دہلی دنیا کا سب سے آلودہ شہر

سہیل انجم
نومبر 2024
delhi

دہلی صرف ہندوستان کے اقتدار کی راجدھانی نہیں ہے بلکہ یہ اور بھی بہت ساری باتوں کی راجدھانی ہے۔ جن میں دو باتیں سرفہرست ہیں۔ پہلی یہ کہ دہلی خواتین کے خلاف جرائم کی راجدھانی ہے۔ یعنی خواتین اور بچوں کے خلاف سب سے زیادہ جرائم دہلی ہی میں ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ دہلی آلودگی کی بھی راجدھانی ہے۔ یعنی نہ صرف ہندوستان کی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی سب سے زیادہ پولیوشن اسی شہر میں پایا جاتا ہے۔ گویا دہلی پولیوشن کے لحاظ سے دنیا بھر کی راجدھانی ہے۔ یوں تو تقریباً پورے سال دہلی کی فضا پر دھند چھائی رہتی ہے اور آلودگی کی سطح اتنی بلند رہتی ہے کہ سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ بالخصوص مریضوں، بزرگوں اور بچوں کی صحت پر تو بے انتہا خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن جب موسم سرما شروع ہونے والا ہوتا ہے تو آلودگی کی سطح میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہندوؤں کا ایک تہوار دیوالی موسم سرما کے آغاز پر ہی پڑتا ہے۔ دیوالی سے قبل آلودگی میں اگر کچھ کمی بھی رہتی ہے تو دیوالی کے پٹاخے اس کمی کو پورا کر دیتے ہیں۔ نہ صرف پورا کر دیتے ہیں بلکہ دہلی کی فضا کو انتہائی خطرناک بھی بنا دیتے ہیں۔

دہلی حکومت گزشتہ کئی برسوں سے دیوالی پر پٹاخے چھوڑنے پر پابندی عاید کرتی آئی ہے۔ لیکن مجال ہے کہ لوگ اس پابندی کی پابندی کریں۔ ہندوؤں کا بہت بڑا طبقہ اسے مذہب سے جوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ دیوالی پر پٹاخوں پر پابندی سناتن دھرم کی بے عزتی ہے۔ اس کے مطابق ہندو مذہب کی مخالفت میں یہ پابندی عاید کی جاتی ہے۔ حالانکہ پابندی عاید کرنے والے ہندو ہی ہوتے ہیں۔ مرکز کی حکومت ہو یا دہلی کی دونوں پر بر سر اقتدار طبقہ کی اکثریت ہندو ہی ہے۔ لیکن بہرحال اس پابندی کو مذہب سے جوڑ کر اس کی خوب خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ عوام کو اپنی،  اپنے بچوں اور بزرگوں تک کی صحت کی فکر نہیں ہے۔ فکر ہے تو اس کی کہ کس طرح پٹاخے پھوڑ کر اپنا مذہبی تہوار منائیں۔ حالانکہ دیوالی منانے کا بہترین طریقہ روشنی ہے۔ پہلے دیے جلائے جاتے تھے۔ اب قمقمے جلائے جاتے ہیں۔ حالانکہ دیہی علاقوں میں بلکہ دہلی میں بھی بعض لوگ دیے ہی جلاتے ہیں۔ دیوں سے نکلنے والا دھواں بھی پولیوشن میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ لوگ مانتے ہی نہیں ہیں۔ امسال دیوالی آنے سے قبل ہی دہلی کی فضا بے حد زہریلی ہو گئی تھی۔ دیوالی کے اگلے روز اگر چہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں آلودگی یا کثافت کم رہی لیکن اس کے بعد کے دنوں میں اس میں مزید اضافہ ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں دہلی میں ہوا کا معیار خطرناک حد تک خراب ہو گیا۔ عالمی میڈیا نے جلی حروف میں لکھا کہ دہلی دنیا کا سب سے آلودہ یا سب سے گندا شہر ہے۔ اس پر حکومت کو بھی اور عوام کو بھی ندامت ہونی چاہیے لیکن کون نادم ہوتا ہے۔

آلودگی کو یا ہوا کے معیار کو ناپنے کے پیمانے کو اے کیو آئی یعنی ایئر کوالٹی انڈکس کہتے ہیں۔ دیوالی کے موقع پر دہلی میں بعض مقامات پر اے کیو آئی 400 تک پہنچ گیا۔ خیال رہے کہ ہوا کے معیار کی اس سطح کو ایمرجنسی سطح کہا جاتا ہے۔ یعنی اگر اے کیو آئی چار سو ہو گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہوا کے خراب معیار سے ہر شخص متاثر ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ صفر سے پچاس تک کے اے کیو آئی کو اچھا اور اطمینا بخش مانا جاتا ہے۔ 51 سے 100 تک کو قابل قبول مانا جاتا ہے۔ پھر بھی اس سے وہ لوگ متاثر ہو سکتے ہیں جن کو الرجی وغیرہ کی بیماری ہو۔ 101 سے 150 تک حساس طبیعت کے لوگوں کے لیے غیر صحت بخش مانا گیا ہے۔ اس میں حساس لوگ متاثر ہو جاتے ہیں۔ 151 سے 200 تک کو عام لوگوں کے لیے غیر صحت بخش مانا گیا ہے۔ یعنی عام لوگوں میں سے بھی بہت سے لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔ 201 سے 300 تک کو انتہائی خراب مانا گیا ہے۔ اس میں ہر شحص کی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔ جبکہ 301 سے اوپر تباہ کن مانا گیا ہے۔ اسے ایمرجنسی کہا گیا ہے۔ دہلی میں دیوالی کے بعد بعض مقامات پر اے کیو آئی چار سو تک پہنچ گیا۔

دہلی میں آلودگی کے متعدد اسباب ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ دہلی کی سرحد اترپردیش اور ہریانہ سے ملتی ہے۔ پولیوشن میں اضافے کی ایک وجہ ان دونوں ریاستوں اور خاص طور پر ہریانہ میں فصلوں کی باقیات کو جنھیں پرالی بھی کہا جاتا ہے، جلانا ہے۔ حالانکہ ہریانہ اور پنجاب کی حکومتوں نے اس کی حوصلہ شکنی کے اقدامات کیے ہیں لیکن اس کے باوجود پرالی بڑے پیمانے پر جلائی جاتی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق ایک سیزن میں ساڑھے تین کروڑ ٹن پرالی جلائی جاتی ہے۔ جب ہوائیں چلتی ہیں تو وہ ہریانہ، پنجاب اور اترپردیش میں جلائی جانے والی پرالی کا دھواں اور گرد اڑا کر دہلی میں لے آتی ہیں جس کی وجہ سے ہوا کا معیار خراب ہو جاتا ہے۔

دہلی میں ٹریفک کی بدترین صورت حال اس کی دوسری وجہ ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں فضا کو خراب کرتا اور دھند میں اضافہ کرتا ہے۔ دہلی حکومت کی جانب سے پرانی گاڑیوں کے چلانے پر پابندی ہے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ دہلی میں 31 مارچ 2023 تک گاڑیوں کی تعداد 79 لاکھ 50 ہزار تھی۔ جن میں پرائیویٹ کاروں کی تعداد بیس لاکھ 70 ہزار ہے۔ دہلی میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ ہے۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے پرانی گاڑیوں کے چلنے پر پابندی کی وجہ سے ان کی تعداد میں کچھ کمی آئی ہے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دہلی میں تقریباً پونے چا رلاکھ کاریں اور سوا لاکھ ٹو وہیلر دہلی میں یومیہ داخل ہوتے ہیں۔ اتنی ہی گاڑیوں کی تعداد ہر سال رجسٹر کی جاتی ہے۔

جب موسم سرما شروع ہوتا ہے تو ہوا میں جو گرد و غبار رہتا ہے اور پولیوشن پھیلانے والے جو اجزا ہوتے ہیں وہ حرکت نہیں کر پاتے اور ایک جگہ جم جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے موسم متاثر ہوتا ہے اور پولیوشن میں اضافہ ہوتا ہے۔ دہلی میں پولیوشن کی ایک وجہ ضرورت سے زیادہ آبادی ہے۔ جس کی وجہ سے ایئر پولیشن اور نوائز پولیوشن یعنی ہوا کی آلودگی اور آواز کی آلودگی بڑھی ہوئی ہے۔ مکانات کی تعمیر بھی پولیوشن کی ایک وجہ ہے۔ تعمیرات کے کام میں آنے والی اشیا جیسے کہ ریت وغیرہ جب ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جاتی ہیں تو ان میں سے کچھ اڑتی بھی ہیں جس سے آلودگی بڑھتی ہے۔ سڑکوں کی تعمیر کا کام بھی چلتا رہتا ہے۔ اس سے بھی ہوا کا معیار خراب ہوتا ہے۔ صنعتوں اور کوڑا کرکٹ کی وجہ سے بھی ہوا خراب ہوتی ہے۔ ان میں دیوالی پٹاخے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس طرح دہلی میں آلودگی میں اضافے کی  متعدد وجوہات ہیں۔ اگر چہ حکومت ان وجوہات کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔

پولیوشن کی وجہ سے عوام کی صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ ہر سال کی طرح امسال بھی دیوالی کی رات اور اس کے بعد کئی دنوں تک عوام کو زبردست پریشانیوں سے گزرنا پڑا۔ عام لوگوں کو اپنی آنکھوں میں جلن کا احساس ہوتا رہا۔ سانس لینے میں دشواری ہوتی رہی۔ چاروں طرف بارود کی بو پھیلنے کی وجہ سے پھیپھڑوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ جن لوگوں کو دمہ کی شکایت ہے وہ سب سے زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔ آلودگی میں اضافے سے دل کے امراض بڑھتے ہیں۔ اس سے خون متاثر ہوتا ہے جس سے دل پر برا اثر پڑتا ہے۔ ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ہوا کے خراب معیار کی وجہ سے بلڈ پریشر بڑھتا ہے جس سے دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔ اعصاب متاثر ہوتے ہیں۔ شکم سے متعلق بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ گردہ اور لیور متاثر ہوتے ہیں۔ جلدی بیماریاں پیدا ہوتی  ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو پولیوشن کی سطح میں اضافے سے انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

بہرحال آلودگی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اس سے بہت سی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ حالانکہ ان میں سے کچھ بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی ذرا سی بد احتیاطی ان بیماریوں کی چپیٹ میں پہنچا دیتی ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ آلودگی سے متعلق ہونے والی بیماریوں کے بارے میں جانیں اور ان سے بچنے کے انتظامات کریں۔ احتیاطی تدابیر بہت کام آتی ہیں۔ اگر ان کو اپنایا جائے تو امراض سے بچا جا سکتا ہے۔ آج پوری دنیا میں آلودگی کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر تشویش پائی جاتی ہے۔ عالمی سطح پر آلودگی کو کم کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ملکوں کے درمیان متعدد معاہدے اور سمجھوتے ہوئے ہیں۔ عالمی اداروں کی جانب سے ان ملکوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے جو زیادہ مقدار میں گیس خارج کرتے ہیں۔ متعدد احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔ اگر ہندوستان کی مرکزی اور دہلی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی تو وہ دن دور نہیں جب دہلی میں رہنے والا ہر شخص کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہو جائے گا اور پھر اس سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.