غزہ پرامریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ سراپا احتجاج

تابش سحر
مئی 2024

تابش سحر

فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کی بنیاد پر کیلی فورنیا یونیورسٹی کے احاطے میں طلبہ نے خیمے نصب کیے اور یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان اداروں اور کمپنیز کے ساتھ معاشی حصّہ داری ختم کردیں جو اسرائیل کو کسی بھی طرح تقویت پہنچاتی ہیں۔ انتظامیہ پر یہودی نواز نظام کا دباؤ اس قدر تھا کہ مطالبہ قبول کرنے کے بجائے احتجاج کرنے والے طلبہ کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا، طلبہ کی گرفتاری کے بعد یہ احتجاج ختم ہونے کے بجائے زور پکڑنے لگا، لاس اینجلس، نیویارک، واشنگنٹن اور ورجینیا سمیت دیگر ریاستوں کی جامعات سے فلسطین کے حق میں آواز اٹھائی جانے لگی۔ وہ امریکی جامعات جنہیں دنیا بھر میں معیاری تعلیم کا دوسرا نام سمجھا جاتا ہے آج ان کے فرزند فلسطین کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں، مشہور و معروف یونیورسٹی’ ہارورڈ کے احاطے میں واقع ادارے کے بانی جان ہارورڈ کے مجسمے سے امریکی پرچم اتار کر فلسیطینی پرچم لہرایا گیا، یہ الگ بات ہے کہ انتظامیہ نے اس کا سخت نوٹس لیا اور پرچم کا تبادلہ بھی عمل میں آیا مگر فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کا یہ اقدام دنیا بھر میں مقبول ہوا۔ آج امریکی جامعات سراپا احتجاج ہیں تو وہیں دوسری طرف عالمِ عرب میں کوئی ہلچل نظر نہیں آتی۔ مغربی تہذیب کی مذمّت اور تنقید کے موضوع پر ہمارے یہاں بہت کچھ لکھا پڑھا گیا ہے گو کہ وہ اپنی جگہ درست بھی ہے مگر حرّیت، انصاف اور مساوات کا جو درس مغربی عوام پیش کررہی ہے، مشرق اسے پیش کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ عالمِ عرب کو حکمراں خاندانوں کے عفریت نے ایسے جکڑ رکھا ہے کہ عوام’ عدل و انصاف کا مطالبہ بھی نہیں کرپاتی، کوئی مردِ قلندر’ حمیّت و غیرت کا حوالہ دیتا ہے، عدل و انصاف کا نعرہ لگاتا ہے، ظلم و عدوان کے خلاف پرچمِ بغاوت بلند کرتا ہے اور حق کو حق کہنے کے لیے منہ کھولتا ہے تو اسے منظرِ عام سے یوں غائب کردیا جاتا ہے جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ اقبال نے کہا تھا
“تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا”
آج شاخِ نازک پر نمودار پھول’ انگارے بن کر اپنی تہذیب پر تنقید کررہے ہیں اور اپنے بڑوں کی غلط روش پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں مگر ان پھولوں کا کیا جو مضبوط ٹہنیوں پر کھلے تھے، کیا انہیں توڑ کر قدموں تلے روندا جاچکا یا وہ ازخود ہی مرجھا گئے؟
ایک وقت تھا جب اخوّت اور مساوات’ مسلمانوں کا طرّۂِ امتیاز تھا، مسلمانوں کے رگوں میں خون کے ساتھ ساتھ حرّیت کا عنصر بھی پایا جاتا تھا، “وا معتصماہ” کی صدا پر حکمراں مظلوم کی داد رسی کو سب سے بڑا فرض سمجھتے تھے آج بہروں کی حکومت ہے اور گونگوں کی محکومیت، حرّیّت کا کوئی نام و نشان نہیں اور غیرت کا کوئی پاس و لحاظ نہیں۔ دبئی کی رنگین شامیں، سعودیہ کے پرتکلّف تقریبات، مصر کے پراسرار اجلاس اور دیگر عرب ریاستوں کی خموشی اس بات پر شاہد ہے کہ اخوت کا سبق فراموش کیا جاچکا ہے وہ’ جنہیں کسی درویش نے کہا تھا
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
آج وہ اس قدر انسان منتشر ہوگئے ہیں کہ انہیں سرحد کی دیوار کے اس پار کچھ نظر نہیں آتا، بھائیوں کا خون بہایا جاتا ہے اور ان کے سروں پر جوں تک نہیں رینگتی غضب تو یہ ہے کہ وہ ظالموں کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں، حرم کی گرتی دیوار سنبھالنے کے بجائے یہ اس میں سیاسی نفع و ضرر کے نکات ڈھونڈتے ہیں۔
امریکی جامعات کے طلبہ دانش گاہوں کے احاطے میں خیمہ زن ہوکر جو پیغام دے رہے ہیں کاش کہ اس پیغام کو ساری انسانیت سمجھے، فلسطینیوں نے جو کچھ سہا اور برداشت کیا وہ محض فضلِ خداوندی اور ان کے ایمان و استقامت ہی کا حصہ ہے، انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے باپ کو مرتے ہوے، ماں کو تڑپتے ہوے، بچوں کو ہچکیاں لیتے ہوے اور اپنے بھائیوں بہنوں کو آخری سانس لیتے ہوے ہوے دیکھا ہے، ان کے سامنے نشیمن پھونکے گئے، مکانات منہدم کردیے گئے، آبادیاں اجاڑ دی گئیں وہ خیموں میں اجڑی زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ ہم ان کے سر پر ہاتھ نہیں رکھ سکتے تو کم از کم ظالموں کو طاقت پہنچانے سے احتراز تو کر ہی سکتے ہیں سو آج عزم کریں کہ یہودیوں کو تقویت فراہم کرنے والے کسی بھی معاملے کا ہم حصہ نہیں بنیں گے۔