بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ کے مندرہونے کے فرضی دعوؤں کے درمیان یو پی کے ضلع سنبھل کی تاریخی شاہی جامع مسجد کو مندر میں تبدیل کرنے کی حکومت کی مذموم کوششیں تیزتر ہو گئی ہیں ۔ بابری مسجد کی طرح ہی سنبھل کی شاہی جامع مسجد کو مغل باد شاہ بابر سے جوڑ دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ مقامی عدالت کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ سنبھل پولیس کی پر تشدد کاروائیوں میں پانچ مسلم نوجوان شہید ہوگئے۔
سنبھل سے تقریباً25؍ کلو میٹر دور واقع کیلا دیوی مندر کے مہنت رشی راج اور ان کے ساتھیوں نے 19؍ نومبر 2024 کو سول عدالت میں ایک عرضی داخل کی۔ اس عرضی میں دعویٰ کیا گیا کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد اصل میں ہری ہر مندر ہے جسے مغل باد شاہ بابر نے تو ڑ کر مسجد بنائی تھی۔ لہٰذا محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے اس کا سروے کرایا جائے۔ عدالت نے مسجد کا موقف جانے بغیر ہی درخواست قبول کرلی اور اسی دن مسجد کے سروے کا حکم صادر کردیا۔ چند منٹوں میں ہی سروے ٹیم تشکیل دے دی گئی۔ عدالت کے حکم سے یہ ٹیم شاہی جامع مسجد کا سروے کرنے نکل پڑی۔ سروے ٹیم نے مسجد کے ذمہ داروں کو عدالت کا آڈر دکھانے کے فوراً بعد ہی مسجد کا سروے شروع کر دیا۔ مسجد انتظامیہ کے ذمہ داران اور مقامی مسلمانوں نے عدالت کے حکم کا احترام کرتے ہوئے مسجد کا سروے کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ سروے ٹیم کی ہر ممکن مدد بھی کی۔ اس دن سروے کا کام نہایت پر امن طریقے سے مکمل ہو گیا۔ اس دوران مقامی مسلمانوں کی طرف سے پوری طرح سے صبر و سکون کا مظاہرہ کیا گیا۔ سروے مکمل کرنے کے بعد ٹیم واپس چلی گئی ۔ لیکن 24؍نومبر کو سروے ٹیم بغیر کسی اطلاع کے اچانک جامع مسجد پھر پہنچ گئی۔ سروے ٹیم نے جامع مسجد میں داخل ہوکر سروے کرنے پر اصرار کیا۔ اس بار سروے ٹیم کے ساتھ بھاری تعداد میں پولیس فورس اور لوگوں کا ہجوم تھا۔ ہجوم کی طرف سے لگاتار اشتعال انگیز مسلم مخالف نعرے لگا ئے جا رہے تھے۔ ٹیم نے پولیس فورس کے ساتھ مسجد میں داخل ہوکر سروے شروع کر دیا۔ اس دوران مسجد کے انتظام کاروں اور مقامی مسلمانوں نے مسجد کا دوبارہ سروے کرنے اور اس کے طور طریقے پر سوال اٹھایا۔ اس دوران ٹیم کے ساتھ آئی ہوئی بھیڑ اشتعال انگیز مسلم مخالف نعرے لگا رہی تھی۔ لیکن پولیس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ پولیس کا رویہ جا نب دارانہ تھا۔ اسی درمیان بھیڑ کی طرف سے اینٹ پتھر چلنے لگے ۔پولیس نے تشدد پر آمادہ ہجوم کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ اس نے وہاں موجود مقامی مسلمانوں پر ڈنڈے برسانے شروع کر دئے۔ ہنگامے کے دوران جم کر پتھراؤ ہوا۔ بھیڑ کے ساتھ مل کر پولیس نے بھی مسلمانوں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔
ہنگامے کے کئی وائرل ویڈو سامنے آئے ہیں جس میں مسلمانوں کے ہجوم پر پولیس کو سیدھی فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس فائرنگ سے پانچ مسلم نوجوانوں کی موت اور درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔ بہت سے زخمی پولیس کے خوف سے اپنا علاج اسپتالوں میں نہیں کرا پا ئے ۔ انہیں خوف تھا کہ پولیس ان کو گرفتار کرلے گی۔ اب تک تیس سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کرکے جیل بھیجا جا چکا ہے۔ ان میں چار مسلم خواتین بھی شامل ہیں۔ تشدد پھیلانے کے الزام میں لگ بھگ چارسو افراد کی پولیس نے شناخت کی ہے۔ پولیس نے ان لوگوں کی تصویریں اور پوسٹرس جاری کئے ہیں، ان میں سبھی مسلمان ہیں۔ انتظامیہ نے صرف چار اموات کی تصدیق کی ہے۔ پولیس فائرنگ سے مرنے والوں میں بلال،نعیم، کیف اور ایان کا نام شامل ہے ۔ ایان کی عمر سولہ برس بتائی جا رہی ہے۔ پولیس اور اس کے ساتھ آئی بھیڑ کے تشدد سے درجنوں مسلمان زخمی ہوئے ہیں۔مسلم دکانوں اور گاڑیوں کو آگ لگائی گئی اور بھیڑ نے گھروں پر حملے کئے۔ پولیس انتظامیہ نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس کی فائرنگ سے کسی کی موت ہوئی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے جو فائرنگ کی ہے وہ اپنی حفاظت کے لیے کی تھی۔لیکن مرنے والے نوجوان کس کی فائرنگ سے مارے گئے، اس کا واضح جواب پولیس کے پاس نہیں ہے۔ مقامی مسلمانوں کا الزام ہے کہ نوجوانوں کی موت پولیس کی فائرنگ سے ہوئی ہے۔ ان الزامات کے بعد ریاستی حکومت نے معاملے کی عدالتی جانچ کا حکم دیا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس دیوندر کمار اروڑا کی سربراہی میں تین رکنی جانچ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں سابق آئی اے ایس افسرامت موہن پرساد اور اروند کمار جین کو رکن بنایا گیا ہے۔ جانچ کمیٹی میں کسی مسلم نمائندے کو جگہ نہیں دی گئی ہے۔ جب کہ یہ پورا معاملہ مسلمانوں سے جڑا ہوا ہے۔ جانچ کمیٹی نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ اس نے شاہی جامع مسجد معائنہ کیا۔ اس جگہ کا بھی معائنہ کیا جہاں سے تشدد کی آگ بھڑکی تھی ۔
سنبھل کی شاہی جامع مسجد سولہویں صدی عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ مسجد سنبھل شہر کے وسط میں واقع ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر مغل باد شاہ بابر نے 1527میں کرائی تھی۔شاہی مسجد جہاں واقع ہے آج یہ شہر کا گنجان علاقہ ہے۔ مسجد کے سامنے زیادہ تر ہندوؤں کی دکانیں ہیں جب کہ مسجد کے پیچھے چاروں طرف مسلمانوں کی آبادی ہے۔ 24؍نومبر کے تشدد کے بعد سے مسلم علاقوں میں خوف کا ماحول ہے۔ پولیس نے مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ کارروائی کی ہے۔مسجد کے قریبی علاقوں کے مسلمان پولیس کی کارروائی سے بچنے کے لیے گھروں میں تالا لگا کر دوسری جگہ منتقل ہو گئے ہیں۔ مقامی پولیس فٹیج کی مدد سے مسلم نوجوانوں کی شناخت رہی ہے اور ان کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔ پولیس کے مطابق ویڈیو فٹیج کی مدد سے اب تک چار سو لوگوں کی شناخت کی گئی ہے۔ پولیس ان کو گرفتار کرنے کے لیے کئی مقامات پر دبش کررہی ہے ۔بعض سرکردہ مسلمانوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا- 29؍نومبر کو سنبھل تشدد کا معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوا۔ ابتدائی سماعت کے بعد چیف جسٹس سنجیو کھنا اور جسٹس سنجیے کمار کی بنچ نے مسجد معاملے میں سول کورٹ کی تمام پروسیڈنگ پر فی الحال روک لگا دی ہے ۔ ساتھ ہی عدالت نے سول کورٹ کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ کمشنر کی سروے رپورٹ سیل بند لفافے میں رکھی جائے ۔سپریم کورٹ نے سنبھل انتظامیہ کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ پوری طرح سے غیر جانب دار رہ کر شہر میں امن وامان کو بحال کرے۔سنبھل تشدد معاملے میں ریاستی حکومت کا رویہ انتہائی جانبدارانہ ہے۔ ریاستی حکومت نے پولیس فائرنگ سے کسی کی موت ہونے سے صاف انکار کر دیا ہے۔حکومت نے 10؍ دسمبر تک کسی بھی سماجی یا سیاسی تنظیم کے لیڈر یا باہری شخص کے سنبھل میں داخل ہونے پر روک لگا دی تھی جب کہ اپوزیشن کی کئی جماعتیں سنبھل کا دورہ کرنا چاہتی تھیں۔اپوزیشن کی جماعتوں نے سنبھل تشدد پر ریاست حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ سماج وادی پارٹی، کانگریس ، بہوجن سماج پارٹی اور آزاد سماج پارٹی نےسنبھل تشدد کے لیے یوگی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادؤ نے پولیس فائرنگ میں مرنے والوں کے لواحقین کو مالی امداد دینے کا اعلان کیا ہے ۔اکھلیش یادؤ نے الزام لگایا کہ سنبھل کا فساد سرکار نے کرایا ہے ۔ سرکار چاہتی ہے کہ ضمنی چناؤ میں جو ووٹوں کی لوٹ ہوئی ہے اس پر پردہ ڈالا جا سکے۔ فساد کرانے میں پولیس افسران سیدھے طور سے شامل ہیں۔سپا لیڈر رام گوپال یادؤ نے بھی اس مسئلے کو راجیہ سبھا میں اٹھایا۔ اسی طرح آزاد سماج پارٹی کے سربراہ چندر شیکھر راون نے سنبھل تشدد کے لیے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ سنبھل میں جو تشدد کا واقعہ ہوا ہے وہ ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ ہے ۔ چندر شیکھر آزاد راون نے مطالبہ کیا کہ سنبھل تشدد واقعے کی جانچ سپریم کورٹ کی نگرانی میں سی بی آئی سے کرائی جائے۔
پورے معاملے پر گہرائی سے غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد پر قبضہ کرنے کے ڈرامے کی اسکرپٹ کافی پہلے ہی تیارکر لی گئی تھی۔ اس معاملے میں کیلا دیوی مندر کے مہنت، عدالت، پولیس، انتظامیہ اور حکومت نے پہلے سے اپنا کردار طے کر لیا تھا۔ اس بار بھی نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا رویہ ماضی کی طرح کی منافقانہ رہا۔مسجدوں کی نیچے مندر دبے ہونے کے مفروضہ معاملات کو ایک مخصوص درجہ حرارت پربنائے رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا وقت بھی بہت سوچ سمجھ کر چنا گیا تھا۔ الہ آباد میں 14؍ جنوری سے مہاکمبھ کی شروعات ہونے جا رہی ہے۔ 26؍ جنوری کو مہا کمبھ میں وشو ہندو پریشد کے زیر اہتمام سادھوں سنتوں کی دھرم سنسد منعقد کی جائے گی ۔دھرم سنسد میں وقف ایکٹ کا خاتمہ اور مسجدوں کے نیچے مندر ہونے کے مسئلے پر حکمت عملی طے کی جائے گی۔ اکھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد نے بھی اس معاملے میں اپنا رخ سخت کر لیا ہے۔سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے معاملے کو بابری مسجد کی طرز پر چلانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ کیوں کہ اس سے بھی بابر کا نام جڑا ہے ۔مہا کمبھ میں اس مسئلے کو رام مندر تحریک کی طرح چلانے کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔