سرفراز بزمی
جا چھپا تھا دور صحرا میں کہیں خورشید شام
گیسوئے شب کر رہے تھے ظلمتوں کا اہتمام
سحر ایسا شام کے رخ پر حنا بندی کا تھا
لذت گفتار پر پہرہ زباں بندی کا تھا
برف کی تہ جم گئی تھی پھول کے رخسار پر
برگ نازک سے کٹا جاتا تھا ہیرے کا جگر
بنٹ چکا تھامیکدہ رندوں میں باقی کچھ نہ تھا
فرق اب مردوں میں اورزندوں میں باقی کچھ نہ تھا
تھک رہی تھیں تھم رہی تھیں جم رہی تھیں دم بدم
انگلیاں وہ جن سے شعلہ بار شاعر کا قلم
میں طلبگار سکوں بہر سکوں دیوانہ وار
دشت کی جانب نکل آیا تخیل پر سوار
زندگی کی نا شکیبائی سے گھبرایا ہوا
شہر کی ہنگامہ آرائی سے اکتایا ہوا
دیکھتا کیا ہوں کہ اک شہناز لالہ رخ کے پاس
چند شہزادے کھڑے ہیں بے سکون و بدحواس
کون لالہ رخ ؟ وہ جس کی تابش رخسار سے
اک کرن سی پھوٹتی تھی تیغ جوہر دار سے
جس کی پیشانی تجلی گاہ تھی امید کی
اوس کے قطرے پہ ہو جیسےکرن خورشید کی
گود میں اپنی اٹھائے ایک طفل خوش جمال
رات کے رخسار پر جیسے مچلتا ہو ہلال
منہ بناکر گال سہلاتی تھی اس کے گال سے
بات کرتی تھی کبھی تتلاکے اپنے لال سے
جب پکڑتا تھا کبھی چھاتی پہ پھیلے ہار کو
چومتی تھی شدت جذبات میں رخسار کو
بے خطر تھی یا اسے خطرے کا اندازہ نہ تھا
یا کسی بیوہ کا گھر تھا جس کا دروازہ نہ تھا
یہ ادائے بے نیازی ، بے نگاہی ، بے رخی
اور بھی قاتل نظر آتی تھی جس سے مہ رخی
میں نےپوچھا اےپری زادی یہ شب،صحرا یہ تو
ھو کا عالم ہے جہاں پسرا ہوا ہر چار سو
اک سوالی ہے کہ ہے محلوں کی شہزادی کوئی
یا حضور کاتب تقدیر فریادی کوئی
کون ہے تو ؟ کیا مسافر ہے ؟ کسی سے کام ہے؟
کس قبیلے سے ہے؟ آباء کون ہیں ؟ کیا نام ہے؟
سن کے دھیرے سے اٹھائی آنکھ سرکا کر نقاب
جیسے بدلی سے ذرا سا منھ دکھائے ماہتاب
رخ پہ تھوڑا سا گرا کر اوڑھنی کا اک سرا
یوں سنایا اس نے کرب انگیز اپنا ماجرا
آہ یہ مت پوچھ ناداں اے طلبگار سکوں
کن سےنسبت ہےمیری، کیا نام ہے، میں کون ہوں
کوہ میں صحرامیں دریامیں ہوامیں جسکی ذات
جس کے آگے سر بسجدہ ہے عروس کائنات
اسکےدیوانوں کادل ہوں اس کےفرزانوں کی ہوں
آبرو میں ان بیاباں کے حدی خوانوں کی ہوں
جو کبھی میداں میں دریاؤں میں کہساروں میں تھے
” بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے “
جن کی تکبیروں سے ہوتی تھی قبائے جبر چاک
کشتیاں جو ساحل دریا پہ کردیتے تھے خاک
جن کی فرقت میں لہو روتا ہے اب تک کاشغر
جن کا رستہ دیکھتا ہے آج تک جبرالٹر
جن کی عظمت کے نشاں اجڑے در و دیوار میں
جن کی رفعت بات کرتی ہے قطب مینار میں
شہر غرناطہ ہوں میں ، میں شوکت بغداد ہوں
آہ اس وحشت کدے میں اب مگر آباد ہوں
بستیاں بن ہوگئیں گو مٹ گیا سب کر و فر
گود میں باقی ہے اب بھی طفل امید سحر
ہوک سی اٹھی تڑپتا ہے یہ نغمہ ساز کو
بولتی جا دل ترستا ہے تری آواز کو