ذات پر مبنی  مردم شماری پر مصنوعی اتفاق

سہاس پالشیکر
جون 2025

نریندر مودی حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو بادل نخواستہ تسلیم کر لیا ہے، اور اب لگتا ہے کہ “منڈل” کے معاملے پر ایک مصنوعی اتفاق رائے کی تیاری کا اگلا مرحہ قریب ہے۔ حکومت کا یہ فیصلہ “طاقت ور پارٹی کے رویے” کا عکاس ہے، جہاں  وہ پارٹی مخالفین کے پرکشش اور مقبول عام نعروں کو ہڑپ لیتی ہے، سیاسی اور سماجی طور پر متنازعہ معاملے پر اتفاق رائے کا ماحول بناتی ہے اوراپنے اس عمل سے وہ اس معاملے کے انقلابی امکانات کو ختم کر دیتی ہے۔

“منڈل” کا سفر ہمیشہ سے تنازعات سے گھرا رہا ہے۔ دوسرے پسماندہ طبقات کمیشن کا خیال ایک غیر متفقہ سیاسی ماحول میں سامنے آیا تھا۔ اعلیٰ ذاتوں کی شدید مخالفت کے باوجود او بی سی  کے اندربتدریج قیادت ابھری۔ او بی سی ریزرویشن کو نافذکرنے کے فیصلے کی وجہ سے سماجی اور سیاسی بھونچال آگیا۔ ہنگامہ اس لیے بھی کچھ زیادہ  ہوا کیوں کہ سیاسی سطح پر اس وقت کسی ایک پارٹی کی بالادستی نہیں تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ بیشتر سیاسی پارٹیوں کویہ احساس ہوا کہ ریزرویشن پر سیاسی جھگڑوں کے پس پردہ ایک گہری سماجی دراڑ موجود ہے۔ چنانچہ ان پارٹیوں نے او بی سی کے معاملے کو بغیر عملی اقدامات کے سپورٹ کرنے کی حکمت عملی اپنا ئی۔ ریزرویشن کے ذریعے سماجی انصاف کے امکانات کو کمزور کرنے کے لیے ای ڈبلیو ایس (معاشی طور پر کمزور طبقات) ریزرویشن کا قانون بنایا گیا اور پھر عدلیہ سے اس کی توثیق بھی ہوگئی۔ اس  نے سماجی انصاف کے معاملے پر کیے گئے دعوؤں کی سچائی کو ہی مشکوک بنا دیا۔

گزشتہ کچھ سالوں سے راہل گاندھی ذات پر مبنی مردم شماری اور سماجی انصاف کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ انہیں امید تھی کہ اس طرح بی جے پی کے لیے مشکل کھڑی کی جاسکتی  ہے اور پسماندہ ذاتوں کو اپنی طرف مائل کیا جا سکتا ہے۔  گرچہ کانگریس نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں پچھلے دو عام انتخابات کی بہ نسبت قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن ذات پر مبنی مردم شماری کے مسئلہ کو اٹھانے کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ البتہ کانگریس نے بی جے پی کو اس مسئلہ پر اپنے اٹل موقف کے ممکنہ نقصانات کے حوالے سے آگاہ ضرور کردیا۔بی جے پی نے ماضی میں ذات پر مبنی مردم شماری کے خیال کی یہ کہہ کر کہ مخالفت کی تھی کہ یہ ہندو اتحاد کے لیے خطرہ ہے اور اس سے سماجی نظام تباہ ہوجائےگا۔ لیکن شاید پارٹی نے محسوس کیا کہ اس معاملے نے سماج میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ اگرچہ یہ ہلچل کانگریس یا اس کے اتحادیوں کو بہار اور یو پی میں فائدہ نہیں پہنچا سکی، لیکن یہ بی جے پی کے ہندو اتحاد کے تصور کے لیے خطرہ ضرور تھی۔ مسلم مخالف پراپیگنڈا اور ہندوتوا کی سیاست کی وجہ سے او بی سی ووٹرز کی ایک بڑی تعداد تو بی جے پی کے خیمے میں آگئی ہے لیکن ان کی مادی اور سماجی حالت ہندوتوا کی ہم آہنگی میں خلل ڈال سکتی ہے۔

لہذا بی جے پی کے لیے او بی سی اور ذات کے معاملے کو اٹھانا ان کی مجبوری بن گئی۔ وزیر اعظم مودی نے کئی مواقع پر تقریر کرتے ہوئے سامعین کی توجہ  اپنی ذات کی طرف مبذول کرائی۔ بی جے پی نے یہ بھی یاد دلایا کہ کانگریس نے سیتارام کیسری کو کیسے نظر انداز کیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں بی جے پی کو احساس تھا کہ ذات سے متعلق سماجی تبدیلی کے لیے او بی سی کے حق میں بیانیہ درکار ہے۔لہذا کچھ ادھورے اقدامات کے بعداب بی جے پی نے بغیر کسی عملی اقدامات کے اس معاملے کو علامتی طور پر اپنا لیا ہے اور یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے۔

اس طرح کے مواقع میں ایک مضبوط پارٹی عام طور پر دو کام کرتی ہے: وہ مخالفین کے ایشوز ہتھیا لیتی ہے اور متنازعہ معاملات کو مصنوعی اتفاق رائے میں بدل کر انہیں کمزور کر دیتی ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کے فیصلے کے ساتھ بی جے پی نے یہی کیا ہے۔ لہذا اس معاملے پر اچانک ملکی سطح پر اتفاق رائے نظر آنے لگا ہے۔ اس مصنوعی اتفاق رائے سے یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ ذات سے جڑے اہم سوالات—جیسے ظلم، امتیاز اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم—پر بھی جلد توجہ دی جائے گی، کیوں کہ تمام پارٹیاں اب مردم شماری کی ضرورت کو تسلیم کر چکی ہیں۔

لیکن ہمیں ایک اور تلخ حقیقت  کابھی سامنا ہے۔ ذات کو اگلی مردم شماری میں شامل کرنے کے اعلان نے مؤثر طور پر سماجی ناانصافی کی جڑ کو تسلیم کرنے اور پالیسی سازی میں ذات کے عنصر کو شامل کرنے کے بارے میں سنجیدہ بحث کو ملتوی کر دیا ہے۔کانگریس شاید بھول چکی ہے لیکن یو پی اے کے دور میں کمیشن برائے مساوی مواقع(Equal Opportunity Commission)  کا خیال زیر بحث تھا، جس کا کام عدم مساوات سے متعلق سفارشات دینا تھا۔ آج ذات پر مبنی مردم شماری کے شور میں اس ادارہ جاتی اقدام کا کوئی ذکر بھی نہیں کیا جارہا ہے۔ یہی غالب پارٹی کی سیاست کی پہچان ہے—یہ نئے اور انقلابی پالیسی اختیارات کے امکانات کو معدوم کر دیتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ بی جے پی  کے ذریعہ ذات پر مبنی مردم شماری کو اپنانے کا کیا نتیجہ برآمد ہو گا؟

پہلی بات یہ ہے کہ یہ قدم کانگریس کو نہ صرف خودفریبی یا حد سے زیادہ خود اعتمادی  میں مبتلا کرے گا، بلکہ اس مسئلے سے اس کی دلچسپی بھی کم ہو جائے گی۔ اس وقت بھی یہ واضح نہیں کہ پارٹی کی بنیادی سطح پر اس معاملے میں کتنی دلچسپی ہے۔ اب جب کہ اس معاملے سے حاصل ہونے والا سیاسی فائدہ بہت معمولی رہ گیا ہے، تو ممکن ہے کہ کانگریس اس پر الجھن کا شکار نظر آئے۔اپوزیشن سے اہم مسائل کو چھین لینا غلبے کے نظام کا حصہ ہے اور غالباً کانگریس ہی اس کی شکار بنے گی۔

دوسرے  یہ کہ یہ واضح نہیں کہ اگلی مردم شماری (جو 2020-21 میں ہونی تھی) کب ہوگی۔ اوراس طرح کے معاملات میں تفصیلات ہی اہم ہوتی ہیں—مثال کے طور پر  مردم شماری میں ذات سے متعلق کون کون سے سوالات پوچھے جائیں گے؟ کیا یہ عام مردم شماری کا حصہ ہوگا یا الگ سے کیا جائے گا، جیسا کہ 2011 میں یو پی اے نے کیا تھا؟ نیز، ذات اور پیشے سے متعلق اعداد و شمار کب تک پالیسی سازی کے لیے دستیاب ہوں گے؟

اس اعلان کا یہ بھی مطلب ہے کہ بہار، تلنگانہ اور کرناٹک جیسی ریاستوں کے ذریعے جمع کیے گئے ذاتوں کے اعداد و شمار پر کوئی عمل نہیں ہوگا۔ یہ تفصیلات طے کریں گی کہ آیا یہ مردم شماری حقیقی ہوگی یا محض دکھاوے کے لیے۔

تیسرے، کیا سیاسی جماعتیں اصلی اعداد و شمار کا انتظار کیے بغیر سماجی انصاف کے طریقوں پر غور کریں گی؟ راہل  گاندھی کا “حصہ داری” کا نظریہ پرکشش ضرور ہےلیکن یہ نہ صرف نظریاتی طور پر مسئلہ پیدا کرتا ہے، بلکہ چھوٹی برادریوں کے مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کرتا، جو تناسب کے اصول پر مبنی پالیسی میں اپنا حصہ حاصل کرنے سے قاصر رہیں گی۔

اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ کہ اس مصنوعی اتفاق رائے کے پیچھے دو ایسےگروہ موجود ہیں جو وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو تبدیل کرنے کی کسی بھی کوشش کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ اور وہ دو گروہ اعلیٰ ذاتوں کے لوگ اور ہر ریاست میں پسماندہ (اور شیڈولڈ) ذاتوں کی بڑی برادریاں ہیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ کانگریس میں ان رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں اور نہ ہی بی جے پی میں سماجی انصاف کی راہ ہموار کرنے کی خواہش۔ یہی اس “مصنوعی اتفاق رائے” کی حقیقت اور حد ہے۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.