دہلی میں اسمبلی انتخابات کاوقت جوں جوں قریب آرہا ہے کلیدی سیاسی پارٹیاں خم ٹھونکنے لگی ہیں۔ دہلی اسمبلی کی مدت 25 فروری 2025 کو ختم ہو رہی ہے۔ اس سے قبل انتخابات کا عمل مکمل ہو جاناچاہئے اور نئی اسمبلی کی تشکیل ہوجانی چاہیے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے انتخابی تاریخوں کا اعلان ابھی نہیں کیا ہے۔ توقع ہے کہ اسی ماہ کے اواخر تک اعلان کر دیا جائے گا۔ انتخابی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ گہما گہمی مزیدبڑھ جائے گی۔ یوں تو دہلی میں کئی پارٹیوں کے رہنما اور کارکن ہیں لیکن حقیقتاً صرف تین پارٹیوں میں مقابلہ ہے۔ یعنی یہاں سہ رخی مقابلہ ہوگا۔ دہلی میں برسراقتدار عام آدمی پارٹی، اپوزیشن بی جے پی اور کانگریس میدان میں ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے 2020 کے انتخابات میں 70 میں سے 62 سیٹیں جیتی تھیں جب کہ بی جے پی کی جھولی میں صرف آٹھ سیٹیں آئی تھیں۔ کانگریس کا دامن بالکل خالی رہ گیا تھا۔ جب کہ اس سے قبل یعنی 2015 کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 67 اور بی جے پی نے صرف تین سیٹیں جیتی تھیں۔ اس میں بھی کانگریس کے ہاتھ ایک بھی سیٹ نہیں لگی تھی۔ حالاں کہ کانگریس ایک عرصے تک یہاں حکومت کرتی رہی ہے۔ شیلا دیکشت نے مسلسل پندرہ سال حکومت کی تھی۔ لیکن جب سے عام آدمی پارٹی کا جنم ہوا ہے اس کی قسمت پر گہن لگ گیا ہے۔
جیسا کہ عام طور پر ہر الیکشن میں ہوتا ہے اس میں بھی ہو رہا ہے یعنی سیاست داں دل بدلی میں مصروف ہیں۔ کسی دن کوئی کانگریسی عام آدمی پارٹی میں شامل ہو جاتا ہے تو کسی دن کوئی عام آدمی پارٹی والا کانگریس میں چلا جاتا ہے۔ بی جے پی میں بھی عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے کئی لیڈران شامل ہو چکے ہیں۔ جن میں دو وزراء راج کمار آنند اور کیلاش گہلوت قابل ذکر ہیں۔ راج کمار آنند پارلیمانی انتخابات سے قبل دہلی حکومت سے نکل کر بی جے پی میں شامل ہوئے تو کیلاش گہلوت دہلی اسمبلی الیکشن سے قبل نکل گئے اور انھوں نے بی جے پی کا دامن تھام لیا۔ عام آدمی پارٹی کا الزام ہے کہ بی جے پی نے ان کو سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس محکمے کا ڈر دکھا کر اپنے پالے میں شامل کیا ہے۔ لیکن اب یہ پتہ نہیں کہ راج کمار آنند کہاں ہیں اور کیلاش گہلوت کہاں ہیں۔ ممکن ہے کہ عام آدمی پارٹی کے الزام میں صداقت ہو اور حکومت نے ان دونوں کو اس لیے توڑا ہو تاکہ عام آدمی پارٹی کی طاقت کمزور کی جا سکے۔ عام آدمی پارٹی کے اروند کیجری وال، سنجے سنگھ اور منیش سسودیا پہلے بھی بی جے پی پر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ ان کی پارٹی کو توڑنا چاہتی ہے تاکہ دہلی کی حکومت پر قبضہ کیا جا سکے۔ اسی لیے سسودیا کو بھی جیل بھیجا گیا، سنجے سنگھ کو بھی اور کیجری وال کو بھی۔ ادھر پھر کچھ لیڈروں کو جیل بھیجا گیا ہے۔ دراصل مرکزی وزیر داخلہ اور سینئر بی جے پی لیڈر امت شاہ اس بار ہرحال میں دہلی اسمبلی کا الیکشن جیتنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ لہٰذا اس امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دلا کر توڑا گیا ہو اور اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی طاقت کو کمزور کرنے کے مقصد سے ہی اس کے لیڈروں کو جیل بھیجا جا رہا ہو۔
ویسے کیجری وال اور سسودیا پر دہلی شراب پالیسی میں بدعنوانی کے الزامات پارٹی کے لیے پریشان کن ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ کیجری وال نے ایک نئی قسم کی سیاست شروع کرنے کے لیے سیاسی پارٹی کا قیام کیا تھا اور بار بار اعلان کیا تھا کہ وہ سیاست میں شفافیت لانے کے لیے سیاست میں آئے ہیں۔ لیکن ان پر الزامات کی وجہ سے ان کی ساکھ خراب ہوئی ہے اور اس کا احساس کیجری وال کو بھی ہے۔ اسی لیے انھوں نے دو مواقع پر بہت ہی سوچ سمجھ کر چال چلی تھی۔ ایک تو یہ کہ انھوں نے کرپشن کے الزام میں جیل جانے کے باوجود وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا اور دوسرے جیل سے باہر آنے کے کچھ دنوں کے بعد استعفیٰ دے دیا اور آتشی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ اگر وہ جیل جانے کے وقت استعفیٰ دیتے تو عوام میں یہ پیغام جاتا کہ ضرور ان کے ہاتھ کالے ہو گئے ہیں۔ وہ یہ تاثر دینا نہیں چاہتے تھے۔ جہاں تک آتشی کو وزیر اعلیٰ بنائے جانے کا معاملہ ہے تو اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ کیجری وال حکومت کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو گئے ہیں۔ اب وہ اپنا پورا وقت الیکشن کو دے سکتے ہیں۔ دوسری یہ کہ آتشی کو وزیر اعلیٰ بنانے کے پیچھے خواتین کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہے۔ اب یہ داؤ چلے گا یا نہیں ،کہا نہیں جا سکتا۔ ادھر عام آدمی پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی الیکشن کمیشن میں جا جا کر اس کے لاکھوں ووٹرز کے نام کٹوا رہی ہے۔
پارلیمانی انتخابات سے قبل بی جے پی مخالف اپوزیشن پارٹیوں میں اتحاد پیدا ہوا تھا اور انھوں نے انڈیا نامی محاذ قائم کیا تھا۔ اس محاذ میں عام آدمی پارٹی بھی شامل رہی ہے۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اتحاد کمزور ہوتا چلا گیا۔ کئی پارٹیوں نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ کیجری وال نے ہریانہ الیکشن میں کانگریس سے اتحاد نہیں کیا۔ حالاں کہ دونوں پارٹیاں چاہتی تھیں کہ اتحاد ہو جائے۔ لیکن نہیں ہوا۔ اس کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ شاید دہلی کے اسمبلی انتخابات کے موقع پر دونوں میں اتحاد ہو جائے اور وہ مل کر الیکشن لڑیں۔ لیکن کیجری وال نے صاف کر دیا ہے کہ الیکشن میں کانگریس سے اتحاد کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ دراصل عام آدمی پارٹی کے جو ووٹر ہیں وہ بی جے پی اور کانگریس دونوں پارٹیوں کے ووٹر رہے ہیں۔ کیجری وال کو یہ امید ہے کہ وہ تن تنہا ہی الیکشن لڑ کر کامیاب ہو سکتے ہیں لہٰذا اس کامیابی میں کانگریس کو حصہ کیوں دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سے یہ پارٹی منظر عام پر آئی ہے دہلی کے لوگوں نے اسمبلی میں اسے اور پارلیمنٹ میں بی جے پی کو ترجیح دی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ مرکز میں بی جے پی اور دہلی میں عام آدمی پارٹی۔ حالاں کہ عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے کچھ لیڈران کانگریس میں بھی شامل ہوئے ہیں لیکن کیا کانگریس کو اس سے کچھ فائدہ ہوگا کہا نہیں جا سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کے پاس دہلی کی سطح پر قیادت موجود ہے۔ لیکن کانگریس اور بی جے پی کے پاس اس طرح مضبوط قیادت نہیں ہے۔ لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس بار عام آدمی پارٹی کا کامیابی کے رتھ پر سوار ہونا آسان نہیں ہوگا۔ بدعنوانی کے الزامات نے پارٹی کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ دوسری طرف اس سے پہلے کے الیکشن میں مسلمانوں نے اجتماعی طور پر عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن اس بار اس کا امکان کم ہے۔ بہت سے مسلمان اس کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں۔ پارلیمانی الیکشن میں مسلمانوں نے بڑی تعداد میں کانگریس کو ووٹ دیا۔ دہلی میں مسلمانوں کے تین بڑے مراکز ہیں۔ اوکھلا، جامع مسجد جس میں بلی ماران وغیرہ بھی شامل ہیں اور جمنا پار یعنی سیلم پوراور جعفر آباد۔ ان تینوں مراکز میں عام آدمی پارٹی نے مسلمانوں کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا۔ مسلمانوں سے متعلق تمام ادارے عضو معطل بنے ہوئے ہیں خواہ دہلی اقلیتی کمیشن ہو یا وقف بورڈ یا پھر دہلی اردو اکادمی۔ وقف بورڈ کے وکیل نے جس طرح اوقاف کی املاک کو نقصان پہنچایا ہے اسے مسلمانوں نے فراموش نہیں کیا ہے۔ مسلم علاقوں میں عوامی سہولتوں کے تعلق سے بھی کوئی خاص کام نہیں ہوا ہے۔ سڑکیں اور سیور لائن خراب ہیں۔ مہینوں تک کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ لیکن بہرحال الیکشن آتے آتے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں کہا نہیں جا سکتا۔
کانگریس نے دہلی میں خودکو مضبوط بنانے کے لیے دہلی نیائے یاترا نکالی تھی جو جگہ جگہ سے گزری تھی۔ لیکن اس یاترا کا کوئی اثر نظر نہیں آیا۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ اس میں مرکزی قیادت سے ایک بھی لیڈر شریک نہیں ہوا۔ جب تک مرکزی لیڈران اس قسم کی مہموںمیں شریک نہیں ہوتے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کانگریس اب بی جے پی کی طرح کیڈر والی پارٹی نہیں رہ گئی کہ مرکزی قیادت کسی مہم میں شامل نہیں ہوگی تب بھی اس کے کارکن اس کو کامیاب بنا دیں گے۔ اسی لیے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ الیکشن میں کانگریس کوئی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اس کا امکان کم ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس کے دو ایک امیدوار جیت جائیں لیکن وہ کسی ایسی پوزیشن میں آنے سے رہی کہ حکومت سازی میں کوئی اہم کردار ادا کر سکے۔
اس سے قبل دہلی کے عام لوگ یعنی جھگی جھونپڑی میں رہنے والے اور آٹو رکشا چلانے والے عام آدمی پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئے تھے۔ دو سو یونٹ تک مفت بجلی نے بہت سے گھروں کو بجلی کے بل سے نجات دلا دی۔ اس کی یہ اسکیم بہت کامیاب رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اس الیکشن میں بی جے پی اور کانگریس نے بھی اسی قسم کا اعلان کیا ہے۔ بی جے پی نے اعلان کیا ہے کہ اگر وہ برسراقتدار آئی تو اس اسکیم کو جاری رکھے گی۔ جب کہ کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ وہ حکومت میں آئی تو دو سو کے بجائے چار سو یونٹ تک بجلی فری کر دے گی۔ اب ان اعلانات کا عوام پر کتنا اثر پڑے گا کہا نہیں جا سکتا۔ ادھر کیجری وال نے ایک بار پھر آٹو رکشا ڈرائیوروں کو رجھانے کی کوشش کی ہے۔ چوں کہ ان کو اس بات کا احساس ہے کہ اس طبقے کے لوگ اب اجتماعی طور پر اس کے ساتھ نہیں ہیں بہت سے الگ ہو گئے ہیں لہٰذا انھوں نے آٹورکشا ڈرائیوروں کے لیے ایک بڑی پرکشش اسکیم کا اعلان کیا ہے۔ کیجری وال نے آٹو رکشا والوں کے لیے پانچ گارنٹیوں کا اعلان کیا ہے۔ جس میں ان کے لیے دس لاکھ کا انشورنس اور بیٹیوں کی شادی اور بچوں کی تعلیم کے لیے ایک لاکھ کی امداد کا اعلان شامل ہے۔ اس کے علاوہ ڈرائیوروں کے یونیفارم کے لیے دو سال پر 25 ہزار روپے دیے جائیں گے۔ ان کے بچوں کی کوچنگ کلاس پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ اس نے ’’پوچھو ایپ‘‘ نامی اسکیم شروع کرنے کا پھر اعلان کیا ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں اپنے گھر پر آٹو ڈرائیوروں کے ساتھ ایک میٹنگ بھی کی۔
بہرحال اس وقت دہلی میں انتخابی گہما گہمی شروع ہونے والی ہے۔ مقابلہ تین پارٹیوں کے درمیان ہوگا۔ لیکن حقیقی مقابلہ عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان ہی ہوگا۔ بی جے پی اس بار ہر حال میں جیت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وہ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے اور عام آدمی پارٹی اس کی چالوں کی کاٹ کے لیے کیا ہتھکنڈے اپناتی ہے۔