فلسطین – اسرائیل تنازعہ: عالمی عوامی تحریک کے امکانات روشن

ڈاکٹرمحمدغطریف شہباز ندوی
مئی 2024

ڈاکٹرمحمدغطریف شہباز ندوی

اسرائیل – فلسطین تنازعہ کی جڑیں یک طرفہ ہیں یعنی فلسطینیوں نے اس تنازعہ کے پیداکرنے میں کوئی حصہ نہیں لیا۔یہ تنازعہ توسراسران پر تھوپاگیاہے ۔برطانیہ عظمی کے وزیرخارجہ بالفورنے 1917میں یہودیوں سے فلسطین میں ایک وطن بنانے کا وعدہ اس وقت کیا جب فلسطین پر برطانیہ کا تسلط تھااوروہاں اس وقت صرف پانچ ہزاریہودی پائے جاتے تھے۔دوسرے لفظوں میں یہ بحران سراسرصیہونی فکر،صہیونی تنظیم ،برطانیہ (اس کے بعدامریکہ )اوردوسری مغربی قوموں کا پیداکردہ ہے۔غریب فلسطینی عرب مسلمان اورمسیحی تواس میں زبردستی فریق بنادیے گئے اوران پر یک طرفہ ظلم کرکے ان کا وطن ان سے چھین لیاگیاہے۔تاریخ اس کے علاوہ کسی اوربیانیہ کی تائیدنہیں کرتی ۔یادرہے کہ یہ تاریخ کسی مسلمان یاعرب کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ اوی شلوم،تانیہ رینہارٹ اورایلان پاپے جیسے بڑے اسرائیلی مؤرخین کی بیان کردہ ہے اور پوری طرح مستند ہے۔
ہاں یہودی مذہبی بیانیہ ضرورموجودہے جوتورات کے نصوص پر مبنی ہے ۔اس کوفلسطین پر ناجائزقبضہ کرکے دنیاکے سامنے لایاگیاہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ارض فلسطین یہودیوں کے لیے ارض موعودہے ،وہ ان کا ہزاروں سال پہلے وطن رہاہے ۔اس لیے فلسطین پر پہلاحق ان کا ہے ۔وہی اس کے اصل باشندے ہیں۔لیکن تاریخ اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتی ۔اس کے مقابلہ میں قرآن کے بیانات موجودہیں جن میں کہاگیاہے کہ اب یہودیوں کوان کے منصب سے معزول کردیاگیاہے ان پر دائمی ذلت مسلط کردی گئی ہے اورانبیاء نے ان پرلعنت کی ہے وغیرہ۔
یورپ (بطورخاص جرمنی )نے یہودیوں پر زبردست مظالم کیے اوران کے اس احساس جرم نے یہودیوں کوفلسطین میں ایک یہودی ریاست کے بنانے میں کلیدی کردارادا کیا۔وعدۂ بالفورسےلےکر 1948میں قیام اسرائیل تک اوراُس کے بعد 1967 تک لاکھوں فلسطینیوں کوقتل کردیاگیا اور ان کو گھر بدر کردیا گیا۔ان کی پانچ سوسے زائدبستیاں صفحہ ہستی سے مٹادی گئیں۔ یہودی دہشت گردتنظیمیں ہاگاناہ اوراشتیرون وغیرہ اسرائیلی فوج( IDF)میں تبدیل کردی گئیں۔اقوام متحدہ نے یک طرفہ طورپر فلسطینی عربوں سے پوچھے بغیران کی سرزمین کوتقسیم کردیا۔پھرباقی ماندہ فلسطین پر بھی اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔عرب ممالک نے اس سے اب تک کئی جنگیں لڑی ہیں اورسب میں شکست ہوئی۔نتیجہ میں فلسطینی مسلمان لاکھوں کی تعدادمیں ہمسایہ یامغربی ممالک میں مہاجربنادیے گئے ۔اسرائیل دنیابھرکے یہودیوں کوبلاکراسرائیل کی شہریت دیتاہے مگراِن مہاجرفلسطینیوں کوواپس نہیں آنے دیتا۔
اوسلومعاہدے کی روسے فلسطینی ریاست پانچ سال کے اندراندرقائم ہوجانی چاہیےتھی لیکن آج اس معاہدہ پر تیس سال بیت چکے ہیں۔فلسطینیوں کے معاملہ میں ان کی سیکولر قیادت،عرب ممالک ،اقوام متحدہ ،اسرائیل اورمغرب سب الفاظ کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ ان کوصرف ایک بے دست وپامیونسلٹی ملی ہے۔غزہ کے علاقہ کی 17 سال سے معاشی ناکہ بندی جاری ہے۔ اسرائیل اس علاقہ تک اپنی مرضی کے بغیرکوئی چیز بھی نہیں پہنچنے دیتاہے۔
لہذا اس تنازعہ کی جڑیں یک طرفہ ہیں ۔اگرآج بھی فلسطینیوں کے ساتھ انصا ف کیاجائے، 1967کی سرحدوں تک بھی اسرائیل واپس چلاجائے ،غیرقانونی یہودی بستیوں کوچھوڑدے ،فلسطینی پناہ گزینوں کوواپسی کا حق دے ،غزہ پر مسلط کردہ موجودہ اسرائیلی جارحیت ختم ہواور اس کا محاصرہ ختم کیاجائے تویہ بحران حل کیاجاسکتاہے۔
تجزیہ نگارسیدمجاہدعلی صحیح کہتے ہیں :
’’ امریکہ ایک طرف مسلسل فلسطینی ریاست کے قیام کو ہی مسئلہ کا واحد حل قرار دیتا ہے اور واشنگٹن کا دعویٰ ہے کہ وہ اسرائیل کو یہ حقیقت تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن دوسری طرف سلامتی کونسل میں امریکہ نے ایک بار پھر فلسطین کو اقوام عالم کا باقاعدہ رکن تسلیم کرنے کی قرارداد ویٹو کردی۔ حالانکہ اسے باقی سب ارکان کی حمایت حاصل تھی۔ اسرائیل کے حوالے سے یہی امریکی تضاد درحقیقت مشرق وسطی کو ایک خطرناک خطہ بنا رہا ہے، جہاں رونما ہونے والا معمولی واقعہ عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے‘‘۔مسلمان حکومتوں کی عمومی سردمہری سے حوصلہ پاکراسرائیل اب اپنے عقیدہ کے مطابق سرخ گائے کی قربانی کرکے (اوراس کے ذریعہ گویا پاکی حاصل کرکے )مسجداقصی میں دراندازی کرنے اوراُسے سولومن ٹیمپل میں بدلنے کے مذہباً مجاز ہوجائیں گے اوراس کا وہ جلد ہی آغازکرنے جارہے ہیں۔
آئندہ کے امکانات
رمضان بھی گزرگیا،غزہ کے لوگوں نے آگ وخون کے سایہ تلے عیدمنائی مگراسرائیل ابھی تک بمباری کررہاہے۔گواس نے غزہ کے کچھ علاقوں سے اپنی فوج ہٹالی ہے مگرشمال وجنوب کوعملا کاٹ دیاہے۔ٹھیک عیدکے دن اُس نے تحریک حماس کے قائداسماعیل ہانیہ کے تین بیٹوں اورنوخیزپوتے پوتیوں کوشہیدکردیا۔حالانکہ ان کا تعلق القسام سے نہ تھا بلکہ وہ عام شہری تھے۔اسماعیل ہانیہ اوران کی اہلیہ نے بچوں کی شہادت پر خداکا شکراداکیااورصحابہ کرام کی یادتازہ کردی ۔
۱۔اگر امریکہ اورمغرب اپنی داداگیری چھوڑدیں توخطہ میں امن کا پوراامکان موجودہے۔
۲۔شرق اوسط میں اسرائیل ایک یوروپی کالونی ہے جس کی اشرافیہ یوروپی یہودیوں پرمشتمل ہے۔اسرائیل کو قائم کرکے جوتاریخی ظلم انہوں نے فلسطینیوں پر کیاہے اس کا اعتراف کریں اوراس کا مداواکرنے کی کوشش کریں۔
۳۔دنیااب کثیر قطبی( multipolar )ہونے جارہی ہے۔ اب امریکہ بہادر دنیا کا واحدچودھری نہیں رہ گیاہے اب چین اورروس بھی نئی عالمی طاقتیں ہیں۔اِس حقیقت کوتسلیم کرتے ہوئے فلسطین کا حق انہیں دیاجائے۔ امن کی قیمت اداکی جائے تو امن قائم ہوسکتاہے۔
۴۔ اسرائیلی سوسائٹی پوری طرح سے مذہبی انتہاپسندی اورجنونیت کے نرغے میں ہے ۔وہ فلسطینیوں کوانسان نہیں سمجھتی ۔ان کوکیڑے مکوڑے سمجھ کرکچل ڈالناچاہتی ہے۔مگراب خودمغرب میں رائے عامہ بدل رہی ہےلہذاامریکہ، برطانیہ ،جرمنی کب تک اپنے عوام کے برخلاف جاکراسرائیل کی مقدس گائے کی حفاظت کرتے رہیں گے؟
۵۔ فلسطینیوں نے جہاد و شہادت کی جوناقابل فراموش مثال قائم کی ہے اس لحاظ سے بدلتی ہوئی عالمی رائے کے پیش نظراب مغرب کو تیار ہونا پڑے گا کہ وہ مستقبل قریب میں فلسطینی ریاست کوتسلیم کرے۔
۶۔اسرائیل کامعاشرہ متشدداورانتہاپسند یہودیوں سے بائیں بازو کے لوگ وہاں تقریبا ختم ہوگئے ہیں۔مؤرخ ایلان شلومو،صحافی گیدان لیوی جیسے عدل وانصاف کی باتیں کرنے والے اب بہت کم ہوگئے ہیں ۔یوری اونیری جیسے لکھارہی دکھائی نہیں دیتے۔نوم چامسکی جیسے دانشوروں کواسرائیل پر ان کی تنقید کی وجہ سے درخوراعتنا نہیں سمجھاجاتا۔ اس لیے ایک عالمی عوامی تحریک (جواب خود بہ خود شروع ہوگئی ہے )کی شدیدضرورت ہے جودنیا کی حکومتوں پر اخلاقی اورسیاسی دباؤبنائے۔۔ایران کےکردار کی ضرورت ہے بلکہ مصر،اردن اورترکی کے عوام بھی اپنی حکومتوں پر دباؤ بنائیں اورحکمرانوں کو مجبورکردیں کہ وہ فلسطین کے حق میں مؤثرکرداراداکریں۔خودفلسطینیوں کا ایک متحدہ ومشترکہ محاذ ہو۔محمودعباس اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدبنانے اورصہیونیوں کی چاکری کے بجائے متحدہ قومی موقف اپنائیں۔تب جاکراسرائیل پر دباؤبن سکتاہے کہ وہ اپنے غیرمنصفانہ اورظالمانہ موقف سے پیچھے ہٹے۔
اسرائیل کومغرب نے دنیابھرمیں ناقابل تسخیربناکرپیش کیاتھا۔مگرپہلے حماس نے اوراب ایران نے اسرائیل کوحملوں کا نشانہ بناکر یہ ثابت کردیاہے کہ اسرائیل ناقابل تسخیرنہیں ہے۔جواسرائیل کرسکتاہے وہ خطہ کے دوسرے ممالک بھی کرسکتے ہیں یہاں تک کہ حماس جیساچھوٹاگروپ بھی کرسکتاہے۔اس لیے اسرائیل اورامریکہ کواب مسئلہ ٔفلسطین کے فوجی حل کا آپشن چھوڑکرسفارتی و مذاکراتی حل کی طرف آناچاہییے۔
اسرائیلی عوام جوفلسطینیوں سے جنونی نفرت میں مبتلا ہیں ان کواس سنڈروم سے باہرنکل کرحقیقی دنیامیں آنا چاہیے اور فلسطینیوں کووطن،سلامتی اور امن وسکون دیناچاہیے۔ پھرمذاکرات کی میزپر بیٹھ کرکچھ دواورکچھ لوکے اصول پر اِس مسئلہ کوحل کرنے کے امکانات کی طرف جایاجاسکتاہے۔
اسرائیل کا شام میں ایرانی سفارت خانہ پر حملہ (2اپریل2024 ) کے جواب میں 13اپریل کوایران نے بھی براہ راست اسرائیل پرڈرون اورمیزائیلوں سے حملہ کیاجوبے ضرراورعلامتی تھاہاں اس نے اسرائیل کی معیشت اورساکھ کوضرورنقصان پہنچایا۔ایران واسرائیل کے درمیان براہ راست تصادم سے اسرائیل اور کمزورہوگااوروہ جتنا کمزورہوگا اتنا ہی فلسطینی مسئلہ کوحل کرنے کے لیے اس پر دباؤبناناممکن ہوسکے گا۔
حماس اوردوسری مجاہدقوتوں کا اسرائیل کے وجودکومٹادینے کا اعلان اوراس کواپنے دستوراورچارٹر کا حصہ بنانے پرنظرثانی کی سفارش کی جاسکتی ہے۔کیونکہ موجودہ مغربی قوتیں (امریکہ،جرمنی ،فرانس اوریوکے ) اسرائیل کی حفاظت کے لیے اتنی حساس ہیں کہ وہ یوکرین پر روس کے حملہ کوروکنے کے لیے آگے نہیں آئیں مگراسرائیل پرایران کے جوابی حملہ کوروکنے کے لیے بنفس نفیس فوراًسامنے آگئیں۔اس صورت حال کے پیش نظرمجاہدقوتوں کوبھی کوئی درمیان کی راہ نکالنی چاہیے۔
اِ س پہلوسے بھی غورکرنے کی ضرورت ہے کہ مغربی قوتیں سیکولرہونے کا دعویٰ کرتی ہیں اور زندگی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کویکسربے دخل کرچکی ہیں مگران کا تضاد فکر ملاحظہ ہو کہ فلسطین پر اسرائیلی دعوے کوتسلیم کرتے ہوئے وہ بائبل کے نصوص کے حوالے دیتی ہیں۔امریکی صدراس پرایمان رکھتے ہیں۔امریکہ اوربرطانیہ کے پروٹسٹنٹ اور ایوانجلیکل مسیحی فرقے مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کے منتظر ہیں اوراس کے لیے وہ اسرائیل کی حفاظت کواپنامذہبی فریضہ سمجھتے ہیں اوراسرائیل کی حمایت کے لئے بھی بائبل کے نصوص پر انحصار کرتے ہیں۔اسرائیلی حکومت بھی سیکولرہونے کا دعوی ٰ کرتی ہے مگراپنے وجودکے اثبات اورفلسطینیوں کی نفی کے لیے مذہبی کارڈ بھی کھیلتی ہے۔
دنیااسرائیل کی اس جارحیت سے کس طرح تنگ آگئی ہے اس کا کچھ کچھ اندازہ اس سے ہوتاہے کہ برطانوی جریدہ ’’انڈپنڈنٹ ‘‘نے ایک خاص شمارہ شایع کیاہے جس کے اداریہ میں کہا گیاہے کہ 7 عالمی امدادی کارکنوں کے قتل سے معلوم ہوتاہے کہ اسرائیل غزہ کے خلاف کارروائیاں بے محابااوربغیرکسی قاعدے قانون کی پرواہ کے کررہاہے۔اب وقت آگیاہے کہ اس کو یہ جنگ روکنے پر ہرممکن طریقے سے مجبورکیاجائے۔
اس سلسلہ میں’’گیلوپ ‘‘کے سروے کا حوالہ دیاجاسکتاہے جس کے مطابق گزشتہ نومبر2023 کو غزہ پراسرائیلی جارحیت کو50 فیصدامریکی شہریوں کی حمایت حاصل تھی جبکہ مارچ 2024 میں اب صرف 36 فیصدامریکی شہری اس کی تائیدکررہے ہیں اورتقریبا 66 فیصداس کے خلاف ہیں۔مزید پیورسرچ سینٹرکا کہناہے کہ 58 فیصد امریکی اب اسرائیل کے وجودپر سوالیہ نشان اٹھانے کوغلط نہیں سمجھتے۔ملاحظہ ہو۔
نیز 17اپریل کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فلسطینی مقتدرہ کومکمل فلسطینی ریاست کا درجہ دینے کے لیے ووٹنگ کی جس میں فلسطین کواکثریت کی حمایت حاصل ہوئی، مخالفت میں صرف ایک ووٹ پڑا امریکہ کا، جس نے اس قراردادکوویٹوکردیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایک عالمی عوامی تحریک اورفلسطینی قوم کی پامردی واستقلال یہ دونوں عوامل ہی فیصلہ کن ہیں جومسئلہ فلسطین کے حل کرنے میں اصل کرداراداکریں گے۔اس وقت امریکہ ،جرمنی ،یوکے ،فرانس اوردوسرے ملکوں کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ لڑی جارہی ہے۔نوجوان لڑکے اورلڑکیاں،طلبہ اورطالبات نے بڑے جوش وخروش سے اوراپنے کیریرکوداؤ پر لگاکرفلسطینی کازکواختیارکرلیاہے۔وہ اس کے لیے نہ صرف اپنے حکام کے غیض وغضب کا سامناکررہے ہیں بلکہ مغربی صہیونی میڈیاکی گالیوں اورمخالفانہ پروپیگنڈے کا بھی نشانہ بن رہے ہیں۔اس وقت صرف امریکہ ہی کی 40 یونیورسٹیوں میں طلبہ وطالبات فلسطین کی آزادی اورغزہ پر اسرائیل کی جارحیت رکوانے کاعلم بلندکیے ہوئے ہیں۔‘‘سیز فائر ناؤ‘اور‘فری فری پیلسٹائن ‘‘کے نعروں سے مغرب کی فضائیں گونچ رہی ہیں۔
٭ریسرچ ایسوسی ایٹ، ادارہ تہذیب الاخلاق،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ