے ہیں؟
جواب: اب ہر کوئی سمجھ رہا ہے کہ یہ نہ صرف ہندوستان کا سب سےبڑا گھوٹالہ ہے بلکہ دنیا کا سب سے بڑا گھوٹالہ ہے۔ الیکشن کمیشن آفانڈیا کی سرکاری ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق بی جےپی انتخابی بانڈز کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی پارٹی ہے۔ اس اسکیم کی بدعنوانی کی ہمہ گیریت کو ثابت کرنے کے لیے صرف ایکمثال کافی ہے۔ اگرچہ ریزرو بینک آف انڈیا حکومت سے مکمل طور پرآزاد ادارہ ہے، لیکن نجی بنک کوٹک مہندرا کوبنک ضوابط میں نرمیکرنے پر مجبور کیا گیا۔ مہندرا بنک کی بعض ضوابط کی خلاف ورزی پرتحقیقات کی جا رہی تھیں۔ اس جانچ سے بچنے کے لیئے بنک نے حکمران جماعت کو انتخابی بانڈز کے توسط سے 60 کروڑ روپے عطاکیئے ۔ الیکٹورل بانڈ کا معاملہ بہت زیادہ زور پکڑے گا اور رائے دہندگان مودی حکومت کو ضرور سزا دیں گے ۔
سوال: کیا نوٹ بندی سب سے بڑا بدعنوانی کا معاملہ نہیں ہے؟
جواب: معاشیات کی معمولی شد بد بھی رکھنے والا کوئی بھی فرد اتنے وسیع پیمانے پر اور اتنی عجلت میں نوٹ بندی کی وکالت اور تائید نہیں کرے گا ۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی اور اس کے بعد جو فیصلےکیے گئے اس نے حالات کو مزید سنگین بنادیا ۔
سوال: ان تمام ناکامیوں کے باوجود مودی اور دیگر بی جے پی لیڈر انانتخابات میں 400 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا دعوی کر رہے ہیں۔ آپ کیرائے کیا ہے؟
جواب: یہ دعوی بی جے پی کا ایک ‘جملہ’ (پلاٹ ٹوئسٹ) ہے ۔ اس طرحکے دعووں کی وجہ سے لوگ بی جے پی کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد کےبارے میں زیادہ بات کرتے ہیں کہ وہ جیتیں گے یا ہاریں گے۔ عوام انتخابیبانڈز پر عدالت کے فیصلہ پر بڑے پیمانے پر بحث کر رہی ہے اور مودیکا ”نا کھاؤں گا نا کھانے دوں گا” نعرہ پوری طرح سے بے نقاب ہوچکاہے۔ وہ اس معاملہ پر تمام اخلاقی حق کھو چکے ہیں۔
ان انتخابات میں اصل مقابلہ ”مودی-بی جے پی بنام ہندوستانی شہری ہے ۔ اس لیئے 220-230 سیٹیں جیتنا بی جے پی کے لیے ”بہت مشکل” ہوگا، جوکہ زعفرانی پارٹی کے اپنے لیے طے کردہ ہدف سے کافی کم ہے۔ تلنگانہ کی مثال لے لیں۔ بی جے پی کو 17 سیٹیوں میں سے دس سیٹیں ملنے کا یقین ہے۔ مگر یہاں پارٹی کو ایک دو سیٹیں بھی نہیں مل سکیںگی۔ جو اقتدار میں ہوتا ہے اسے حقائق کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔
سوال: آپ بی جے پی کے 370 سیٹیں حاصل کرنے کے دعوے کو حقارتکے ساتھ مسترد کر رہے ہیں ۔ اس کے پیچھے کیا دلیل ہے؟
جواب: میرے خیال میں مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ منیپور اور لداخ کے ہنگاموں کے اثرات کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ منریگا کےلیے مختص فنڈز کم ہیں شہری علاقوں سے لوگوں کی دیہی علاقوں کیطرف واپسی کے نتیجے میں یہ رقم صرف چھ ماہ میں ختم ہو گئی۔ حکمران جماعت کو ”الیکٹورل بانڈ ایشو” سے بہت نقصان پہنچے گا اوراپوزیشن کا ووٹ تقسیم نہیں ہوگا۔
سوال: تاہم، ایسا لگتا ہے کہ ہندو آبادی کے ایک بڑے حصے نے ہندوتوا کومتاثر کیا ہے؟
جواب: بی جے پی اور مودی فرسٹ ۔ پاسٹ ۔ دی پوسٹ انتخابی طریقہ کار کے سبب کامیاب رہے ہیں اور ان کے 38فیصد ووٹ ”سبسے بڑی اقلیت” بنے۔ ہندوستان میں، ہندو اکثریت پسندی نے تقسیم کےفوراً بعد زور نہیں پکڑا، جب حالات اس کے لیے سب سے زیادہسازگارتھے ۔ یہ انتہائی جذباتی لمحہ تھا اور بے چینی اور عدم استحکاممیں اضافہ ہوا کیونکہ دونوں برادریوں کے لاکھوں افراد بڑی تعداد میںنقل مکانی کر رہے تھے اور دونوں ممالک میں ہزاروں لاشیں پہنچ رہیتھیں۔ تاہم اس وقت ہندوستان میں اکثریت پسندی کو قبول نہیں کیا گیاتھا۔ ہندوستان کو واپس تاریک دور کی طرف گھسیٹا جا رہا ہے۔ اسصورت حال پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
سوال: بالفرض محال مودی حکومت انتخابات میں کامیابی حاصل کرتیہے تو وہ ایک قوم، ایک انتخاب، ایک زبان اور ایک مذہب کے اپنے ”ایجنڈا” پر عمل کرے گی ؟
جواب: آپ اس ملک کو پہچان نہیں پائیں گے، اس کا نقشہ ہی بدلجائے گا ۔ اگر نریندر مودی ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوتے ہیں تو یہ ملک کا آخری انتخاب ہوگا۔ ہندوستانی آئین اور اس کا نقشہ دونوں ہیمکمل طور پر بدل جائیں گے۔ وزیراعظم خود لال قلعہ سے کھل کر نفرتانگیز تقریریں کریں گے۔ اس کے بعد لال قلعہ کا برج قتل و غارت، افراد کو پاکستان جلاوطن کرنےا ور اس طرح کے دیگر واقعات سے متعلقمعلومات کا ذریعہ بنے گا۔ کوئی فرقہ وارانہ مہم سرگوشی میں نہیںچلائی جائے گی بلکہ یہ سب کھلے عام کیا جائے گا۔ منی پور اور لداخمیں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا پورا ملک بالآخر تجربہ کرے گا۔ یہ پورےملک کے ساتھ ساتھ معیشت کے لیے بھی تباہ کن ہوگا۔
سوال: آپ نے جو کتاب ”دی کروکڈ ٹمبر آف نیو انڈیا: اسیز آن اےریپبلک ان کرائسس” تحریر کی ہے اس کا محرک کیا ہے ؟
جواب: یہ بی جے پی ہی تھی جس نے خفیہ طور پر ہندوتوا کو متعارفکرایا۔ 2014 کا الیکشن ‘ترقی’ کے نعرہ پر جیتا۔ ترقی، صاف ستھری،بدعنوانی سے پاک انتظامیہ اور مہذب حکمرانی کا وعدہ کرکے ، مودیاور بی جے پی نے ووٹ مانگے۔ ہندو راشٹر کے قیام اور ہندوتوا کیطاقتوں کو مستحکم کرنے کا ان کا اصل مقصد ملک کے سامنے ظاہرنہیں کیا گیا۔ اس طرح ترقی کو ایک ٹروجن ہارس ( فریب دہی ) کے طورپر استعمال کیا گیا تاکہ ہندوتوا کو پورے ملک پر مسلط کیا جا سکے۔ اگر بی جے پی اور مودی یہی نمائندگی کرتے ہیں تو ان کی مزاحمت اورمخالفت کی جانی چاہیے۔