صدرٹرمپ کا دورہ مشرق وسطیٰ اورغزہ کی نازک صورت حال

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی
جون 2025

 

غزہ میں دنیاکے کروڑوں مسلمانوں، ان کے اداروں،ان کی افواج، ان کے ممالک اور  او آئی سی وغیرہ کے ہوتے ہوئے بھی جو تباہی مچی ہے،معصوموں کا جوخون بہہ رہاہے اس سے عام مسلمانوں اورخاص کرنوجوانوں کے جذبات بھڑکے ہوئے ہیں۔ان کے دلوں میں اضطراب ہے ،دماغوں میں بے چینی اورسوالوں کا طوفان بپاہے۔ ایسے میں صدرٹرمپ کا مشرق وسطی کے تین مالدارعرب ممالک سعودی عرب ،قطراورمتحدہ عرب امارات کا چارروزہ دورہ ہوتاہے ۔اس دورہ نے عرب حکمرانوں کی جہاں اوربہت سی کمزوریوں کوطشت ازبام کیا وہیں اس نے بڑی شدت سے یہ بھی بتادیا کہ اب عربوں اورمسلمانوں میں سرکاری سطح پر تو امت کا تصورعملاًختم ہوگیاہے۔  اسلامی ادبیات میں اب بھی مسلم امۃ کا ذکرخوب ہوتاہے، مگراب وہ صرف ایک روحانی اوراخلاقی تصوربن کررہ گیاہے۔ اب مسلمان بھی عملاً چھوٹی چھوٹی قومیتوں میں بنٹے ہوئے ہیں اوران قومیتوں اورملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔سب سے پہلے سعودی عرب ،سب سے پہلے پاکستان ،سب سے پہلے مصرسب سے پہلے ترکی یہ مسلم دنیاکی عمومی صورت حال ہے۔نیشن اسٹیٹ یاقومی ریاستوں کا یہ ظاہرہ جدیدسیاسی تصورات کی دین ہے اوراس کے عواقب بڑے خطرناک ہوئے ہیں۔جن کواہل نظرنے پہلے ہی محسوس کرلیاتھا۔اقبال ؒنے یونہی نہیں کہہ دیاتھاکہ  ؎

ان تازہ خداؤں میں بڑاسب سے وطن ہے

جوپیراہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

مسلمان حکمرانوں اورخاص کرعرب بادشاہوں کے پاس کوئی will power نہیں ہے، ورنہ اگر یہ سب متحدہوکرواقعی کوشش کرتے تو غزہ میں جاری فلسطینی مسلمانوں کا قتل ِعام روک سکتے تھے، مگر تلخ صورتِ حال یہ کہ شروع میں توحرم میں غزہ کے لیے دعابھی منع تھی اورغزہ کا نام لینے پر گرفتار کرلیاجاتاتھا۔اب ہلکی پھلکی دعاکی اجازت ہے جس سے کہ اسرائیل اورامریکہ کے ماتھے پر کوئی شکن نہ آئے۔اس سے بھی زیادہ شقاوت اوربے حسی کی انتہایہ کہ سعودی عرب کے جدہ اورریاض میں برابرامریکی رقاصہ جینفرلوپیزکے عریاں کنسرٹ سعودی حکومت کی سرپرستی میں کرائے جاتے رہے اوراب بھی یہ مکروہ سلسلہ جاری ہے۔ اس بارے میں علماء کرام اوردینی جماعتوں کے ذمہ داران نے بھی اپنا شدید احتجاج درج نہیں کرایا۔مسلمان علماو دانشور،صحافی،سیاست داں اورعوام اتنی بڑی تعدادمیں باہرنکل کرنہیں آئے کہ وہ اپنی حکومتوں اوراپنی فوجوں پر کوئی دباؤبناسکتے۔ اپنی پارلیمنٹوں سے اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قراردلواسکتے ۔اگروہ ایسا کرلیتے توشایدمغربی قوتیں ان کاکچھ تونوٹس لینے پرمجبورہوتیں۔ہم امیدکرتے ہیں پاکستان، ہند اور بنگلادیش کے وہ علماء جوملوکیت کے خادم رابطہ عالم اسلامی وغیرہ اداروں کے ممبربنے ہوئے ہیں وہ ان سے استعفاء دیں گے ۔کیونکہ سعودی عرب میں سرکاری سرپرستی میں جن فواحِش کورواج دیا جارہا ہے، ان کی موجودگی میں ایسے ممبرشپ کوقبول کیے رہنے کا کوئی جواز ہماری نظرمیں باقی نہیں ہے۔

تمام مسلم حکمراں اسرائیل کوایک حقیقت واقعہ سمجھ کرقبول کرچکے ہیں، ایران اوریمن کے انصاراللہ(حوثی) کوچھوڑکر۔اس حقیقت کوبھی مزاحمتی قوتوں کوسامنے رکھناچاہیے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ عرب ممالک کا کردارحکیمانہ ہے، یہ حکیمانہ بالکل نہیں بلکہ بزدلانہ اورمجرمانہ ہے۔اس کوحکیمانہ اس وقت کہاجاسکتاہےجب وہ غزہ میں معصوم جانوں کوبچانے کے لیے کچھ کرتے ۔وہاں انسانی امداد داخل ہونے دیتے ۔جن لوگوں کورات دن ذبح کیاجارہا ہو اوربموں سے زندہ جلایاجارہا ہو ان کے لواحقین کوآپ مفت میں حج وعمرہ کراکراپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے!  گرچہ حکومتی سطح پر سعودی عرب کا حالیہ موقف کچھ بہترہواہے کہ اُس نے علی الاعلان کہاہے کہ ہم اسرائیل کوتبھی تسلیم کریں گے جب وہ دوریاستی حل کومان کرفلسطین کے قیام کے لیے راضی ہوجس کا دارالحکومت القدس ہوگا۔اس کے علاوہ ریاستی سطح پر سعودی عرب کا نمائندہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں بھی پیش ہوا۔

سوال یہ ہے کہ عالمی سطح پر مسلمان اتنے کمزورکیوں ہیں؟ اس کے اسباب کوتلاش کریں توسب سے پہلی وجہ مسلمانوں میں عدم اتحاداورانتشار کی کیفیت نظر آتی ہے۔شیعہ ،سنی اختلاف تواپنی جگہ خودسنی باہم متحارب ہیں۔عرب ممالک عراق ،سیریا،لیبیا اور سوڈان وغیرہ میں قبائلی گروہ باہم برسرپیکار ہیں اوراس خانہ جنگی سے نہ صرف عوام تباہ ہورہے ہیں،قومی املاک بربادہورہی ہیں بلکہ غیرملکی قوتوں کوبرابرمداخلت کا موقع بھی مل رہاہے ۔مسلمان سیاسی قیادت اورخاص کرعرب قیادت کسی پلیٹ فارم پر اکھٹا ہوجاتی ہے تو وہیں ان کے باہمی گلے شکوے شروع ہوجاتے ہیں۔ایک دوسرے کوموردالزام ٹھہرایاجاتاہے، یہ منظرعرب لیگ کے ہراجلا س میں نظرآجاتاہے۔ابھی صدرٹرمپ کے دورہ کے بعدبغدادمیں عرب لیگ کا چونتیسواں اجلاس تھا جس میں بن سلمان ،بن زاید تو گئے ہی نہیں قطرکے امیرتمیم بھی اجلاس میں شریک ہوئے بغیر ہی واپس چلے گئے ۔

مسلم حکمرانوں اورامراء کی سوچ اورخاص کرعرب حکمران  اپنے عوام سے کس قدر دور ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چودہ مئی کوامریکی صدرٹرمپ، سعودی عرب، قطر اور امارات کے دورے پر تھے ۔اس دورے میں عرب حکمرانوں نے جس طرح ان کا شاہانہ استقبال کیا ، قطر نے کئی              ملین ڈالر کا طیارہ قطرنے ان کوتحفہ میں دیا، جس طرح تینوں ملکوں نے اربوں ڈالر کے ہتھیارامریکہ سے خریدنے کے معاہدوں پر دسخط کیے، وہ اپنے آپ میں شرمناک ہے۔ساتھ ہی یہ لوگ اپنے فدویانہ جذبہ سے مغلوب ٹرمپ سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت رکوانے کے بارے میں کوئی بات نہیں کہہ سکے ۔ الٹے ٹرمپ نے ان کوغزہ کا نام لے کر وہاں سے ہورہی اسرائیل کے خلاف نام نہاددشت گردی پر لیکچردے دیا۔ٹرمپ نے طوطے کی طرح اسرائیلی بیانیہ دہرا دیا اور ان سننے والے جلالۃ الملوک میں سے کسی نے بھی اتناحوصلہ نہیں دکھایاکہ تصویرکا دوسرارخ یعنی عرب سائڈ آف اسٹوری ہی ٹرمپ کے سامنے رکھ دیتے۔ مزاحمتی قوتوں کو یہ تلخ حقیقت اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ ان کا بیانیہ نہ صرف غیروں بلکہ اپنوں میں بھی نہیں چل پارہاہے۔

ٹرمپ نے ریاض میں جی سی سی ممالک کے حکمرانوں اوران کے مندوبین کے سامنے حکمرانوں پر تعریفوں کے ڈونگرے تو برسائے۔محمدبن سلمان کوکہاکہ ’’تم اتنا کام کرتے ہوسوتے بھی ہو یانہیں ؟تم لوگوں نے تومشرق وسطی میں بالکل انقلاب برپاکردیاہے۔اتنی بڑی بڑی بلڈنگیں،یہ اسکائی اسکریپر!واہ واکیابات ہے !جانی کھڑے ہوجاؤ۔اوران کے اس حکم پر نہ صرف بن سلمان بلکہ اس کی حکومت کے تمام کارندے اورسارے خلیج کے مندوبین کمال نیازمندی سے کھڑے ہوگئے !

ٹرمپ کے اس دورے نے ایک بارپھرہمارے سامنے اس حقیقت کو ننگاکردیا کہ یہ حکمران مالداراورکھرپ پتی سہی لیکن اپنی کمزوری میں یہ صحیح معنی میں مضبوط حکمراں نہیں بلکہ صرف اورصرف ملوک الطوایف ہیں اور اندلس کے ملوک الطوایف کی طرح ہی بے غیرت اوربے حس بھی ہیں اوربے حوصلہ بھی۔ٹرمپ کے حالیہ دورہ ٔمشرق وسطی میں یواے ای نے دوشیزاؤں کے  Hair splitting dance   کے ذریعہ اس ڈکٹیٹرکے استقبال سے مسلم ثقافت کوشرمسارکیا۔تینوں ممالک نے اپنی اپنی کرسی کی حفاظت کے بدلے 1.4 ٹریلین ڈالرکے سودے کیے۔قطرنے توتملق کی حدکردی کہ ۔400ملین ڈالرکا جیٹ طیارہ ٹرمپ کوگفٹ کیا۔یہ قومی خزانے قوم سے پوچھ کرخرچ نہیں کیے گئے اور نہ ہی ان کا کوئی حساب لینے والا ہے ۔یہی فرق ہوتاہے شخصی حکومتوں اورجمہوریت میں ۔یہ قومی خزانے اس پورے خطے کی قسمت بدل سکتے تھے اگران کوقوم کی فلاح وبہبودکے لیے ،سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے اورعالم عرب کی عام اٹھان کے لیے ایمانداری سے خرچ کیاجاتا۔عرب حکومتوں کے اِس عاقبت نااندیشی کے رویہ پر سب سے زیادہ تنقیدجس حلقہ سے متوقع تھی یعنی اخوان المسلمون ان پر مصرکے علاوہ خلیجی ممالک میں بھی پابندیاں ہیں اوراب اردن نے بھی پابندی لگادی ہے۔ان ممالک کے زیادہ ترعلما(سلفی )جی حضوری ہیں اوراپنے حاکموں کے اقدامات کوشرعی جواز دینے میں لگے رہتے ہیں۔اس لیے ان کوکسی کی روک ٹوک کاکوئی خطرہ نہیں۔

اِن تینوں حکمرانوں کے ساتھ زیادہ رعایت کی جائے توکہاجاسکتاہے کہ انہوں نے یہ دیکھاکہ ٹرمپ آخری درجہ کے Ecentric(من موجی)شخص ہیں،متلون، نرگسی،شاہانہ اور تاجرانہ مزاج رکھتے ہیں۔صہیونیت سے کوئی عقیدہ کا کمٹمنٹ نہیں رکھتے ، البتہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کوتاریخ میں بڑامقام دیاجائے(حالانکہ اس کی صلاحیت نہیں رکھتے)، ان کی اِس کمزوری کوسامنے رکھ کرغالباخلیجی حکمرانوں نے اتنی بڑی مالی رشوت دے کرکچھ بلاٹالنے کی کوشش کی ہے۔اس میں وہ اگرکچھ فلسطین کے لیے بھی حاصل کرلیتے توکیا ہی اچھاہوتا!

جی سی سی ممالک کے اس ہائررینک اجلاس میں گرچہ کئی حکمرانوں نے دبے لفظوں میں غزہ کی بات کی جب کہ ٹرمپ نے اس عرب سخاوت ومہمان نوازی کا بھی کوئی لحاظ نہ کرکے دوحہ میں صاف کردیاکہ غزہ میں آئی مصیبت کی ذمہ دارحماس ہے، اس کوہتھیارڈالنے ہوں گے اورتمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا ۔جس وقت ٹرمپ اس ٹورپر تھے، اسرائیل تابڑتوڑزمین سے، فضاء سے اورسمندرسے حملے کرکے دوسوفلسطینیوں کا قتل ِعام کررہاتھا جس پر کسی بھی مغربی ملک سے کوئی مذمت کا بیان جاری نہیں ہوا اور نہ ہی عرب حکمرانوں کی طرف سے ۔اسرائیل نے اب کی بار ناصر اسپتال کو نشانہ بنایاتھااوراس پر اسی طرز کا حملہ کیاتھا جس قسم کے حملہ میں اس نے حزب اللہ کے چیف حسن نصراللہ کوشہیدکیاتھا۔ نشانہ سنواربرادرزتھے ۔ٹرمپ کے دورہ سے قبل ہی حماس نے امریکہ سے مذاکرات کے نتیجہ میں یک طرفہ اور خیرسگالی کے اشارہ کے طورپر دہری شہریت کے حامل نوجوان امریکی فوجی یرغمالی عیدان الیگزینڈر کو رہا کردیا ۔ اور جیساکہ طے پایاتھا اور امید بھی تھی کہ اس کے بدلے میں غزہ میں انسانی امداد کو آنے دیاجائے گا،مگرایسا نہیں ہوا۔کئی دنوں کے لیت ولعل کے بعدامارات کے تعاون سے تھوڑی بہت غذائی امداد اب غزہ میں آناشروع ہوئی ہے جب کہ وہاں ہزاروں بچے بھوک سے مرجانے کی کگارپر پہنچ چکے ہیں!

ا س سے معلوم ہواکہ ٹرمپ بھلے ہی اسرائیل نہ آیاہو مگراس کی انتظامیہ پورے طورپر بنجامن نتن یاہوکے ساتھ ہی کھڑی ہے۔اوراس میں ٹرمپ میں اختلافات کی کہانی محض ایک افواہ ہے۔اب امریکی مندوب اسٹیو وٹکوف بھی اسرائیل کی بولی ہی بول رہاہے اورکہہ رہاہے کہ حماس کوغزہ میں رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ وٹکوف کومعلوم ہوگیاہے کہ نتن یاہو(یادرہے کہ بائبل میں بن یامین کوپھاڑکھانے والابھیڑیاکہاگیاہے ،جینیسِس باب 27: 49) کسی پریشرمیں آنے والانہیں ہے اورٹرمپ اس پر براہ راست کوئی پریشرڈالنے کا خطرہ مول بھی نہیں لے گا۔اب عربات جدعون(Geadon Cheriots) نام کے آپریشن کے ذریعہ اسرائیل بری اورفضائی طورپردوبارہ غزہ پر پوری قوت سے حملہ آورہوچکا ہے ۔ ناصراسپتال کے علاوہ غزہ کے خیموں میں رہنے والے لوگوں پر بھی بمباری ہورہی ہے۔اوراتنی بڑی تعداد میں جانوں کا ضیاع ہورہاہے کہ مغربی ممالک بھی اب اسرائیل کے خلاف آواز بلندکرنے لگے ہیں۔

مزاحمت کاراب بھی پوری استقامت کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہیں اوراکا دکا گوریلاحملے کرکے جارح اسرائیلی فوجوں کونقصان بھی پہنچارہے ہیں مگریہ نقصان اتنا بڑانہیں ہے کہ اِس سے بہت زیادہ امیدیں لگائی جاسکیں البتہ یہاں یمن کے مجاہدانصاراللہ حوثیوں کے جذبۂ اخوت اورمومنانہ کردار کی داد ضرور دینی چاہیے جنہوں نے لگاتاراسرائیل پر میزائیلیں برساکرصہیونیوں کی ناک میں دم کررکھاہے۔حالانکہ یمن وسائل کے اعتبارسے نہایت غریب ملک ہے۔برسوں سے خانہ جنگی میں مبتلا تھا۔اوپرسے خباثت کے پتلے اورمغرب کے ہاتھوں میں کھیلنے والے سعودی عرب نے ان پر بمباری کی ۔اوراب امریکہ اوراسرائیل لگاتاران پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اِس سب کے باوجود انہوں نے ظالموں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے اوراپنے شدیدنقصانات کے باجود ان پرحملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پوری مسلم دنیاکی طرف سے فرض کفایہ اداکرنے پر وہ ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں۔ تاہم سنی مسلمانوں میں اپنے فقہی وکلامی تعصبات کے مارے عام علماء کبھی بھولے سے بھی اس چیز کا تذکرہ نہیں کرتے کہ حوثی کتنا بڑاکارنامہ انجام دے رہے ہیں!

غزہ کی موجودہ نازک صورت حال کوسامنے رکھ کرخیال ہوتاہے کہ ابھی مزاحمت کی قوتوں کواسٹریٹجک پسپائی اوراپنے وجود کو بچانے کی طرف جاناچاہیے ۔جنگ میں کبھی کبھی تراجع اختیارکرنا پڑتا ہے۔ غزہ میں بچوں اور عورتوں کو بچانے کے لیے اوراپنے وجودکو باقی رکھنے کے لیے فی الحال حماس کے پاس اورکوئی آپشن نہیں بچا ہے، سوائے اس کے کہ وہ غزہ کواس وقت چھوڑدے اور دوبارہ اپنی صفوں کو دوسرے نام سے متحدکرے۔حضرت سیف اللہ خالدبن الولیدؓ جنگ ِموتہ میں اپنے تین ہزارمجاہدین کوایک لاکھ کے ٹڈی دل رومی لشکرکے نرغہ سے نکال لے گئے تھے۔  جب یہ لوگ مدینہ واپس آئے تو بعض لوگوں نے ان کوطعنے دیے ان میں سے بعض نے نبی ﷺ سے ملاقات کے وقت نحن الفرارون (ہم بھگوڑے ہیں ) کہا۔ توآپ نے فرمایا:لا،بل انتم الکرارون(السیرۃ النبویۃ) نہیں،تم بھاگ کرنہیں آئے بلکہ دوبارہ پلٹ کراورجم کرحملہ کروگے ۔)

اگرعرب زعماء اپنے خزانوں کو اتنی سخاوت سے ٹرمپ پرنثارکرنے کے بدلے کچھ جرأت کا مظاہرہ بھی کرپاتے تو شاید ٹرمپ اس بارے میں کچھ سوچ سکتا مگروہ غریب توشاہ سے زیادہ کون شاہ کا بڑا وفادار ہے اورکون بڑا خوشامدی ہے یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے تھے! اس دورے سے امریکی انتظامیہ کواس بات کا پورااندازہ ہوچکاہے کہ غریب غزہ توکہیں مالدارعرب ریاستوں کے ایجنڈے میں آتاہی نہیں۔ وہ اپنے بیانوں اورتقریروں میں اس کے بارے میں جوایک آدھ لفظ بول دیتے ہیں تووہ صر ف اپنے عوام کوٹھنڈاکرنے کے لیے!

ٹرمپ کے حالیہ دورے سے تھوڑا سا فائدہ یہ ضرورہواہے کہ سعودی عرب کی سفارتی محنت سے امریکہ نے شام کی نئی سنی حکومت کوتسلیم کرلیا اوراس پر سے اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا۔ان پابندیوں نے شام کی اقتصادیات کوبالکل توڑدیاتھا۔اسی طرح ٹرمپ نے غیرمتوقع طورپر عرب ممالک پر اسرائیل کوتسلیم کرنے کا بھی بظاہرکوئی زورنہیں ڈالا۔انہوں نے ابراہیم اکارڈ کا تذکرہ تو ضرور چھیڑا مگر اس پرکوئی دباؤ نہیں بنایا۔ان کا دورہ پوری طرح کاروبار پر مرتکز رہا۔ ٹرمپ کے دورہ کے ختم ہوتے ہی عرب لیگ کا چونتیسواں اجلاس بغداد میں ہوا، بڑی گرم گرم اورجوشیلی تقریریں ہوئیں، بیانات دیے گئے مگرگراؤنڈپر کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ اسی سے پتہ چلتاہے کہ عرب لیڈروں اور حکمرانوں نے جو ادارے اورتنظیمیں بنائی ہیں ان میں بھی کوئی مؤثرادارہ نہیں ہے۔ اوآئی سی ،رابطہ عالم اسلامی، عرب ورلڈ لیگ سب غیرمؤثر ہیں۔ سعودی عرب سب پر اثراندازہے، اس لئے کہ سب کی فنڈنگ وہی کرتاہے۔ خطہ میں عملاً تین بلاک ہیں: ایران ،سعودی عرب اورترکی ۔تینوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ سعودی عرب اوراس کے ساتھ دوسرے خلیجی ممالک یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ اسرائیل کوتسلیم کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔یہ حماس کوبھی تسلیم نہیں کرتے۔ (۲) ترکی صرف زبانی جمع خرچ کرتاہے عملاً کچھ نہیں کرتا۔(۳) ایران مقابلہ کر رہا ہے مگر کمزورہے۔کل ملاکریہ کہاجاسکتاہے کہ طاقت کا توازن مسلمانوں کے حق میں بالکل بھی نہیں ہے۔آج تعلیم ،سائنس اور اقتصاد تینوں میں مسلمانوں اورغیرمسلموں کے درمیان جوفرق ہے وہ سودوسوسال کا نہیں صدیوں کا ہے۔ پہلے اس کودورکرناہوگا۔

ہم عرب حکمرانوں کی مذمت اکثرکرتے ہیں مگرسچی بات تویہ ہے کہ خلیج کے عرب ہوں یاعجم کے مسلم حکمراں اِس حمام میں سب ننگے ہیں۔ ترکی ہو یا پاکستان، ملائشیا ہو یا انڈونیشیا، آذربائیجان ہو یا مصر، شکوہ توسب سے ہے۔عرب چونکہ قریبی ہیں اورمالی وسائل بھی دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ رکھتے ہیں اس لیے ان کا ذکرزیادہ ہوتا ہے۔

 

٭رسرچ ایسوسی ایٹ مرکز فروغ تعلیم وثقافت،مسلمانان ہند،

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

ای میل :[email protected]

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.