25 جولائی 2025کومشرق وسطی کے لیے خصوصی امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے دوحہ میں جاری حما س اوراسرائیل کے درمیان جنگ بندی مذاکرات کی ناکامی اوراپنی ٹیم کودوحہ سے واپس بلانے کا اعلان کردیااور مذاکرات کی ناکامی کا ساراالزام حما س کے سر ڈال دیا۔ اس کے بعدامریکی صدرٹرمپ،جس نے ہفتہ عشرہ قبل خوداپنی طرف سے یک طرفہ جنگ بندی کا پیشگی اعلان کیا تھا،نے رعونت بھرے لہجہ میں کہاکہ ’’حماس موت چاہتی ہے اوراسرائیل کواب اُسے ختم کردیناچاہیے‘‘۔(They wanna death, Israel should finish the job)۔ جب کہ حماس اِس باربھی اوراس سے قبل بھی کئی بار مذاکرات کی شرائط مان چکی تھی،البتہ ایک دوشقوں میں اُس نے کچھ ترمیم چاہی تھی مگراسٹیووٹکوف اورخودٹرمپ بھی سوفیصداسرائیلی خواہشات کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ اس لیے اُسی کے بیانیہ کوبلا چون و چراتسلیم کرکے وہائٹ ہاوس کے ترجمانوں کے ذریعہ اس کوپھیلاتے رہتے ہیں۔
ساری دنیاجانتی ہے اورخوداسرائیل کے دوسابق وزراء اعظم ایہودباراک اورایہوداولمرٹ بھی جنگی مجرم نتین یاہو کواِس کا ذمہ دارٹہرا چکے ہیں۔دس نوبل انعام جیتنے والے دانشوروں نے نتین یاہوکوخط لکھ کرغزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔لیکن امریکی حکومت کوغزہ کے لاکھوں معصوموں کی جان کی فکرنہیں،وہ توبس مجرم نتین یاہوکو ہرقیمت پر بچاناچاہتی ہے۔اس کے لیے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے چیف پراسیکیوٹرکریم خان کو دھمکیاں دی گئیں۔ اس عدالت کے چھ ججوں پرپابندی لگائی گئی۔ اورتو اورخوداسرائیلی کورٹ میں مجرم نتین یاہوکے خلاف بدعنوانی کے کیسوں کی شنوائی کوموخرکر وا دیا گیا۔ اسی سے پتہ چلتاہے کہ امریکہ کس مجرمانہ ذہنیت کے ساتھ اندھا بہرا ہوکر جنگی جرائم اورنسل کشی کے مجرم نتین یاہوکی حمایت کرتاآرہاہے۔ جب فرانس نے فلسطینی ریاست کوتسلیم کرنے کا عندیہ دیا توامریکہ اوراسرائیل دونوں نے بلاتاخیر اس کے اعلان کوسبوتاژکردینے کی مجرمانہ کوشش شروع کردیں۔
جنگ بندی مذاکرات باربارصرف نتین یاہوکی ضدکی وجہ سے ناکام ہورہے ہیں۔ یہاں تک کہ خوداسرائیلی فوجی حکا م بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ غزہ میں اپنے اہداف پورے کرچکے ہیں اوراب سیاسی قیادت کوفیصلے کرنے چاہییں۔ اسرائیل میں لیفٹ کی طرف جھکاؤ رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں نتین یاہو کی جنگ بازی کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں مگرامریکی سرپرستی اورآشیروادکی وجہ سے اورخطہ میں عرب حلیفوں کی خفیہ اورعلانیہ حمایت کے باعث نتین یاہوغزہ کے دوملین لوگوں کی جان لینے پر تلاہواہے۔
اگست کے دوسرے عشرہ میں قطراورمصرکی کوششوں سے جنگ بندی کا ایک اور مسودہ تیارکیاگیاجو اسیٹووٹکوف کے مسودہ سے ملتا جلتا تھا اوراس بارحماس نے بغیرکسی شرط وترمیم کے اس کو مان لیا مگر اسرائیل نے یہ کہتے ہوئے اس کومستردکردیا کہ اب ہم حماس کوختم کردینے کے بالکل قریب ہیں۔ چنانچہ اس نے اس جنگ بندی کومستردکرکے غزہ پر مکمل قبضہ کا اعلان کردیا۔
یہ مذاکرا ت باربارصرف نتین یاہو کی ضد کی وجہ سے ناکام ہورہے ہیں۔جس کی وجہ سے دوملین فلسطینی بھوک اورپیاس سے تڑپ رہے ہیں۔غزہ میں وحشت ناک حدتک بھوک مری،دواؤں اورخوراک کی کمی ہوچکی ہے جس کی وجہ سے بچے اوربوڑھے اورمریض بلک بلک کرجان دے رہے ہیں۔اقوام متحدہ نے اب باضابطہ بھوک مری کا اعلان کردیاہے۔ چاروں طرف سے اسرائیل کا محاصرہ ہے۔ چھ ہزارامدادی ٹرک مختلف کراسنگ
(ر فح بارڈر، معبرکرم ابوسالم، فلاڈلفیا کاریڈور وغیرہ) پرمہینوں سے امدای سامان لیے اسرائیلی اجازت کے انتظارمیں کھڑے ہیں۔ ان پرجوغذائی سامان لداہواہے وہ اب خراب ہونے لگاہے۔ یواین او کی امدادی ایجنسی اونرواکا کہناہے کہ اس کے پاس کم ازکم دوملین لوگوں کی غذائی ضرورت دومہینے تک پوری کرنے کا سامان موجودہے مگراس کوامریکہ اور اسرائیل ضرورت مندوں کو پہنچانے نہیں دے رہےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعہ یہ سامان حماس کے لوگوں تک پہنچ جائے گا۔اونروا پر حما س کا ساتھ دینے کا یہ الزام سراسربے بنیادہے۔ یہاں تک کہ26 جولائی کوخود امریکہ کی متعین کردہ تفتیشی ایجنسی نے اونرا کوکلین چٹ دی اورکہا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ حما س نے بین الاقوامی امدادی سامان کی چوری کی ہو یااونرواکسی غلط مقصدکے لیے استعمال ہوئی ہو۔اس کے مقابلہ میں غزہ ہیومینٹیرین ایڈ(GHA)نامی جس ادارے کوامریکہ اوراسرائیل نے سیٹ کیا ہے، وہ غزہ کے لوگوں کے لیے ایک ڈراوناخواب بن چکاہے۔ وہ وہاں امدادلینے جاتے ہیں اوران پر اسرائیلی فوجی گولیاں داغ دیتے ہیں۔ اب تک ایک ہزارلوگوں کواِس طرح سے شہیدکیاجاچکاہے۔ مصرکی شقاوت اورجنرل سیسی کی بدبختی کہ اُس نے اسرائیلی کنٹرول سے باہرواحدکراسنگ ر فح بارڈرکوبھی بندکررکھاتھا۔ شیخ الازہرنے اسرائیل کے خلاف اورغزہ کے حق میں جوفتوی جاری کیاتھا اُس کوبھی سیسی کے دباومیں میں واپس لیناپڑا۔
مصریوں کی اس بے حسی وبے غیرتی پر شدید دکھ کا اظہارعرب سوشل میڈیا پر جب شروع ہوا توسیسی کے خلاف ہیش ٹیگ مہم چلی ،نیز مظاہرین نے نعرے لگائے: حکومات عربیۃ یاللعار باعواغزۃ بالدولار (عرب حکومتیں ہائے ہائے،انہوں نے غزہ کوڈالروں کے لیے بیچ ڈالا) توشایدمصریوں کوکچھ غیرت آئی اورانہوں نے ر فح بارڈرسے 167 امدادی ٹرک غزہ کے اندربھجوائے جواونٹ کے منہ میں زیرہ کی مصداق تھے۔بعض لوگوں نے سمندرمیں کچھ اشیاء خورونوش پھینکیں۔
یوروپ وامریکہ ، افریقہ کے عرب مسلم ملکوں تیونس،الجزائر وغیرہ سمیت دنیابھرمیں لوگ اب بھی بڑی تعدادمیں سڑکوں پر نکل کرمظاہر ہ کر رہے ہیں۔ اگرکہیں سکوت طاری ہے تووہ ہیں ترکی،پاکستان ،سعودی عرب،امارات،اردن، بحرین،انڈونیشیا اور ملیشیاوغیرہ۔ قطراورمصر ثالثی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
مزاحمت کی قوتوں نے پوری شدت سے اسرائیل کا راستہ روکنے کا اعلان کیاہے۔ڈونالڈٹرمپ اسرائیل کوپہلے ہی گرین سگنل دے چکاہے۔ غزہ پر قبضہ کے اعلان کے خلاف اسرائیل کے اندرجو شدید ردعمل نظرآیا وہ کامیا ب ہوتا دکھائی نہیں دے رہاہے کیوں کہ اس میں بائیں بازوکے اسرائیلی ہیں یا اسرائیلی یرغمالیوں کے کنبہ والے۔ اسرائیل کسی کے پریشرمیں نہیں آرہاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں حالات نارمل ہیں بقیہ مسلم دنیامیں سب عیش کی زندگی جی رہے ہیں ۔عوام کے دل بس غزہ والوں کے لیے دھڑکتے ہیں مگروہ کچھ کرنہیں پا رہے ہیں۔آزربائجان (جومسلم ملک ہے )سے براہ ترکی اسرائیل کوگیس کی سپلائی برابر جاری ہے۔یوروپی ممالک (جرمنی فرانس ،یوکے اورکینیڈاوغیرہ ستمبرمیں آزادفلسطینی ریاست کوتسلیم کرنے کی بات کررہے ہیں) مگر جب کسی ریاست کے مکینوں کا ہی خاتمہ کر دیاجائے گا تواس کا تسلیم کیا جانا چہ معنی دارد؟
اسی کوکہتے ہیں کہ ؎
بہت دیرکردی مہرباں آتے آتے
اگریہی ممالک اب سے ایک سال قبل فلسطینی ریاست کوتسلیم کرلیتے تواسرائیل پر یقینااس کا بڑا دباؤ پڑتا۔ اب اس قدم سے اسرائیل پر زیادہ فرق ا س لیے نہیں پڑے گا کہ شرق اوسط میں اسرائیل اب خودایک استعماری قوت بن چکاہے۔ نیتن یاہوکے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں۔ وہ تواب گریٹراسرائیل کے اپنے منصوبہ کی طرف قدم بڑھارہاہے ۔اب وہ اوراس کے دائیں بازو والے وزیر تورات کے حوالہ سے بات کرتے ہیں۔ نتین یاہوخودکو یہود کا ایک تاریخی ہیروسمجھتاہے جس کا’’روحانی واخلاقی فرض ہے کہ وہ اسرائیل عظمی قائم کرے ‘‘۔حماس اس کے راستہ کی آخری چٹان ہے۔ جسے خود عرب ممالک اپنی پھسپھسی اورغلامامہ خارجہ پالیسی کے تحت بربادکرچکے ہیں۔ حالانکہ حماس کی اب تک کی تاریخ رہی ہے کہ اُس نے کبھی عرب ممالک کی اندرونی پالیسیوں میں کوئی مداخلت نہیں کی، نہ ہی ان کے خلاف کبھی کوئی بیان دیا۔ الٹے سعودی اوراماراتی پیرول پر رہنے والے سلفی مدخلیوں نے زہریلا پروپیگنڈا اس کے خلاف جاری رکھا ہواہے۔شروع میں بعض ایسے بھی شقی ،بے شرم اوربے حس لوگ تھے جو حما س کے قائدین کی شہادت پر خوشیاں مناتے تھے ۔ اب لہجہ میں تو تبدیلی آئی ہے مگر اب بھی غزہ میں جوقتل ِعام ہورہاہے اس کا ذمہ دار یہ بے خبراورفریب خوردہ لوگ اسرائیل کے بجائے حماس کو ہی بتارہے ہیں۔
اب اسرائیل نے ایک لاکھ ساٹھ ہزارفوجیوں کے ساتھ غزہ پرمکمل قبضہ کے لیے حملہ کردیاہے جس کواس نے Gidion Chariot 2 کا نام دیاہے۔جواب میں مزاحمتی فورسزنے حجارۃ داؤد کے ذریعہ ان کا مقابلہ شروع کیاہے۔اورانہوں نے گوریلااوراستشہادی سرگرمیاں بھی تیز کردی ہیں جن میں صہیونیوں کوبھی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، گوجانی نقصان ابھی کم ہے۔ مگراسرائیلی بڑے بزدل لوگ ہیں، اس لیے ایک فوجی بھی مرتاہے تواس کا ماتم ساری قوم مناتی ہے۔اسرائیل اپنے نقصانات چھپاتابھی ہے۔وہ کہتاہے کہ دوسال میں اس کے صرف 90 فوجی مارے گئے ہیں۔لیکن امورفلسطین کے ماہراورسابق سفیر پروفیسرآفتاب عالم پاشا میڈیا اسٹار ورلڈکے محمداحمدکاظمی کوبتاتے ہیں کہ انہوں نے جوگنتی کی ہے اس کے حساب سے اسرائیل کے 2500 فوجی اب تک واصل جہنم ہوئے ہیں۔ جب کہ شدیدزخمیوں کی تعدادبھی 22ہزارتک پہنچتی ہے۔ان میں بہت سے لوگ اپاہج ہیں اوربہت سے نفسیاتی مریض۔اسرائیلی سماج اپنے آپ میں بنداور گم سم سماج ہے ۔نتین یاہوکی سب سے بڑی حمایت امریکہ کے وہ صہیونی عیسائی کرتے ہیں جنہوں نے ٹرمپ کوحصارمیں لیاہواہے اوران کی مرضی کے بغیروہ ایک قدم بھی نہیں اٹھاسکتا۔جہاں تک غزہ میں اسرائیل کی نئی فوجی کارروائی کی با ت ہے تو وہ پہلے ہی سے 75 فیصدغزہ پر قابض ہے اوراس کوبربادکرچکاہے۔ اب وہ زیادہ سے زیادہ کیاکرے گاجوباقی ماندہ غزہ بچاہے اس کوبھی تباہ کردے گا۔(ٹرمپ اورنتین یاہوکا اصل پلان یہی ہے کہ غزہ کوپوری طرح برباد اورخالی کراکرقتل ِعام سے بچے ہوئے لوگوں کودوسرے ملکوں میں منتقل کردیاجائے ۔جن میں انڈونیشیا،لیبیا،سوڈان اورصومالی لینڈوغیرہ سے بات چیت چل رہی ہے۔اس کے بعدفلسطینی مسئلہ سے ہمیشہ کے لیے چھٹکاراپالیاجائے گا)۔ایسے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ مزاحمتی قوتیں کس طرح مقابلہ کرتی ہیں اوراگروہ‘ عربات جدعون اول‘‘ کی طرح اسرائیل کے اس حملے کوبھی ناکام کردیتی ہیں توپھرنتین یاہواپنے منصوبوں میں ناکام ہوجائے گا۔خدانخواستہ اگرحماس ناکام ہوتی ہے توپھرلبنان اورشام کی طرح مصراوراردن کوجان لیناچاہیے کہ اسرائیل کا اگلا ہدف وہی ہوں گے۔ اور اگراسرائیل ان پر حملہ آورہوتاہے تواُن میں اتنادم خم نہیں کہ اس کا مقابلہ کرسکیں۔اقوام متحدہ بھی کچھ نہیں کرے گا۔عرب لیگ صرف مذمت کے بیانات جاری کرے گی،سعودی عرب اور امارات ٹرمپ کی بارگاہ میں فریادکریں گے اورجواب میں وہ تاناشاہ ا ن سے مزیددولت بٹورلے گااوراُن سے کہے گاکہ اسرائیل نے مغربی کنارے اردن ،شام اورلبنان ومصرکے جتنے علاقوں پرقبضہ کرلیاہے سیکوریٹی کے لحاظ سے وہ اسرائیل کے لیے اہم ہیں لہذاان کوان علاقوں سے دستبردارہوجاناچاہیے۔ جیساکہ وہ Territory for Peace کے بے ہودہ نام سے یوکرین کومجبورکررہاہے کہ اس کے جتنے علاقہ پر روس نے قبضہ کرلیاہے وہ اس سے دستبردار ہوجائے۔
اسی مہینے نیویارک میں ہونے والی سعودی عرب اورفرانس کی مشترکہ’’ فلسطین کانفرنس‘‘ امریکہ کی شدیدمخالفت کی وجہ سے اعلامیہ جاری کرنے اورکمیٹیاں تشکیل دینے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکی۔ جیسا کہ دکتورمحسن ابوصالح کہتے ہیں کہ ’’اس کے مقاصد اچھے تھے مگرنظام عمل کا فقدان تھا‘‘۔
اقبال نے کہاتھا: ؎
ہے جرم ضعیفی کی سزامرگِ مفاجات
اِس دنیا میں طاقت ہی فیصلہ کن قوت ہوتی ہے۔ اہلِ ایمان کو: “واعدوا لہم مااستطعتم من قوۃ” (انفال: 60) کا حکم اسی لیے دیا گیا تھا۔ موجودہ زمانہ کی نام نہاد روشن خیالی، جدتِ فکر، ترقی اور تحقیق و ٹیکنالوجی کی تمام تر بلندیوں کے باوجود دنیا جیسی کل تھی ویسے ہی آج بھی ہے۔ بس طاقت کے ذرائع اور وسائل بدل گئے ہیں۔ جو قوم طاقتور ہے اور طاقت کے ذرائع پر قابض ہے اُسی کی حکمرانی ہے۔ یہودیوں نے اس حقیقت کو سمجھا اور تعداد میں بہت تھوڑے ہوتے ہوئے بھی وہ آج بالواسطہ پوری دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ان کے آگے کھڑے ہونے کے لیے مزاحمتی قوتوں کو بھی اپنے اندر وہی طاقت پیدا کرنی ہوگی۔
بظاہر عرب ملکوں میں کسی تبدیلی اور انقلاب کی امید بہت کم ہے۔ عرب بہار کو خلیج کے ثروت مند حکمرانوں نے اپنی مداخلت سے جس طرح سبوتاژ کیا تھا اُس سے عوام میں مایوسی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ ممالک زیادہ تر پولیس اسٹیٹ ہیں۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے کہ انقلاب کبھی بتاکر نہیں آتا، اُس کے لیے بسا اوقات ایک ہی چنگاری کافی ہو جاتی ہے۔ غزہ میں معصوموں کا اتنا خون بہہ گیا ہے کہ عرب عوام اب بھی نہ اٹھے تو پھر ان کو بس امریکہ اور اسرائیل کی بدترین غلامی کے لیے تیار رہنا چاہیے!
غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو رہی؟ — ایک نظر میں
1۔اسرائیلی سیاسی قیادت کے اہداف:
اسرائیل کی موجودہ حکومت، بالخصوص وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو، اپنے سیاسی مستقبل اور اندرونی دباؤ سے نمٹنے کے لیے جنگ کو طول دے رہا ہے۔ نیتن یاہو پر بدعنوانی کے الزامات ہیں اور اسے عوامی احتجاجات کا سامنا ہے، اور جنگ کی موجودگی اس کے لیے “قومی سلامتی” کے نام پر سیاسی بقا کا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔
- مکمل ہدف کا حصول (حماس کا خاتمہ):
اسرائیل کا سرکاری مؤقف یہ ہے کہ جنگ کا مقصد حماس کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ جب تک یہ ہدف پورا نہیں ہوتا، اسرائیل جنگ بندی کو ایک “ادھورا کام” تصور کرتا ہے۔ تاہم، ماہرین کا ماننا ہے کہ حماس جیسی تنظیم کو مکمل طور پر ختم کرنا زمینی حقائق کے برعکس ایک خواب ہے۔
- امریکی حمایت اور بین الاقوامی دوہرا معیار:
اگرچہ دنیا کے کئی ممالک جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن امریکہ اب تک اسرائیل کو فوجی امداد بھی فراہم کر رہا ہے اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو بھی کرتا رہا ہے۔ یہ عملی حمایت اسرائیل کو جنگ جاری رکھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ وہ کتنا ہی انسانیت کے خلاف جرائم کرے، فوری طور پر کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
- حماس کے مطالبات اور اسرائیلی انکار:
حماس کی طرف سے مستقل جنگ بندی کے لیے شرائط رکھی گئی ہیں — مثلاً غزہ سے فوجی انخلا، معاشی محاصرہ ختم کرنا اور اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینی قیدیوں کی رہائی — جنہیں اسرائیل فوری طور پر ماننے کو تیار نہیں۔ جب کہ موجودہ جنگ بندی مسودے میں یہ شرطیں بھی حماس نے حذف کر دی تھیں مگر اسرائیل نے پھر بھی اس کو تسلیم نہیں کیا۔
ان وجہوں سے جنگ بندی کی کوششیں بار بار ناکام ہو رہی ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ دونوں کی نیت اچھی نہیں ہے بلکہ وہ دونوں بس اسرائیلی یرغمالیوں کو حماس کی قید سے رہا کروانا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد لاکھ امریکی وعدوں اور ضمانتوں کے باوجود سب جانتے ہیں کہ اسرائیل فوراً غزہ پر دوبارہ حملے کرے گا اور اپنے اہداف، یعنی حماس کا خاتمہ، اور یوں فلسطینی جدوجہدِ آزادی سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
- خطے میں بڑی طاقتوں کا مفاد:
امریکہ، روس اور چین سب ہی اس خطے میں اپنے اپنے مفادات کا حصول چاہتے ہیں، مگر فی الحال امریکہ کو سب پر بالادستی حاصل ہے کیونکہ خطے کی بڑی عرب حکومتیں اس کی چھتری کے نیچے ہیں۔ وہ بظاہر روس اور چین کے ساتھ تعلقات استوار کر رہی ہیں، لیکن امریکہ اپنی فوجی قوت کے بل پر ان پر مسلط ہے۔ اسی لیے یہ حکومتیں نہ امریکہ اور نہ ہی اسرائیل کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھا سکتی ہیں۔
امریکہ تو کھل کر ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ رہا ہے، البتہ روس اور چین کی پالیسی مبہم ہے۔ وہ نہ کھل کر حمایت کرتے ہیں اور نہ کھل کر مخالفت۔ ان کی مخالفت بس بیان بازی تک محدود رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین اسرائیل کو اسلحہ بڑے پیمانے پر فراہم کرتا ہے اور روس بھی اس کا حامی ہے، کیو ں کہ اسرائیل کی آبادی میں روسی نژاد یہودیوں کی تعداد بیس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ خطے کی دو بڑی معیشتوں میں سے امارات تو کھل کر اسرائیل کے ساتھ جا چکا ہے، جب کہ سعودی عرب ابھی پس و پیش میں ہے۔ تاہم سب جانتے ہیں کہ اس کے اسرائیل سے خفیہ تعلقات کب کے قائم ہیں۔ عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے ردِعمل کے خوف سے وہ ابھی تک اس کا باضابطہ اعلان کرنے سے رکا ہوا ہے۔ خطے کے دوسرے چھوٹے ممالک یا تو سعودی کیمپ میں ہیں یا امارات کے زیرِاثر۔ قطر ان دونوں سے آزاد ہے لیکن امریکہ کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے، اور اس کا رقبہ اور دفاعی صلاحیت محدود ہونے کے باعث اس کی تزویراتی اہمیت کم ہے۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عرب دنیا میں صرف قطر ہی ہے جو کھل کر فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتا ہے اور غزہ پر مسلط جنگ کو رکوانے کی سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔
- انسانی بحران کو نظرانداز کرنا:
غزہ میں بدترین انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ لیکن چوں کہ فلسطینیوں کو عالمی سیاست میں انسان نہیں بلکہ صرف “سلامتی مسئلہ” سمجھا جاتا ہے، اس لیے انسانی ہمدردی کے تقاضے پسِ پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ بڑی عرب معیشتیں، سعودی عرب اور امارات، امریکہ پر (اس سے مہنگے معاشی معاہدے کرنے کی وجہ سے) کچھ دباؤ ڈال سکتی تھیں، مگر انہوں نے خاموشی کو ہی ترجیح دی ہے۔ سعودی عرب کو غزہ کے انسانوں کی نہیں بلکہ اپنے منصوبہ ویژن 2030 کی کامیابی کی فکر ستا رہی ہے، اور امارات کو اپنے ملک میں مصنوعی ذہانت کے منصوبے کی تکمیل کی فکر ہے۔
- ثالثی کی کوششوں میں سنجیدگی کا فقدان:
مصری، قطری اور امریکی ثالثی کے باوجود اب تک کوئی پائیدار حل سامنے نہیں آ سکا۔ ہر فریق اپنے مفادات کے مطابق ثالثی کرتا ہے، نہ کہ فلسطینی عوام کی زندگی بچانے کی نیت سے۔ قطر ایک بہت چھوٹا اور کمزور کھلاڑی ہے جو اپنی حفاظت کے لیے بھی امریکہ پر ہی منحصر ہے۔ مصر امریکہ سے سالانہ بھاری معاشی امداد وصول کرتا ہے، جو زیادہ تر اس کی فوج کی جیب میں جاتی ہے اور فوج ہی ملک پر قابض ہے۔ لہٰذا مصر امریکی خواہشات کے برخلاف نہیں جا سکتا۔ اور امریکہ خود ایک جانبدار ثالث ہے۔
عرب اور اسلامی ممالک کی اسرائیل کی مخالفت صرف زبانی جمع خرچ ہے اور عملاً وہ کچھ نہیں کرتے، نہ غالباً کرنا چاہتے ہیں۔ اس حقیقت کو اسرائیل اور امریکہ دونوں اچھی طرح جانتے ہیں۔ خود اسرائیل کے اندر جنگ کے خلاف جو آوازیں اٹھ رہی ہیں وہ بہت کمزور ہیں اور زیادہ تر بائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب کہ اسرائیلی سماج پوری طرح دائیں بازو کے جنونی صہیونیوں کے زیرِ اثر ہے، جو حقیقتاً تمام فلسطینیوں کو ختم کرنے اور مغربی کنارہ اور غزہ پر اسرائیل کے مکمل قبضہ کی حمایت کرتا ہے۔ انہی کے دباؤ میں 25 جولائی 2025ء کو اسرائیلی کنیسٹ نے یہ قانون پاس کر دیا ہے کہ مغربی کنارہ کو اسرائیل میں ضم کر لیا جائے۔ اس کوشش کو امریکی صدر ٹرمپ کی پہلے ہی سے حمایت حاصل ہے۔
غزہ میں جنگ بندی نہ ہونے کی بنیادی وجہ صرف “جنگ” نہیں بلکہ عالمی سیاست، مفادات کی جنگ اور انسانی جان کی بے توقیری ہے۔ جب تک اس طرزِ فکر میں تبدیلی نہیں آتی، جنگ بندی کی تمام کوششیں عارضی اور ناکام ہی رہیں گی۔
اب بظاہر جنگ بندی کا زیادہ امکان اسی میں ہے کہ حماس اور دوسری مزاحمتی تنظیمیں گوریلا حملوں سے اسرائیلی فوج اور اہداف کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائیں۔ یہی ایک چیز ہے جو اسرائیل کو جنگ بندی کے لیے تیار کر سکتی ہے۔ ایک دوسرا امکان یہ ہے کہ فرانس، انگلینڈ اور دوسرے مغربی ممالک فلسطینی ریاست کو فوراً اور غیر مشروط طور پر تسلیم کر لیں، جس سے اسرائیل مزید دباؤ میں آئے۔ اور امریکہ خود کسی اور علاقے میں زیادہ شدت کے ساتھ الجھ جائے۔
بہرحال مسلم دنیا پر ایسا ہی موت کا سکوت طاری ہے جیسے کبھی حسینؓ کے قافلے کو تمام مسلمانوں نے کربلا میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا۔ اور جیسے 1492ء میں خلافتِ عثمانیہ جیسی سپر پاور اور مصر کے سلطانوں نے اندلس میں اسلام کی ٹمٹماتی شمع غرناطہ کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا تھا، جسے صلیبی بھیڑیوں نے ہر طرف سے گھیر لیا تھا اور اقتصادی ناکہ بندی کرکے ویسے ہی بھوک مری کے حالات پیدا کر دیے تھے، جس سے آج اہلِ غزہ دوچار ہیں۔
نوے کی دہائی میں بوسنیا میں بھی یہی المیہ پیش آیا تھا جب اس کے دارالحکومت سرائیوو کو مسیحی سربوں نے تین سال تک محاصرے میں لیے رکھا اور وہاں بھی زندگی بہت مشکل بنا دی تھی۔ بوسنیا کے قائد علی عزت بیگووچؒ خود ایک خندق میں اپنے مجاہدین کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے۔ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا۔ جب سربرینیکا میں سربوں کے ذریعہ دس ہزار مسلمان نہتے مرد و زن کے بہیمانہ قتل کی واردات بعض بہادر صحافیوں کے ذریعہ دنیا کے سامنے آئی تو نیٹو کو شرم آئی اور پھر انہوں نے سربوں پر بمباری کر کے ان کو مجبور کیا کہ سراييوو کا محاصرہ ختم کریں۔
افسوس کہ غزہ کے مسلمان تو یورپ میں بھی نہیں بلکہ عین اسلامی دنیا کے قلب میں ہیں۔ اگر وہ یورپ میں ہوتے تو شاید نیٹو ان کو بچا لیتا، مگر وہ عربوں اور مسلمانوں سے گھرے ہوئے ہیں جن کی اخلاقی صورتِ حال افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بالکل وہی ہو گئی ہے جس کا اقبال نے ماتم کیا تھا:
؎
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
٭ ریسرچ ایسوسی ایٹ مرکزفروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہندعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اورمدیراشراق عربی
ای میل:mohammad.ghitreef@gmail.com