شہناز لالہ رخ

سرفراز بزمی
مئی 2024

سرفراز بزمی

جا چھپا تھا دور صحرا میں کہیں خورشید شام
گیسوئے شب کر رہے تھے ظلمتوں کا اہتمام

سحر ایسا شام کے رخ پر حنا بندی کا تھا
لذت گفتار پر پہرہ زباں بندی کا تھا

برف کی تہ جم گئی تھی پھول کے رخسار پر
برگ نازک سے کٹا جاتا تھا ہیرے کا جگر

بنٹ چکا تھامیکدہ رندوں میں باقی کچھ نہ تھا
فرق اب مردوں میں اورزندوں میں باقی کچھ نہ تھا

تھک رہی تھیں تھم رہی تھیں جم رہی تھیں دم بدم
انگلیاں وہ جن سے شعلہ بار شاعر کا قلم

میں طلبگار سکوں بہر سکوں دیوانہ وار
دشت کی جانب نکل آیا تخیل پر سوار

زندگی کی نا شکیبائی سے گھبرایا ہوا
شہر کی ہنگامہ آرائی سے اکتایا ہوا

دیکھتا کیا ہوں کہ اک شہناز لالہ رخ کے پاس
چند شہزادے کھڑے ہیں بے سکون و بدحواس

کون لالہ رخ ؟ وہ جس کی تابش رخسار سے
اک کرن سی پھوٹتی تھی تیغ جوہر دار سے

جس کی پیشانی تجلی گاہ تھی امید کی
اوس کے قطرے پہ ہو جیسےکرن خورشید کی

گود میں اپنی اٹھائے ایک طفل خوش جمال
رات کے رخسار پر جیسے مچلتا ہو ہلال

منہ بناکر گال سہلاتی تھی اس کے گال سے
بات کرتی تھی کبھی تتلاکے اپنے لال سے

جب پکڑتا تھا کبھی چھاتی پہ پھیلے ہار کو
چومتی تھی شدت جذبات میں رخسار کو

بے خطر تھی یا اسے خطرے کا اندازہ نہ تھا
یا کسی بیوہ کا گھر تھا جس کا دروازہ نہ تھا

یہ ادائے بے نیازی ، بے نگاہی ، بے رخی
اور بھی قاتل نظر آتی تھی جس سے مہ رخی

میں نےپوچھا اےپری زادی یہ شب،صحرا یہ تو
ھو کا عالم ہے جہاں پسرا ہوا ہر چار سو

اک سوالی ہے کہ ہے محلوں کی شہزادی کوئی
یا حضور کاتب تقدیر فریادی کوئی

کون ہے تو ؟ کیا مسافر ہے ؟ کسی سے کام ہے؟
کس قبیلے سے ہے؟ آباء کون ہیں ؟ کیا نام ہے؟

سن کے دھیرے سے اٹھائی آنکھ سرکا کر نقاب
جیسے بدلی سے ذرا سا منھ دکھائے ماہتاب

رخ پہ تھوڑا سا گرا کر اوڑھنی کا اک سرا
یوں سنایا اس نے کرب انگیز اپنا ماجرا

آہ یہ مت پوچھ ناداں اے طلبگار سکوں
کن سےنسبت ہےمیری، کیا نام ہے، میں کون ہوں

کوہ میں صحرامیں دریامیں ہوامیں جسکی ذات
جس کے آگے سر بسجدہ ہے عروس کائنات

 

اسکےدیوانوں کادل ہوں اس کےفرزانوں کی ہوں
آبرو میں ان بیاباں کے حدی خوانوں کی ہوں

جو کبھی میداں میں دریاؤں میں کہساروں میں تھے
” بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے “

جن کی تکبیروں سے ہوتی تھی قبائے جبر چاک
کشتیاں جو ساحل دریا پہ کردیتے تھے خاک

جن کی فرقت میں لہو روتا ہے اب تک کاشغر
جن کا رستہ دیکھتا ہے آج تک جبرالٹر

جن کی عظمت کے نشاں اجڑے در و دیوار میں
جن کی رفعت بات کرتی ہے قطب مینار میں

شہر غرناطہ ہوں میں ، میں شوکت بغداد ہوں
آہ اس وحشت کدے میں اب مگر آباد ہوں

بستیاں بن ہوگئیں گو مٹ گیا سب کر و فر
گود میں باقی ہے اب بھی طفل امید سحر

ہوک سی اٹھی تڑپتا ہے یہ نغمہ ساز کو
بولتی جا دل ترستا ہے تری آواز کو

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.