مسلم خواتین کے خلاف آن لائن تشدد

دی کوئنٹ کی خوف ناک رپورٹ

آدتیہ مینن
مئی 2025

ایک طرف حکومت  اور  اس کا پشت پناہ زعفرانی ٹولہ  مسلم خواتین کی نام نہاد پسماندگی پر گھڑیالی آنسو بہاتا ہے اور ان کو بااختیار بنانے کا راگ الاپتا ہے وہی دوسری طرف  مسلم خواتین  کے خلاف ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ انٹرنیٹ ، سوشل میڈیا ، مصنوعی ذہانت اور ڈیپ فیک نے اس عمل کو اور تیز کردیا ہے۔ مشہور نیوز پورٹل دی کوئنٹ نے اپنی ایک تازہ تحقیقی رپورٹ میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ مسلم خواتین بالخصوص تعلیم یافتہ اور سماجی وسیاسی میدانوں میں سرگرم خواتین کو زعفرانی ٹولے اور ان کے ہم نواؤں کی جانب سے منصوبہ بند ہراسانی کا سامنا ہے۔ یہ ہراسانی جنسی نوعیت کے پیغامات سے لے کر سوشل میڈیا پر فحش اور توہین آمیز تصاویر، مضامین پوسٹ کرنے اور ان کی ذاتی معلومات کو افشان کرنے سے متعلق ہے۔  اس سے قبل سال 2021 میں سُلّی ڈیل نامی ایک ایپ پر  مسلم خواتین کو نیلام کرنے  کے لیے ان کی تصاویر پوسٹ کی گئی تھیں۔ اس معاملہ پر کافی ہنگامہ ہونے کے بعد پولیس نے کچھ لوگوں کو اس ضمن میں گرفتار بھی کیا تھا۔

مصنوعی ذہانت یا اے آئی  کی ایجاد کے بعد  غیر اخلاقی تصاویر  کا چلن بہت زیادہ بڑھا ہے ۔ اسلام اور مسلم دشمن عناصر اے آئی کے ذریعے مسلم خواتین کی عریاں تصاویر بناکر اس سے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کا چلن ہندوستان میں بھی بڑھ رہا ہے۔ فیس بک اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر ایسی پروفائل اور پیج  پہلے سے موجود تھے، لیکن اے آئی  ٹولز کی مدد سے یہ تصاویر زیادہ اصلی اور حقیقی نظر آنے لگی ہیں۔ اس کی وجہ سے ایسے مواد کی مقدار میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ دی کوئنٹ کی تحقیق کے مطابق، انسٹاگرام پر کم از کم 250 ایسے پیج  موجود ہیں جس میں اے آئی  ٹولز کا استعمال کرکے  بنائی گئی مسلم خواتین کی فحش تصاویر پوسٹ کی گئی  ہیں۔ فیس بک  اور ایکس پر بھی  ایسی سرگرمیاں موجود ہیں۔

اے آئی سے بنائی گئی ان تصاویر میں اکثر مسلم خواتین کو حجاب یا برقعہ پہنے دکھایا جاتا ہے،  جب کہ ہندو مردوں کو ردراکش کی مالا، ہاتھ کے دھاگے، تلک، یا بھگوا کپڑوں میں دکھایا جاتا ہے۔ ان پیج  کے ناموں اور ہیش ٹیگز میں بھی “حجابی” جیسے الفاظ کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔

دہلی کی سماجی کارکن نبیہ خان  کے مطابق جب سے ایکس  پر ان کے فالوورز کی تعداد بڑھی ہے، انہیں حجاب پہنے مسلم خواتین کی فحش تصاویر میسج کے ذریعہ موصول ہو رہی ہیں۔ انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ ان کی خود کی ایسی ہی تصاویر بناکر پھیلائی جاسکتی ہے۔

ان تصاویر میں ہندو مردوں کو غیر معمولی طور پر مضبوط اور غالب دکھایا جاتا ہے، جب کہ  مسلم خواتین کو کمزور اور خوفزدہ دکھایا جاتا ہے۔ کچھ تصاویر میں ہندو مردوں کو مسلم خواتین کے اردگرد گھیرا ڈالتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، جو اجتماعی تسلط کی علامت ہے۔ ایک صفحہ کی تفصیل میں “حجابیوں کا شکاری” درج ہے، جب کہ  دوسرا صفحہ مسلم خواتین کو اپنی “رکھیل” بنانے کا دعویٰ کرتا ہے۔

ان خیالی تصورات میں برقع اور حجاب کی مرکزیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ‘حجابی’ کا لفظ نہ صرف ان پیج  کے ناموں میں بار بار آتا ہے بلکہ ان کی پوسٹس اور ہیش ٹیگز میں بھی عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔

ایک ہندی پوسٹ، جو ان پیج  پر بار بار شیئر کی گئی، میں کہا گیا: “مسلم خواتین جنسی طور پر محرومی کا شکار ہوتی ہیں اور وہ اسے چھپانے کے لیے برقع پہنتی ہیں۔”

ان تصاویر میں ہندو مردوں کو ہمیشہ غیرحقیقی طور پر انتہائی مضبوط جسم کے ساتھ اور ایک غالب یا حتیٰ کہ دھمکانے والے انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف، مسلم عورت کو اکثر فرماں بردار اور خوف زدہ دکھایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر، ان انسٹاگرام پیج  میں سے ایک، جس کا کوئنٹ نے تجزیہ کیا، اس کے پروفائل تصویر میں ایک ہندو مرد کو ایک مسلم عورت کو پیچھے سے دھمکانے والے انداز میں پکڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔کچھ تصاویر میں مردوں کو غیرمتناسب طور پر بڑا دکھایا گیا ہے، جو کہ “غلبے کے جنسی تصورات” پر مبنی فحش مواد کا ایک عام پہلو ہے۔اسی طرح، بعض جگہوں پر متعدد ہندو مردوں کو ایک مسلم عورت کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے دکھایا گیا ہے، جو اجتماعی تسلط کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

ان پیج  میں بار بار دہرایا جانے والا ایک موضوع “غیر مختون ہندو عضو تناسل” کی برتری  ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کئی پیج  کے ناموں میں بھی “Uncut” کا لفظ شامل ہے۔ کوئنٹ کو انسٹاگرام پر 50 سے زیادہ ایسے “Uncut” پیج  ملے   جو مسلم خواتین کی نیم فحش تصاویر شیئر کرتے ہیں۔

کوئنٹ کے مطابق بہت سارے پیجز  اکثر بار بار ایسی پوسٹس شیئر کرتے ہیں جن میں “مسلم لڑکیوں اور گھریلو خواتین” کو “جنسی تسکین” کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔

تاہم، کئی پیج  پر ایسی پوسٹس اور تبصرے بھی دیکھنے کو ملے جن میں جعلی اکاؤنٹس (کیٹ فِشنگ) کی شکایت کی گئی، جو مسلم خواتین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ واقعی کوئی خواتین ان سے رابطہ کرتی ہیں یا نہیں۔ اسی وجہ سے، کئی پیج  نے شناخت کے ثبوت کے طور پر ویڈیو چیٹ کو لازمی قرار دے دیا ہے۔

کچھ پیج  یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ وہ مسلم خواتین اور ہندو مردوں کے درمیان “جنسی ملاقاتوں” کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک صفحے نے پوسٹ میں “اڑیسہ کے مردوں” کو مدعو کیا کہ وہ ایک 18 سالہ مسلم لڑکی کے ساتھ “جنسی تعلق قائم” کریں۔

یہ پیج  وقتاً فوقتاً مخصوص علاقوں کے لیےا س طرح کے جنسی نوعیت کے دعوت نامے بھی پوسٹ کرتے ہیں۔ اس طرح کے دعوت نامے مدھیہ پردیش اور اتر پردیش کے زیادہ ہوتے ہیں۔

کچھ پیج  “بھگوا لو ٹریپ” کے نام سے مسلم لڑکیوں کو ہندو مذہب میں تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایک صفحہ نے ایک “عالم لڑکی” کے بارے میں انسٹاگرام اسٹوری شیئر کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایک مذہبی عالمہ لڑکی کو ہندو مذہب میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تاہم، اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
Quoraنامی ویب سائٹ پر ایک صارف سوال کرتا ہے، “اگرچہ میں ہندو ہوں، پھر بھی مجھے مسلم خواتین کی طرف کشش کیوں محسوس ہوتی ہے؟”

اس کے جواب میں، ایک شخص جو خود کو بنگلورو کا آئی ٹی پروفیشنل بتاتا ہے، لکھتا ہے: “یہ اس لیے ہے کیوں کہ  مسلم خواتین ممنوعہ پھل کی مانند ہیں۔ میں اب ایک مسلم عورت سے شادی کر چکا ہوں، اور وہ اب مسلم نہیں رہی۔” اس تبصرے کے آخر میں ایک مسکراتا ہوا ایموجی بھی شامل ہے۔

ظاہر ہے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی جاسکتی کہ آیا یہ شخص واقعی کسی مسلم خاتون سے شادی کر چکا ہے یا محض اپنی خیالی دنیا کو حقیقت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ لیکن جو بات واضح ہے، وہ یہ کہ وہ ایک ہندو مرد کے لیے مسلم عورت سے شادی کو کسی “کامیابی” کے طور پر دیکھتا ہے، اور اس کے مذہب چھوڑنے کو اس شادی کا ایک متوقع نتیجہ تصور کرتا ہے۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ان میں سے کچھ پیج  میں ان تصاویر اور میمز میں دکھائے جانے والے ہندو مرد کی ذات کو خاص طور پر نمایاں کیا جاتا ہے۔ کچھ پیج  کے نام ‘ظالم پنڈت’، ‘ظالم برہمن’ یا ‘ظالم ٹھاکر’ جیسے رکھے گئے ہیں۔ انسٹاگرام پر کم از کم 60 ایسے پیج  موجود ہیں جن کے نام ‘ظالم پنڈت’ یا ‘ظالم برہمن’ کی مختلف شکلوں پر مشتمل ہیں۔ اور یہ خاص طور پر مسلم خواتین کی عریاں تصاویر پوسٹ کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔

کچھ میمز میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ مسلم عورت کے ساتھ زیادتی کرنے والا ہندو مرد “پنڈت جی” ہے۔ ایک اور صفحہ دعویٰ کرتا ہے کہ “صرف ایک پنڈت ہی مسلم خواتین کی جنسی خواہشات کو پورا کر سکتا ہے”۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی ایسا صفحہ نہیں ملا جہاں کسی او بی سی (OBC) یا دلت ذات کو نمایاں کیا گیا ہو، اور نہ ہی کوئی ایسا صفحہ ملا جہاں کسی خاص علاقائی شناخت کو ان تصاویر کے ذریعے پیش کیا گیا ہو۔

“ظالم ٹھاکر” نامی پیج  پر فحش مواد موجود تھا، لیکن ان میں سے کچھ ہی حصہ ایسا ہے جس میں مسلم خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ زیادہ تر مواد عمومی عریاں تصاویر اور عورت مخالف (misogynistic) تصاویر پر مشتمل ہے۔

ایسے پیج  پر پوسٹ کی گئی نان-اے آئی (غیر مصنوعی ذہانت) تصاویر اکثر اے آئی سے بنی ہوئی تصاویر کے مقابلے میں زیادہ فحش ہوتی ہیں، کیوں کہ  بعض میں تو مسلم خواتین کے ساتھ ہندو مردوں کی جنسی زیادتی تک کو دکھایا جاتا ہے۔

ان میں استعمال ہونے والی تصاویر اکثر مغربی فحش میمز یا مغربی فحش فلموں کے مناظر سے لی جاتی ہیں، جن میں فوٹوشاپ کے ذریعے مرد کے جسم پر تلک یا اوم کا نشان شامل کر دیا جاتا ہے اور عورت کے سر پر حجاب ڈال دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اس طرح کا  پیغام پھیلانے کے لیے بے حد بھونڈے کارٹون بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔

اگرچہ ان تصاویر میں بعض اوقات کھلی جنسی زیادتی کو نہیں دکھایا جاتا، لیکن پھر بھی ان میں تشدد کی علامت موجود ہوتی ہے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اے آئی سے بنی یہ تصاویر کسی حقیقی جوڑے یا فحش اداکاروں کی نمائندگی نہیں کرتیں۔ بلکہ یہ ان مردوں کی جنسی تصورات کی عکاسی کرتی ہیں جو ایسی تصاویر بنا رہے ہیں، شیئر کر رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔یہ دراصل ان کا وہ ارادہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ مسلم خواتین کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں، اور ان میں مسلم خواتین کی مرضی یا رضامندی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔یہی وہ پہلو ہے جو ان تصاویر کو بنیادی طور پر ایک تشدد پر مبنی عمل بنا دیتا ہے۔

ان پیج  کی طرف سے پوسٹ کی گئی غیر اے آئی  تصاویر اکثر زیادہ صریح ہوتی ہیں، اور کچھ میں تو مسلم خواتین کے خلاف جنسی تشدد کو بھی دکھایا جاتا ہے۔ یہ تصاویر عام طور پر ویسٹرن پورنوگرافی سے لی جاتی ہیں، لیکن ان میں ہندو علامات کو شامل کر دیا جاتا ہے۔ یہ تصاویر مسلم خواتین کے خلاف تشدد کو معمول بنانے کی کوشش ہیں۔

آن لائن پلیٹ فارمز نے مسلم خواتین کے خلاف تشدد اور ہراسانی کو نئی جہتیں دی ہیں۔ اے آئی  ٹولز کی ترقی نے اس مسئلے کو اور بڑھا دیا ہے۔ یہ صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اس کے خلاف آواز اٹھانا اور اسے روکنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

 

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.