سید عبدالوہاب شیرازی
اس میں کوئی شک نہیں کہ بحیثیت مسلمان ہماری سب سے بڑی پہچان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن پر حقیقی معنوں میں ایمان لانا ہی ہے۔زبان،رنگ و نسل، جغرافیہ وغیرہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ایک لحاظ سے ایمانی رشتے کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی ہے۔ لیکن ایمان کے بعد بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کسی نہ کسی درجے میں کسی قوم کی پہچان اور شناخت کو دنیا میں باقی رکھتی ہیں۔ انہیں میں سے ایک زبان اور اس زبان کو لکھنے کے لیے استعمال ہونے والا رسم الخط بھی ہے۔
ہم جس دین اور جس امت سے تعلق رکھتے ہیں ہماری اصل زبان اور پہچان تو عربی زبان اور عربی رسم الخط ہے۔لیکن فتح مکہ کے بعد جب اسلام عرب سے نکل کر عجم میں پھیلنا شروع ہوا تو دوسری اقوام ، رنگ و نسل، اورمختلف زبانیں بولنے والے لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے، ابتداء میں کچھ لوگوں نے عربی سیکھ کر دوسرے عجمی لوگوں کی دین اسلام تک رسائی آسان بنانے کے لیے مختلف زبانوں میں دین اسلام کی تعلیمات کو ترجمہ کرنا شروع کیا۔ دین اسلام کی نشرواشاعت اور ترویج عربی کے علاوہ جن دوسری زبانوں میں سب سے زیادہ ہوئی ان میں دو زبانیں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں ایک فارسی اور دوسری اردو۔ لیکن اب فارسی بھی پیچھے رہ گئی ہے اور بلاشبہ عجمی زبانوں میں اردو ہی واحد ایسی زبان رہ گئی ہے جس میں اسلامی تعلیمات کا سب سے زیادہ ذخیرہ موجود ہے۔
کسی بھی قوم کو تباہ کرنے کے لیے جہاں اور بہت سارے ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں انہیں میں سے ایک ہتھیار یہ بھی ہے کہ اس قوم کو اپنی زبان یا کم از کم اپنی زبان کے رسم الخط یعنی لکھنے کے طریقے سے بیگانہ کردیا جائے۔ چنانچہ آج سے سو سال پہلے جب خلافت عثمانیہ کو ختم کیا گیا اور کمال اتاترک نے شعائر اسلام پر پابندی لگائی تو انہیں پابندیوں میں سے ایک پابندی یہ بھی تھی کہ آئندہ ترکی زبان لکھنے کے لیے رسم الخط عربی نہیں بلکہ انگریزی استعمال ہوگا، آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ رومن اردو کی طرح رومن ترکی لکھی جائے گی۔ پہلے ترکی زبان بھی اردو کی طرح عربی حروف تہجی سے لکھی جاتی تھی۔ یعنی جیسے ہم اردو لکھتے ہوئے جیسے ا ب ت ث ج عربی حروف کا استعمال کرتے ہیں اسی طرح ترکی بھی انہیں عربی حروف تہجی سے لکھی جاتی تھی۔ کمال اتاترک نے اس پر پابندی لگا دی اور ترکی کو انگریزی حروف تہجی ABCDE کے ساتھ لکھنا ضروری قرار دے دیا۔اس کا سب سے بڑا نقصان تو یہی ہوا کہ آنے والی نسلوں کو قرآن پاک سمجھنے اور سیکھنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنی پڑی کیونکہ قرآن سیکھنے کے لیے سپیشل عربی حروف تہجی کو سیکھنا اور سکھانا پڑتا ہے جبکہ پہلے عربی حروف تہجی خود بخود سکول پڑھنے سے بھی یاد اور سمجھ آجاتے تھے۔ چنانچہ پاکستان میں ایک بچہ اگر کسی وجہ سے دس بارہ سال یا بیس سال کی عمر تک بھی اگر قرآن نہیں سیکھ سکھا اور اسکول میں اس نے اردو سیکھی ہے تو اسے قرآن سیکھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کیونکہ اردو سیکھنے کی وجہ سے آدھا کام اس کے لیے پہلے ہی آسان ہو چکا ہے اب ذرا لہجہ سیکھنا ہے۔
جیسا کہ اس سے پہلے ترکی ڈرامے کے حوالے سے ایک مضمون میں، میں نے یہ بات عرض کی تھی دشمنان اسلام نے میدان جنگ میں وہ کامیابیاں حاصل نہیں کیں جو کونٹینٹ وار(مواد کی جنگ) میں حاصل کی ہیں، چنانچہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جو جو کام وہاں ڈنڈے کے زور پر کیے تھے وہی سارے کام دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں کونٹینٹ وار کے ذریعے کیے جارہے ہیں۔ چنانچہ ترکی میں تو عربی رسم الخط پر پابندی زبردستی اور حکم نامے کے تحت لگائی گئی تھی لیکن پاکستان میں عربی رسم الخط کو ختم کرنے کے لیے ایک سازش کے تحت نہایت خاموشی سے رومن اردو رائج اور عام کی جارہی ہے۔ مجھے روزانہ وٹس اپ اور دیگر میسنجرز پر سینکڑوں میسج موصول ہوتے ہیں جن میں لوگوں نے مختلف امور سے متعلق رہنمائی مانگی ہوتی ہے، ان پیغامات کی اکثریت رومن اردو میں ہوتی ہے، اور جب پیغام بھیجنے والے سے کہا جاتا ہے کہ اردو میں پیغام لکھیں تو ان کے پاس یہی جواب ہوتا ہے کہ مجھے اردو میں لکھنا نہیں آتا یا میرے موبائل میں اردو لکھی نہیں جاتی۔ پہلی بات تو درست ہوتی ہے کہ واقعتا بہت سارے لوگوں کو اب اردو لکھنا نہیں آتی جبکہ دوسری بات جھوٹ ہوتی ہے کیونکہ اب تقریبا ہر موبائل یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ اس میں اردو انسٹال کی جائے کیونکہ درد دل رکھنے والوں نے اردو زبان اور اردو فونٹ کو جدید ٹیکنالوجی میں تیار کرکے ڈیٹا بیس میں رکھ دیا ہے جس سے ساری دنیا میں اردو بولنے والے استعمال کرسکتے ہیں۔ مسئلہ اصل میں یہی ہے کہ رومن اردو کو جب رواج دیا گیا تو تمام اردو بولنے والوں نے اسے استعمال کرنا شروع کردیا کیونکہ چند سال پہلے تک یہ ممکن بھی نہیں تھا کہ جدید آلات موبائل کمپیوٹر پر اردو میں لکھا جائے، لیکن اب ایسا نہیں ہے آپ جدید آلات موبائل کمپیوٹر پر آسانی سے اردو لکھ سکتے ہیں۔ اس لیے رومن اردو لکھنا چھوڑیں اور اپنی آنے والی نسلوں کی شناخت کو محفوظ بنائیں، آج آپ کی تھوڑی سے کاوش آپ کے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنا سکتی ہے۔ ورنہ وہی ہوگا جو کمال اتاترک نے ترکی میں کیا تھا اور آج ترکی میں بسنے والے مسلمانوں کو قرآن سکھانے کے لیے الگ سے پہلے عربی حروف تہجی اپنے بچوں کو سکھانے پڑتے ہیں اور پھر بعد میں وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ اب قرآن سیکھیں۔رومن اردو کو رواج دینے کی سازش معمولی سازش نہیں، اور اسے یہ کہہ کر ٹال دینا کہ میرے موبائل میں اردو نہیں لکھی جاتی یہ بھی معمولی غفلت اورغلطی نہیں بہت بڑی غفلت اور بہت بڑی غلطی ہے۔عربی رسم الخط میں اردو لکھنے سے ہمارا آدھا کام آسان ہو جاتا ہے اور ہم اپنے بچوں کو قرآن اور دینی تعلیمات سیکھنے اور سکھانے کے جتنے قریب لے آتے ہیں اتنا ہی رومن اردو لکھنے سے ہم دور لے جاتے ہیں۔ویسے بھی آج کے زمانے میں عربی کے بعد اردو زبان ہی واحد ایسی بڑی زبان ہے جو اسلام کی نہ صرف پہچان بلکہ بہت بڑی ترجمان بھی ہے۔اس بات کو شاید ہم نہیں جانتے لیکن دشمن خوب جانتا ہے اسی لیے رومن اردو کو رواج دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہم بھی اپنی غفلت کی وجہ سے اس سازش کا شکار ہو رہے ہیں۔
خدارا ! جاگیے، اس غفلت سے نکلیے اپنے پیغامات اردو رسم الخط جو در اصل عربی رسم الخط ہی ہے اس میں لکھیے۔