پہلگام میں دہشت گردانہ کارروائی او ر26سیاحوں کی ہلاکت کے بعد جب پور املک کرب کی شدت سے گزرہا تھا، پاکستان سے متصل سرحد اور لائن آف کنٹرول پر فوجیں آمنے سامنے تھیں اور دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے اس ماحول میں اچانک وزیر اعظم مودی کی قیادت والی کابینہ نے مردم شماری کے ساتھ ذات کی بنیاد پر سروے کرانے کا فیصلہ کرکے سبھو ں کو حیران کردیا۔بھارت کی تاریخ میںپہلی مرتبہ مسلمانوں کا ایک مذہبی اکائی کے بجائے ذات کی بنیاد پر سروے کرنے کا فیصلے کیا گیا ۔جنگ زدہ ماحول میںیہ فیصلہ حیرت انگیز اور حیران کن صرف اس لئے نہیں تھاکہ کابینہ کو ایسے ماحول میں اس متنازع مسئلے پرغور کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور مگراس سے بڑھ کر حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ بی جے پی اور اس کی نظریاتی سرپرست ’’آر ایس ایس ‘ جو مساوات کے بجائے یکجہتی کی پرچارک رہی ہے اور ذات کی بنیاد پرسروے جیسے اقدامات کو ہندئوں کو تقسیم اور پھوٹ ڈالنے اور سماجی تقسیم کو گہرا کرنے والا بتاتی رہے وہ اس کیلئے راضی کیسے ہوگئی ؟۔کیا یہ صرف بی جے پی کی سیاسی مجبوری ہے یا پھر آر ایس ایس کی طویل مدتی منصوبے کا حصہ ہے؟۔اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ آر ایس ایس کی سوچ میں یہ تبدیلی کیوں پید ا ہوئی ۔چوں کہ اس سروے میں مسلمانوں کی برادریوں کا بھی شمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس لئے یہ سوال لازمی ہے کہ اس کا مسلمانوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟۔اس کے پیچھے حکومت کی منشا کیا ہے؟ ۔کیا واقعی بی جے پی اور مودی حکومت مسلمانوں کی پسماندہ برادریوں کو سماجی انصاف کا حصہ بنائیں گی؟ ۔یہ سوال اس لئے بھی ضروری ہے کہ بی جے پی اوبی سی میں پسماندہ مسلم برداریوں کی شمولیت کے خلاف تقاریر کرتی رہی ہیں ۔ یا پھر اس کا مقصد مسلمانوں کی مذہبی اکائی کو ختم کرکے سماجی تقسیم کو گہرے کرکے مسلم ووٹ کو بے اثر کرنا مقصد ہے۔
بھارت ایک متنوع معاشرہ ہے جہاں ذات پات کا نظام صدیوں سے رائج ہے۔ ذات کی بنیاد پر بھارتی سماج میںتفریق ، بھید بھائوکی جڑیںکئی صدیوں سے وابستہ ہے۔آزادی کو8دہائیوںمکمل ہونے کو ہے اس کے باوجود ملک کا مقتدر و حکمراں طبقہ سماجی مساوات اور انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے۔آکسفیم انڈیا (جس کی آزادی کو مودی حکومت نے پر کتر کئے ہیں)کی آخری رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میںاقتصادی عدم مساوات اپنی انتہاپہنچ چکی ہے ۔ملک کی 85فیصد دولت محض 5فیصد افراد کے ہاتھوںمیںمرتکز ہوچکی ہے۔مشہور اسکالرڈاکٹر دیپک ملکن کی قیادت میں ایک ٹیم نے ملک کے چار اہم شہروں ممبئی ،کلکتہ، دہلی اور بنگلور سے متعلق Racialised urban spaces and environmental injustice in an Indian city کے عنوان سے ایک مطالعہ کیا تھا۔یہ مطالعہ بتاتا ہے کہ بھارتی شہروں میں دلت اور مسلمان گنجان آلودہ علاقوں میں رہتے ہیں اور سبز جگہوں تک ان کی رسائی محدود ہیں۔یہ نسلیاتی درجہ بندیوں اور رہائشی علاحدگی کی وجہ سے ہے۔ یہ رپورٹ شہری منصوبہ بندی میں نسلیاتی درجہ بندیوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے تاکہ ماحولیاتی عوامی وسائل تک مساوی رسائی یقینی بنائی جا سکے۔ ہائی ریزولوشن ڈیٹا کے ذریعے، یہ شہری منصوبہ بندی میں اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے تاکہ منظم عدم مساوات کو دور کیا جا سکے۔ اس رپورٹ میںکلکتہ شہر سے متعلق بتایا گیا ہےکہ شہر کی جائداد کی 5فیصدجائداد کی ملکیت دلتوں کے پاس ہے۔جب کہ بنگال میں 23فیصد دلت آبادی ہے۔کلکتہ شہر میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 25فیصد ہے مگر شہر کے 144میونسپل وارڈ وں میںسے 20وارڈ بھی نہیں ہے جہاں کی بیشتر جائداد کی ملکیت مسلمانوں کے پاس ہے۔بہار میں اکتوبر2023میںآئے ذات کی بنیاد پرسروے رپورٹ بتاتی ہے کہ 70فیصد مسلم آبادی پسماندہ ہے۔تلنگانہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ 80 فیصد مسلم آبادی پسماندگی کے شکار ہیں۔اس کے علاوہ بہار میںسروے کے مطابق 60فیصد آبادی کےپاس زمین نہیں ہے۔یہ تمام رپورٹیںبھارت کی سماج میں عدم مساوات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اس پسماندگی کو نہ منڈل کی سیاست تبدیل کرپائی ہے اور نہ ہندتو کی سیاست نے ۔آزادی کے بعد سے ہی ملک میںدلتوںکو ریزرویشن حاصل ہیںیقینا دلتوںمیںایک مخصوص طبقہ خوشحال ضرور پیدا ہوا ہے مگر مجموعی طور پر دلت پسماندگی کے شکار ہیں ۔بہار جو سماجی انصاف کی سیاست کا مرکز رہا ہے ۔اور اس ریاست نے کئی دلت لیڈر دئیے ہیں ۔مگر دلتوںکی مجموعی حالت انتہائی پسماندگی کے شکار ہے ۔بہار میں صرف 20فیصد دلتوں کے پاس زمین ہے۔80فیصد دلتوں کے پاس زمین نہیں ہے۔تعلیم تک رسائی نہیں ہے۔بہا ر کے شہری علاقوں میںدلت حاشیہ پرہیں ۔
بھارت میں پہلی مرتبہ ذات کی بنیاد پر مردم شماری 1931 میں برطانوی نوآبادیاتی دور میں ہوئی۔ اس وقت برطانوی حکومت نے ذاتوں اور ذیلی ذاتوں کی تفصیلات جمع کی تھیں، جن میں تقریباً4, 417ذاتیں اور دبے ہوئے طبقات (جو اب شیڈولڈ کاسٹس کہلاتے ہیں) شامل تھے۔ 1941میںبھی ذات کی بنیاد پر سروے ہوئے تھے مگر ملک کے حالات ، تحریک آزادی میں شدت، انگریزی حکمرانوںکی رخصتی کی وجہ سے یہ سروے سامنے نہیںآسکی تھی۔مگر سوا ل یہ ہے کہ نوآبادیاتی بھارت میںانگریزی حکمرانوں نے مردم شماری میںذات کی بنیاد پر سروے کرنے کا فیصلہ کیوںکیا؟ اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے ؟آئی آئی کھڑکپور کے سابق پروفیسر و سماجی کارکن آنند تیلٹ مبڈے نے انگریزی میگزین ’’فرنٹ لائن میںشائع اپنے ایک طویل مضمون میں لکھا ہے کہ ’’برطانوی نوآبادیاتی ریاست 1857 کی بغاوت گرچہ برطانونی اقتدار کو ختم نہیں کرسکی مگر حکومت مکمل طور پر متزلزل ہوگئی تھی۔کامیاب بغاوت کا مطالعہ کرنے سے انہیں ادارک ہواکہ ’’ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے ساتھ ساتھ ذات پات کے درمیان یکجہتی کا ماحول ہے‘‘۔بغاوت میںملک کے تمام طبقات بشمول نچلی ذاتیں جوش وخروش کے ساتھ شرکت کی تھی ۔چناںچہ نوآبادیاتی حکمرانوں نے بھارتی سماج کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس طرح بغاوت دوبار نہ ابھرے اس کے لئے ضروری ہے کہ بھارت کے دو اہم طبقات ہندئوں اور مسلمانوں کے درمیان دراڑیں پیدا کی جائیں اور ہندئوں میں جو سماجی بھید بھائو اور’ ورنا‘ نظام کو سماجی تفریق میں گہرائی لانے کیلئے استعمال کیا جائے ۔چناں چہ ذات کی بنیاد پر مردم شماری کا برطانوی انگریزوںنے فیصلہ کیا ۔اس کے ساتھ ہی انگریزوں نے بھارت کی تاریخ کو از سر نو مرتب کرنے کا فیصلہ کیا اور برطانوی تاریخی بیانیہ میں مسلم حکمرانی کو ظالم قرار دیا گیا ہے، اور ہندوؤں کو تحفظ کی ضرورت کے شکار کے طور پر رکھا گیا ہے۔ تاریخ کی اس فرقہ وارانہ تشریح نے مذہبی برادریوں کے درمیان دراڑ ڈال دی، جدید فرقہ پرستی کے بیج بوئے۔مردم شماری اور تاریخی تجدید نے مل کر فرقہ وارانہ اور ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کی دوہری حکمت عملی تشکیل دی:ہندوؤں اور مسلمانوں کو بنیادی طور پر مخالف برادریوں کے طور پر پیش کرکے فرقہ واریت کو ادارہ بنایا گیا۔ذات پات کو ہندوستانی سماج کو باہمی طور پر مخصوص اور درجہ بندی کے گروہوں میں تقسیم کرکے ادارہ جاتی شکل دی گئی۔دونوں حکمت عملیوں کا مقصد 1857 کے اعادہ کو روکنا تھا۔ پہچان، وسائل اور نمائندگی کے لیے مسابقت پیدا کر کے- خواہ انتظامی تقرریاں ہوں یا سیاسی فورمز- برطانویوں نے تقسیم کو فروغ دیا جو آج تک برقرار ہے‘‘۔
پروفیسر و سماجی کارکن آنند تیلٹ مبڈےکے اس نتیجے سے جزوی اتفاق اور جزوی اختلافات کیا جاسکتا ہے۔یہ سچ ہے کہ نوآبادیاتی حکمرانوں کا مقصد سماجی انصاف نہیںتھا مگر اس سروے نے بھارتی سماجی میں تفریق اور پسماندہ برادری کی حقیق صورت حال کو سامنے میں اہم کردار ادا کیا۔چناںچہ اسی دور میں بھارت میں سماجی انصاف کی کئی تحریکیں نمودار ہوئیں اور سماجی بیداری پیدا کی ۔اس کا بھارتی سماج پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔گرچہ نہروین بھارت میں ذات کی بنیادپر مردم شماری کا سلسلہ سماجی اتحاد کی خاطر بند کردیا گیا مگر اس کی چنگاری کبھی نہیںبجھی ۔80کی دہائی کے اواخر میںسماجی انصاف کی تحریک نے کئی تبدیلیاں لائیں اور منڈل کی رپورٹ نافذ ہوئی ۔رام جنم بھومی کی تحریک کے ذریعہ سماجی انصاف کی تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ۔مودی کے عروج کےساتھ ہی ایسا لگنے لگا کہ بھارت میںسماجی انصاف اور سماجواد کی سیاست ہمیشہ ہمیش کےلئے دفن ہوجائے گی مگر اقتصادی ناہمواری ، دولت کے ارتکاز نے یہ ثابت کردیا کہ ہندتو کی سیاست ناکام ہوچکی ہے۔بی جے پی اور آر ایس ایس گرچہ ہندئوں کے اتحاد کی بات کرتی ہے مگر اس نے ہرایک انتخاب میں سوشل انجینئرنگ کی ہے۔ پسماندہ طبقات اور دلتوں کےچھوٹے طبقات میں بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا ۔ہریانہ اور مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات کے نتائج اس حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔بی جے پی یہ تاثر قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ’’ ریزرویشن کا نظام بھارت میں سماجی انصاف کو فروغ دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اور پسماندہ طبقات کو مرکزی حکومت کی نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں 27فیصدریزرویشن دیا جاتا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ کچھ امیر اور دبدبہ والی اوبی سی ذاتوں نے اس کوٹے کا بڑا حصہ حاصل کر لیا ہے، جبکہ زیادہ پسماندہ ذاتیںسماجی انصاف سے محروم ہیں ‘‘۔روہنی کمیشن کے قیام کا مقصد اسی تفریق کو اجاگر کرنا تھا۔روہنی کمیشن کا مقصد اس عدم مساوات کو دور کرنا تھا، خاص طور پر ان ذاتوں کو فائدہ پہنچانا جو اب تک ریزرویشن سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں ۔کمیشن نے تجویز دی کہ اوبی سی کو ان کی سماجی و معاشی پسماندگی کے بنیاد پر ذیلی ذاتوں میں تقسیم کیا جائے تاکہ ریزرویشن کے فوائد زیادہ منصفانہ طور پر تقسیم کیے جا سکیں۔ اس کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ زیادہ پسماندہ ذاتوں کو بھی اس نظام سے فائدہ پہنچے۔ تاہم، رپورٹ کی تفصیلی سفارشات ابھی تک عام نہیں کی گئی۔ کمیشن کی رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ 97فیصدریزرویشن کے فوائد صرف 25فیصد اوبی سی ذیلی ذاتوں کو مل رہے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کچھ ذاتوں نے اس نظام کو زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔صرف 10اوبی سی ذاتی نے مرکزی نوکریوںاور تعلیمی اداروںمیں ریزرویشن کا 25فیصدحصہ حاصل کیا ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کچھ ذاتوں نے اس نظام کو زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ 37فیصد اوبی سی ذاتوں کا تعلیمی اور حکومتی اداروںمیںکوئی نمائندگی نہیںتھی۔روہنی کمیشن کی سفارت کو مکمل طور پر آج عام نہیںکیا گیا ۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ مودی حکومت کا مقصد سماجی انصاف نہیںبلکہ اوبی سی کے درمیان تفریق پیدا کرنا تھا۔
روہنی کمیشن کے نتائج اور 2024کے پارلیمانی انتخابات میںعددی قوت سے محروم مودی حکومت ذات کی بنیاد پر سروے کرنے کا فیصلہ کیا۔بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اگلی مردم شماری میں ذات پات کی بنیاد پر سروے میں ایماندارانہ طریقے سے اختیار کئے جائیںگے۔کیوںکہ سروے کرنے والے افسران میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اس کے شدید مخالف رہے ہیں ۔سابقہ یوپی اے حکومت نے 2011میں ذات کی بنیاد پرسروے کیا گیاتھامگر اس کی رپورٹ کو اس بنیاد پر عام نہیںکیا گیا کہ رپورٹ میںمرتب کرنے میں شفافیت نہیں برتی گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ موجودہ مردم شماری جس میںذات کی بنیاد پر سروے ہوں گے کیا اس میںشفافیت برتی جائے گی ؟۔ذات کی بنیاد سرو ے کی رپورٹ کب آئے گی اور اس کے کیا نتیجے ہوں گے مگر اس سےقبل 50فیصد کی حد کو ختم کرنے کی آوازیں بلند ہونے لگی ہیں ۔گرچہ مودی حکومت فارورڈ کلاسیس کے غریب طبقے کیلئے 10فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کرکے اس حد کو ختم کردیا ہے مگر سوال اب اوبی سی کیلئے 27فیصد ریزرویشن کی حدکو بڑھانے کی آواز بلند ہورہی ہے ۔دیکھنا ہے کہ اس چیلنج سے مودی حکومت کس طرح نمٹتی ہے۔
منڈل کمیشن نے مسلمانوں کی کئی برادریوںکو اوبی سی کو شامل کرکے مسلمانوں میںذات کی سیاست کا آغاز کردیا ۔ 70کی دہائی کے بعد سےہی مسلمانوں کی کئی برداریاں تنظیمی طور پر ابھرگئی تھیں۔تاہم مسلمانوں میں ذات پات کی تفریق کا سوال ہمیشہ سےافراط و تفریط کا شکار رہا ہے۔ایک طبقہ وہ ہے جو سرے سے اس کا انکار کرتا رہا ہے ۔دوسری طرف مسلمانوں میں ذات پات کی سیاست کرنے والوں کی دلیل ہے کہ ہندو سماج کی طرح مسلمانوںمیںسماجی تفریق اور بھید بھائو ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں باتیںغلط ہیں۔مذہبی اعتبار سے مسلمانوں میںذات پات نہیں ہے۔مذہبی رسوم کی ادائیگی میںمسلم سماج میںکوئی تفریق نہیں ہے۔مسجد کا امام اور مذہبی علوم کا ماہر کوئی بھی بن سکتا ہے۔یہ سوچ بھی غلط ہے کہ مسلم اداروں ، تنظیموںپر مسلم اشراف کا قبضہ ہے۔بھارت کے مشہور تعلیمی ادارہ دارالعلوم دیوبند کے موجودہ سربراہ کا تعلق مبینہ مسلمانوں کی برادری سےہے۔ ملک کی قدم تنظیم جمعیۃ علمائے ہند کے پہلے صد ر کا تعلق بھی مسلمانو ں کے انتہائی برادری سے ہے۔یہی صورت حال جماعت اسلامی ہند کا بھی ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ چوں کہ بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت تبدیلی مذہب کے ذریعہ مسلمان ہوئے ہیں ۔تبدیلی مذہب کے باوجود سماجی حقیقت نہیںبدلی ہے۔مسلمانوں کی کئی پیشہ ور طبقات معاشی عدم مساوات کے شکار ہیں ۔مگر مودی حکومت کا مسلمانوں کی برادری شماری کا فیصلہ نیک نیتی پرمبنی نہیں ہے۔وہ مسلمانوں کو یکساںحقوق فراہم کرنے میں یقین نہیںرکھتے ہیں ۔گزشتہ 11برسوںمیںمودی حکومت نے جس طریقے اقلیتی فنڈ میں کٹوتی کی ہے اور اسکالر شپ کو ختم کیا ہے اس سے مودی حکومت کی منشا واضح ہوتی ہے۔جہاںتک اس سوال کا ہے کہ ذات کی بنیاد پر مردم شماری کا مسلمانوںپر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔سیاسی تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ ذات پر مبنی مردم شماری سے مسلم برادری کے اندر ذاتی تنوع کی شناخت ہوگی۔جو انہیں ایک واحد گروپ کے طور پر دیکھنے والی تصورات کوچیلنج کرے گی۔ پسماندہ مسلم ذاتوں کو اوبی سی یا پھر اکانومک بیک ور ڈ کلاسیس کی فہرست میں شامل کرکے، انہیں تعلیمی اور ملازمت میںریزرویشن کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔مگر تجزیہ نگار یہ بھی مانتے ہیںکہ سیاسی جماعتیں اس سروے کے ذریعے مسلم برادری کے اندر ذاتی تقسیم بڑھا سکتی ہیں۔مسلم اکائی کا تصور ختم ہوسکتا ہے اور مسلمانوںکے شادی اور سماجی تعلقات بھی متاثر ہوگا۔
جادو پو ر یونیورسٹی میںسیاسیات کے پروفیسر عبد المتین بتاتے ہیں کہ مسلم سماج کو حقائق اور سماجی ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے اس سروے کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن نے بھی مسلمانوں کی پسماندہ برادریوںکی نشاندہی کی ہے۔اس لئے اس سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اس سروے میں بڑھ چڑھ حصہ لینا چاہیے اور اس کا بھی ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ اس سروے کا فوری طور پر مسلمانوں کو فائدہ ہونے کی امید کم ہے۔ہندتو نظریات کے حاملین سماجی مساوات کے مخالف ہیں ۔وہ مسلمانوں کو حق نہیں دے سکتے ہیں۔مگر یہ سروے رپورٹ مستقبل کی حکمت عملی اور ڈاٹا میںمعاون ثابت ہوگی۔
پروفیسر و سماجی کارکن آنند تیلٹ مبڈےذات کی بنیاد پر سروے پر آخری تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ذات پات کی مردم شماری کے منصوبے کی سب سے بڑی خامی اس کی تکنیکی خامیاں نہیں بلکہ اس کا وژن ہے۔ آج کوئی بھی سیاسی جماعت ہمہ گیر معیاری تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور روزی روٹی کی ضمانتیںفراہم کرنے کا عزم نہیںرکھتی ہے۔جو حقیقی طور پر تمام ذاتوں کے غریبوں کو ترقی دے سکے۔ اگر ہم صحیح معنوں میں ایکویٹی کا مقصد رکھتے ہیں، تو جس چیز کی ضرورت ہے وہ ساختی تبدیلی ہے:الگ الگ رسائی کے ساتھ مفت، عام، اعلیٰ معیار کے پڑوس کے اسکول؛صحت عامہ کا ایک عالمگیر نظام جو سب کے لیے وقار اور رسائی کو یقینی بناتا ہے۔روزگار کی ضمانتوں کے ذریعے زمین اور ذریعہ معاش کی حفاظت، نہ صرف فلاحی ہینڈ آؤٹ۔ان کے بغیر، ذات پات کی مردم شماری محض ایک سیاسی آلہ بن جائے گا۔امبیڈکر کی پیش گوئی ہے کہ’’ آئین کے ذریعہ تشکیل کردہ سیاسی جمہوریت کا ڈھانچہ اس وقت تک صحیح سے قائم نہیںہوسکتا ہے کہ جب تک سماجی اور معاشی جمہوریت کی بحالی نہیں ہوجاتی ہے۔