سچر کمیٹی کی رپورٹ نے مدارس اور اس میں پڑھنے والے مسلمان بچوں کا اندازہ صحیح لگایا تھاـ ہندوستان میں مدارس اتنے نہیں ہیں جتنا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، صرف یو پی اور ہریانہ کے مسلم دیہاتوں نیز بہار کے چند مخصوص علاقوں میں کچھ حد تک یہ بات صحیح ہے کہ گاؤں میں سرکاری یا پرائیویٹ اسکول تو نہیں، لیکن کوئی مکتب/مدرسہ ضرور ہےـ باقی ملک بھر میں پرائمری سکول، مدارس/مکاتب سے بہت زیادہ ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دونوں کا کوئی موازنہ ہی نہیں، تو قطعی بیجا نہ ہوگاـ
آسام، بنگال وغیرہ اور جنوبی ہند میں ہر محلے اور ہر مسجد کے ساتھ الحمدللہ جزوقتی مکتب کا نظام قائم ہے، لیکن ان مکاتب کے بچے مستقلاً اسکول جاتے ہیں، مکتب صرف دو یا کچھ گھنٹوں کے لئے ہی جاتے ہیں ـ اب اس میں بھی فکر کی بات یہ پیدا ہوگئی ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں کے اوقات جزوقتی مکاتب کے اوقات سے ہم آہنگ نہ ہونے اور بہت چھوٹے بچوں کو بھی والدین کی طرف سے ٹیوشن کلاسسز کا مکلف بنانے کی وجہ سے ان جزوقتی مکاتب میں بھی کچھ بچے نہیں جا پا رہے ہیں جس سے مسلم بچوں کو بنیادی دینی تعلیم فراہم کرنا بتدریج ایک اور مسئلہ بنتا جارہا ہےـ
علمائے کرام اور امت کے سنجیدہ طبقہ کو اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی سخت ضرورت ہےـ
مذکورہ باتوں سے یہ صورتِ حال بھی واضح ہوجاتی ہے کہ شمالی ہند کے عصری علوم سے مربوط طبقے نے آزادیِ ہند کے بعد سے مسلم قوم کے تئیں اپنی ذمہ داری پوری طرح سے ادا نہیں کی ہے اور یہ بات میں اپنے انگریزی مضامین میں گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل لکھتا آراہا ہوں ـ دارالعلوم دیوبند اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی دونوں یو پی ہی میں ہیں، لیکن دیوبند اور اس سے وابستہ افراد نے یو پی کے ہر بڑے گاؤں کو بنیادی دینی علوم سے کسی نہ کسی حد تک جوڑ دیا ہے اور آج ملک بھر میں مدارس/مکاتب کا کسی نہ کسی حد تک ایک نیٹورک موجود ہےـ جب کہ اس کے مقابلے میں علیگڑھ یا عصری علوم سے جُڑے افراد نے کتنے اسکول، کتنے کالج، یا یونیورسٹی یوپی میں قائم کی ہیں؟ سبھی پر اس کی حقیقت واضح ہےـ
واضح رہے کہ دیوبند اور علی گڑھ کے دونوں ادارے بنیادی طور پر ملی، تعلیمی ادارے ہیں اور امت کے چندے ہی سے وجود میں آئے تھےـ
1857 کے بعد سے مدارس کے اغراض و مقاصد میں ڈاکٹر، انجینئر یا وکیل بنانا نہیں ہے. اگر کوئی بن جاتا ہے تو یہ اس فرد کی ذاتی اور مدارس کے لئے اضافی کامیابی ہےـ گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں سے بر صغیر کے دینی مدارس کے بنیادی مقاصد امت کے لئے قابل اور باصلاحیت علماء اور دینی رہنماء تیار کرنا ہے جو قوم مسلم کے دینی تقاضوں کو پورا کر پائیں ـ الحمد للہ موجودہ مدارس اپنے اس مشن میں کافی حد تک کامیاب ہیں، گرچہ ان میں مزید بہتری کی ضرورت ہےـ اب دوسرے طبقے (علی گڈھ اور عصری علوم سے وابسہ افراد) کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے امت کی باقی ضروریات کو پوری کرنے کی کوشش کرنی چاہئے. امت کو ماہر قانون داں، ماہر سیاسی راہنما اور بہترین، نیز دیندار افسران کی بے حد ضرورت ہے جو ہمارے یونیورسٹیوں سے ہی آئیں گے. ہر بات کے لئے مدارس میں تبدیلی کا مشورہ دینا یا مدارس اور علماء کو مورد الزام ٹھہرانا دماغی دیوالیہ پن اور اپنی ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار کرنے والا عمل ہےـ
(مضمون نگارمرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، ممبئی کے ڈائریکٹر اور ایسٹرن کریسنٹ کے مدیر ہیں)