دنیا بھر میں صحافت کو ایک اہم اور حساس شعبہ تصور کیا جاتا ہے۔ صحافت جمہوریت کا ستون اور سچائی کی بہترین آواز ہے؛ لیکن غزہ میں صحافت کا مطلب ہے اپنی جان قربان کرنا، اور سچائی دکھانے کا مطلب ہے صہیونیوں کے ہاتھوں قتل ہونا۔ غزہ دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں نسل کشی، سفاکیت، وحشیانہ جرائم اور غیر انسانی سلوک پر دنیا خاموش ہے، دوسری جانب سچائی کی آواز، حق کی صدا اور جرائم کو بے نقاب کرنے والے صحافیوں کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔ عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی ہیں۔
گزشتہ 2 سال سے عالمی قوانین، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور صحافتی ادارے غزہ کے صحافیوں کو تحفظ دینے کی بات کر رہے ہیں، لیکن یہ ادارے اتنے بے بس ہیں کہ اسرائیلی فوج دھمکی دینے کے بعد بھی کھلم کھلا صحافیوں کو نشانہ بناتی ہے اور ان کا قتل عام کرتی ہے۔ ان کی تمام تگ و دو محض رسمی بیانات تک محدود ہے۔ حالیہ جنگ میں اسرائیل نے درجنوں صحافیوں کو شہید کیا ہے۔ بعض کو براہِ راست نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، اور کئی کو حماس اور اسلامی جہاد کا رکن قرار دے کر مارا گیا۔ یہ سب کچھ عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انہی بہادر صحافیوں کی وجہ سے اسرائیلی جرائم دنیا کے سامنے آرہے تھے۔ اسی لیے اسرائیل انہیں جان بوجھ کر نشانہ بناتا رہا تاکہ کوئی ادارہ اس کے مظالم کو دنیا کے سامنے نہ لاسکے۔ اس کے باوجود غزہ کے صحافیوں نے بدترین بمباری، نسل کشی اور قتل عام کے بیچ اپنی کوریج جاری رکھی اور اسرائیل کی ہر کارروائی دنیا تک پہنچائی۔
انس الشریف انہی بے باک صحافیوں میں شامل تھے جنہوں نے صہیونی دھمکیوں اور مشکلات کے باوجود عوام کے درمیان رہ کر رپورٹنگ کی۔ انہوں نے اسرائیلی جرائم کو مسلسل بے نقاب کیا۔ انس الشریف نے صرف اسرائیلی مظالم ہی نہیں دکھائے بلکہ اہلِ غزہ کی مشکلات کو بھی دنیا کے سامنے رکھا اور اسرائیلی پروپیگنڈے کو توڑ کر رکھ دیا۔ 10اگست کا دن پوری دنیا کے انصاف پسندوں کے لئے ایک کربناک دن تھا اور صحافت سے وابستہ لوگوں کے لئے ایک حساس سوال اٹھانے والا دن بھی۔ اسرائیل نے مسلسل دھمکیوں کے بعد اسی دن الشفاء ہاسپٹل کی بیرونی دیوار سے منسلک الجزیرہ کے ٹینٹ کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں الجزیرہ کے صحافی انس الشریف، محمد قریقع اور کیمرہ مین محمد نوفل، ابراہیم ظاہر اور مومن شہید ہوئے۔
اسرائیل نے چند لمحوں بعد انس الشریف کو ٹارگٹ کرنے کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ صحافت کے ساتھ ساتھ حماس سے بھی وابستہ تھے۔ لیکن اسرائیل نے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا۔ صرف چند تصاویر اور دستاویزات دکھائے، جن میں مبینہ طور پر انس الشریف کا ملٹری نمبر، ذمہ داریاں اور سیلری کی تفصیلات تھیں۔ تاہم ان دستاویزات کی درستگی ثابت نہیں کی گئی۔ یہ سب چیزیں معمولی ایڈیٹنگ کے ذریعے کوئی بھی بنا سکتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیل نے صحافیوں کو حماس یا جہاد اسلامی کا رکن قرار دے کر قتل کیا ہو۔ اس سے قبل 26 دسمبر 2024 کو العودہ ہاسپٹل، نصیرات ریفوجی کیمپ کے قریب 5 صحافیوں کو نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔ یہ سب ایک ہی گاڑی میں موجود تھے اور اسرائیلی فوج نے براہِ راست گاڑی کو ہی نشانہ بنایا۔ یعنی یہ حملہ خاص طور پر انہی صحافیوں کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اسرائیلی حکومت نے اپنے جرائم چھپانے کے لیے یہ دعویٰ کیا کہ یہ سب اسلامی جہاد سے وابستہ تھے۔ اسی طرح 31 جولائی 2024 کو الجزیرہ کے صحافی اسمعیل الغول اور رامی الریفی کی گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ تہران میں شہید ہونے والے حماس سربراہ اسمعیل ہنیہ کے گھر کے قریب رپورٹنگ کر رہے تھے۔
الجزیرہ قطر غزہ میں اسرائیل کی طرف سے شروع کی گئی نسل کشی کے پہلے دن سے ہی دنیا کے سامنے حقائق لا رہا ہے اور زمینی سطح سے سچائی کو اجاگر کر رہا ہے۔ الجزیرہ کے صحافیوں نے اسرائیل کے کئی جرائم کو بے نقاب کیا اور ان کی دستاویز بھی تیار کی۔ یہی وجہ ہے کہ الجزیرہ ابتداء سے ہی اسرائیل کے نشانے پر رہا ہے۔ حالیہ جنگ کے دوران اسرائیلی حکومت نے الجزیرہ کو دہشت گرد قرار دے کر اسرائیل میں اس کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔
الجزیرہ کو غزہ کے حقائق اجاگر کرنے کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ اس کے صحافتی عملے میں سے بڑی تعداد شہید ہو چکی ہے جن میں کئی سینیئر اور اہم صحافی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر نیوز چینلوں کے صحافتی عملے اور آزاد صحافیوں کو بھی اسرائیل نے نشانہ بنایا ہے۔ 12 اگست 2025 کی الجزیرہ رپورٹ کے مطابق اب تک تقریباً 270 صحافت سے وابستہ افراد کو اسرائیل نے قتل کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل مسلسل غزہ میں صحافیوں کو کیوں نشانہ بنا رہا ہے؟ وہ صحافیوں سے اتنا خوف زدہ کیوں ہے؟ ایک طرف اسرائیل غزہ میں موجود صحافیوں کو ٹارگٹ کر رہا ہے، تو دوسری طرف اس نے عالمی نیوز چینلوں کے صحافیوں کی غزہ میں داخل ہونے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ اسرائیل کے پیشِ نظر اس کے پیچھے اصل مقاصد کیا ہیں؟
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جنگ کے پہلے دن سے ہی اسرائیل اہلِ غزہ پر بدترین مظالم ڈھا رہا ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ اسرائیل نے اہلِ غزہ پر ہر طرح کے ہتھیار استعمال کیے ہیں، حتیٰ کہ بھوک کو بھی ایک ہتھیار بنایا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے مزاحمت کی گھات سے بچنے کے لئے فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے۔
غزہ کے صحافیوں نے بمباری، نسل کشی اور سفاکیت کے درمیان رہتے ہوئے ان تمام جرائم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیاہے۔ انہوں نے اسرائیلی مظالم کو کیمرے میں قید کر کے دستاویزی شکل دی اور فلسطینی صحافیوں نے اہلِ غزہ کی مشکلات اور پریشانیوں کو دنیا تک پہنچایا۔ بلاشبہ آج دنیا بھر میں عوامی سطح پر اہلِ غزہ کو جو حمایت حاصل ہورہی ہے اور اسرائیل کی جو مخالفت کی جا رہی ہے، اس میں غزہ کے بے باک اور بہادر صحافیوں کی رپورٹنگ کا کلیدی کردار ہے۔
صحافیوں کی آواز اور ان کی کوریج نے دنیا بھر کے عوام کو متاثر کیا ہے اور وہ غزہ کے اصل بحران سے واقف ہوئے ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ غزہ کے صحافیوں نے اسرائیل اور مغربی حکومتوں کے پروپیگنڈے اور دوہرے معیار کو پوری دنیا پر واضح کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پورا مغرب عوامی سطح پر اہلِ غزہ کے ساتھ اور اسرائیل کی مخالفت میں کھڑا ہے۔
اسرائیل اپنے جرائم کو چھپانے کے لئے مسلسل صحافیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس کا ایک اہم مقصد دیگر صحافیوں کو ڈرانا دھمکانا بھی ہے۔ اسی لیے اسرائیل نے کئی صحافیوں کو غزہ چھوڑنے کی پیشکش کی۔ خود انس الشریف کو ٹارگٹ کرنے سے چار دن قبل اسرائیل نے انہیں یہ آفر دی تھی، لیکن انس الشریف نے اسے ٹھکرا دیا اور غزہ میں رپورٹنگ جاری رکھتے ہوئے شہادت کو ترجیح دی۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ میں صحافت کو خاموش کر دیا جائے۔ صحافیوں اور ان کے اہلِ خانہ کو نشانہ بنا کر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جائے تاکہ دیگر صحافی پیچھے ہٹ جائیں۔ لیکن اسرائیل اب تک اس میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ جب بھی اسرائیل نے کسی صحافی کو نشانہ بنایا، دیگر صحافیوں کے اندر مزید حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوا۔ ان میں استقامت اور ثبات بڑھا۔ ہر شہادت کے بعد صحافیوں نے عزم کیا کہ کوریج جاری رکھیں گے، اپنے ساتھی کے پیغام کو عام کریں گے اور اس کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔
جس دن اسرائیل نے اسمعیل الغول کو نشانہ بنایا، اسی دن ان کے قریبی دوست انس الشریف نے یہ عہد کیا کہ وہ ان کا مشن جاری رکھیں گے۔ انہوں نے زندگی کے آخری لمحے تک اسرائیلی جرائم اور سفاکیت کو اجاگر کیا۔ اسمعیل الغول کی جگہ محمد قریقع نے صحافتی میدان سنبھالا اور کوریج جاری رکھی، حتیٰ کہ وہ بھی اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے۔ انس الشریف اور محمد قریقع کی شہادت کے بعد شادیی شامیہ اور نور ابو رکبہ نے ان کی جگہ لی اور اسرائیلی جرائم کو دنیا کے سامنے لانا شروع کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ انس الشریف اور ان کے ساتھیوں کی شہادت نے فلسطینی صحافیوں کے اندر ایک نیا جوش اور جذبہ پیدا کر دیا ہے۔
اب دسیوں صحافیوں نے یہ عہد کیا ہے کہ زندگی کی آخری رمق تک اسرائیلی جرائم اور سفاکیت کو اجاگر کرتے رہیں گے۔ غزہ میں جاری نسل کشی کو پوری دنیا کے سامنے لاتے رہیں گے، خواہ اس کی قیمت اپنی عزیز ترین جان ہی کیوں نہ ہو۔