مشرق وسطی ٰ میں تبدیلیوں کی رفتار دنیاکے دوسرے خطوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ تیز ہے۔ یہ وہ بدقسمت خطہ ہے جہاں تیل کے سب سے زیادہ ذخائر ہیں- تاریخی خطہ ہونے کے علاوہ اس کی اسٹریجک اہمیت بھی بہت زیادہ ہے اس کے باوجود یہاں کے لوگ اپنی قسمت کے مالک نہیں۔ خلافت ِعثمانیہ سے بغاوت کرکے ٹوٹنے کے بعد یوروپی استعمارکے دوستونوں فرانس اوربرطانیہ نے 1916 میں سائکس پیکو(Sykes-Picot)کے خفیہ معاہدے کے ذریعہ اس خطہ کے حصے بخرے کرڈالے اوران کواپنے درمیان بانٹ لیا تھا- اس کے نتیجہ میں مختلف چھوٹے چھوٹے رجواڑوں کا وجود ہوا۔ عراق پر انگریزوں نے قبضہ کیااور استعماری طاقتوں نے شام کوفرانس کو دے دیا۔جس نے پہلے تواس کی مزیدتقسیم کرکے اس کوغیرمتحدکردیا- چنانچہ طرابلس،اورالجبل کولبنان کے نام سے علیحدہ کردیا گیا، جس کی وجہ سے مسلمان اکثریت یک دم اقلیت میں بدل گئی، کیونکہ شام کے اِس جنوبی حصہ میں مسیحیوں کی بہت بڑی آبادی تھی۔لبنان کے علاوہ لاذقیہ اوربلادالعلویین کے نام سے مزیدچھوٹی ریاستیں بنائی گئیں۔ باقی جوبچااُسے سوریا (سیریا)کے نام سے الگ ملک بنادیا گیا۔ یوں شامیوں کوبہت کمزورکردیا گیاتھا۔
تاہم شام یاسیریا میں قوم پرست حریت پسند اٹھ کھڑے ہوئے اورانہوں نے پہلے فرانسیسی استعمارکے خلاف مسلح جدوجہد کی اور جب ان کی فوجی بغاوت کچل دی گئی تو پرامن طریقے سے دوسرے محاذ ںپر کام کیا۔ قاہرہ، پیرس،جنیوااورنیویارک میں نشرواشاعت کے ادارے قائم کیے، جریدے نکالے ،آخرمیں قوم پرستوں نے ایک عام ہڑتا ل کردی، جوپچاس دن تک جاری رہی جس کے آگے حکومت ِفرانس کوبلا آخرجھکنا پڑا۔ستمبر 1936 میں عرب قوم پرستوں اورحکومت ِفرانس کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کی روسے شام کومتحدکردیا گیا۔لیکن آزادی کے بعدشام میں بعثی نصیری نظریہ اورکبھی کیمونسٹ عناصراقتدارمیں آتے رہے مگران سب نے نہ صرف مذہب پسندوں کا گلا دبایا بلکہ انہوں نے ملک پر بدترین آمریت مسلط کردی، مثلاکرنل حسنی زعیم ،سامی الحفناوی، نورالدین الاتاسی، ادیب ششکلی، جنرل امین الحافظ اورحافظ الاسد- یہ وہ ظالم وسفاک فوجی جنرل تھے جوسب بعثی یاکمیونسٹ رجحان رکھتے تھے اور جوملک میں باربارفوجی انقلاب لاتے رہے ۔انہوں نے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیااورسنی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے۔
شام میں علویوں کا فوجی اوربعثی سوشلسٹ اقتداربشارکے باپ حافظ الاسد نے 1970 میں قائم کیاتھا۔ اس نے آہنی پنجوں سے ملک پر حکومت کی۔ یہ ملک پولیس اسٹیٹ بلکہ انٹیلی جنس اسٹیٹ بن گیا تھا، جہاں کے جیل خانے بدترین تعذیب خانے تھے۔ حافظ الاسد کے وحشیانہ مظالم کے خلاف اس سے قبل بھی آوازیں اٹھیں۔ خاص طورپر اخوان المسلمون کی سرکردگی میں مذہبی مسلمانوں نے 1982 میں حماۃ شہر میں انقلاب برپا کیا، جس کوحافظ الاسد نے بمباری کرکے اس طرح کچلا کہ شہرمیں دس ہزار اسلام پسند مسلمانوں کومار دیا گیا- اس کوتاریخ میں مجزرۃ حماۃ(حماۃ قتل عام)کے نام سے جاناجاتاہے۔ اس کے بعد 2011 میں جب تیونس میں خوانچہ فروش بوعزیزی نے اپنے آپ کوسپردخاک کردیا تویک دم عرب اسپرنگ یاالربیع العربی کا شعلہ جوالہ پھوٹ پڑااور یہ بہارعرب تیونس،الجزائر،مصرہوتے ہوئے شام میں بھی داخل ہوئی۔ درعاشہرمیں ایک چودہ سالہ لڑکے معاویہ سیاسنہ نے بشارالاسدکے خلاف دیوارپر ایک نعرہ لکھ دیاتھا(اجاک الدور یادکتور ،ڈاکٹر اب تمہاری باری ہے) یادرہے کہ بشارالاسد تعلیم کے لحاظ سے آنکھوں کا ڈاکٹرہے ۔اُس نوجوان کواوراس کے کم سن ساتھیوں کوگرفتارکرکے شدیدٹارچرکیاگیا۔اس کے خلاف لوگوں نے مظاہرہ کیا تو بشار کی پولیس نے مظاہرہ میں شامل بہت سے نوجوانوں کوپکڑکر ان پر تشدد کیا اور ہلاک کردیا جن میں تیرہ سالہ حمزہ بھی تھا جس کی قبرپر اب انقلاب شام کا جھنڈالہرارہاہے۔ جب ان بچوں کے والدین ان کولینے کے لیے پولیس اسٹیشن پہنچے توبشارکی انٹیلی جنس کے ایک بے رحم اور سفاک افسرنے ان سے کہاکہ ’’اپنی بیویوں کے پاس جاؤاوربچے پیداکرلواگرتم نہ کرسکوتوان کو ہمارے پاس بھیج دوہم پیداکر دیں گے ‘‘اس خبیث جملہ نے درعا،ادلب اورحلب میں آگ لگادی اور ہزاروں لوگ اس نظام کے خلاف نکل آئے ۔ان پرپولیس اورفوج نے بے محاباگولیاں چلائیں سینکڑوں لوگ جان سے گئے۔ نتیجہ میں سارے شام میں سنی مسلمان اس حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ پہلے ملک گیرپُرامن احتجاج ہوئے اورپھرپولیس اورشامی فوج کے تشددکے ردعمل میں مسلح بغاوت یا جدوجہدنے جنم لیا۔آغاز میں سیرین آرمی بنی جس نے ملک کے خاصے حصے کوبشارکے جبرسے آزادکروالیا۔لیکن افسوس کہ خلیج کے بے ضمیرعرب حکمرانوں نے اپنی اپنی سیاست کھیلنی شروع کردی اور مذہب ومسلک کی بنیادپر ایسے پرتشدد تکفیری گروپ میدان میں اترگئے جنہوں نے شیعوں کا قتل عام کیا۔ ردعمل میں مختلف ملکوں سے’’ فاطمیوں اور زینبیون ‘‘ کے نام سے شیعہ رضاکارملیشیائیں بڑی تعدادمیں شام میں داخل ہوگئیں اورانہوں نے شامی فوج کے ساتھ مل کروحشیانہ اندازمیں انتقامی کارروائیاں کیں۔ حزب اللہ نے بھی اپنے فوجی دستے وہاں اتار دیے۔ فاسفورس گیس تک بے قصورشہریوں پر استعمال کی گئی جس سے ہزاروں بچے، عورتیں اوربوڑھے ایڑیاں رگڑ رگڑکر مرگئے۔عالمی میڈیانے اس کورپورٹ بھی کیااورامریکی صدربراک اوبامانے فوجی حملہ کی دھمکی بھی دی مگرکیاکچھ نہیں ۔
اسی درمیان عراق میں شیعہ ملیشیاؤں کی دہشت گردی کے خلاف سنی پرتشدد مزاحمت شروع ہوگئی جس میں صدام حسین کی ختم کردی گئی بعثی فوج کے سپاہی بڑی تعداد میں داخل ہوگئے اوریوں ISIS کا ظہورہوا جس کوامریکی سی آئے نے بھی اپنے لانگ ٹرم مفادات کے تحت تقویت پہنچائی، جس نے عراق و شام کے ایک بڑے حصہ پر اپنی پُرتشدد خلافت ابوبکرالبغدادی کی قیادت میں قائم کردی اوریوں شام کے اسلامی انقلاب کی راہ کھوٹی کردی۔
امریکہ اور روس کی وحشیانہ بمباری سے ISIS کا دارالخلافہ رقہ شہر برباد ہوگیااورآخر میں جعلی خلافت کی یہ تحریک ختم ہوگئی۔ شام میں انقلابی بہت سے ٹکڑیوں میں بٹ گئے تھے۔ ملک کی آدھی آبادی غیرملکوں میں یاخود شام کے اندرہی رفیوجی کیمپوں میں رہ رہی تھی۔ ملک کی معیشت بربادہوگئی- بشارالاسدکی حمایت ایران، روس،عراق کی شیعہ ملیشیائیں اورحزب اللہ کے لڑاکے کررہے تھے۔ اُس وقت ان سب نے مل کراسدنظام کے لاشے کوسہارا دے دیااوراس کو گرنے سے بچالیا۔ ایران و روس کی مداخلت سے بہارعرب بھی ٹھٹھرکررہ گئی۔ اُس کے بعدخلیج کی ثروت مند ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اورامارات نے امریکہ کے ساتھ مل کرمصرمیں محمد مرسی مرحوم کی جمہوری طورپر منتخب حکومت کا خاتمہ کر دیا- جب مصرمیں اس بہار کا خاتمہ ہوا تو دوسرے ملکوں میں خودبخود ہوگیا۔
اب جبکہ روس یوکرین میں پھنسا ہوا ہے، حزب اللہ پر اسرائیل نے شدیدضرب لگائی ہے۔ ایران کے حالا ت بھی دگرگوں ہیں، ترکی کی خاموش مدد سے ادلب میں بہت دنوں سے فوجی تربیت لینے والے شامی انقلابی ہیئۃ تحریرالشام( HTS)کے بینرتلے جمع ہوکر دفعتاََ باہرنکلے اورانہوں نے 27نومبر 2024 کواسد کی فوجوں پر ملک کی آزادی کے لیے حملے شروع کیے تواس کی فوجیں ان کے آگے خس وخاشاک کی طرح بہ گئیں۔اورصرف دس دنوں کے اندر اندر یہ غاصب نظام ڈھ کررہ گیا۔ترکی نے بڑی خاموشی سے یہ کارنامہ انجام دیاہے اور آئندہ خطہ میں اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔روس اورایران نے بھی بہت کھل کربشارالاسدکا ساتھ اس لیے نہیں دیاکہ ان لوگوں کواندازہ تھا کہ انقلابی اس بار، شامی فوج جوزیادہ ترجبراً بھرتی کے سپاہیوں پر مشتمل تھی جس کا مورال ڈاؤن تھا،سے نہیں رک پائیں گے ۔چنانچہ انقلابیوں کے حملہ سے چند دن پیشتر ہی دوحہ قطر میں روس ،ترکی اورقطرکا اجلاس ہواتھا جس میں انہوں نے بشارالاسد کو یہی صلاح دی تھی کہ وہ انقلابیوں سے ڈائلاگ کا راستہ اپنائے مگربشارالاسد کے دن گنے جاچکے تھے اس کویہ بات سمجھ میں نہیں آئی اورروس وایران نے بھی اس کا کوئی عملی فائدہ نہ دیکھ کراس سے کنارہ کشی اختیارکرلی۔
شامی انقلاب اپنے دوسرے مرحلہ میں آناًفاناً فتح یاب ہوگیا ،بشارالاسد کا ظالم نظام 54 سال کے مسلسل غاصبانہ اورآمرانہ اقتدارمیں رہنے کے بعدمحض دس دنوں میں زمیں بوس ہوکررہ گیا۔طالبان کے ہاتھوں سقوط ِکابل میں 14 دن لگے تھے مگر دمشق کاسقوط صرف دس د نوں میں ہی ہوگیا۔بشارالاسداپنی فیملی کے ساتھ ملک چھوڑکرفرارہوگیا۔روس کی شدید بمباری اور ایرانی ملیشیااس کے کچھ کام نہ آسکی: وہ بالآخربشارالاسدسے ملک کوآزادکرانے کے اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے۔
دمشق کی فتح کے بعدقائد انقلاب احمدالشرع المعروف بہ ابومحمدالجولانی نے جامع اموی پہنچ کرنمازاداکی اورخطاب کیا۔انہوں نے اپنے خطاب میں تمام شامیوں کوبشارالاسدکے مظالم سے چھٹکارادلانے کا اعلان کیا۔وعدہ کیاکہ جلدہی سولین حکومت قائم کی جائے گی اورسب شامیوں کے حقوق محفوظ ہوں گے۔ملک میں استحکام اورسیاسی امن لایاجائے گا۔مضبوط سول ادارے قائم ہوں گے اورسیریاکوایک خوش حال ملک بنایاجائے گا۔ چند دن بعدجمعہ کے دن اس تاریخی مسجدمیں پچاس سال میں پہلی بارآزادی سے جمعہ کا خطبہ دیاگیا۔اس سے پہلے توحکومت کی طرف سے مخصوص کلمات پر مشتمل خطبہ بھیجاجاتاتھا۔
دمشق کے عمایداورمختلف تنظیموں کے ذمہ داران سے ایک ملاقات میں قائدانقلاب محمدالجولانی نے بتایاکہ یہ انقلاب بظاہراچانک سے اٹھااورکامیاب ہوگیا مگرایسانہیں ہے ۔ہم اس کی تیاری 21 سال سے کررہے تھے۔ اوراس میں کسی ملک یابیرونی طاقت نے ہماراساتھ نہیں دیااور نہ کسی نے باہرسے ہمیں ابھارا بلکہ یہ سب ہمارے اپنے خون پسینے کی کمائی ہے- یہ ہتھیاربھی ہم نے خودبنائے ہیں ۔بیرونی قوتوں کے اپنے مصالح ہوتے ہیں۔شام میں اس وقت ظالم اسدکے نظام کا تختہ پلٹنے میں کوئی بھی طاقت اپنے لیے کسی فائدہ کا سودانہیں سمجھ رہی تھی۔
اسد کی جیلوں(خاص کرصیدانایاجیل جہاں انسانوں کی کھال اتاری جاتی تھی)سے قیدیوں کو رہاکیا گیا۔فرع فلسطین کے نام سے ایک تین منزلہ جیل تھی جس میں موت کے کمرے تھے۔اورایسے آلات تھے جن سے مردہ قیدیوں کے جسم کوتوڑکرباہرپھینک دیاجاتاتھا۔جیل میں اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئیں ان میں ایک ساتھ بہت سے قیدیوں کویونہی دفن کردیا جاتا تھا۔ایسے کمرے ملے جن میں نمک ہی نمک تھا۔ایسے سیل تھے جن میں قیدیوں کو تعذیب کے مختلف طریقوں سے ٹارچرکیاجاتااورپھران کا نام ونشان مٹادیاجاتا۔
میڈیاکے لوگوں کو وہاں بہت سے آئی کارڈ،شناختی دستاویزات اورتعلیمی سرٹیفیکیٹ ملے جن کے حاملین موجودنہیں ہیں یعنی ان کوبے رحمی سے ماردیاگیااورپھرلواحقین کوان کی نعشیں بھی نہیں دی گئیں۔ ایک ایسابھی قیدی تھا جسے کم سنی میں جیل میں ٹھونس دیاگیاتھااور وہ چالیس سال سے وہاں ایڑیاں رگڑرہاتھا۔اُس کو یقین نہیں آرہاتھا کہ اس کوقیدکرنے والاظالم نظام ختم ہوچکاہے۔ایک شامی پائلیٹ نے حافظ الاسدکے زمانہ میں حماۃ پر بمباری کرنے سے منع کیاتھااس کوجیل میں ڈال دیاگیا- اس وقت وہ نوجوان تھاآج ۳۸ سال بعدبوڑھاہوکرجیل سے باہرآیاہے ۔قیدیوں میں بہت ساری خواتین بھی تھیں جن میں اکثرمذہبی گھرانوں کی تھیں۔ان سب کی خوشی دیدنی تھی۔کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے برسوں سے سورج نہیں دیکھا تھا۔ جب ان کوجیل سے نکالاگیاتووہ پوچھ رہے تھے کہ کیاحافظ الاسدمرگیا؟ ان کوپتہ ہی نہیں تھاکہ حافظ الاسدکے بعداب اس کے بیٹے بشارالاسدکا بھی یوم حساب آچکاہے۔ غرض تعذیب کی وہ خوفناک کہانیاں اسدحکومت کی جیلوں سے سامنے آرہی ہیں کہ جن کودیکھ کرایران اورحزب اللہ پر حیرت ہوتی ہے کہ ایسے ظالمانہ نظام کواِنہوں نے کیسے سہارا دے رکھاتھا!
انقلاب کا ایک مرحلہ پورا ہوا اب زیادہ مشکل مرحلہ ملک کی تعمیرِنو کا ہے جس میں بہت سارے چیلنجز ہیں۔ایک بڑاچیلنج توفورا اسرائیلی جارحیت کوروکناہے ۔جس نے اسدحکومت کا تختہ پلٹنے کے اس بحرانی دورکواپنے لیے غنیمت سمجھ کراپنے گریٹراسرائیل کے منصوبہ کوبروئے کارلاناشروع کردیاہے اورامریکہ کی حمایت اسے حاصل ہے۔ چنانچہ چندہی دنوں کے اندراس نے سیریاکے 450فوجی سائٹس کونشانہ بنایا۔اوراس کے اپنے اعلان کے مطابق اس نے سیریاکی 80 فیصدفوجی صلاحیت ،ہتھیار،فوجی ٹھکانے اورحساس ادارے بربادکردیے ہیں۔ گولان کی ہائٹس پر اس کا پہلے سے قبضہ ہے مگراب وہ سیریاکی سرحدوں میں گھس کر گولان کے سارے علاقہ پر قبضہ کرچکاہے اوراس کواسرائیل میں ضم کرنے کے خواب دیکھ رہاہے۔
اسرائیل کی لامحدودفضائی قوت ایک ایسی چیزہے جس کاکوئی توڑ مزاحمتی قوتوں کے پاس نہیں ہے۔مجموعی طورپر توشامی انقلاب خوش آئندہے البتہ اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ خطہ میں اسرائیل کے خلاف مزاحمتی قوتیں کمزور ہوئی ہیں- ایران کے پراکسی حزب اللہ کی سپلائی لائن متاثر ہوگئی ہے- اب اس کے سامنے بظاہرگریٹراسرائیل کے منصوبے کوچیلنج کرنے والاکوئی نہیں ہے۔ شامی انقلابی حکومت ابھی عبورری دور میں ہے اور یہ بہت نازک مرحلہ ہے۔ ابھی انہیں ملک کواستحکام کی طرف لے جانے میں وقت لگے گا۔ اسرائیل اورامریکہ چاہتے بھی یہی ہیں کہ سیریا ایک ایسا ملک بن کررہے جس کے پاس کوئی فوجی قوت نہ ہواورجوکبھی بھی اسرائیل کے سامنے کھڑانہ ہوسکے ۔فی الحال محمدالبشیرکوملک کا نیاوزیراعظم مقررکیاگیاہے ۔کمانڈرالجولانی نے اسرائیل کے حملوں پر تنقیداوراپنی تشویش کا اظہارکرنے میں دیرلگائی ،اب شایدنئی حکومت یواین اومیں اس مسئلہ کواٹھانے جارہی ہے۔ ہوناتویہ چاہیے تھاکہ ملک کے استحکام کے ساتھ ہی اس محاظ پر فوری توجہ دی جاتی اورانقلابیوں کی خاطرخواہ نفری اسرائیلی بارڈریعنی گولان ہائٹس پر متعین کی جاتی اوراسد کی آرمی نے جن ٹھکانوں،چوکیو ں اوراسلحہ ڈپوکوچھوڑدیاہے ان کوفوراً اپنے کنٹرول میں لے کران کا تحفظ کیاجاتا۔
بعض مبصرین کا یہ بھی تجزیہ ہے کہ اِس انقلاب کوامریکہ کی حمایت بھی حاصل رہی کیونکہ امریکی صدرجوبائڈن کی صدارت کے دن اب ختم ہونے والے ہیں اوروہ خطہ میں اپنی کوئی مثبتlegacy چھوڑکرجاناچاہتے ہیں، کیونکہ غزہ میں اسرائیل نے جوتباہی مچائی ہے اوراس میں جوبائڈن نے آنکھ بندکرکے جس طرح اسرائیل کا ساتھ دیاہے اُس نے دنیابھرمیں ان کی کِرکری کرادی ہے۔امریکی عوام بھی اُس سے خوش نہیں اس لیے ان کی پارٹی کوصدارتی انتخابات میں ذلت آمیزشکست کا سامناکرناپڑا۔اس لیے سی آئی اے نے ناٹوممالک نے اورترکی نے شامی انقلابیوں کوآگے بڑھاکرکامیاب کرادیاہے۔ ہوسکتاہے اس تجزیہ میں کچھ دم ہومگرآئندہ نئی شامی حکومت سے یہ مغربی قوتیں کس طرح تعاون کرتی ہیں اس سے ہی اس بات کا تیقن ہوسکے گا۔
ملک کی نئی حکومت کے سامنے دوسرابڑاچیلنج مختلف تنظیموں کویکجا کرکے ایک متحدسیریائی آرمی کی تشکیل ہے۔اس وقت صورت حال بڑی پیچیدہ سی ہے۔ ہیئہ تحریرالشام یا HTSجس نے یہ انقلاب برپاکیاکے علاوہ بھی انقلابیوں کے بہت سے گٹ ہیں جوآپس میں بھی متصادم ہیں۔فری سیرین آرمی ہے جس کوترکی نے کھڑاکیاتھااورآج کل اس کوSNA سیرین نیشنل آرمی کہتے ہیں۔شام کے شمال میں کردوں کی SDF ہے جس نے ایک علاقہ پر قبضہ کر رکھاہے ،جس کوترکی اپنے لیے بڑاخطرہ سمجھتاہے کیونکہ اس گروپ نے آزادکردستان کے خواب پال رکھے ہیں- جو ترکی ،سیریااورعراق تینوں کے لیے پریشانی کاباعث ہے کیونکہ کردسنی کمیونیٹی ان تینوں ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے اوراس میں متشدد عناصرزیادہ ترغیرمذہبی ہیں اورامریکی حمایت کے زیرسایہ ہیں۔خود ہیئۃ تحریرالشام کوامریکہ نے ایک دہشت گردتنظیم قراردے رکھاہے اورمحمدالجولانی کے سرپر دس ملین ڈالرکا انعام رکھاہواہے۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ یہ سارے گروپ اپنے گروہی تعصبات کوچھوڑکرایک ملکی وحدت میں منسلک ہوجائیں اور ان کے انقلابی مجاہدسب نئی سیرین آرمی کا حصہ بنالیے جائیں۔
ملک کی اکثریت عرب سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے جوسترفیصدسے بھی زیادہ ہیں۔ ان کے علاوہ کردہیں(وہ بھی سنی ہیں)اسماعیلی ہیں،دروز ہیں،یزیدی ہیں،عیسائی ہیں اورعلوی نصیری ہیں جن کا اپناعلاقہ ہے۔ان سب اقلیتی گروپوں کو بھی حکومت میں جائزحصہ دیناہوگا۔ملک کے ایک حصہ پر ترکی بھی قابض ہے جبکہ امریکہ کا بھی ایک بیس یہاں ہے جس میں 900امریکی فوجی موجودہیں۔نیزلتاکیہ اورطرطوس میں روس کی ائربیس بھی ہیں۔یعنی یہ کہنابالکل بجاہوگاکہ فی الحال شام تمام بڑی قوتوں کا اکھاڑابناہواہے اوراس میں حالات کومعمول پرلاناجوئے شیرلانے سے کم نہیں۔اس لیے ملک کوسنبھالنااوروہاں سیاسی استحکام لانا، پڑوسی ممالک سے بہترتعلقات قائم رکھنا، امریکہ اورروس دونوں سے تعلقات میں توازن برقراررکھنا بڑی سیاسی سوجھ بوجھ اوربین الاقوامی سیاست کے اتارچڑھاؤاوراپنے ملک کی نازک صورت حال کوباریکی سے سمجھ کراس سے عہدہ برآہونے کا تقاضاکرتے ہیں۔ملک کی معیشت بالکل چرمراکررہ گئی ہے۔بجلی کی سپلائی کایہ حال ہے کہ اگرروزانہ تین گھنٹے بھی آجائے توغنیمت ہے۔سردست کمانڈرجولانی نے جوبیانات دیے ہیں، جس طرح وہ اقلیتوں سے مل رہے ہیں اورجس طرح اپنے فوجیوں کوامن وامان قائم کرنے میں لگایاہے اس سے ملک میں استحکام لانے کے عندیہ کا پتہ چلتاہے۔
٭ رسرچ ایسوسی ایٹ مرکزفروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہندعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
ای میل :[email protected]