مدراس کے نصاب میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، مگر یہ سب جزوی تبدیلیاں ہی تھیں۔ پھر جب منتظمین کو اور خود فارغین مدارس کو بھی اس بات کا احساس ہوا کہ عالمیت و فضیلت کے بعد بھی بعض ایسے پہلوؤں میں ناپختگی رہ جاتی ہے جو جدید دنیا میں دعوت و تبلیغ کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہیں تو فارغین مدارس کے لیے عصری اداروں میں اعلیٰ تعلیم کی راہیں کھولی گئیں۔
چنانچہ طلبہ مدارس عالمیت و فضیلت سے فراغت کے بعد اندرون ملک مختلف یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں اور بیرون ممالک جامعہ ازہر اور ام القری جیسے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو پروفیشنل کورسز کرتے ہیں۔ خود فارغین مدارس کی طرف سے ایسے ادارے بھی چلائے جا رہے ہیں جو مدارس کے طلبہ کو فراغت کے بعد کمپیوٹر اور انگریزی زبان میں مہارتیں پیدا کراتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو فارغین مدارس کے لیے بہت سی راہیں کھلی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فارغین مدارس تقریباً ہر شعبے میں نظر آتے ہیں اور دنیا کے ہر خطے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مگر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس معاملے میں جو کچھ بھی پیش رفت ہوئی ہے اور جو کچھ بھی اضافی کوششیں کی گئی ہیں وہ زیادہ تر عالم وفاضل طلبہ کے لیے ہی ہوئی ہیں۔ ان کے لیے مختلف قسم کے کورسز ہیں، ان کے لیے وظائف بھی مقرر کیے گئے ہیں، مگر ابتدائی درجات ابھی تک بھی انتظامیہ کی بے توجہی کا شکار ہیں، حالانکہ ابتدائی درجات کی تعلیم پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، اور یہ ضرورت آج مزید بڑھ گئی ہے۔ آج زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ دینیات کی ابتدائی تعلیم دینے والے مدارس و مکاتب کے نظام کو زیادہ فعال اور متحرک بنایا جائے، کیونکہ ابتدائی درجات کی تعلیم دینے والے مدارس و مکاتب ہی طلبہ کو اس لائق بناتے ہیں کہ وہ عالم وفاضل بن سکیں۔
بڑے مدارس کو طلبہ کی مدد کہاں سے ملتی ہے؟
بڑے مدارس کی طرف جو طلبہ سال بہ سال رخ کرتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر اپنے علاقائی مکاتب اور مدارس سے ہی آتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کا پس منظر رکھنے والے بھی کئی طلبہ مدارس میں آتے ہیں۔ اگر ابتدائی تعلیم فراہم کرنے والے مدارس و مکاتب نہ ہوں تو بڑے مدارس جیسے ندوہ، دیوبند، مظاہرالعلوم، سلفیہ، اشرفیہ اور فلاح و اصلاح کو اتنے طلبہ نہیں مل سکیں گے جتنے انہیں فی الوقت مل رہے ہیں، جو کہ انہیں ہر سال بہت سے طلبہ کو واپس کرنا پڑتا ہے۔
لیکن ابتدائی تعلیم دینے والے مدارس و مکاتب کا حال یہ ہے کہ ان میں سال کی ابتداء میں اگر 100 بچے داخل ہوتے ہیں تو سال کے آخر تک نصف ہی رہ جاتے ہیں، بلکہ نصف سے بھی کم رہ جاتے ہیں۔ یعنی 60 سے 70 فیصد بچے درمیان ہی میں تعلیم چھوڑ دیتے ہیں، یا تو اسکول کی لائن پکڑ لیتے ہیں یا پھر تعلیم ہی منقطع کر دیتے ہیں۔
تعلیم منقطع کرنے کی عام وجوہات:
1۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کے والدین ان کے معاملے میں زیادہ حساس اور سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ان کے سرپرستوں میں زیادہ تر کاشتکار، مزدور، اور چھوٹے کاروباری ہوتے ہیں، اور ان میں سے بیشتر تعلیم کے میدان کی زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔ جب واقفیت نہیں ہوتی تو وہ ان کی صحیح رہنمائی بھی نہیں کر پاتے۔ ان میں سے زیادہ تر سرپرستوں کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ ان کے بچے کیا پڑھ رہے ہیں اور کیسے پڑھ رہے ہیں۔
اس کے برعکس، جو طلبہ علمی گھرانوں سے آتے ہیں، وہ اگر کم محنت بھی کریں اور معمولی ذہانتیں رکھتے ہوں تو وہ تعلیم کے اگلے مراحل میں یا پھر تعلیم کے بعد والے مراحل میں زیادہ کامیاب ہو جاتے ہیں، کیونکہ ان کے والد، چچا، اور بھائی وغیرہ ان کی خبرگیری کرتے رہتے ہیں، قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتے ہیں، اور انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ان کے بچے کا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے۔ ان کی مسلسل نگرانی اور توجہ وسائل کی کمی کی بھی بھرپائی کر دیتی ہے۔
2۔ سات آٹھ سال کی چھوٹی عمر کے بچے گھر بار اور والدین سے دور مدرسے کے سخت ماحول میں نہیں رہ پاتے۔ان چھوٹے بچوں کو اساتذہ اور منتظمین کی طرف سے سختیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار تو سختی کرنا انتظامیہ اوراساتذہ کی مجبوری بن جاتی ہے کیونکہ بچے شرارتیں ہی کچھ ایسی کرتے ہیں کہ اساتذہ کا صبر جواب دے جاتا ہے۔
3۔ طلبہ کے والدین ،سرپرست اور خود اہل مدرسہ انہیں زیادہ سہولتیں فراہم نہیں کرپاتے ،اس لیے وہ تعلیم منقطع کردیتے ہیں۔اگر آپ اپنے علاقے کے چھوٹے مدارس کا دورہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں سے بہت سے طلبہ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں روز مرہ کی ضروریات کی چیزیں بھی میسر نہیں ہوتیں۔
4۔ شاید سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان طلبہ میں سے زیادہ ترایسے ماحول سے آتے ہیں جہاں ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت پر بالکل بھی توجہ نہیں دی گئی ہوتی ہے، پھر جب ان کے سامنے ایسی کتابیں آتی ہیں جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں تووہ ماہ دو ماہ تو کوشش کرتے ہیں کہ وہ کتابیں کسی طرح ان کی گرفت میں آجائیں مگر جب کتابیں کسی طرح بھی ان کی گرفت میں نہیں آتیں تو وہ مدرسے سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔اسی طرح حفظ کے طلبہ سبق اور آموختہ یاد نہ ہونے کی وجہ سے حافظ صاحب کی باربار مارکھاتے ہیں اور بالآخر تنگ آکر مدرسے سے بھاگ جاتے ہیں۔ بے شک حفظ کرنا آسان نہیں ہے اور یہ ہر طالب علم کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔
حفظ کے طلبہ عموماً آٹھ سے دس سال کی عمر میں حفظ کرنے بیٹھتے ہیں اور دو ڈھائی سال سے تین چار سال کے عرصے میں حفظ کرلیتے ہیں، جبکہ بعض طلبہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بہت زیادہ عمر کے ہوتے ہیں، تاخیر کے ساتھ حفظ میں بیٹھنے کی وجہ سے یا پھر باربار مدرسے تبدیل کرنے کی وجہ سے یا قوت حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے وہ کئی کئی سال درجۂ حفظ ہی میں نکال دیتے ہیں۔ میں نے جس مدرسے میں حفظ کیا تھا اس میں دسیوں بچے ایسے تھے جن کی عمر بیس سال سے متجاوز تھی۔ ان میں کئی طلبہ نے تو پانچ پانچ اور چھے چھے سال لگادیے اور پھر بھی ان کا حفظ پختہ نہیں ہوپایا۔ پھر اس دور میں جو بچے حفظ کرتے تھے وہ صرف حفظ ہی کرتے تھے، ایک گھنٹہ بھی ان کے لیے ایسا نہیں ہوتا جس میں وہ اردو ہندی اورانگریزی وغیرہ سیکھتے ہوں یا کم ازکم دینیات کا ہی سبق لیتے ہوں، سارا وقت حفظ کے لیے وقف ہوتا تھا۔ مگر آج کل اس میں کچھ تبدیلی آئی ہے اور حفظ کے طلبہ بھی گھنٹے دو گھنٹے کے لیے دینیات کی تعلیم بھی لیتے ہیں اور ہندی وانگلش وغیرہ بھی سیکھتے ہیں اور یہ ہر طرح سے اچھی بات ہے۔
میرے حفظ کے جو ساتھی تھے وہ بھی میری ہی طرح کسانوں کی اولاد تھے اور گاؤں دیہات کے غریب گھرانوں سے ان کا تعلق تھا، ان میں سے تقریبا اسّی فیصد طلبہ عمرزیادہ ہونے کی وجہ سے، گھر کی مجبوریوں کی وجہ سے یا پھرآگے پڑھنے کا مزاج نہ بننے کی وجہ سے حفظ کے بعد عربی کلاسوں میں نہیں بیٹھ سکے اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔اور اس حال میں لوٹے کہ وہ اٹھارہ بیس سال کی عمر کو پہنچ چکےتھے اور ان کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی، نہ آٹھویں کلاس کی اور نہ دسویں کلاس کی۔اس لیے وہ اوپن اسکولنگ سسٹم سے بھی نہیں جڑ سکے۔
اگر یہ سب پہلو آپ کی نظر میں ہیں تو آپ یہ احساس کیے بغیر نہیں رہیں گے کہ حفظ پلس کے جو ادارے ’’شاہین گروپ‘‘وغیرہ کام کررہے ہیں وہ بہت غنیمت ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ان اداروں سے بھی وہی بچے فائدہ اٹھاسکتے ہیں جنہوں نے کم عمر میں حفظ مکمل کرلیا ہو اور ان کے سرپرست ان کی مزید تعلیم کے بھاری اخراجات برداشت کرسکتے ہوں۔ غریب طلبہ اکا دکا مثالوں کو اگر منہا کردیں تو ان میں سے زیادہ تر حفظ پلس کورس سے بھی فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔
مدارس کی مشکلات:
ایسا نہیں ہے کہ مجھے مدارس کی مشکلات کا علم نہیں ہے۔ اگر بڑے مدارس کو منہا کردیں تو ملک میں پھیلے ہوئے بیشتر چھوٹے چھوٹے مدارس دونوں طرح کی مشکلات سے گزرتے ہیں، مالیاتی مشکلات سے بھی اور طلبہ کی مطلوبہ تعداد نہ ملنے کی مشکلات سے بھی۔ یہ مدارس طلبہ سے اسکولوں کی طرح بھاری فیس بھی نہیں لے سکتے کیونکہ اگر وہ فیس دے سکتے تو ان کے والدین انہیں اسکول ہی بھیجتے، مدرسے میں داخل نہیں کرتے، اس لیے یہ مدارس ہمیشہ مالی مشکلات سے گِھرے رہتے ہیں اور انہی مشکلات کی وجہ سے منتظمین خود اپنے مدرسے اور طلبہ کے روشن مستقبل کے لیے کوئی بہت ٹھوس پیش بندی اور منصوبہ بندی کرنے سے بھی عاجز رہتے ہیں۔
مدارس کا معاملہ کالجوں و یونیورسٹیوں کی طرح نہیں ہے جہاں دس دس سیٹوں کے لیے دس دس ہزار طلبہ داخلہ امتحان میں بیٹھتے ہیں اور یونیورسٹیاں اربوں روپے کی کمائی صرف ایک جھٹکے میں ہی کرلیتی ہیں۔ پھر انہیں حکومت سے جو گرانٹس ملتی ہیں وہ الگ ہیں اور پھر آمدنی کے دوسرے ذرائع بھی ہوتے ہیں ان کے پاس۔اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ جودانشورحضرات یونیورسٹیوں سے وابستہ ہیں وہ کسی بھی قیمت پر اہل مدارس کے لیے صحیح اور مبنی بر انصاف فیصلے نہیں کرسکتے، الایہ کہ وہ مدارس سے نکل کر ہی وہاں پہنچے ہوں اور مدارس کا سارا انتظام وانصرام ان کا دیکھا بھالا ہو۔
حفظ کے طلبہ کے لیے چند گزارشات:
1۔ درجۂ حفظ میں کسی بچے کو داخل کرنے کے لیے عمر کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے، حفظ میں بیٹھنے والے طالب علم کی عمر کسی بھی صورت میں دس سال سے زیادہ نہ ہو۔ حفظ شروع کرنے کے لیے سات سے نو سال کی عمر بہت زیادہ موزوں ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ حفظ کے درجات میں بعض طلبہ آٹھ دس سال کی عمرکے ہوتے ہیں اور بعض اٹھارہ بیس سال کے بھی۔ کیونکہ حفظ میں بچوں کو داخل کرتے وقت ان کی عمر نہیں دیکھی جاتی اور نہ ہی یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ بچہ حفظ کرنے کے لائق ہے بھی یا نہیں۔
جو طلبہ حفظ میں نہیں چل پاتے انہیں بھی مارے باندھے کسی نہ کسی طرح مکمل حافظ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کے والدین اور اساتذہ یہ دلیل رکھتے ہیں کہ چار پانچ پارے حفظ کرلیے ہیں، اب جیسے بھی ہواور خواہ کتنا بھی وقت لگے حفظ مکمل ضرور کرنا ہے، وہ اسے گناہ کی بات سمجھتے ہیں کہ ان کا بچہ دس پندرہ پارے حفظ کرکے چھوڑ دے، بھلے ہی اس نے دس پندرہ پارے ڈھائی تین سال میں ہی کیوں نہ کیے ہوں۔
2۔ انہی بچوں کو حفظ میں بٹھایا جائے جو حفظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اگر حفظ کا کوئی طالب علم مغرب سے عشاء کے درمیانی وقت میں قرآن کے دو ڈیڑھ صفحات پختہ یاد کرکے سنادے تو اس کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ حفظ کرنے کا اہل ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی طالب علم مغرب سے عشاء تک کے وقت میں صرف ایک یا آدھا صفحہ ہی یاد کرکے سنائے اور وہ بھی ٹھیک سے یاد نہ ہو تو اس کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ حفظ کے لائق نہیں ہے۔ ہفتے بھر میں اس بات کا آسانی سے پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ مگر مشکل یہی ہے کہ بیشتر مدارس کو طلبہ کی ضرورت رہتی ہے اس لیے وہ کڑی شرائط نہیں لگاپاتے اورہر طالب علم کو حفظ میں بٹھالیتے ہیں۔
3۔ حفظ کے ساتھ کم از کم دو گھنٹے ضرور نکالے جائیں جن میں انہیں زبانوں کی تعلیم تو کم ازکم دی ہی جانی چاہیے، تاکہ اگر وہ مدرسہ چھوڑ کر جائیں بھی تو اوپن اسکولنگ سے اپنی تعلیم کم از کم انٹرتک کی مکمل کرسکیں۔
4۔ حفظ کے طلبہ کے ساتھ ایک مشکل یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر وہ حفظ کے بعد عربی درجات بھی پڑھنا چاہیں تو ان کی عمر بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ عالمیت وفضیلت سے فارغ ہوتے ہوتے پچیس چھبیس سال کے ہوجاتے ہیں، اب خود ان کے اور ان کے سرپرستوں کے اندر مزید تعلیم حاصل کرنے کا حوصلہ نہیں رہ پاتا۔
5۔ سرپرستوں کے لیےایک بہت ضروری بات یہ بھی ہے کہ چھوٹے بچوں کو دور دراز کے مدرسوں میں ڈالنے کے بجائے مقامی مدارس میں بٹھائیں، آپ کا بچہ صبح کو گھر سے نکلے اور سبق لے کر شام کو گھر لوٹ آئے، اس سے بہتر کوئی اوربات نہیں ہوسکتی۔ آٹھ دس سال کے بچوں کو گھرسے سیکڑوں میل دور ہاسٹل میں ڈالنا اور وہ بھی ایسے ہاسٹل میں جہاں سہولتیں بھی ناکافی ہوں، کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے کہ چھوٹے بچے مقامی مدارس ومکاتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کریں اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے بڑے مدارس کا رخ کریں۔
مدارس کے نصابِ تعلیم میں درکار تبدیلی:
1۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ حفظ میں منتخب بچے ہی رکھے جائیں،جو بچے حفظ میں چلنے کے لائق نہ ہوں، خود ان سے اوران کے والدین سے بات چیت کرکے، انہیں دینیات کے درجات میں بٹھایا جائے، دینیات کے درجات کا نصاب ایسا ہو کہ سال دو سال بعد اگر کچھ طلبہ کسی مجبوری کی وجہ سے مدرسہ چھوڑ بھی دیں تو وہ مقامی اسکول میں ایڈمیشن لے سکیں۔ ان کی عمر بھی زیادہ نہ ہو اور اتنی صلاحیت بھی ہوکہ مطلوبہ کلاس میں داخلہ مل سکے۔
2۔ اس سلسلے میں سب سے بہتر طریقہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ دسویں / بارہویں تک ہرمدرسے کا نصاب اور پڑھانے کے طورطریقے اسکول کی طرح ہی رکھے جائیں۔ گورنمنٹ اسکول کے نصاب میں چند کتابیں کم کرکے دینیات کی چند کتابیں داخل کردی جائیں اور دسویں وبارہویں کے امتحان کسی بھی بورڈ سے دلوائے جائیں۔اگر اتنا نہیں کرسکتے تو کم از کم آٹھویں تک تو لازما یہی اسکول والا نصاب جزوی تبدیلی اور حذف واضافے کے ساتھ رکھا جائے۔ابتداء میں بے شک کچھ مشکلات آئیں گی مگر چند سالوں میں اس مشکل پر آسانی کے ساتھ قابو پایا جاسکتا ہے۔
3۔ دسویں ، بارہویں کرنے کے بعد جو طلبہ کالج ویونیورسٹی کی طرف جانا چاہیں وہ ادھر چلے جائیں اور جو طلبہ عالم وفاضل بننا چاہیں انہیں اسی مدرسے میں عالمیت کے درجے میں بٹھایا جائے، اگر مدرسہ چھوٹا ہو اور عالمیت کے درجات نہ ہوں تو ا نہیں بڑے مدارس میں داخل کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ان طلبہ کی بروقت صحیح کونسلنگ کی جائے تو ان میں سے ساٹھ ستر فیصد طلبہ ضرور بالضرور علم دین حاصل کرنا چاہیں گے۔
اب فرض کریں کہ ان میں سے بعض طلبہ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے آگے کی تعلیم جاری نہ رکھ سکیں، نہ مدرسے کی اور نہ ہی یونیورسٹی کی توان طلبہ کے پاس اتنی صلاحیت ضرور ہوگی کہ وہ زندگی میں سروائیو کرپائیں گے، چھوٹی موٹی جاب بھی کرنے کے اہل ہوں گے اور ناخواندہ لوگوں کے مقابلے میں اپنے کاروبار میں بھی بہتر کریں گے۔
4۔ جب یہ طلبہ بارہویں کرلیں گے تب ان کی عمر یہی کوئی اٹھارہ، انیس سال کی ہوگی اور ان کے لیےعالم وفاضل بننے کے لیے پانچ چھے سال بہت کافی ہوں گے۔ جب یہ طلبہ عالم وفاضل بن کر نکلیں گے تو دنیا کا ہر کورس اور دنیا کی ہر جاب کرنے کے اہل ہوں گے۔
5۔ انہی دس بارہ سالوں میں جب اسکول جیسی تعلیم دی جارہی ہوگی، زبانیں سکھانے پر خاص فوکس کیا جائے، ہر طالب علم کو چار پانچ زبانیں آنی ہی چاہئیں۔یہ طلبہ ہندی و اردو تو بہت آسانی سے سیکھ لیں گے، بس انگریزی و عربی زبان پر ذرا زیادہ فوکس کرنا پڑے گا، تاکہ وہ عالمیت وفضیلت کرنے کے لیے پوری طرح اہل ہوسکیں۔ پھر ان زبانوں کو پڑھانے کا طریقہ بھی جدید اورکامیاب طریقہ ہونا ضروری ہے۔
6۔ عالمیت وفضیلت کے جو درجات ہیں ان میں اہل مدارس چاہیں تو ہلکی پھلکی تبدیلی کرلیں، یا نہ کرنا چاہیں تو نہ کریں ۔البتہ عالمیت کا جو طویل دورانیہ ہے اس میں سے دو تین سال کم کرنا مناسب رہے گا ۔ نحو و صرف کی اضافی کتابیں منہا کی جاسکتی ہیں ،اسی طرح فقہ کی بعض کتابیں بھی ۔ اس کے علاوہ جو مشکل کتابیں ہیں انہیں آسان کتابوں سے ضرور بدلنا چاہیےاوریہ تبھی ہوگا جب کتاب سے زیادہ فن کو اہمیت دی جائے گی ۔
7۔ مدارس میں عالمیت کے بعد جو فضیلت وتخصص کے شعبے ہیں ، وہ شعبے اسی طرح یا نصاب میں جزوی حذف واضافے کے ساتھ فعال رکھے جاسکتے ہیں تاہم انہی شعبوں میں ’’تقابلِ ادیان‘‘ شعبے کا اضافہ بھی ضرور کیا جائے جس میں سنسکرت زبان سکھائی جائے اور ہندوستان میں جو مختلف مذاہب ہیں ان کی اہم اور بنیادی کتابیں بھی پڑھائی جائیں تاکہ وہ غیر مسلموں میں دعوت کا کام بحسن وخوبی کرسکیں۔ فضیلت وتخصص میں منتخب طلبہ کو لیا جائے، ایسے طلبہ کو جو کم عمر ہوں، محنتی ہوں اورذی استعداد بھی ہوں اور پھر ان کے گھر کی مالی پوزیشن بھی مستحکم ہو، تاکہ وہ مزید یکسوئی کے ساتھ علمی و دعوتی کام کے لیے خود کو وقف کرسکیں۔ مدارس میں اوپر کے شعبوں میں سب سے زیادہ فعال اسی شعبے کو ہونا چاہیے اور سب سے زیادہ وسائل بھی اسی شعبے کو حاصل ہونے چاہئیں،کیونکہ یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
8۔ چھوٹے مدارس میں بھی اساتذہ کی تنخواہیں اچھی اور معیاری ہوں اور سہولتیں بھی اچھی ہوں تاکہ طالب علم اپنے مستقبل میں ایک استاذ کی حیثیت سے اپنا کرئیر بنانے کی کوشش کریں اور ان کے سرپرست، دوست واحباب اور محلے کے لوگ ان کے بارے میں یہ رائے قائم کریں کہ سب سے اچھا پیشہ یہی تدریس کا پیشہ ہے۔ مدارس اور اہل مدارس کے تعلق سے جب تک خود مدارس کے تدریسی اسٹاف اور عام لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا نہیں ہوگا کہ مدارس کے خدام کی زندگی بھی قابل رشک زندگی ہے، تب تک مدارس کو طلبہ نہیں ملنے والے ہیں اور اگر ملیں گے بھی تو ایسے ہی ملیں گے جو غریب اورکمزوراور نادار ہوں گے،جو اسکول نہیں جاسکتے، جنہیں پڑھنے لکھنے کا کچھ بھی شوق نہیں ہوگا ، بس یونہی مارے کھینچے مدرسے میں پہنچائے گئے ہوں گے۔
اس پورے معاملے میں سب سے اہم جو بات ہے وہ یہی ہے کہ مدارس کے طلبہ فراغت کے بعد جب تدریس وامامت کے پیشوں سے وابستہ ہوں تو انہیں موجودہ زمانے کے حساب سے اچھی اورمعیاری تنخواہیں ملیں اور انہیں بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔ نہیں تو آج کل کے جو حالات ہیں اگر یہی حالات چلتے رہے تو بہت زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ نہ مساجد کے لیے امام میسر ہوں گے اور نہ مدارس کے لیے طلبہ واساتذہ۔ اس پورے معاملے یہی سب سے بنیادی کام ہے مگر اسی پر سب سے کم توجہ ہے، خود اہل مدرسہ کی بھی اور قوم کے مخیر حضرات کی بھی ۔اگر تنہا یہی ایک چیز درست کرلی جائے تو دیگر بہت ساری چیزیں خود بخود اپنے ٹریک پر آتی چلی جائیں گی۔
9۔ مدارس کے نصاب میں یہ جزوی تبدیلی اس لیے بھی ضروری ہے کہ قوم کے بے شمار بچے سرکاری اسکولوں میں پڑے برباد ہورہے ہیں، ان کے سرپرست خانگی اسکولوں میں بٹھانہیں سکتے کیونکہ فیس زیادہ ہوتی ہے اور سرکاری اسکولوں میں انہیں تعلیم نہیں ملتی۔سال کا کم وبیش نصف حصہ تو چھٹیوں میں ہی گزرجاتا ہے، کبھی ٹیچرس غائب رہتے ہیں تو کبھی طالب علم۔ اگر آپ گاوؤں ، و قصبوں میں مسلم محلوں کا سروے کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اسکولوں میں پڑھنے والے مسلمان بچوں کی کتنی بڑی تعداد برباد ہورہی ہے۔ پچاس ساٹھ فیصد بچے تو آٹھویں دسویں سے آگے ہی نہیں بڑھ پاتے اور جو تھوڑے بہت بچے لشتم پشتم کسی طرح انٹر کر بھی لیتے ہیں تو ان کے پاس ڈگری کی سواکچھ نہیں ہوتا، بلکہ بہت سارے بچے تو غلط صحبتوں میں پڑ کر برباد ہوجاتے ہیں۔ یہ بڑی تکلیف دہ صورت حال ہے مگر اس طرف کسی کا بھی دھیان نہیں جاتا۔اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں برباد ہونے سے بچانا ہے تو ہمیں اپنے مدرسوں میں لازماً وہ تعلیم دینی چاہیے جو وہ سرکاری اسکولوں میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
10۔ ابتدائی تعلیم کے درست ہونے سے دیگر بہت سارے مسائل بھی از خود حل ہوجائیں گے۔ ایک تو جب طلبہ کی بنیاد مضبوط ہوگی تو انہیں آگے کی تعلیم کا شوق پیدا ہوگا، پھر خود سرپرست بھی چاہیں گے کہ وہ اپنے بچوں کو مزید تعلیم دلائیں۔ پھر اگر ایسا ہوسکے کہ بڑے پیمانے پرسرکاری اسکولوں میں جانے والے طلبہ مدارس کی طرف آجائیں تو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اسلامی تربیت بھی ہوسکے گی اور پھر جب ان میں سے کچھ طلبہ سولہ، سترہ سال کی عمر میں یونیورسٹیوں کا رخ کریں گے تو وہ الحادو دہریت کے اسٹروکس سے بھی کسی قدر محفوظ رہ پائیں گے۔
11۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے اندر بلکہ خود علماء کے اندر بھی جو کچھ بھی اور جیسی کچھ بھی تبدیلی آرہی ہے وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ میری طرح آپ بھی یہ بات نوٹ کیے بنا نہیں رہ سکتے کہ اب مدارس کے اساتذہ ومنتظمین اور ائمہ مساجد بھی اپنے بچوں کو اسکول کی تعلیم دلارہے ہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے یاوقت اور حالات کی مار کہیے کہ اہل مدارس تو گاؤں دیہات سے چھوٹے بچوں کو پکڑ پکڑ کر لائیں اور انہیں عالم وفاضل بنائیں لیکن جب وہ عالم وفاضل بن جائیں تو وہ خود اپنے بچوں کو مدارس میں نہ بھیج کر اسکولوں میں بھیجیں ، باوجود اس کے کہ ان کی آمدنی کم ہے اور اسکول کی تعلیم میں اخراجات بہت زیادہ ہیں اورجب کہ اسکول کی تعلیم کی بنسبت مدارس کی تعلیم میں اخراجات بہت کم ہیں۔
ویسے میرا خیال تو یہ ہے کہ اس بات میں، یعنی علماء بھی اپنے بچوں کو اسکول کی تعلیم دلا رہے ہیں، کچھ زیادہ حرج بھی نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی فرض وواجب تو نہیں ہے کہ عالم دین کے بچے بھی عالم دین ہی بنیں، وہ دوسرے علوم بھی حاصل کرسکتے ہیں اور دوسرے ذرائع سے پیسے کماکر اپنے والدین کی مدد کرسکتے ہیں۔ مگر یہ کہ اس سے مدارس کے خلاف ایک ذہنیت تو پیدا ہوتی ہی ہے کہ اگر مدارس کی تعلیم اتنی ہی اچھی ہے جتنی اچھی بتائی جاتی ہے تو علماء خود اپنے بچوں کو مدارس میں کیوں داخل نہیں کرواتے۔
ان سب وجوہات کو دیکھتے ہوئے کم از کم مجھے تو پورا انشراح ہے کہ مدارس کے ابتدائی درجات کے نصاب میں جزوی تبدیلی خوشگوار نتائج پیدا کرے گی ۔اور یہ تبدیلی کسی طرح سے بھی کلی تبدیلی نہیں ۔