غلام قوموں کے اعصاب

فتح محمد ندوی
مئی 2024

فتح محمد ندوی

غلام قوموں کی نفسیات بھی عجیب ہوتی ہیں کہ ان کا پورا سراپا بشمول جسم اورفکر و خیال لاچاری اور مجبوری کا بے جان لاشہ ہوتاہے۔ بظاہر غلام انسان حرکات و سکنات کا پورا مجسمہ نظر آتے ہیں لیکن ان کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہوتی ۔بر صغیر کے عوام اور خواص پر غلامی کی اس نفسیاتی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں بسنے والی قومیں آزادی اور ترقی کے ستر سال پورے کرنے کے بعد بھی غلامی کے ”خول“ سے باہر نہیں نکل سکی ہیں۔بلکہ جیسے جیسے ترقی کی شاہ راہوں پر آگے بڑھ رہی ہیں ویسے ہی اس سے کہیں زیادہ مرعوبیت کے جال میں پھنستی جا رہی ہیں ۔ انتہا یہ ہے کہ یہ مرعوبیت ہمارے اعصاب پراس قدر غالب ہے کہ ہم اپنی طرف سے کچھ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی تقریبا کھوچکے ہیں۔ وہ قومیں کیا معاصر قوموں کا مقابلہ کریں گی جو ستر سال میں اس قابل ہی نہیں ہوئیں کہ اپنے ملک کے فیصلے خود کرسکیں،اپنے راستے خود نکال سکیں،اپنی چیزیں خود ایجاد کرسکیں ،اپنے دشمن سے خود آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں۔
مشرقی قوموں کے ماضی قریب اور حال کو دیکھ کر ایسالگتا ہے کہ یہ قومیں اپنے ضمیر اور دماغ کو اہل مغرب کے پاس گروی رکھ کر پیدا ہوتی ہیں۔جس کی وجہ سے وہ طاقت اور قوت میں ہونے کے باوجود فاتح قوموں کی طرح سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہیں۔بلکہ غلامی کے جال اور پھندوں سے ان کے دماغ پوری طرح گھرے رہتے ہیں۔شاید یہی بنیادی وجہ کہ ہماری نئی نسل کی دینی ، سیاسی اورتہذیبی سوچ بلکہ سب کچھ اس کرائےکے مکان کی طرح ہے جس میں مدتوں رہنے کے بعدبھی اپنائیت کا احساس نہیں ہوتا۔
یہاں یہ بھی ایک بڑی سچائی کا اعتراف ہوگا کہ ہمیشہ سے یہ غلامانہ مرعوبیت اور اس مرعوبیت کا اثر سیاسی پنڈتوں کے اعصاب اور نفسیات پر زیادہ حاوی دکھائی دیتا ر ہا ہے۔ہمیں اہل سیاست کے رویےسے لگتا ہے کہ اس مرعوبیت کے پس پردہ سوائے ان کی ضمیر فروشی اور ہوس اقتدار کے کوئی دوسری خواہش یا مقصد نہیں ہے۔
سمجھ میں نہیں آتاکہ آزادی کے پہلے دن سے جنوبی اور مغربی ایشیا کے قائدین نے برطانیہ سے آزادی کے بعد پھر امریکی غلامی کیوں قبول کرلی تھی۔سچ بات یہ ہے کہ جو قومیں دوسروں کے سہارے چلنے کی عادی ہوجاتی ہیں ان کے لیے بغیر بیساکھی کے چلنا دشوار ہوجا تاہے۔یہی آج تک یہ عادت بنی ہوئی ہےاور اسی کی دعوت ہم اپنی نسلوں کو دےکر جارہیں ہیں۔کہ تمہارا کام امریکہ اور اسرائیل کے بغیر نہیں چل سکتا۔وہی تمہارے ستون ہیں وہی مسقبل کے محا فظ اور نگراں ہیں جو کام تمہیں کرنے ہیں ان سے پہلے مشورہ ضرور کرلینا ۔
بہرحال ہمارے دیوالیہ پن کی شاید کوئی انتہا ہی نہیں ہے ۔سر کے بل گرتے ہیں تو گرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ہم اپنی اوقات ہی بھول جاتے ہیں اوروہ بھی ان لوگوں کی خاطر جو ہمارے اس دیوانے پن کا کھل کر مذاق اڑاتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں خوداری اور خود اعتمادی بڑی نعمت ہے۔لیکن مشرقی قومیں اب تک اس غیرت اور خود داری سے یکسر محروم ہیں ۔ مشرقی ملکوں میں ترقی، تعلیم اور معاشیات کے حوالے اگر جائزہ لیا جائے تو بات سامنے آتی ہے ان کا گراف روز بروز بڑھ تا جارہا ہے ۔لیکن اس کے باوجود مرعوبیت اور احساس کمتری کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے بلکہ اس مرعوبیت کا دائرہ تمام میدانوں کو اپنی چپیٹ میں لے چکا ہے ۔ سیاست مذہب اور سماجیات سے لیکر تعلیم اور تہذیب وثقافت وغیرہ سب پر حاوی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم نے خود اپنی اوقات اور حیثیت تیسرے درجے کی بنالی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس کئی پڑوسی ممالک بشمول چین کی حیثیت ہم سے کہیں بہت زیادہ بہتر ہے۔چین ان ملکوں کے سامنے اپنی جگہ سے ایک قدم ہلنے کو تیار نہیں جن کے سامنے ہم سرسے لیکر پاؤں تک جھکے ہوئے ہیں۔دراصل بات صرف یہ ہی نہیں کہ ہم اپنے کسی ملکی مفاد کی بنیاد پر کسی ملک سے تعلق کریں۔یاکسی آنے والے مہمان کا اس وجہ سےاستقبال کریں۔ یقینا تعلق بھی ہونا چاہیے اور استقبال بھی اور اچھے سے اچھا ہونا چاہیے۔لیکن استقبال اور تعلق میں مرعوبیت کا آجانا اور اپنے ضمیر کا سودا کرکے کسی سےصلح کرنا یہ کسی ملک کی سالمیت اور وقار کے لیے اچھی چیز نہیں۔بلکہ یہ ملک اور آ نے والی نسلوں کے لیے خطرے کی بات ہے۔کیوں کہ آنے والی نسلیں اس سےبجائے خودار اور خود کفیل ہونے کے ایک نفسیاتی بیماری میں مبتلاء ہو جائیں گی۔اسی طرح ان کے دل و دماغ اور سوچ پر ان ملکوں کا رعب طاری ہو جا ئے گا اور پھر وہی ہوگا کہ ستر سال پہلے جہاں سے سفر شروع کیا تھا ۔ستر سال کے بعد بھی وہیں کھڑے نظر آئیں گے۔