مسلم ریزرویشن پر قانونی بحث

آخر انہیں مسلمانوں کی پسماندگی کیوں نظر نہیں آتی ؟

نور اللہ جاوید
دسمبر 2024

یونیفارم سول کوڈ پر مسلم تنظیمیں اور جماعتیں اپنے تحفظات کو جب بھی سامنے رکھتی ہیں تو دوسری طرف سے پرزورانداز میں سوال کیا جاتا ہے کہ ملک آئین سے چلے گا یا پھر قرآن سے؟ جب کہ یہ سوال ہی بنیادی طور پر غلط اور بھرم پیدا کردینے والا ہے۔ آئین کے نام پر مسلمانوں کو مذہبی آزادی سے محروم کرنے کی کوشش کرنے والوں سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے جس آئین کا وہ حوالہ دے رہے ہیں اسی آئین نے سماجی انصاف کا وعدہ کیا ہے۔ آئین نے ملک کے ہر شہری کو یکساں مواقع اور سماجی انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کی ہے۔ اور اسی آئین میں مساوات کے حصول کے لیے  پسماندہ افراد کو خصوصی دفعات کے تحت تحفظات فراہم کرنے کی  گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ سماجی انصاف کے تقاضے کے تحت جب بھی مسلمانوں کو ریزرویشن فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو  عدلیہ سے لے کر سیاسی جماعتوں اور ہندوتو گروپ تک اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں ۔مرکزی حکومت بنام اندرا ساہنی کے فیصلے کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ مذہبی بنیاد پر کسی بھی کمیونیٹی کو ریزرویشن فراہم نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اس سال مئی 2024 میں کلکتہ ہائی کورٹ نے 2010کے بعد او بی سی زمرے میں شامل کی گئیں  77مسلم برادریوں اور جاری کئے گئے ان کے اوبی سی سرٹیفکٹس کو منسوخ کردیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف مغربی بنگال حکومت سپریم کورٹ سے رجوع کرچکی ہے۔ بنگال حکومت متعدد مرتبہ فوری سماعت کی اپیل بھی کرچکی ہے مگر عدالت اپنی ہی رفتار سے سماعت کررہی ہے ۔ اس ہفتہ اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھن پرمشتمل بنچ نےایک بار پھر تبصرہ کیا کہ ریزرویشن مذہب کی بنیاد پر نہیں دیا جانا چاہیے۔ پھر کیا تھا کہ بنچ کا یہ تبصرہ میڈیا میں خوب اچھالا گیا اور یہ تاثر قائم کیا گیا کہ بنگال میں مسلمانوں کو ریزرویشن مذہب کی بنیاد پر فراہم کیا گیا ہے۔ جب کہ بنچ نے سماعت کے دوران کئی اور بھی اہم تبصرے کئے جو بنگال میں مسلم ریزرویشن کے حق میں تھے۔جسٹس وشواناتھن نے کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں خامیوں کی طرف نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ ریزرویشن فراہم کرنے کا اختیار ایگزیکٹیو سے نہیں چھینا جاسکتا ہے۔

22مئی 2024کو کلکتہ ہائی کورٹ نے 77 مسلم طبقات کو ریزرویشن اور اس کی بنیاد پر جاری کئے گئے  اوبی سی سرٹیفکٹ کو منسوخ کرتے ہوئے  211 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں جو تبصرے کئے ہیں وہ اس ملک کے عدالتی نظام میں سماجی عدم تنوع کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بھارت کے عدالتی نظام کا سب سے بڑاالمیہ یہی ہے کہ حکمرانی کے دیگر شعبوں کی طرح عدالتی نظام پر بھی اشرافیہ کا ہی دبدبہ ہے ۔بار اور بنچ دونوں ہی اعلیٰ ذاتوں کے زیر اثر ہیں۔ جب کہ اعلیٰ ذات ملک کی آبادی کا 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ چنانچہ جب بھی 90 فیصد غیر نمائندہ ذاتیں اپنے حقوق کے حصولیابی کے لیے جدو جہد کرتی ہیں تو انہیں عدالتوں سے مایوسی ہی ہاتھ آتی ہے۔متنوع سماج کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے  لازمی تھا کہ بار اور بنچ (عدالتی نظام جس میں جج، وکیل اور دیگر عدالتی عملہ شامل ہے) میں تنوع ہوتا اور سماج کے تمام طبقات کی یکساں نمائندگی ہوتی۔ اس وقت بھارت کے عدالتی نظام پر مخصوص طبقات اور چندخاندان کا قبضہ ہے اسی بناء پر عدالتیں انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں ۔ انصاف کی فراہمی جو جمہوریت کی بقا کے لیے  لازمی ہے، کا عمل مکمل طور پر رک سا گیا ہے۔ عدالت کا یہ رجحان  ایسے معاملات میں سب سے زیادہ شدت سے ظاہر ہوتا ہے جب پسماندہ طبقات کو سماجی برابری، مساوات اور انصاف فراہم کرنے کا سوال سامنے آتا ہے۔ ریزرویشن سماجی پسماندگی اور مساوات قائم کرنے کا ایک بہترین راستہ ہے، مگر جب جب عدالت کے سامنے ریزرویشن کا مسئلہ آتا ہے عدالت کا رویہ انتہائی سخت ہوجاتا ہے۔ مگر مرکزی حکومت کے معاشی طور پر پسماندہ اعلیٰ ذاتوں کو 10فیصد ریزرویشن دئے جانے کے فیصلے کو اس سخت آزمائش سے گزارنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کی بات آتی ہے تو عدالتی جانچ مزید سخت ہوجاتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کلکتہ ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ ہے۔

کلکتہ ہائی کورٹ نے ناقص آئینی تشریحات اور سماجی تنوع کی ضرورت کا ادراک کئے بغیر اپنے فیصلے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ 77مسلم برادریوں کو اوبی سی میں شامل کرنے کا فیصلہ محض مذہبی سیاست کا نتیجہ ہے۔ ہائی کورٹ نے بنگال حکومت کے دائرہ کار اور بیک ورڈ کلاس کمیشن کے اختیارات کو بھی سلب کرلیا اور سروے کی معتبریت پر بھی سوال اٹھایا ہے ۔اس سے قبل 2004میں غیر منقسم آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے بھی راج شیکھر ریڈی کی حکومت کے ذریعہ مسلمانوں کو پسماندہ برادری میں شامل کرنے کے فیصلہ پر روک لگادی تھی۔ پسماندگی کے شکار بنگال کے مسلمانوں کو سماجی انصاف کی فراہمی سے محروم کرنے والا یہ فیصلہ دراصل عدلیہ میں اعلیٰ ذات کے ججوں کی بالادستی کا نتیجہ ہے۔کلکتہ ہائی کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں کو دیگر پسماندہ طبقات کے کوٹے میں ریزرویشن فراہم کرنے کے خلاف ایک خطرناک قدم ہے۔

درج فہرست ذاتوں اور قبائل کو ریزرویشن نسل پرستی پر مبنی تعصبات کے خاتمے کے لیے  آئینی طور پر فراہم کیا گیا ہے۔ جب کہ پسماندہ طبقات کو ریزرویشن 1992میں منڈل کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر فراہم کیا گیا ہے۔آئین میں 93 ویں ترمیم کے ذریعے او بی سی کو 27 فیصد ریزرویشن کا انتظام کیا گیا تھا۔اندرا ساہنی بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس میں عدالت نے واضح کیا تھا کہ کسی بھی کمیونیٹی کو ریزرویشن مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذات کی پسماندگی کی بنیاد پر فراہم کیا جائے گا۔ تاہم آرٹیکل 15(4) اور 16(4) کے تحت یہ بات بھی کہی گئی کہ ریزرویشن سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندگی کا شکار مذہبی اقلیتوں کو بھی فراہم کیا جائے گا۔ ان دونوں آرٹیکلس نے او بی سی میں مسلمانوں کے لیے ذیلی کوٹا دینے کی راہ ہموار کی۔ چنانچہ مذہبی اقلیتوں کو ریزرویشن فراہم کرنے کی شروعات 1956  میں کیرالہ سے ہوئی، جب 10 فیصد ذیلی کوٹہ فراہم کیا گیا (اب ملازمت میں 12 فیصد اور تعلیم میں 8 فیصد)- تیسرے پسماندہ طبقات کمیشن (چنپا ریڈی کمیٹی، 1990) کی سفارشات میں پایا کیا گیا تھا کہ بعض مسلم طبقات  پسماندہ طبقات کے زمرے کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں ۔ چنانچہ اس کے بعد ہی جنتا دل کرناٹک حکومت جس کی سربراہی ایچ ڈی دیوے گوڑا کررہے تھے نے 36 مسلم ذاتوں کو 4 فیصد ریزرویشن فراہم کردیا۔کرناٹک کی سابق بی جے پی حکومت نے 2023 میں اس کوٹہ کو ختم کر دیا اور اسے غالب ہندو ذاتوں، جیسے ووکلیگا اور لنگایت میں تقسیم کر دیا۔ بی جے پی راگ الاپتی رہی کہ چوں کہ یہ ریزرویشن مسلم برادری کو مذہب کی بنیاد پر دیا گیا ہے اس لئے اس کو ختم کرنا آئینی تقاضا ہے۔

غیر منقسم آندھرا پردیش میں راج شیکھر ریڈی کی قیادت والی حکومت کے ذریعہ مسلم برادریوں کو اوبی سی کوٹہ میں ذیلی کوٹہ فراہم کرنے کو بھی سخت عدالتی آزمائش سے گزرنا پڑا۔ جب کہ ریڈی حکومت نے اقلیتی بہبود کے کمشنر کی مسلمانوں کی سماجی، معاشی اورتعلیمی پسماندگی پر ایک رپورٹ کی بنیاد پر پوری برادری کو پسماندہ تصور کرتے ہوئے پانچ فیصد کوٹہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر آندھرپردیش ہائی کورٹ نے اس فیصلے کی سخت جانچ کی اور اس کو ختم کردیا۔ آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے تکنیکی بنیاد پر کہ ریاستی پسماندہ طبقات کمیشن سے مشاورت نہیں کی گئی تھی، جیسا کہ اندرا ساہنی مقدمہ میں لازمی قرار دیا گیا تھا۔تکنیکی خرابی کو درست کرکے ریاستی حکومت نے 2005 میں آرڈیننس دوبارہ جاری کردیا ۔ اس کو ایک بار پھر آندھرا پردیش ہائی کورٹ کی یک رکنی بنچ نے بی ارچنا ریڈی بمقابلہ ریاست آندھرا پردیش میں مسترد کر دیا اور یہ دلیل دی کہ سماجی پسماندگی کی صحیح شناخت کئے بغیر پوری برادری کو فائدہ نہیں پہنچایا جا سکتا۔ریاست نے اس معاملے کو دوبارہ پسماندہ طبقات کمیشن کے پاس بھیج دیا اور اس کی رپورٹ کی بنیاد پر 2007 میں ایک اور قانون نافذ کیا جس میں صرف 14 مسلم ذاتوں جیسے دھوبی، قصاب، بڑھئی، باغبان، حجام وغیرہ کو ریزرویشن فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ آندھرا پردیش ہائی کورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ نے روک لگارکھی ہے- اس پورے معاملے پر آئینی بنچ کو غور کرنا ہےکہ پسماندگی کے شکار مذہبی اقلیتوں کو ریزرویشن فراہم کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟۔گزشتہ 14برسوں سے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

کلکتہ ہائی کورٹ نے مغربی بنگال حکومت کی طرف سے مارچ 2010 سے مئی 2012 کے درمیان جاری کردہ احکامات کی ایک سیریز کو مسترد کر دیا جس کے ذریعے 77 طبقات، جن میں سے 75 مسلم ہیں، کو دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) زمرے کے تحت ریزرویشن دیا گیا تھا۔جسٹس تپبرتا چکرورتی اور جسٹس راج شیکھر منتھا کی ایک ڈویژن بنچ نےکہا کہ ان 75مسلم ذاتوں کو ریزرویشن کی فراہمی کی واحد بنیاد صرف مذہب ہے جو کہ آئین اور عدالتی احکامات کے ذریعے ممنوع ہے۔ مغربی بنگال کے پسماندہ طبقات (درجہ فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے علاوہ) ریزرویشن آف اسامیوں اور پوسٹس ایکٹ 2012 (2012 ایکٹ) کے بعض دفعات کو بھی بغیر کسی چیلنج کے اور بغیر  عرضی گزارکے اعتراض کے ختم کردیا گیا۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے درخواست گزاروں کے اس دعویٰ کو من و عن تسلیم کرلیا کہ او بی سی کی فہرست میں شامل 77 پسماندہ ذاتیں مسلمان سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جب کہ ان 73مسلم ذاتوں میں زیادہ ترسماجی لحاظ سےانتہائی پسماندہ ذاتیں ہیں جن کا تعلق اجلاف (شودر) اور ارزل (دلت) زمروں سے ہے۔ ان میں کئی ایسی برادریاں ہیں جو مرکزی حکومت کے ذریعہ جاری اوبی سی فہرست میں شامل ہیں۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے ریزرویشن کو ختم کرنے کے لیے   چار اہم بنیادی وجوہات بیان کی ہیں۔  پہلی وجہ یہ بتائی گئی کہ  ان ذاتوں کو ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعہ شامل  کیا گیا۔ دوسری وجہ مغربی بنگال پسماندہ کمیشن سے ذیلی زمرہ بندی پر مشاورت نہیں کی گئی۔ تیسرا،او بی سی کمیشن کی سفارشات پوری آبادی کے گہرائی سے تجرباتی سروے پر مبنی نہیں تھیں۔ چوتھا، ان ذاتوں کی ریاستی خدمات میں”نمائندگی کی ناکافی” کا مکمل جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں کلکتہ ہائی کورٹ نے سچر کمیٹی کے نتائج کو اس بنیاد پر مسترد کردیا کہ اس کے 2006 کے اعداد و شمار کو 2010 میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے مسلمانوں میں سماجی عدم مساوات پر سوال کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ یہ قدم دراصل مسلمانوں کی توہین ہے۔

سچر کمیٹی کی رپورٹ جس نے مغربی بنگال کے مسلمانوں کی پسماندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ مجموعی طور پر بنگال کے مسلمانوں کے حالات دلتوں سے بھی بدتر ہیں۔حکومتی اداروں میں ان کی نمائندگی کم ہے اور تعلیمی اداروں میں بھی مسلم طلبہ کی تعداد انتہائی کم ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ سچر کمیٹی رپورٹ کی وہ آئینی حیثیت نہیں ہے جو کے کسی کمیشن کی ہوتی ہے،  تاہم چوں کہ یہ وزیر اعظم کے ذریعہ قائم کردہ اعلیٰ سطحی کمیٹی تھی اور اسی  کی رپورٹ کی بنیاد پر جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن نے مسلمانوں کو ریزروریشن فراہم کرنے کی سفارش کی تھی۔اس لئے سچر کمیٹی کی رپورٹ کو آسانی سے خارج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی اعداد وشمار سالانہ بنیاد پر فراہم نہیں کئے  جاتے ہیں۔ مردم شماری ہر 10 سال بعد ہو تی ہے۔ 1991 میں، منڈل کمیشن کی رپورٹ نے 1931 کی مردم شماری کے اعداد و شمارکا حوالہ دیتے ہوئے او بی سی کو 27 فیصد ریزرویشن دینے کی سفارش کی تھی۔ ایسے میں کلکتہ ہائی کورٹ چار سال سے کم پرانی سچر کمیٹی کی رپورٹ کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے؟۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے کہا کہ بنگال میں مسلم اوبی سی کا ریزرویشن کے لیے  جامع سروے نہیں کیا گیا ہے مگر اس نے اس حقیقت کو فراموش کردیا کہ منڈل کمیشن نے 406 اضلاع میں سے 405  اور ان میں بھی صرف دو گاؤں اور ایک بلاک کا سروے کیا تھا۔ مسلمانوں کو ریزرویشن کو یہ کہہ کر خارج کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ سچر کمیٹی نے صرف مسلمانوں کے لیے (پیرا 106) میں مساوی مواقع کمیشن کی سفارش کی تھی۔اس کے علاوہ عدالت نے کہا کہ مغربی بنگال کمیشن برائے پسماندہ طبقات کو سروے کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف بنگال حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کررکھی ہے۔ معاملے کی اہمیت و نوعیت کے باوجود سپریم کورٹ نے کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر عارضی روک نہیں لگائی ہے اور اب تک واضح نہیں ہے کہ اس معاملے کی سماعت کب تک مکمل ہوگی ۔مگر بنیادی سوال یہی ہے کہ سپریم کورٹ کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر فوری روک کیوں نہیں لگارہا ہے۔ دوسرے یہ کہ جب بھی مسلمانوں کو سماجی انصاف اور مواقع فراہم کرنے کا موقعہ آتا ہے تو اس کو یہ کہہ کر کیوں خارج کردیا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ مذہب کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔بجب آئین میں سماجی انصاف کی فراہمی کے لیے  مذہبی اقلیتوں کو ریزرویشن کی گنجائش ہے تو پھر مسلمانوں کے نام پر ہی کیوں سیاست کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ووٹ بینک کی سیاست میں مسلمان سب سے آسان چارہ ہیں اس لئے مسلمانوں کے نام پر پولرائزیشن کی سیاست کی جاتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سماجی انصاف اور یکساں مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ میں بنگال حکومت کی وکیل واضح لفظوں میں کہہ چکی ہے کہ مسلمانوں کے 77مسلم برادریوں کوریزیرویشن دینے کا فیصلہ سماجی و ڈیٹا کی بنیاد کیاگیا ہے اور اس کے پاس اعداد و شمار موجود ہیں۔سپریم کورٹ کےفیصلے میں تاخیر کے باعث بڑی تعداد میں ریزرویشن کے ذریعہ اعلیٰ تعلیمی ادارں میں داخلہ لینے والے افراد  محروم رہ جائیں گے۔اسی طرح ملازمتوں کے حصول کا بھی معاملہ  ہے۔ پسماندگی کا شکار مسلمانوں کے لیے  یہ دوہری مار  ہے۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.