سرد جنگ کے بعد واحد سپر پاور بننے والے امریکہ نے جس طرح بد مست ہاتھی کی طرح دنیا، بالخصوص اسلامی ممالک پر جنگیں مسلط کیں اور15 لاکھ بے گناہ مسلمانوں کے خون نا حق سے ہاتھ رنگے اس کے بعد اسلامی دنیا بشمول دنیا کے کمزور ممالک کرہ ارض پر پناہ کی تلاش میں تھے۔ بے چینی اور مایوسی کے عالم میں چین ایک مضبوط معیشت بن کر ابھرا تو امریکہ کے دئے زخم چاٹ رہی دنیا نے چین اور روس کی جانب دیکھنا شروع کیا۔ چین نے اقوام عالم کو مشترکہ ترقی اور تنازعات سے خود کو دور رکھتے ہوئے جہاں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت دنیا بھر کے ممالک کو معاشی بنیادوں پر جوڑنے کی کوشش کی وہاں روس کے ساتھ مل کر برکس اور شنگھائی تعاون جیسی تنظیموں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک پر باہمی اختلافات پس پشت رکھ کر معاشی و تجارتی تعاون کے فروغ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔چین کے باہمی ترقی کے ایجنڈے کی تیسری دنیا کے ممالک میں پذیرائی دیکھ پر امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلکس کو اپنے جنگی سامان کی مارکیٹ سکڑتی ہوئی نظر آنے لگی تو امریکہ نے ابھرتی طاقتوں کو کاؤنٹر کرنے کے لئے روس کو یوکرین جنگ میں گھسیٹ لیا تو تائیوان کے علیحدگی پسندوں کو عسکری اور مالی مدد فراہم کر کے چین کی وحدت کے لئے سنگین خطرہ کھڑا کرنا شروع کر دیا۔ایس سی او اور برکس میں افریقی اور عرب ممالک سمیت دنیا کی بڑھتی دلچسپی کے آگے بند باندھنے کے لئے معاشی پابندیوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا جانے لگا۔
امریکہ کی دنیا کو اپنے شکنجہ میں جکڑنے کی کوششوں کے باوجود کمزور ممالک اپنے معاشی مفادات اور سلامتی کے لئے چین اور روس کی جانب دیکھ رہے ہیں اور حتی المقدور امریکی چنگل سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ چین اور روس کی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو براہ راست چیلنج کیے بغیر کمزور ممالک کے معاشی اور سٹریجک تحفظ کے لئے خاموشی سے کوششیں حالیہ ایس سی او سمٹ اور برکس کے قازان اعلامیہ کے اہم نکات کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ قازان اعلامیہ میں چین اور روس نے باہمی تجارت کے ذریعے مشترکہ ترقی کا وژن دنیا کے سامنے رکھا اور اپنے مخالفین سے کچھ مطالبے ان الفاظ میں بھی کئے ۔ ’’ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تمام ریاستوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کے ساتھ مکمل طور پر اور باہمی تعلق کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔‘‘
اسی طرح غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے بارے میں اعلامیہ میں کہا گیا ہے”ہم مقبوضہ فلسطینی علاقے میں حالات کی خرابی اور انسانی بحران پر اپنی شدید تشویش کا اعادہ کرتے ہیں ۔اسرائیلی فوجی حملے جن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر عام شہری ہلاک اور زخمی ہوئے، جبری نقل مکانی اور شہری بنیادی ڈھانچے کی وسیع پیمانے پر تباہی کی پر زور مذمت کرتے ہیں‘‘۔ ’’ہم لبنان میں رہائشی علاقوں میں اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں شہریوں کی جانوں کے ضیاع اور شہری بنیادی ڈھانچے کو ہونے والے بے پناہ نقصان کی مذمت کرتے ہیں اور فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں‘‘۔
اعلامیہ میں امریکی دھونس کو دنیا پر مسلط کرنے کے لئے استعمال کی جانے والی مغربی پابندیوں کے ہتھیار کو بھی خاص طور پر ان الفاظ میں موضوع بنایا گیا۔’’ہمیں عالمی معیشت، بین الاقوامی تجارت اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول پر غیر قانونی یک طرفہ جبر کے اقدامات، بشمول غیر قانونی پابندیوں کے تباہ کن اثرات پر گہری تشویش ہے۔‘‘
یہی نہیں اعلامیہ میں پابندیوں کے تباہ کن اثرات کو زائل کرنے کے لئے اصلاحات کا مطالبہ بھی کیا گیا۔’’ہم بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے کو مزید جامع اور منصفانہ بنانے کے لیے عالمی مالیاتی نظام سمیت عالمی مالیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے موجودہ بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے میں اصلاح کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ہم روسی فریق کے اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں جس کا مقصد برکس کے اندر اجناس کا تجارتی پلیٹ فارم قائم کرنا اور بعد میں اسے دیگر زرعی شعبوں تک پھیلانے سمیت ترقی دیناہے۔ہم تجارتی رکاوٹوں کو کم کرنے اور غیر امتیازی رسائی کے اصول پر بنائے گئے تیز، کم لاگت، زیادہ موثر، شفاف، محفوظ اور جامع سرحد پار ادائیگی کے نظام کے وسیع فوائد کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہم مالیاتی لین دین میں مقامی کرنسیوں کے استعمال کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم برکس انٹربینک کوآپریشن میکانزم (ICM) کا خیرمقدم کرتے ہیں جو کہ مقامی کرنسیوں میں فنانسنگ کے قابل قبول میکانزم کو تلاش کرنے سمیت منصوبوں اور پروگراموں کے لیے جدید مالیاتی طریقوں اور نقطہ نظر کو آسان بنانے اور بڑھانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔”
اعلامیہ کے متن کو پڑھ کر یہ سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ سکیورٹی اور ترقیاتی ایجنڈوں میں واضح توازن موجود ہے۔ یہ توازن بتاتا ہے کہ گروپ نے جان بوجھ کر اپنے وسیع مینڈیٹ کو برقراررکھا ہے اور اپنی مستقبل کی سرگرمیوں کو ایک چیز تک محدود نہیں کرے گا۔ مثال کے طور پر،گروپ کے اراکین کے درمیان تجارت کو فروغ دیناایک تنگ، موضوعاتی نقطہ نظر کو اپنانے کے بجائے، برکس خود کو عالمی نظم و نسق کی ایک کثیر الجہتی تجربہ گاہ کے طور پر کھڑا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جہاں کثیر الجہتی تعاون کے نئے الگورتھم اور دنیا کے بڑے اقتصادی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے جدید ماڈلز بشمول تجارت، مالیات اور اسٹریٹجک استحکام کا تجربہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح گروپ کی سیاسی سرمایہ کاری پورٹ فولیو’ متنوع سے زیادہ ہے، اور یہ تنوع اس کی کامیابی کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔
اس وقت امریکہ کی دنیا پر اجارہ داری کا انحصار ڈالر کے ذریعے عالمی تجارت اور عالمی مالیاتی نظام کا امریکہ کے زیر نگین ہونے پر ہے ۔ امریکہ کی تجارت پر اجاداری اس کی عسکری طاقت سے زیادہ دنیا کے لئے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔چین اور روس عالمی تجارت کو امریکہ کی گرفت سے چھڑانے کے لئے نیا عالمی نظام متعارف کروا چکے ہیں۔ برکس کے حالیہ اجلاس میں ڈالر کے مقابلے دنیا کے لئے نئی کرنسی برکس کی رونمائی بھی کر دی گئی۔ ایک برکس بیس امریکی ڈالر کے برابر ہونا اس بات کی نوید ہے کہ دنیا کو اب امریکہ کے جابرانہ تسلط سے آزاد ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔