مسلم دشمنی کا محتاج سیاسی اقتدار

سید فاضل حسین پرویز
مئی 2024

سید فاضل حسین پرویز

جب تک میں زندہ ہوں، ملک میں مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جائے گا۔یہ ناپاک عزم ہندوستان کے وزیر اعظم کا ہے۔جو تیسری میعاد میں کامیابی کے لیے مسلم دشمنی کی آخری حدوں کو چھونے لگے ہیں۔ اگرچہ کہ آر ایس ایس کے سربراہ اور بی جے پی کے بعض قائدین نے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ نریندر مودی اس وقت ہندوستان کے نہیں بلکہ یا تو بی جے پی یا پھر صرف ہندوؤں کے وزیر اعظم کے طور پر خود کو منوانا چاہتے ہیں۔
سی این این نے یکم مئی کو اپنی ایک سروے رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستانی مسلمان مودی کے تیسری میعاد کے لیے منتخب ہونے کی صورت میں خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ وہ اس وقت بھی خوف و دہشت کے ماحول میں ہیں۔ سی این این نے وارانسی کے کئی مسلم مرد و خواتین کے انٹرویولیے، جنہوں نے دو ٹوک الفظ میں کہا ہے کہ مودی نے دس سال پہلے وارانسی سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ اسی لیے کیا کہ وہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے خواب کو پورا کر سکیں۔ سرکاری محکموں میں ہر بڑے اور اہم عہدے پر مودی نواز فائز ہیں جو غیر محسوس طریقے سے ملک کو ہندو راشٹر کی طرف لے جا رہے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کے ریزرویشن کا تعلق ہے، نریندر مودی ہو یا امت شاہ یا ان کے پیش رو قائدین ایل کے اڈوانی یا ان کے سرپرست آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت یہ سب ہمیشہ سے مسلمانوں کو تعلیم و روزگار میں ریزرویشن کے خلاف رہے ہیں۔ مودی نے بار ہا اپنی تقریر میں جہاں مسلم ریزرویشن کی مخالفت کی ہے وہیں کانگریس پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ اگر اقتدار پر آ جائے تو ایس سی اور ایس ٹی کا حق چھین کر مسلمانوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ایک طرح سے یہ ایس سی اور ایس ٹی طبقات اور مسلمانوں کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی مذموم کوشش ہے۔
تلنگانہ پر مودی اور امت شاہ کی نظر ہے اور جب کبھی وہ تلنگانہ کی بات کرتے ہیں تو حیدرآباد ان کی نظروں میں کھٹکنے لگتا ہے۔ وہ اس شہر کو ”رضاکاروں“ سے آزاد کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ بار بار وہ سردار پٹیل کو یاد کرتے ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ اگر حیدرآباد ”رضاکاروں“ یعنی ان کے خیال میں مجلس سے آزاد ہو جائے تو سردار پٹیل کی آتما کو شانتی ملے گی۔ سردار پٹیل یقینا ہندوستان کے مرد آہن تھے۔ اگر چہ کہ وہ نہرو اور گاندھی کی طرح زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے مگر ان کی قوت فیصلہ اور انتظامی صلاحیتیں، دور اندیشی غیر معمولی تھی۔ وہ ملک کے پہلے وزیر داخلہ تھے اور انہوں نے گاندھی جی کے قتل کے بعد ہندو انتہا پسند تنظیموں پر پابندی عائد کر دی تھی جن میں آر ایس ایس بھی شامل تھی ۔ سردار پٹیل کو اپنا آئیڈیل بتانے والے مودی اور امت شاہ تاریخی حقائق سے شائد واقف نہیں ہیں ورنہ وہ ریزرویشن کی مخالفت نہ کرتے۔ یہ سردار پٹیل ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار میں 15 فیصد ریزرویشن کی پیش کش کی تھی اور ان کی اس پیشکش کی مخالفت اس وقت کے سرکردہ مسلم قائدین نے کی تھی جن میں مولانا آزاد بھی شامل تھے۔ بنیادی طور پر سردار پٹیل کسی بھی طبقے کو ریزرویشن کے حق میں نہیں تھے، مگر ملک کی تقسیم کے بعد کے حالات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے یہ پیش کش کی تھی۔ وہ ایوان پارلیمان کی اقلیتوں سے متعلق مشاورتی کمیٹی کے چیرمین تھے جن میں ان کے ساتھ پنڈت نہرو، راجندر پرساد، اور کے ایم منشی بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر امبیڈکر ایس سی اور ایس ٹی طبقات کو صرف 10 سال کے لیے ریزرویشن کے حق میں تھے اور ایک رپورٹ مطابق جب اس کی مخالفت کی گئی تو انہوں نے ایوان پارلیمان سے مستعفی ہونے کی دھمکی بھی دی تھی ۔ لیکن سردار پٹیل ڈاکٹر امبیڈکر جیسی قد آور شخصیت کو کھونا نہیں چاہتے تھے جنہیں دستور ساز کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ بہر حال ایس سی ایس ٹی کے لیے ریزرویشن گذشتہ 75 برس سے جاری ہیں کیوں کہ یہ ایک سیاسی مجبوری ہے۔
ڈاکٹر رفیق ذکریا مرحوم نے سردار پٹیل کی شخصیت پر ایک لکچر میں ان کی شخصیت کے دو پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی جس میں ایک پہلو آزادی سے پہلے مسلمانوں سے متعلق تھا اور دوسرا پہلو آزادی کے بعد کا۔ رفیق زکریا نے یہ ثابت کیا تھا کہ سردار پٹیل مسلم دشمن نہیں تھے۔ حیدرآباد ریاست کو ہندوستان میں شامل کرنے کی ان کی کوششوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت کے جو حالات تھے، وہ دراصل نظام کے جوشیلے، جذباتی،خوشامد پسند افراد کی غلط پالیسیوں سے پیدا ہوئے تھے۔ ایک منصوبہ بند طریقے سے نظام کو جن کا دور انتہائی پر امن رہا جس میں مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں نے فائدہ اٹھایا تھا ۔ مسجدوں سے زیادہ مندروں کو مالی امداد ملتی رہی، افسوس کے انہیں ہند مخالف اور ہندو دشمن حکمران کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ نظام کے خلاف یہ تحریک عالمی سازش کا نتیجہ تھی کیونکہ ایک طرف نظام کے سمدھی خلیفہ عبدالمجید جو ترکی کے آخری خلیفہ تھے کا تخت ضمیر فروش، مفاد پرست مغرب زدہ عربوں کی سازشوں سے الٹ دیاگیا تھا، دوسری طرف نظام کے دربار میں شامل ایسے عناصر جو ہر دور میں ارباب اقتدار سے قریب رہتے ہیں، ان کے خلاف سازشیں رچتے رہے اور مال و دولت، سرکاری خطابات حاصل کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے انگریزوں اور ہندوستانی قائدین سے سازباز کر کے تختہ الٹنے اور نظام کو معزول کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا تھا۔ رضا کاروں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا، ان کا نام لے کر ان کے بھیس میں اس وقت کی پولیس اور کانگریسی کارکنوں نے نفرت اور دشمنی کی فضا پیدا کی، لوٹ مار اور عورتوں کی بے حرمتی کی مگر بدنام رضا کار ہوئے۔ 75 برس میں کم از کم چار نسلیں آچکی ہیں، دو نسلیں چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق کیوں نہ رکھتی ہوں وہ رضا کاروں سے واقف نہیں ہے۔چونکہ نفرت اور مذہبی جنون کے نام پر اقتدار حاصل کرنا ہے لہذا کبھی اشتعال انگیز لٹریچر، گمراہ کن فلموں کے ذریعہ اور اب ارباب اقتدار اپنی تقاریر کے ذریعہ رضاکاروں سے متعلق اناپ شناپ بکتے ہوئے ماحول کو بگاڑ رہے ہیں۔
نہ اب نظام ہیں اور نہ ان کی اولاد باقی ہے۔ ہاں نظام کے فلاحی کارنامے اور رفاح عامہ کے لیے کیے گئے اقدامات سے آج بھی عوام مذہب اور ذات پات کی حدود سے بالاتر ہو کر فیض یاب ہو رہی ہے ۔ اس وقت حیدرآباد اس لیے نظروں میں کھٹک رہا ہے کہ جس اسلامی مملکت یا شہر کو تعصب اور نفرت کی بنیاد پر تباہ کر دیا گیا تھا، جہاں کے مسلمانوں کو ہر شعبہ حیات میں کچل دیا گیا تھا، ان کی نوکریاں چھین لی گئی تھیں، جائیدادوں سے محروم کر دیا گیا تھا اور باقاعدہ احکامات جاری ہوئے تھے کہ مسلمانوں کو ملازمت میں مواقع نہ دیے جائیں، پھر بھی اس شہر کے مسلمان دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے ہیں ۔ اللہ رب العزت نے خلیج میں ان کے لیے روزگار کے موقع پیدا کیے تو خون پسینہ بہا کر حیدرآبادیوں نے اپنی نئی نسلوں کو تعلیم سے آراستہ کیا،تعلیمی ادارے قائم کیے اور نہ صرف حیدرآباد بلکہ پہلے متحدہ آندھراپردیش اور پھر تلنگانہ کی تعمیر و ترقی میں کلیدی رول ادا کیا۔ مسلمانوں کی یہ ترقی خار کی طرح کھٹک رہی ہے اور مختلف بہانوں سے اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کبھی حیدرآباد کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ کہا جاتا ہے تو کبھی کچھ اور الزام عائد کیا جاتا ہے۔
حیدرآباد نے فرقہ پرستوں کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ اور نہ ہی کبھی ان کی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ پیدا کی۔ ورنہ آج حیدرآباد میں مندروں کا جال پھیلا نہ ہوتا۔ ہر چوراہے اورنکڑ پر چھوٹا سا پتھر چند برسوں میں عالیشان مندر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ خود چارمینار کے دامن میں دن بہ دن اپنا رقبہ پھیلانے والے مندر کا حال کسی سے چھپا نہیں ہے۔یہ سب حیدرآبادی مسلمانوں کی رواداری کی مثال ہے ورنہ دوسری قومیں تو ہر تیسری مسجد کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرتی رہتی ہے۔ حیدرآباد پر پہلے کانگریس ہی کا قبضہ ہوا کرتا تھا۔ 1984سے مجلس نے اس حلقہ سے کامیابی کا سلسلہ شروع کیا ہے اور آج بظاہر مجلس ناقابلِ شکست ہے۔ حالانکہ رائے دہی کا تناسب مسلم ووٹرس کے تساہل اور غفلت کی وجہ سے ہر الیکشن میں گھٹتا جارہا ہے۔ دوسرے طبقات کے ووٹ بڑھتے جارہے ہیں اس لئے کہ ان میں شعور بیدار ہوچکا ہے اور الیکشن کے دن مسلمان بیدار ہی نہیں ہوتے، اگر ہوتے بھی ہیں تو بڑی دیر سے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمانی الیکشن میں منتشر ملت متحدہ طور پر اپنی طاقت کا استعمال کرے کیونکہ ہر ایک ووٹ جو ملی اتحاد کے نام پر دیا جائےگا وہ دراصل فرقہ پرستوں کے گال پر طمانچہ ہوگا۔ جس طرح دوسرے اقوام سینکڑوں خانوں میں بٹی ہوئی ہونے کے باوجود الیکشن کے دن ایک ہوجاتی ہے ہمیں بھی ایک ہونے کی ضرورت ہے۔ لڑنے جھگڑنے، گلے اور شکوے کے لئے زندگی پڑی ہوئی ہے ۔پولنگ کے دن اختلافات کو فراموش کردیں اور صرف حیدرآباد ہی نہیں بلکہ ہر ایک حلقہ میں اپنی طاقت کا استعمال کرکے ہر قوم کو اور اربابِ اقتدار کو اپنے وجود کا احساس دلائیں۔ ہماری کمزوری کی وجہ سے ہم بے وزن ہوکر رہ گئے ہیں-
*ایڈیٹر، گواہ، ویکلی

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.