ثمین مومن
(جی آ ئی او بھیونڈی)
وہ دیوانہ وار پورے کمرے کا چکر لگائے جا رہی تھی، کبھی بیڈ پر بیٹھتی کبھی زمین پر تو کبھی لیٹنے کی کوشش کرتی پھر فوراً سے پیشتر اٹھ کر واپس چکر لگانے لگتی۔ عالم بدحواسی میں فون پر ہاتھ پڑا
فیس بک نوٹیفکیشن سکرین پر نمودار ہوا۔
”ہونہہ”۔۔۔ کہہ کر اس نے موبائل بیڈ پر پھینک دیا اور ایک بار پھر چکر کاٹنے لگی۔ یکایک اس کی نظر بیڈ کی دراز پر پڑی، وہ ایک پل کو ٹھٹکی پھر بلا تاخیر دراز کی جانب لپکی۔
”کہاں گیا۔۔۔ یہیں تو رکھا تھا” وہ ہذیانی انداز میں دراز میں موجود چیزیں اتھل پتھل کیے دے رہی تھی تبھی مطلوبہ شے نظر آگئی
”۔۔۔۔بھیا، چوہے مارنے کی دوا دینا”
”یہ لیجیے مادام صرف 40 روپے میں ”
”ہیں!؟ صرف 40 روپے میں؟؟ چوہے مر تو جائیں گے نا۔ اس نے حیران کن لہجہ میں دکاندار سے دریافت کیا تھا
”ارے مادام۔۔۔انسان بھی مر جائیں چوہوں کی کیا بات! ہاہا”
”واہ موت اتنی سستی ہوتی ہے” دوائیں پرس میں ڈالتے ہوئے وہ زیر لب بڑبڑائی۔
اس نے سر جھٹکا اور جلدی جلدی شیشی اپنی ہتھیلی پر خالی کرنے لگی۔ اس وقت وہ ہر اس خیال کو ذہن سے نکال دینا چاہتی تھی جو اس کی راہ عمل
میں حائل ہونے کی جرأت کرے۔
ٹرنگ۔۔۔ٹرنگ۔۔۔ڈوربیل گونجی اور پھر گونجتی ہی چلی گئی۔وہ کبھی دروازے کی طرف نظر دوڑاتی تو کبھی ہتھیلی میں بکھری چوہے عرف انسان کش دوائیوں پر یاسیت بھری نگاہ ڈالتی
ٹرنگ ٹرنگ۔۔۔ دروازے کے باہر موجود شخص صبر کے ص کا بھی مظاہرہ کرنے سے قاصر تھا،گویا لمحے کے دسویں حصے میں دروازہ نہ کھولا گیا تو اکھاڑ دیا جائے گا
اس نے با دل نا خواستہ دس قدموں میں طے ہونے والی لابی بیس قدموں میں ‘عبور’ کی اور لاک گھمایا۔
”انسان وقت پر دروازہ نہیں کھول سکتا تو کم سے کم آواز لگا کہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت تو دے ہی سکتا ہے” دروازہ کھلتے ہی دو بیگ ہاتھوں میں تھامے اور ایک پرس کاندھے پہ لٹکائے پسینے میں شرابور ھادیہ پھٹ پڑی لیکن اپنے مقابل پر نظر پڑتے ہی غصہ کی جگہ تشویش نے لے لی
”حیات! سب خیریت تو ہے؟ یہ کیا حال بنا رکھا ہے؟؟ اور یہ۔۔۔یہ گھر میں اتنی تباہی کیوں مچی ہوئی ہے؟؟؟ اس نے بغیر سانس لیے پے در پے سوال داغے
حیات بدستور کھڑی ٹکٹکی باندھے زمین کو گھورے جارہی تھی۔ دریں اثنا ھادیہ کی کی نظر حیات کی سختی سے بھینچی ہوئی مٹھی پر گئی
ھادیہ: ”تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟”
حیات نے گرفت مزید مضبوط کرلی
”میں پوچھ رہی ہوں تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟؟ ھادیہ چینخی
مگر جواب ندارد۔ دفعتاً ھادیہ اس کی جانب لپکی اور پوری قوت سے اسکی مٹھی کھولنے لگی
”کچھ نہیں ہے۔۔۔ پیچھے ہٹو” حیات نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔ اسکی آواز میں بلا کی لڑکھڑاہٹ تھی لیکن ھادیہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹی۔ اس نے پوری طاقت سے اس کی بند انگلیاں اپنے جانب کھینچی ہی تھی کہ دوا کی گولیاں حیات کی قید سے نکلکر فرش پر پھیل گئیں۔
حیات نے نظریں چرائیں، ھادیہ کے ہونٹ وا ہوئے جسے اس نے سختی سے اندر بھینچ لیا
اوراسے ایک زوردار تمانچہ رسید کیا پھر اگلے ہی لمحے اسکے بازوؤں کو پکڑ کر اپنی جانب کھینچا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، حیات کی آنکھوں سے بھی متواتر آنسو جاری تھے
”یہ لو پانی پیو”اس نے گلاس حیات کی طرف بڑھائے
حیات ہنوز سر گھٹنوں پر دیے ساکت بیٹھی رہی پھر ھادیہ نے خود ہی اس کا سر اٹھایا اور گلاس اس کے لبوں سے لگادیا
”حیات! میری جان، کیا مسئلہ ہے؟کچھ تو بتاؤ، تم بتاؤ گی نہیں تو معلوم کیسے پڑے گا”
ھادیہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے دریافت کیا۔
”معلوم کر کے بھی کیا کر لینا ہے تم نے”حیات نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”ایسا کیوں کہہ رہی ہو”
”تو پھر کیسا کہوں؟ تم خود بتاؤ آخری بار کب تم نے مجھ سے طویل گفتگو کی تھی؟کب میری زندگی کے حالات سے واقفیت حاصل کی تھی؟جب سے تمہارا بیرون ملک ایڈمیشن ہوا تم نے رابطے کم کر دیے، ایک دوسرے کے لمحے لمحے کی خبرگیری کرنے والا تعلق ماند پڑ گیا۔کچھ پہلے جیسا نہیں رہا۔۔۔ کچھ نہیں۔۔”
ھادیہ گم سم سی اسے سنے جا رہی تھی۔اس نے کچھ بولنا چاہا۔ بتانا چاہا کہ وہ ناواقف ہو کر بھی کس طرح اس کے حال سے واقف ہے اس لیے تو کتنی مشکلیں برداشت کر کے صرف اس کی خبر لینے ہندوستان چلی آئی مگر وہ خاموش رہی۔ کبھی کبھی انسان کو صرف سننا چاہئے۔ جواب دینے کے لئے نہیں، مقابل کا درد سمجھنے کے لئے۔۔
مجھے جاب نہیں ملی۔۔۔۔۔۔ انٹرویو پر انٹرویو دیے سب بے سود،گھر والوں کی طرف سے شادی کا د باؤ، مالک مکان کی طرف سے کرایہ کا دباؤ، امی کی روز بروز بگڑتی طبیعت،پوسٹ گریجویشن میں داخلے کے لیے فیس۔۔۔ اور کوئی پرسان حال نہیں۔۔۔آہ!! میں خود کو بہت کمزور لاچار اور تنہا محسوس کرنے لگی ہوں۔ وہ ہچکیوں کے ساتھ روئے جارہی تھی۔
ہادیہ نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہوئے پوچھا ”اور تم نے ان سب کا حل یہ نکالا؟ خو د کشی!”
”پتہ ہے ہم انسان بھی عجیب مخلوق ہیں۔۔۔۔۔کوئی مشین بگڑ جائے تو میکینک کے پاس چلے جاتے ہیں کہ بھئی یہ بگڑ گئی ہے ہم سے نہیں سدھرنے کی،تمہاری تخلیق ہے تمہی اس کا مسئلہ حل کرو۔مگر جب بات اپنی ذات پر آتی ہے تو بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی کسی کی تخلیق ہیں! کیوں نہیں جاتے اپنے خالق کے پاس؟ کیوں نہیں کہتے اس سے کہ میری بگڑی بنا دے؟ وہ تو علیم وخبیر ہے سب جانتا ہے مگر تمہارے منہ سے سننا چاہتا ہے،تم سناؤ تو سہی! پھر دیکھو کیسے تمہاریمسئلے حل نہیں ہوتے۔
”سوری ہادیہ۔۔۔۔۔ پر یہ تم بھی جانتی ہو کہ میں کوئی دیندار پارسا لڑکی نہیں ہوں،جس کے اللہ رسول سے مضبوط تعلقات ہوں۔۔۔۔”حیات مدھم نیلہجے میں کہا۔
”تو کر لو تعلق مضبوط۔۔۔”ہادیہ نے اس کی بات کاٹی۔
”۔۔۔۔۔۔ جس کی آہیں عرش ہلا دیں۔۔۔۔ میں ان سب سے بہت دور ہوں۔۔۔۔ شاید اسی لیے میری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔۔۔اور اب۔۔۔۔ اب تو میں نے دعائیں مانگنا بھی ترک کر دیا ہے”حیات نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
واہ دعائیں مانگنا ترک کر دیا- یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ دعائیں صرف ’پارساؤں‘ کی قبول ہوتی ہیں؟ ھادیہ نے تحیّر آمیز لہجہ میں کہا-
حیات خاموش رہی-
”شاید تم نہیں جانتی کہ اللہقرآن میں فرماتا ہے۔۔۔ واذا سألک عبادی عنی فانّی قریب!“ اس کا مطلب جانتی ہو حیات؟
حیات نے نفی میں سر ہلایا-
”اس کا مطلب ہے کہ جب آپ سے ’میرا کوئی بندہ‘ میرے بارے میں سوال کرے تو آپ اسے بتا دیں کہ میں قریب ہوں! یہاں اللہّٰ نے ’میرا بندہ‘ کہا ہے- اس نے یہ تو نہیں کہا میرا نیک بندہ، میرا دیندار پارسا بندہ- ہم سب ا سکے بندے ہیں اور وہ ہم سب کے قریب ہے-“
”تو پھر میری دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟“
”تمہارے اس سوال کا جواب بھی اسی آیت کے اگلے ٹکڑے میں ہے-“
”وہ کیا؟“ حیات نے بے صبری سے پوچھا-
”وہ یہ کہ۔۔۔ اجیبو دعوۃ الداع اذا دعان!“
”اب اس کا کیا مطلب ہے؟“ حیات نے بے چینی سے پہلو بدلے-
”میں ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں جب بھی وہ پکارے- وہ سب کی سنتا ہے اور تمہاری بھی سنے گا- بس تم اسے پکارنا مت چھوڑو پھر وہ تمہیں اتنا کچھ عطا کرے گا جو تمہارے گمان میں بھی نہیں ہوگا- تمہاری ساری مشکلیں آسان ہو جائیں گی بس اللہ پر اپنا توکّل مضبوط کر لو، اور یقین کر لو کہ وہ بہترین کارساز ہے-“
ھادیہ کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ اس کے اندر زندگی کی اُمید جگا رہا تھا اور ایک بار پھر اس کا حوصلہ بحال کر رہا تھا-
”اور ہاں۔۔ اگلی دفعہ ایسا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اپنے نام پر غور کر لینا۔۔۔ ”حیات!!“ اس نے لفظ حیات پر خاصا زور دیتے ہو کہا-
”انشاء اللہ اب کبھی یہ قدم اٹھانے کی نوبت نہیں آ ئے گی“ حیات نے دل ہی دل میں عزم کیا اور بے ساختہ ھادیہ سے بغل گیر ہو گئی-