ممبئی سیریل دھماکوں  پر ہائی کورٹ کا فیصلہ

نہ جرم تھا، نہ ثبوت۔۔۔ پھر بھی 19 سال قید

 ابو ظفر عادل اعظمی
اگست 2025
court

بامبے ہائی کورٹ  نے بالآخر 19 سال  بعد ممبئی ٹرین بم دھماکوں کے ملزمین کو بے گناہ قرار دے دیا۔ جسٹس انیل ایس کیلور اور جسٹس شیام سی چنڈک پر مشتمل دو رکنی  ہائی بنچ کے مطابق استغاثہ نے جو ثبوت اور دلیلیں پیش کی ہیں وہ ان ملزمین کو قصور وار ٹھہرانے کے لیے  واضح طور پر ناکافی ہیں۔ واضح رہے کہ 2006 میں ممبئی کی لائف لائن کہی جانے والی لوکل ٹرینوں میں سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے تھے جن میں کل 187 لوگ ہلاک اور 824 زخمی ہوئے تھے۔ اس معاملے کی تفتیش مہاراشٹر کا انسداد دہشت گردی دستہ (اے ٹی ایس) کررہا  تھا اور اس نے 13 افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی تھی۔ ملزمین کے خلاف مکوکا نامی قانون بھی لگایا گیا تھا جس میں پولیس حراست میں لیے گئے اقبالیہ بیان کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ سال 2015 میں ممبئی کی ایک خصوصی عدالت نے اس معاملہ پر فیصلہ دیتے ہوئے ایک ملزم عبدالواحد شیخ کو بری کردیاتھا اور پانچ کو پھانسی اور سات ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

اس فیصلے سے جہاں ملزمین اور ان کے اہل خانہ نے راحت کی سانس لی کیوں کہ ان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں تقریبا دو دہائی کا عرصہ بیت گیا اور انہوں نے کم وبیش 19 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے بتادیے۔ کتنے قریبی رشتہ دار انصاف کے انتظار میں دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ان کے گھر اور رشتہ داروں میں جو بچے تھے اب جوان ہوگئے اورجوان بوڑھے ہوگئے۔ آج وہ اپنے گھر میں بھی کئی لوگوں کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ جوانی کے ان اہم سالوں کا کوئی حساب نہیں دے سکتا۔ حکومت ، عدلیہ اور پورا سیاسی نظام اب ان کو ان کے قیمتی سال کا کوئی معاوضہ دینے سے رہا اور اگر دے بھی دے تو اس کی بھر پائی کیوں کر ہوسکتی ہے۔ جیل کی اذیت اور اس سے پہلے پولیس حراست میں انسانیت سوز ٹارچر اور مظالم جس کی خبریں  وقتا فوقتا آتی رہی ہیں اور رہائی کے بعد بھی کچھ لوگوں نے بیان کیا ہے، ہمارے ملک،اس کے نظام اور پوری انسانیت کے لیے ایک بدنما داغ ہے جس کی بھرپائی کسی صورت میں بھی ممکن نہیں ہے۔

دوسرے، یہ سوال بھی انتہائی اہم ہے کہ جب عدالت نے ان کو بے گناہ قراردے دیا تو پھر  آخر ان دھماکوں کا اصل ذمہ دار کون تھا اور ابھی تک وہ قانون کی گرفت سے باہر کیوں ہے؟ قوت و طاقت، اسلحہ، ٹکنالوجی اور دیگر چیزوں سے لیس ہماری سیکورٹی ایجنسیاں اکثر اس طرح کے واقعات کا الزام غلط لوگوں کے سر کیوں ڈال دیتی ہیں؟ آخر وہ دو دہائی تک ساری ٹکنالوجی اور سہولیات ہونے کے باوجود اس جدید دور میں بھی اس دہشت ناک واقعے کے اصل مجرموں تک پہنچنے میں ناکام کیوں ہیں۔ واضح رہے کہ اسی اے ٹی ایس نے مالیگاؤں بم دھماکوں کا بھی الزام ان پر اور ان جیسے کچھ ملزمین پر لگایا تھا لیکن چند سال بعد تفتیش میں کچھ دوسرے ملزمین کے خلاف ناقابل انکار شواہد ملے اور پہلے سے گرفتار ملزمین کو رہا کرنا پڑا۔

11 جولائی 2006 کی شام ممبئی کی لوکل ٹرینوں کے فرسٹ کلاس ڈبوں میں سات زوردار بم دھماکے ہوئے۔ ان دھماکوں کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا جب آفس کا وقت عام طور پر ختم ہوتا ہے اور  ٹرینوں میں کافی بھیڑ ہوتی ہے۔ ابتدا میں سات مختلف پولیس اسٹیشنوں میں الگ الگ مقدمات درج کیے گئے، لیکن بعد میں ان سب کی تحقیقات اے ٹی ایس کے سپرد کردی گئی۔ اس کیس میں 13 افراد کو گرفتار کیا گیا، جب کہ  15 مفرور اور 2 پاکستانی نژاد ملزمین  (جو بعد میں ہلاک ہو چکے تھے) پر بھی الزامات لگائے گئے۔

ان ملزمین  پر تعزیراتِ ہند ہند کی متعدد دفعات، یو اے پی اے، ایکسپلوزیو ایکٹس، ، ریلوے ایکٹ ، عوامی املاک کو نقصان سے بچانے والا قانون اور مکوکا کے تحت الزامات طے کیے گئے۔پولیس تحقیقات میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ حملہ ایک بڑی اور لمبی سازش کا نتیجہ تھا، جس میں سیمی اور لشکرِ طیبہ شامل تھیں۔ استغاثہ نے دعویٰ کیا کہ 1999 سے 2006 کے درمیان اس کا منصوبہ بنایا گیا۔ ان میں پاکستان میں تربیت، نیپال اور بنگلہ دیش کے راستے دراندازی اور ممبئی میں بموں کی تیاری شامل تھی ۔ حملہ آور چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہو اور ملک کے امن و امان کو نقصان پہنچایا جا سکے اسی لیے انہوں نے لوکل ٹرینوں کا انتخاب کیا اور اس وقت جب کہ اس میں زیادہ بھیڑ ہوتی ہے۔

30 ستمبر 2015 کو خصوصی عدالت نے 13 میں سے 12 ملزمین  کو مجرم قرار دیا۔ پانچ کو سزائے موت اور بقیہ  کو عمر قید کی سزا سنائی۔ ایک ملزم کو بری کر دیا گیا اور اس پر حکومت نے اپیل نہیں کی۔ خصوصی عدالت کے فیصلہ کے بعد معاملہ ہائی کورٹ پہنچا۔ وکلا نے مقدمے کی مکمل ساکھ پر سوال اٹھائے۔ ان کا مؤقف تھا کہ مکوکا کا استعمال غلط تھاکیوں کہ قانون کے تحت مطلوبہ شرط “مسلسل غیرقانونی سرگرمی” پوری نہیں ہوتی تھی۔ اس دوران ایک  ملزم کمال انصاری کی  دورانِ اپیل 2021 میں کورونا سے حراست میں ہی موت ہوگئی۔

دفاع نے یہ بھی اعتراض کیا کہ ملزمین  سے لیے گئے اقبالیہ بیانات پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ ان سے وکیل رکھنے کا حق چھینا گیا اور ان پر تشدد کے شواہد کی جانچ کے لیے کوئی میڈیکل جانچ نہیں کی گئی۔ قانونی طور پر ضروری “cooling-off period” بھی نہیں دیا گیا اور نہ ہی قانون کے تحت لازمی سرٹیفکیٹس  اور دستاویز پیش کیے گئے۔اس کے علاوہ پولیس حراست میں تشدد، گواہوں کے بیانات میں تضادات، شناختی پریڈ میں بے ضابطگیاں اور شواہد میں کمزوریاں بھی دفاع کی طرف سے اٹھائے گئے نکات میں شامل تھیں۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کی بنیاد:

دفاعی وکلا کے مطابق  7 نومبر 2006 کو چار ملزمین کی جو شناختی پریڈ ہوئی اس کی کوئی قانونی  حیثیت نہیں تھی کیوں کہ جس افسر (SEO)نے یہ پریڈ کروائی اس دن اس کے پاس ایسا کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا۔عدالت نے پایا کہ اس افسر کی مدت 7 مئی 2005 کو ختم ہو چکی تھی اور نئی تقرری 15 نومبر 2006 کو ہوئی۔ یعنی جب شناختی پریڈ کروائی گئی اس وقت وہ باقاعدہ طور پر اس عہدے پر نہیں تھا۔ اس لیے عدالت نے اس دن ہونے والی شناختی پریڈ کو ناقابلِ قبول قرار دے دیا۔

استغاثہ نے کئی گواہوں کو عدالت میں پیش کیا تھا جنہوں نے مختلف طریقوں سے ملزمین  کو پہچاننے کا دعویٰ کیا تھا۔ کچھ گواہ ایسے تھے جن کا دعویٰ تھا کہ وہ  ملزمین کو بم دھماکے والے دن ٹیکسی میں ساتھ لے کر گئے تھے۔ لیکن ان کی گواہی میں مسئلہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنے بیانات کئی مہینوں بعد دیے اور ان کے ذریعہ  شناخت بھی چار سال بعد ہوئی۔ عدالت نے کہا کہ اتنے وقت بعد ان کا ملزمین  کو پہچاننا مشتبہ ہے کیوں کہ گواہوں کو ان کے چہروں کو یاد کرنے کا اتنا وقت نہیں مل سکا تھا۔

دوسری طرح  کےوہ گواہ تھے جن کا دعویٰ تھا کہ انہوں  نے ٹرین میں بم رکھتے ہوئے ملزمین  کو دیکھا تھا مگر ان میں سے اکثر کے ذریعہ شناختی  پریڈ ایک ایسے افسر نے کرائی تھی جس کے پاس اُس وقت اختیار ہی نہیں تھا۔ اس وجہ سے عدالت نے ان کی گواہی کو رد کر دیا۔ اکثر گواہوں نے 100 وین دن یا اس کے بعد اپنے بیان درج کروائے۔اس کا مطلب تھا کہ وہ طویل عرصے تک خاموش رہے۔ ان گواہوں نے عدالت میں چار سال سے زیادہ عرصے بعد ملزمین  کی شناخت کی، لیکن عدالت کو ان کے حافظے کے یکایک بحال ہونے اور ملزمین  کو پہچاننے کی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آئی۔ ان تمام وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ان گواہوں کے بیانات پر سزا کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ایک گواہ جس کے ذریعہ شناختی پریڈ چارماہ بعد کروائی گئی کو عدالت نے قابل اعتماد نہیں مانا کیوں کہ عدالت نے اس کو  ایک “اسٹاک گواہ” قراردیا  جو چار مختلف مقدمات میں پنچ گواہ کے طور پر شامل ہو چکا تھا۔

تیسرے وہ گواہ تھے جنہوں  نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے بم بنانے کی سازش کو دیکھا تھا لیکن ان کی بھی گواہی میں کافی تضاد تھے۔ ان میں سے ایک نےجرح کے دوران یہ کہا کہ وہ خود گھر کے اندر نہیں گیا تھا، بلکہ اس کے دوست نے اس بات کا ذکر کیا تھا۔ ایک اور گواہ نے دعویٰ کیا کہ وہ سازش کے بارے میں جانتا تھا لیکن وہ ان افراد کے نام تک نہیں بتا سکا جن کے ساتھ وہ میٹنگ میں تھا۔ عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ یہی شخص گھاٹ کوپر بم دھماکہ میں بھی پولیس کا گواہ تھا۔

ایک گواہ نے دعویٰ کیا کہ وہ سازش کا چشم دید گواہ ہے، لیکن اس نے خود تسلیم کیا کہ اسے یہ علم نہیں تھا کہ ان میٹنگوں میں کیا بات چیت ہوئی۔  کچھ ایسے گواہ بھی تھے جنہوں نے مشتبہ افراد کے تصویری خاکے بنوانے میں مدد دی تھی لیکن ان گواہوں کو نہ تو کبھی شناختی پریڈ میں بلایا گیا اور نہ ہی انہیں گواہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ عدالت نے ان تمام وجوہات کی بنا پر ان گواہوں کی گواہیوں پر اعتبار نہیں کیا۔

تحقیقات کے دوران مختلف اشیاء برآمد ہوئیں، جن میں آر ڈی ایکس، گرانولز، دھماکہ خیز آلات، پریشر کوکر، سرکٹ بورڈ، سولڈرنگ گن، کتابیں اور نقشے شامل تھے۔ ان میں سے سب سے اہم ثبوت آر ڈی ایکس، گرانولز اور دھماکہ خیز  آلات کی برآمد گی تھی، کیوں کہ یہ دھماکوں سے براہِ راست جڑی ہوئی تھیں۔  تاہم عدالت نے ان شواہد کو قابل اعتناء نہیں سمجھا کیوں کہ استغاثہ یہ ثابت نہیں کر سکا کہ یہ اشیاء صحیح طریقے سے محفوظ اور مہر بند رکھی گئیں، جیسا کہ قانون کے تحت ہونا چاہیے تھا، تاکہ انہیں فورنسک لیب میں لے جایا جا سکے۔ اس کے علاوہ استغاثہ  یہ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ دھماکوں میں کون سی قسم کے بم استعمال ہوئے تھے۔ اس لیے عدالت نے  ان برآمدات قابلِ اعتبار نہیں سمجھا۔

مکوکا کا اطلاق اور اقبالیہ بیان:

اے ٹی ایس نے اس کیس میں مہارشٹر آرگنائز کرائم کنٹرول ایکٹ یعنی مکوکا بھی لگایا۔ اس قانون کے تحت پولیس حراست میں دے گئے اقبالیہ بیان کو عدالت میں بطور ثبوت مانا جاتا ہے۔ لیکن اس قانون کو نافذ کرنے کے لیے خاص طریقہ کار اور منظوری ضروری ہوتی ہے۔ عدالت نے پایا کہ  مکوکو کے نفاذ میں ضابطوں کو  پوری طرح نہیں اپنایا گیا۔ واضح رہے کہ مکوکا کا اطلاق کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملزم کسی مجرمانہ گینگ سے وابستہ ہو اور وہ مستقل منظم جرائم میں ملوث ہو۔ اس پر گزشتہ دس برسوں میں سنگین معاملات میں دو چارج شیٹ دائر ہوچکی ہوں۔ اسی طرح کم از کم ڈی آئی جی سطح کے کسی پولیس افسر کی تحریری اجازت بھی ضروری ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ نوٹ کیا کہ ملزمین پر مکوکا کا اطلاق غلط طور پر کیا گیا۔ کئی ملزمین کا کرائم ریکارڈ ایسا نہیں تھا، کچھ کا تھا لیکن ان کے خلاف ہلکے معاملے زیر التوا تھے اور کئی ان الزمات سے متعدد عدالتوں کے ذریعہ بری قراردے دے گئے تھے۔ ہائی کورٹ نے ہی بھی نوٹ کیا کہ اے ٹی ایس افسر نے مکوکا کے اطلا ق کے لیے صرف زبانی طور پر اپنے سینئر افسر کو رپورٹ کیا اور مذکور ہ افسر نے بنا ثبوت دیکھے مکوکا لگانے کی اجازت دے دی۔ بعد میں جو دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں، وہ منظوری کے بعد حاصل کی گئی تھیں۔ عدالت نے اس کو غیر ذمہ داری سے تعبیر کیا۔ عدالت نے کہا کہ مکوکا نافذ کرنے کا پورا عمل غلط تھا اور بغیر سوچے سمجھے کیا گیا۔

اقبالیہ بیان بھی مار پیٹ اور تشدد کے ذریعے لیے گئے۔ کئی ملزمین  نے بتایا کہ انہیں بے تحاشا مارا گیا، بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور ذہنی و جسمانی اذیت دی گئی۔ عدالت نے کہا کہ  پولیس افسران نے یہ جانچنے کی کوشش نہیں کی کہ اقبالیہ بیان رضا مندی سے دیے گئے تھے یا نہیں۔  اقبالیہ بیان میں مختلف حکام کی جانب سے بیان کی گئی دفعات میں تضاد پایا گیا۔ بیان کے ساتھ جو سرٹیفکیٹ ہونا چاہیے تھا، وہ یا تو غائب تھا یا اس میں قانونی شرائط پوری نہیں کی گئی تھیں۔ پراسیکیوشن کے زبانی بیانات سے بھی یہ ثابت نہیں

ہوسکا کہ یہ اقبالیہ بیان ملزمین کی مرضی سے درج ہوئے تھے۔ بیان صحیح اور مکمل نہیں تھے، کیوں کہ  کئی بیانوں  میں  بہت سی باتیں ایک دوسرے سے نقل کی ہوئی اور ایک جیسی تھیں۔ سارے ملزمین نے بعد میں عدالت میں  اپنے’ اقبالیہ بیان’ سے انکار کیا۔

کال ڈیٹا ریکارڈ:

ان لوگوں کو جب گرفتار کیا گیا تھا تو تفتیش کے نام پر ان کو مہینوں پولیس حراست میں رکھا گیا۔حراست کی مدت کی توسیع کے لیے اے ٹی ایس نے کئی بار ان کے فون کال  ریکارڈ عدالت میں دئے اور کہا کہ یہ لوگ دھماکہ کے وقت جائے وقوعہ پر موجود تھے اور اس کے علاوہ پاکستانی دہشت گردوں کے رابطہ میں تھے اور اس ضمن میں ان سے مزید تفتیش کی جانی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر جب اس کیس کی چارج شیٹ آئی تو اس سے کال ڈیٹا ریکارڈ غائب تھا۔ ملزمین کا کہنا تھا کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے اور نہ ہی کسی مشتبہ شخص سے رابطہ میں تھے۔ ان کو یقین تھا کہ ٹرائل کے دوران جب ان کے فون کا ریکارڈ پیش ہوگا تو سچائی سامنے آجائے گی لیکن اے ٹی ایس نے اسےاس کیس کا حصہ نہیں  بنایا بلکہ بار بار مطالبہ اور عدالت کے حکم کے باوجود ملزمین کو کال ڈیٹا ریکار ڈ(CDRs) فراہم نہیں کیا ۔ جب انہوں نے ٹیلی کام کمپنی سے رابطہ کیا تو وہاں سے بھی کال ڈیٹا ریکارڈ لینے میں رخنے ڈالے۔ جب یہ معاملہ عدالت میں گیا تو اے ٹی ایس نے کہا کہ اس نے اس کو ڈیلیٹ کردیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ استغاثہ کی طرف سے CDRs کو پیش نہ کرنا اور انہیں مٹانا کیس کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور اس سے استغاثہ کے خلاف منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ استغاثہ کے مطابق دھماکہ کی  سازش کے لیے ملاقاتیں باندرہ کے ایک پلانٹر کے گھر پر ہوئیں، جہاں چار دیگر ملزمین  بھی شامل تھے۔  اس کے علاوہ  ایک گواہ کی پلانٹر اور دوسروں سے میرا روڈ کے قریب شمس مسجد کے پاس ملاقات ہوئی، جہاں پلانٹر نے گواہ کو حکم دیا کہ وہ ایک اور ملزم کو وہاں بلائے۔عدالت نے کہا کہ ان تمام دعوؤں کو CDRs کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا تھا مگر CDR کو مٹا دیا گیا جس سے تحقیق کی شفافیت پر سوال اٹھتا ہے۔

ہائی کورٹ نے کہا  کہ قانون کے نفاذ اور شہریوں کی حفاظت  کو یقینی بنانے کے لیے اصل مجرم کا پکڑا جانا ضروری ہے ۔ عدالت نے متنبہ کیا کہ کیس بند کرنے کے لئے بے گناہ لوگوں کو پکڑنا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔

میڈیا کا رول:

اس طرح کے معاملے میں میڈیا کا رول اکثر مجرمانہ اور معاندانہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ اسے کب اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا موقع ملے۔ جب یہ دھماکے ہوئے تو میڈیا نے پولیس کی کہانی کو عام طور پر من وعن پیش کیا۔ مہینوں تک اسلام، مسلمان، مسلم محلے، جہاد، مسلم تنظیمیں اس کی نفرت کا عنوان رہے۔ کوئی ان سے یہ نہیں پوچھ سکا کہ جب یہ معاملہ عدالت میں زیر غور ہے  تو آپ پولیس کی کہانی کو ایک طرفہ کیسے صحیح قرار دے سکتے ہیں۔ میڈیا گویا جج اور عدالت کا کام کرنے لگا اور اس معاملے کے ملزمین  کو مجرم گرداننے لگا۔

گوکہ اس طرح کےمعاملات میں پہلے عام طور پر رہائی یا بری ہونے کی خبر میڈیا سے غائب رہتی تھی یا اگر میڈیا اس کو کور بھی کرتا تو چھوٹی سی خبر  بناکر اور اخبار کے اندر کے صفحات کے کسی کونے میں، لیکن ادھر کئی سالوں سے اس رجحان میں تبدیلی آئی ہے۔ اس کی ایک وجہ سوشل میڈیا ہے اور دوسرے اس طرح کے  پے درپےکئی واقعات ہوگئے جس میں عدالتوں نے سالوں کے ٹرائل کے بعد ملزمین کو بے قصور قراردیا۔

اس فیصلہ کے بعد بھی میڈیا کا عمومی رجحان بہت اچھا نہیں رہا۔ عام طور پر اخباروں اور چینلوں پر فیصلہ کی تفصیل دی گئی کہ عدالت نے کیا کہا۔ لیکن بہت سارے اخبارات اور چینلوں پر فیصلے کو اس طرح پیش کیا گیا کہ گویا جج حضرات نے ان لوگوں کو چھوڑ کر غلطی کی۔ کچھ اخباروں نے دھماکوں کے متاثرین کی افسردگی اور مایوسی کو بھی جگہ دی، جو انصاف نہ ملنے پر افسردہ تھے۔ یہ سوال کم ہی کیا گیا کہ آخر ان بے گناہ لوگوں کو 19 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیوں رکھا گیا ؟ ان کے اور ان کے اہل خانہ کو ان سالوں میں جس کرب اور پریشانی سے گزرنا پڑا، اس کا بھی ذکر مین اسٹریم میڈیا سے تقریبا خالی تھا۔ یقینا بم دھماکوں کے متاثرین کا کرب اہم ہے لیکن اس کو غلط افراد پر الزام لگاکر اور ان کو سزا دے کر کم نہیں کیا جاسکتا۔

ان افراد کی گرفتاری  اور اس کے بعد کی  رپورٹنگ کا رہائی کے بعد کی رپورٹنگ سے  اگر موازنہ کیا جائے یا کم ازکم ایک جگہ جمع کردیا جائے  تو ان تما م صحافیوں اور میڈیا اداروں کے لیے، اگر ان میں کچھ شرم بچی ہو تو ڈوب مرنےکا مقام ہوگا ۔

اس پورے معاملے میں جمیعۃ علمائے ہند (مولانا ارشد مدنی) کا کردار کافی اہم رہا۔ جمیعت کے لیگل سیل کے انچارج مولانا گلزار اعظمی ،جن کا چند سال قبل انتقا ل ہوگیا، نے انتھک محنت کی۔ ملزمین اور ان کے اہل خانہ نے سخت مراحل میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ جیل کے ایام کو انہوں نے اپنی تربیت کے لیے استعمال کیا۔ کئی لوگوں نے قرآن حفظ کرلیا۔ کچھ نے وکالت کی ڈگری بھی حاصل کی۔ کیس کی پیروی کررہے وکلا کی جیل کے اندر سے مدد کرتے رہے۔ اے ٹی ایس کے کئی جھوٹ جیل کے اندر سے ہونے والی آرٹی آئی سے بے نقاب ہوئے اور اس سے ان کی بے گناہی ثابت ہونے میں مدد ملی۔ فیصلہ کے بعد مہارشٹر حکومت نے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور آنا فاناََ اس کو اتنی کامیابی مل گئی کی سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ تک یہ دوسرے مقدمات میں نظیر نہیں بن سکتا۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.