عبدالباری مسعود
وزیر اعظم نے12 مئی کو کوڈ کی عالمی وباء کے حوالے سے20 لاکھ کروڑ روپیئے کا ایک مالیاتی پیکیج کا اعلان کیا تھا اس کی اصل حقیقت کو حزب اختلاف نے آشکار کر دیا تھا کہ یہ نئی بوتل میں پرانی شراب کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ تاہم اس اعلان کے ساتھ وزیر اعظم نے پہلی مرتبہ خود مکتفی یا خود انحصاری self reliant حاصل کرنے کا نعرہ بلند کیا تھا اور لوگوں پر زور دیا تھا کہ وہ مقامی اشیاء و مصنوعات کو ترجیح دیں (Go Vocal for Local) ۔ اب وہ اس نعرہ کی تکرار وقتاًْ فوقتاً کر رہے ہیں ۔ بالخصوص چین کے لداخ کی زمین پر قبضہ کے بعد اس نعرہ کی دھن کچھ زیادہ سنائی دینے لگی ہے ۔ لیکن اعداد و شمار اورٹھوس حقائق کی روشنی میں اس نعرہ کو پرکھاجائے تو یہ سابقہ نعروں کی طرح کھوکھلا اور خود فریبی میں مبتلا کرنے کے سواء کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ انڈیا ہر معاملہ میں درآمدات پر منحصر ہے ۔
یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ’’ کسی ملک کی دولت یا اثاثہ اس چیز پر منحصر نہیں ہوتا ہے کہ وہ ملک کیا پیدا کرتا ہے بلکہ اس چیز پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کتنی ایجادات اور اختراعات کرتا ہے۔‘‘ اس کا تعلق نہ کمپنیوں کی بیلنس شیٹ سے اور نہ ہی برآمدات کی مالیت کے حجم سے ہے بلکہ اس کا تعلق ایجادات ، علمی و تحقیقی کاوشوں intellectual property وغیرہ سے ہے جس پر آپ کا حق محفوظ ہوتا ہے۔
دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملکوں میں دیکھیں گے کہ ان کی جامعات اور اعلی تعلیمی اداروں میں ایجادات ، اختراعات اور نئے موضوعات پر علمی و تحقیقی اور تخلیقی کام ہورہے ہیں۔ ان ہی تخلیقات innovation کی بدولت وہ ترقی کے منازل طے کرتے ہیں ۔ اسی لئےوہ اپنے اعلی تعلیمی داروں میں تحقیق و تخلیق کے شعبہ یا آر اینڈ ڈیResearch and Development پر کافی پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر انڈیا خود مکتفی بننا چاہتا ہے تو اسے ثانوی ذرائع علوم کے بجائے طبع زاد علوم کی طرف توجہ دینا ہوگی ۔ جامعات کا تعلیمی نظام آر اینڈ ڈی یا اختراعات یا انوویشن کے مرکز ہے۔ تاہم انڈیا میں تحقیق و اختراعات کے شعبہ پر مجموعی قومی اخراجات میں سے جی ڈی پی کا محض 0.7 فیصد ہی ایک عرصہ سے خرچ کیا جا رہا ہے اس میں برسوں سے کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے ۔
چنانچہ وزیر اعظم نے ’آتم نربھر ابھیان ‘ کا توبگل بجا دیا لیکن اس کا کوئی لائحہ عمل نہیں بتایا۔ صنعتوں کو یہ تلقین کی کہ وہ تمام مصنوعات ملک میں بنائیں اور دنیا کے لئے بھی بنائیں( Made in India, Made for the World )۔ انڈیا کی دوسروں پر انحصار کی کیا حالت ہے اس کی تفصیلات یہاں پارلیمنٹ میں پیش کئےگئے اعداد و شمار، سرکاری جائزوں کے حوالے سے پیش کی گئی ہیں ۔
ورلڈ بینک کے مطابق انڈیا کے تحقیق و اختراعات کی مد میں قومی اخراجات کا 0.7 فیصد کے مقابلے میں جنوبی کوریا 4.5 فیصد، جاپان 3.2 فی صد ، جرمنی 3.0 فی صد امریکہ 2.8 فی صد اور چین 2.1 فی صد رقم خرچ کرتے ہیں ۔ یہی انکی ترقی کا راز ہے۔ اسی طرح جب تحقیق و اختراعات کے شعبہ میں حکومت ، صنعتی و کاروباری اور اعلی تعلیم کے اداروں کی طرف سے پیسہ خرچ کرنے کا موازنہ کیاجائے تو اس محاذ پر انڈیا دیگر ملکوں سے بہت پیچھے ہے۔انڈیا کا صفر اعشاریہ سات فی صد کا بجٹ ایک عرصہ سےچلا آرہاہے۔ بطور مثال فرانس کی حکومت 13 فی صد ، کاروباری ادارے 65 فی صد اور اعلی تعلیم کے ادارے 21 فی صد پیسہ تخلیق و تحقیق پر خرچ کرتے ہیں جبکہ چین میں حکومت 15 فی صد ، کاروباری ادارے 78 فی صد اور اعلی ادارے سات فی صد خرچ کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آج چین اختراعی مصنوعات کے معاملہ میں عالمی امام ہے ۔
خود انحصاری کی راہ میں حائل ایک اور مشکل نقل و حمل کی بہت زیادہ لاگت ہے ۔ انڈیا اس معاملہ میں ترقی یافتہ ملکوں سے مقابلہ نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا نقل و حمل پر جی ڈی پی کا 14فی صد حصہ خرچ ہوجاتا ہے ۔ اس کے برعکس امریکہ نقل و حمل پر 9.5 فی صد، جرمنی 8 فی صد ، جاپان 11 فی صد اپنے جی ڈی پی کا خرچ کرتا ہے۔ اگر نقل و حمل کی لاگت 14 فی صد ہوں گی تو اس صورت میں کونسی ملٹی نیشنل کمپنی انڈیا میں اپنی صنعتی اکائی لگانا پسند کرے گی کیونکہ وہ اس کے نتیجہ میں عالمی سطح پر مسابقت نہیں کرپائے گی۔ اس کے ازالے کے لئے مودی حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ مزید براں یہ کہ کچے مال کو پہنچانے کی لاگت اور توانائی کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
خود انحصاری کے منصوبہ میں حائل جو دیگر عوامل ہیں وہ بھی قابل غور ہیں ۔ وزیراعظم نے جب سے ’میک ان انڈیا‘ کا نعرہ بلند کیا ہے اس کے بعد سے انڈیا صرف موبائل فون، بجلی اور الیکٹرانک کی مصنوعات درآمد کردہ پرزوں کو جوڑ کر بنانے کا ایک بازار بن گیا ہے ۔ ان مصنوعات میں 30 فی صد سے بھی کم اضافی چیزیں مقامی طور پر بنی استعمال کی جاتی ہیں ۔ تھائی لینڈ، انڈو نیشیا، ملائیشیا، تائیوان، فلپائن ، جنوب کوریا اور چین کی قومی مجموعی پیداوار یا جی ڈی پی میں صنعت و حرفت manufacturingکا حصہ30 تا 50 فی صد ہے جبکہ انڈیا میں گزشتہ دس سالوں میں اس سیکٹر کا حصہ 16 فی صد سے بڑھ کر 18.32فی صد ہوا ہے۔
بجلی کے ساز و سامان، توانائی کا شعبہ ، 60 تا 70 فی صد طبی ساز و سامان و آلات ، اور شمسی توانائی کی مصنوعات سب درآمد کرنا پڑتی ہیں۔انڈیا ہر سال 60 ارب امریکی ڈالر مالیت کا الیکٹرانک ساز و سامان ، اور خام مال درآمد کرتا ہے۔ ان میں زیادہ مال چین سے آتا ہے۔ موبائل فون میں استعمال ہونے والے 88 فی صد پرزے چین اور دوسرے ملکوں سے درآمدکئے جاتے ہیں۔ اسی طرح شمسی توانائی کے شعبہ میں 2018 میں تقریباً 184.57 ارب روپئے مالیت کا سامان درآمد کیا گیا۔
دواسازی کے معاملہ میں انڈیا چین پر بری طرح سے منحصر ہے۔ اگر چین نے اس کی برآمد بند کردی تو بڑی سنگین صور ت حال پید ا ہوسکتی ہے۔ انڈیا دوا سازی میں استعمال ہونے والے فعال اجزاء active pharmaceutical ingredients کی 85 فی صد مقدار چین سے درآمد کرتا ہے۔گزشتہ سال چین سے 249 ارب روپئے مالیت کے اجزائے دوا درآمد کئے گئے۔
آٹو انڈسٹری میں استعمال ہونے والے پرزے بھی درآمد کرنے پڑتے ہیں۔ انڈیا ہرسال 17.5 ارب ڈالر مالیت کے پرزے چین سے منگاتا ہے جو کل کا تقریباً 27 فی صد ہے، اس کے بعد جرمنی سے 14 فی صد، جنوبی کوریا سے10 فی صد ، جاپان سے نو اور امریکہ سے سات فی صد پرزے آتے ہیں۔
پارچہ بافی یا ٹیکسٹائل کی صنعت بھی چین سے درآمدات پر منحصر ہے ۔ خام مال بشمول مصنوعی سوت synthetic yarn ، مصنوعی کپڑا ، بٹن ، زیپر ، (چین) ہینگر وغیرہ سب چین سے آتے ہیں۔ ڈائی یا رنگ کا مٹیر یل بھی چین سے آتا ہے موجودہ حالات کی وجہ سے خام مال کی آمد میں کمی کے سبب ڈائی کی صنعت 20 فی صد متاثرہوئی ہے۔
ٹیلی کام یا مواصلات کے شعبہ میں بھی انڈیا درآمدات پر منحصر ہے ۔ وہ سالانہ 1.3 کھرب روپیئے مالیت کے ٹیلی کام ساز و سامان و آلات باہر سے خریدتا ہے۔ امبانی کی جیو ریلائنس کمپنی جنوبی کوریا کی سمسنگ کمپنی کے 4G ساز و سامان استعمال کرتی ہے ، وہیں ووڈافون اور بھارتی ایئر ٹیل چین کی Huawei کمپنی کی مصنوعات کے علاوہ سوئیڈن کی اریکسن ، فن لینڈ کی نوکیا اور چین کی زیڈ ٹی ای پر انحصار کرتے ہیں۔
کوئلہ : اپنی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لئے انڈیا کو کوئلہ بھی باہر سے خریدنا پڑتا ہے حالانکہ ملک میں کوئلہ کے ذخائر کی کمی نہیں ہے ۔ سال 2019-20 میں 247.1 ملین ٹن کوئلہ درآمد کیا گیا جو اس سے پیشتر سال کے مقابلے میں پانچ فی صد زیادہ ہے۔ 2018-19میں یہ مقدار 235.35 ملین ٹن تھی۔ تین چار سال تک غلط پالیسوں کے سبب کوئلہ باہر سے خریدنا پڑے گا۔
ڈیجیٹل پے منٹ : حکومت میں آنے کے بعد بالخصوص نوٹ بندی کے بے تکے قدم کے بعد وزیراعظم نے بغیر نقد کے لین دین یا ڈیجیٹل کا خوب ڈھنڈورا پیٹا ۔ تاہم اس کے بڑے بڑے پلیٹ فارم سب غیرملکی ہیں جیسے پے ٹی ایم Paytm میں 33 فی صد ، گوگل پے میں 14 فی صد اور ایمزان پے 10 فی صد حصص ہیں ۔ یہ تمام پلیٹ فارم بڑی کثیر قومی کمپنیوں نے شروع کئے ہیں۔ جہاں تک پے ٹی ایم کا معاملہ ہے اس میں چین کی کمپنی علی بابا گروپ کا 42 فی صد اور جاپان کے سافٹ بنک کا 20 فی صد شیئر ہے۔
ای کامرس یا آن لائن کاروبار کی کمپنیاں بھی باہر کی ہیں یا ان کا بڑا حصہ ہے ان میں ایمزان، علی بابا، وال مارٹ ، اور سافٹ بنک ہیں۔ ایمزان انڈیا کوایمزان کا تعاون حاصل ہے ، فلپ کارٹ میں والمارٹ کا 81.3 فیصد شیئر ہے۔ علی بابا نے بگ باسکیٹ اور سافٹ بنک نے گروفرس کو لانچ کیا ہے ۔
ویڈیو کانفرنسنگ کے ایپوں کا معاملہ بھی سارا کے سارا غیرملکی ہے اس کے جتنے بھی ایپ یا برقی سانچے ہیں جیسے زوم ، مائکرو سافٹ ٹیم گوگل میٹ وغیرہ سب غیر ملکی ہیں ۔ لداخ میں مبینہ چینی قبضہ کے بعد حکومت نے چین کے کچھ چالیس بیالیس ایپ بند کرنے کا اعلان کیا تھا جن کا مقصد محض عوامی غصہ کو ٹھنڈا کرنا تھا۔
ڈیجیٹل لرننگ : حال میں کیرلا میں ایک لڑکی کی خودکشی کا واقعہ پیش آیا تھا وہ لڑکی آن لائن کلاس میں شرکت نہیں کر پا رہی تھی اس لئے اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا تھا۔اس کے پاس آن لائن ہونے کے لئے کسی بھی طرح کی سہولت نہیں تھی۔
نیشنل سیمپل سروے 2017-2018 کے مطابق ملک میں 27 فی صد سے کم خاندان ایسے ہیں جن کے کسی ایک رکن کے پاس انٹر نیٹ کی سہولت ہے۔ براڈکاسٹنگ آڈیئنس ریسرچ کونسل کے ایک سروے کے مطابق صرف 66 فی صد خاندانوں کے پاس ٹی وی سیٹ ہیں ۔نیتی آیوگ کی 2018 میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے بموجب آج بھی ملک کے 55,000 دیہاتوں میں موبائل نیٹ ورک نہیں ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ تعلیم کے شعبہ میں ڈیجیٹل کی تفریق کو ختم کرنے کے لئے اس مد کے بجٹ میں خاصہ اضافہ کرنا ہوگا۔ سردست تعلیم کے شعبہ میں تین فی صد جی ڈی پی کا خرچ ہورہا ہے ۔ وزارت تعلیم نے ڈیجیٹل ای لرننگ کے بجٹ 604 کروڑ روپئے کو کم کرکے رواں مالی سال کے لئے 469 کروڑ روپئےکردیا۔
نیٹ پراجیکٹ :بھار ت نیٹ پراجیکٹ : فروری 2020 تک 146,717 گرام پنچایتوں یعنی 59 فی صد دیہاتوں میں کیبل بچھائی گئی ہے ۔ ان میں سے 134,248 گاوئوں یعنی 53 فی صد میں انٹر نیٹ سروس شروع کی جاسکتی ہے ۔
5G اسپیکٹرم کی نیلامی : خود انحصاری کے نعرے کے باوجود حکومت 5G اسپیکٹرم کی نیلامی کے سلسلہ میں تردد کا شکا رہے ۔ تاہم نیلامی کے لئے جو بنیادی رقم مقرر کی گئی ہے وہ ہوش ربا ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ یعنی اسپیکٹرم 70 ملین ڈالر ہے جبکہ یہ رقم اٹلی میں 26 ملین ڈالر، جنوبی کوریا میں 18 ملین ڈالر، 10ملین ڈالر برطانیہ اور پانچ ملین ڈالر آسٹریلیا میں ہے۔ اتنی بڑی بیس رقم کی صورت میں کون سی کمپنی آگے آئے گی۔
ورلڈ اکنامک فورم نے 2019 میں سالانہ عالمی مسابقتی رپورٹ Annual World Competitiveness جاری کی جس میں انڈیا کا مقام مسابقتی فہرست کی درجہ بندی میں دس مقام نیچے گرکر 68 ویں پر آگیا۔ وزیراعظم سے یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ مسابقت میں انڈیا پیچھے کی طرف جارہا ہے تو خود انحصاری کہاں سے آئی گی ؟ صنعت و حرفت سے صرف 16 یا 18 فی صد جی ڈی پی آتی ہے جبکہ سروس سیکٹر سے 59 فی صد ۔ اس صورت میں روزگار کے مواقع کہاں پیدا ہوں گے۔ ایک ایسی حکومت جس کی نہ کوئی اقتصادی پالیسی ہے نہ صنعتی اور نہ کوئی اور پالیسی ، جو اپنے کام میں مخلص بھی نہ ہو ایسے سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے ۔ چین کی زیادتی اور جارحانہ رویہ کے باوجود اس حکومت میں دم نہیں ہے کہ وہ چین کاا قتصادی بائیکاٹ کر سکے۔ اگر اس پر عمل کیا جاتا ہے تو اس سے عام لوگوں کو کتنی پریشانیاں ہوں گی اور معیشت پر اس کے کتنے مضر اثرات پڑیں گے اسے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ کشمیر کے مسئلہ پر موقف اختیار کرنے پر ملائیشیا سے پام آئیل کی درآمد بند کرنے کا جو مودی حکومت نے فیصلہ کیا ہے اس کے بعد سے کھانے کے تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔اور اس کا راست فائدہ ان کے گجراتی صنعتکاروں دوستوںکو ہورہا ہے ۔ یہ تو اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔ ایک چیز کی درآمد بند کرنے سے کیا مسائل پید ا ہوتے ہیں۔
اس سے ہی خود مکتفی کے نعرہ کی قلعی کھل جاتی ہے ۔ چنانچہ اس پر کانگر یس کے لیڈر اور سابق مرکزی وزیر برائے سائنس و ٹکنالوجی اور وزیر تعلیم کپل سبل نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا ہے ’’ جو واحد چیز ہم انڈیا میں بناتے ہیں (میک ان انڈیا ) وہ ہیں نعرے ۔ ہر چند مہینوں کے بعد نئے نعرے ہوتے ہیں جو انڈیا میں ’’ بنائے‘‘ جاتے ہیں اور ہم یہ بنانے میں ماسٹر ہیں‘‘۔