بالآخرکفرٹوٹاخداخداکرکے اورغزہ میں جنگ بندی کی کئی ناکام کوششوں کے بعد 15 مہینے سے جاری خوف ناک اسرائیلی جارحیت رک جانے کی اب قوی امیدپیداہوئی ہے۔اس جنگ بندی میں قطرکا کردارثالث کارہا جب کہ مصراورامریکہ کے نمائدے بھی دوحہ میں موجودرہے ۔اس عارضی جنگ بندی کے سولہ دن کے بعدجنگ کومکمل طورپر ختم کرنے کے لیے فریقین میں پھرسے مذاکرات ہوں گے۔اس جنگ بندی کا اعلان قطرکے وزیراعظم محمدبن عبدالرحمن ثانی نے 16جنوری کی رات کوکیا۔ شہرعزیمت غزہ کے مظلوم،بے سہارالیکن استقامت کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے باشندوں نے راحت کی سانس لی اورخوشیاں منائیں۔ اہل غزہ کے ساتھ اظہاریک جہتی کے لیے عمان، دمشق، بیروت، طنجہ کے علاوہ لندن ونیویارک میں بھی لوگوں نے خوشی کا اظہارکیا۔
امریکی صدرجوبائڈن نے اس کوHostage ڈیل کہااوراسے اپنی ناکام حکومت کے کھاتہ میں ڈالنے کی کوشش کی ۔اس سے امریکی حکومت کے خبیث ِنیت کا اندازہ ہوتاہے کہ ٹرمپ ہوں یاجوبائڈن ،بلنکن یااورکوئی عہدہ دار یہ سب لوگ اپنے بیانات میں صرف اورصرف اسرائیلی قیدیوں کی بات کرتے ہیں۔اسرائیل نے جس طرح پورے غزہ کوبربادکیا، جس طرح ایک لاکھ کے قریب بے قصوروں اورمعصوموں کاقتل عام کیا اُس پر یہ کوئی بات ہی نہیں کرتے- بس یہ کہتے ہیں کہ ایساکرنااسرائیل کی مجبوری تھی کیوں کہ حماس والے عام فلسطینی شہریوں میں گھلے ملے تھے۔یادرہے کہ ایک محتاط اندازہ کے مطابق 47ہزارفلسطینی اسرائیل کی بے محابا بمباری سے شہیدہوچکے ہیں جن میں 17ہزارسے زیادہ معصوم بچے اورعورتیں ہیں۔بلکہ نیویارک ٹائمزنے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اس کو64 ہزاربتایاہے اور یہ بھی کہاہے کہ جتنے اعدادوشماردیے جارہے ہیں اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
بتایاجارہاہےکہ اس معاہدے میں نہ صرف موجودہ بائڈن حکومت کے نمائدے قطرمیں تھے بلکہ ٹرمپ نے بھی اپنے نمائندے اسٹیووٹکوف کووہاں بھیجا ہواتھا، جوبڑامتشددقسم کا اسرائیل کا حمایتی ہے اورنتن یاہوکا معتقد۔ یہ وہ شخص ہے جس نے نتن یاہوکے امریکی کانگریس سے خطاب کے وقت کوئی پچاس باراس کے لیے تالیاں بجائی تھیں اورنتین یاہوسے اپنی ملاقات کوایک روحانی تجربہ قراردیاتھا۔ کہاجارہاہے کہ نتن یاہوکواس معاہدے کے لیے آمادہ کرنے میں بھی اس کا خاص رول رہاہے۔
اس عارضی صلح کے تین مرحلے ہوں گے ۔پہلے مرحلہ میں جو چھ ہفتوں یعنی 42 دن پرمحیط ہوگا اس میں اسرائیلی فوج غزہ سے پیچھے ہٹے گی، لیکن انخلاء نہیں کرے گی۔حماس 33غیرفوجی اسرائیلی قیدیوں کوجن میں عورتیں بچے اوربوڑھے ہوں گے رہاکرے گا اور بدلے میں اسرائیل اپنی جیلوں سے ایک اسرائیلی کے بدلے 50 فلسطینیوں کوچھوڑے گا۔ روزانہ چھ سوامدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوں گے جن میں سے تین شمالی غزہ کے لیے خاص ہوں گے ۔ہرہفتہ تین اسرائیلی یرغمالی رہاہوں گے۔ یاد رہے کہ سات اکتوبرکے تاریخی طوفان الاقصی حملہ میں حماس نے دوسوسے زیادہ اسرائیلیوں کویرغمال بنایاتھا جن میں سے بہت سے اسرائیل کی اندھا دھندبم باری میں مارے گئے ہیں۔ بتایاجاتاہے کہ ان میں سے 94 لوگ ابھی زندہ ہیں۔دوسرے مرحلہ میں جوکہ چھ ہفتوں کا ہوگااسرائیلی فوج نتساریم کوریڈورکے ذریعہ غزہ سے باہرآئے گی ۔ اورتمام اسرائیلی قیدی چھوڑدیے جائیں گے۔فلسطینی قیدیوں میں 200 وہ قیدی بھی شامل ہیں جن کوسزائے موت یاعمرقیددی گئی ہے۔معروف فلسطینی رہنمامروان البرغوثی بھی ان میں شامل ہیں۔
تیسرا مرحلہ دوسالوں پر محیط ہوگااوراس میں اسرائیل مکمل طورپر غزہ سے نکل جائے گا۔اس میں غزہ کی تعمیرنو ہوگی اورعرب ممالک اس میں تعاون کریں گے ۔ البتہ فلاڈلفیاکاریڈور(معبرصلاح الدین )کوچھوڑنے کے لیے اسرائیل ابھی تیارنہیں ہے، مصراس کومنانے کی کوشش کررہاہے اوریہ ضمانت لے رہاہے کہ اگراسرائیلی فوج وہاں سے نکل جاتی ہے تومصراس کا کنٹرول سنبھال لے گااوراسرائیل کی سلامتی کویقینی بنائے گا۔ یہی اسرائیل کی داداگیری ہے- اس لیے کہ معبرصلاح الدین اورمعبرر فح(ر فح کراسنگ)کے بارے میں فلسطینی کوئی فریق نہیں ہیں۔ان دونوں کے سلسلہ میں اسرائیل اورمصری حکومت کے درمیان بہت پہلے سے معاہدہ چلاآتاہے جس کی روسے دونوں کا نظم ونسق مصری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مگراسرائیل دنیا میں ہرطرح کے قاعدے قانون سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتاہے اوراس کے مغربی سرپرست واقعتا اس کوایسا ہی بنائے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے ایک سابق صدربن گوریان نے کہاتھاکہ ’’ا س خطہ میں اسرائیل کوپاگل کتے کی طرح رہنا ہوگا اور پڑوسیوں کوکاٹتے رہنا ہوگا تاکہ سب اس سے خوف زدہ رہیں‘‘۔ اسرائیل کا عمل بالکل اسی طرح کا ہے۔یہ اس کی ضد ہے- اس کے انسانیت کے خلاف جرائم کو نظرانداز کردیا جاتاہے۔
بہرحال اس کے بعدہتھیاروں کی کڑی جانچ کے بعدغزہ کے 23لاکھ لوگوں کوجنوب سے شمال کی طرف جانے کی اجازت دی جائے گی۔ البتہ اسرائیل 800 میٹرچوڑے بفرزون پر برقرار رہے گا- جہاں اس کے فوجی تعینات رہیں گے۔ حماس نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ پہلے اور دوسرے مرحلہ میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعداسرائیل پھرسے غزہ پر بمباری نہیں کرے گا۔ البتہ یاس معاہدہ میں ایک پیچ ابھی تک پھنساہواہے، وہ یہ کہ اسرائیل کا کہناہے کہ معاہدہ ہوجانے کے بعدبھی اس کویہ حق ہوگاکہ اپنی جاسوسی معلومات کے مطابق وہ غزہ میں کہیں بھی ٹارگیٹ کلنگ کرسکتاہے۔ امریکہ بھی اس کی ہاں میں ہاں ملارہاہے۔ یہی وہ پوائنٹ ہے جوفلسطینیوں کے لیے ہمیشہ دردِسر بنارہے گااوراس میں بہت واضح اپر ہینڈ اسرائیل کودے دیاگیاہے۔
اس معاہدے کواسرائیلی وار کابینہ میں توثیق کے لیے پیش کیاگیاجس نے اس کوپاس کردیاہے۔ لیکن اسرائیل غزہ کے مختلف علاقوں میں مسلسل بمباری کررہاہے تاکہ مزاحمتی قوتوں کوزیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایاجاسکے۔ 16 جنوری کو جنگ بندی کے اعلان کے بعدبھی اسرائیل نے حملہ کیا جس میں115 فلسطینی شہیدہوگئے۔
کہا یہ جارہاہے کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کا انتظام سنبھالے گی،فلسطینی مقتدرہ کے وزیراعظم محمدمصطفی نے اپنے بیان میں کہا بھی کہ فلسطینی اتھارٹی ہی فلسطینیوں کی بین الاقوامی طورپرتسلیم شدہ نمائندہ ہے، لہذااسی کوغزہ کا انتظام سنبھالنے کا حق ہے۔مگراسرائیل اس کے لیے تیارنہیں ہے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ امریکہ اورمتحدہ عرب امارات دونوں مل کرکوئی میکانزم بنائیں گے جس کے تحت غزہ کی بازآبادکاری اورنظم ونسق کوسنبھالاجائے گا۔
دوسری طرف متشدداسرائیلی وزیراسموترچ اورایتماربن گوئیر دونوں اس معاہدہ کی شدیدمخالفت کررہے ہیں اوراس کودہشت گردی کے سامنے ہتھیارڈالنے کے مترادف قراردے رہے ہیں۔ انہوں نے بنجامن نتن یاہو کی حکومت گرانے کی کوشش بھی کی ہے ۔حالاں کہ معاہدہ کی تما م شرائط کو بنظرغائر دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ اسرائیل کا پلہ اس میں بھاری ہے اورحماس نے تنازل اختیارکیاہے۔عملیت پسندی کا تقاضا یہی تھا کہ فلسطینی عوام جنہوں نے جانبازی اور قربانیاں دینے کی ایک بے مثال تاریخ رقم کردی ہے اب ان پر مزیدبوجھ نہ ڈالاجائے اورکچھ ریلیف ان کوملے۔
حماس کے ایک رہنماخلیل الحیۃ نے اپنے ویڈیو پیغام میں جوالجزیرہ پر نشرہوا حماس ،الجہادالاسلامی ،حزب اللہ ،یمن کے انصاراللہ (حوثی )عراقی تحریک مزاحمت،اورایرانی وقطری اورمصری وترکی کی حکومتوں کاشکریہ اداکیا۔انہوں نے غزہ کے شہیدوں،شیخ اسماعیل ہانیہ ،شیخ حسن نصراللہ ،حماس کے قائدیحی السنوار،شیخ صالح العروری اوردوسرے شہیدوں کوخراج تحسین پیش کیا۔واضح رہے کہ تحریک حماس کی میدانی قیادت اب شہیدیحیی السنورکے چھوٹے بھائی محمدالسنوارکودے دی گئی ہے۔ جنہوں نے اپنی پلاننگ سے حماس میں پھرسے ہزاروں نوجوانوں کوبھرتی کرکے شمالی غزہ میں پھر سے اس میں جان ڈال دی ہے۔ اوروہ اسرائیلی فوج پر مسلسل گوریلا حملے کرکے اس کوشدیدنقصان پہنچارہے ہیں۔خلیل الحیہ نے مزیدکہا کہ ہم نے ایک لمحہ کے لیے بھی دشمن کو یہ احساس نہیں ہونے دیاکہ حماس نےمیدان چھوڑدیا ہے، یاوہ کمزور پڑگیا ہے۔لیکن تحریک ِمزاحمت اورفلسطینی عوام کے وسیع تر مفاد میں یہ صلح کی جارہی ہے‘‘۔
اس صلح میں جس میں زیادہ بڑاکردارنئے امریکہ صدرٹرمپ کے مشرق ِوسطی کے لیے نمائندے اسٹووٹکوف نے اداکیا جنہوں نے سفاک اسرائیلی وزیراعظم کواس کے لیے تیارکرلیا۔اس صلح میں بظاہراسرائیل کواپر ہینڈ ملا ہے۔ مگریہ یاد رکھنا چاہیے کہ زندہ وجانبازفلسطینی قوم نے اپنی تمام تر تباہی وبربادی کے باوجود اورخاک وخون میں لوٹنے کے باوجودمحیرالعقول سخت جانی،بے نظیرپامردی واستقلال کامظاہرہ کیاہے، جس نے قرون اولی کے مجاہدوں کی یادتازہ کردی جن کواقبال نے یہ کہہ کرخراج تحسین پیش کیاتھا ؎؎
یہ غازی یہ تیرے پراسراربندے
جنہیں تونے بخشاہے ذوق خدائی
دونیم اِن کی ٹھوکرسے صحراودریا
سمٹ کرپہاڑاِن کی ہیبت سے رائی
دوعالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
اپنی بے نظیرشجاعت ،ہمت اوربلندحوصلہ اورزبردست قربانیاں دے کرانہوں نے اسرائیل کواپنے اعلان کردہ اہداف کوحاصل کرنے نہیں دیا۔ یعنی حماس کا خاتمہ، حماس کی قید سے اپنے قیدیوں کو چھڑالینا، غزہ ومغربی کنارہ سے مزاحمت کا خاتمہ اور فلسطینی مسئلہ سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ حاصل کرنا۔
حماس نے فلسطینی عوام کی خاطریہ کڑوی گولی حلق سے اتارلی ہے، مگرمستقبل میں اس کا کیاہوگا یہ ابھی واضح نہیں ہے۔امریکہ اوراسرائیل کی پوری کوشش ہوگی کہ حماس کونہتاکردیاجائے یاغزہ سے بے دخل۔ اس سے فلسطین میں سول وارچھڑجانے کا خطرہ محسوس ہورہاہے۔ کیوں کہ امریکہ کی نئی ٹرمپ حکومت نے اپنی آنے والی انتظامیہ کے جن چہروں کا اعلان کیاہے ان میں سیکریٹری آف اسٹیٹ اورمشرق وسطی کے لیے خصوصی ایلچی اسٹووٹکوف معروف صہیونی ہیں۔ یہ دونوں مغربی کنارہ اورغزہ کو اسرائیل میں ضم کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔مغربی کنارہ کو یہ اس کے قدیم ببلیکل نام جوڈیاسمیرا سے ہی پکارتے ہیں۔ٹرمپ بھی اپنے ایک بیان میں کہہ چکاہے کہ اسرائیل کومزیدزمینوں کی ضرورت ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ مغربی کنارہ کی غیرقانونی طورپر بسائی گئیں سینکڑوں یہیودی سیٹلمنٹس اورگولان ہائٹس کووہ اسرائیل میں مستقل طورپر ضم کرنے کی وکالت نہ کرے۔ ٹرمپ کا اپنارکارڈ فلسطین کے لیے بہت خراب رہاہے۔ اس نے اپنی پہلی میعادمیں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیاتھااوراس کو اسرئیل کا دارالحکومت ماننے کے لیے تیارتھا- اوراسی نے عربوں کودھونس ودھمکی اورسیکورٹی کا لالچ دے کرصفقۃ القرن یاصدی کی ڈیل کروائی تھی اورابراہام اکارڈ پر اسرائیل کوتسلیم کرنے کے لیے سعودی عرب کورام کیاتھا۔گزشتہ سال طوفان الاقصی نے سعودی واسرائیل کی اس پیش رفت کوکھٹائی میں ڈال دیاتھا۔ تب سے اب تک سعودی عرب کا سرکاری موقف جوسامنے آیاہے وہ یہی ہے کہ پہلے اسرائیل دوریاستی حل کوتسلیم کرے اورآزادفلسطینی ریاست کا قیام ہوتبھی وہ اس معاہدے ابراہام اکارڈ پر دستخط کرے گا۔تاہم محمدبن سلمان ذاتی طورپر فلسطینیوں سے کوئی ہمدردی نہیں رکھت، اس لیے بہت ممکن ہے کہ وہ ان کودوبارہ بائی پاس کرکے اسرائیل کوتسلیم کرنے کا یہ معاہدہ کرڈالے۔
حماس کا طوفان الاقصی کا اقدام جرأت ِرندانہ تو یقینا تھا مگرشایداس کوفلسطینیوں کے حق میں اس کے فوری عواقب کاصحیح اندازہ نہیں ہوسکا۔ اُس کا خیال غالبایہ رہاہوگا کہ مسلم دنیااورخاص کرعرب ممالک ان کویوں بے یارومددگارنہیں چھوڑیں گے۔ جب کہ عربوں نے حقیقت میں ان کوتنہا چھوڑدیا۔اب صورت حال یہ ہے کہ حماس کی ٹاپ قیادت شہیدہوچکی اور اس کے خاص مددگارحزب اللہ اورایران کی حالت بھی پتلی ہے۔ یمن پر بھی متعددباراسرائیل اوراس کے آقاامریکہ وبرطانیہ شدید بمباری کرچکے ہیں۔غزہ کا معاشی بائیکاٹ پہلے سے زیادہ سخت ہے۔عرب،مسلم ممالک اورباقی دنیامحض چلاکراورچیخ وپکارکررہ گئے مگر عملاًفلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کرپائے۔ جنوبی افریقہ اسرائیلی کے خلاف بین الاقوامی عدالت ِانصاف میں گیا۔ جہاں سے نتن یاہواورسابق اسرائیلی وزیرجنگ یواف گالانٹ کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے مگرامریکہ نے داداگیری سے اس اقدام کو فیل کردیااوراب خوداس بین الاقوامی عدالت ِانصاف پر پابندی لگانے کی بات کی جارہی ہے۔اسرائیل کی حفاظت امریکی حکومت (چاہے وہ ڈیموکریٹس ہوں یارپبلکن)کے مذہبی عقائدکا حصہ ہے ۔ وہاں اقتدارایوانجلکل مسیحیوں کا محتاج ہوتاہے اوران کی حمایت کے بغیرکوئی بھی پارٹی نہیں جیت سکتی اوریہ لوگ اپنے مذہبی عقیدہ کی روسے اسرائیل کاتحفظ خوداپنے ملک کے تحفظ کی طرح ہی مانتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ میں مسلسل اسرائیل کے خلاف آوازاٹھتی ہے ،قراردادیں پاس ہوتی ہیں مگرعملاًکچھ نہیں ہوپاتا۔اب اسرائیل نے امریکی آشیروادسے مغربی کنارہ کی اتنی زمینیں غصب کرلی ہیں اوران پراتنی یہودی بستیاں بسادی ہیں کہ عملاًان کوہٹاناممکن نہیں رہ گیاہے۔اسرائیل غالباًیہ طے کرچکاہے کہ غزہ کے شمال میں بھی اس کومستقل رہناہے۔اس لیے صلاح الدین کاریڈور(معبرصلاح الدین )جس کومغربی لوگ فلاڈلفیاکوریڈدرکہتے ہیں پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے۔ اس پر نہ مصرکچھ کہتاہے نہ اردن۔ دنیاکی رائے عامہ ضرورغزہ پر اسرائیل کی اِس جارحیت کے نتیجہ میں بیدارہوئی ہے اوروہ اب فلسطینیوں کی حمایت کرتی ہے مگرمغربی ممالک امریکہ، جرمنی، فرانس، اٹلی اوربرطانیہ میں پالیسی سازسب کے سب صہیونی یاصہیونیت کے ہمدرد ہیں۔ پورامغربی میڈیا اسرائیل کا بیانیہ ہی بیچ رہاہے۔ اوراس میں ابھی سالوں تک کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ عالم اسلام کا حال اورزیادہ خراب ہے ۔کچھ ہی دن پہلے ریاض میں اوآئی سی اورعرب لیگ کا مشترکہ اجلاس ہواتھا(جوگزشتہ سال بھی ہواتھا)اس میں شاندار تقریریں ہوئیں، لفظی قرادادیں پاس ہوئیں مگراس سے آگے کوئی بات نہیں بڑھ سکی۔ ایران نے تجویز دی تھی کہ جن مسلمان اورعرب ممالک نے اسرائیل سے تعلقات بحال کرلیے ہیں وہ ان کوتوڑدیں اوراس کے ساتھ تجارت بندکردیں مگراس تجویزپر کسی نے کان نہیں دھرے یعنی عملا یہ اجلاس نششتندوگفتندوبرخاستن پر ختم ہوگیا۔
یہ البتہ خوش آئندہے کہ فلسطین کے پڑوس میں ایک آزادمسلم مملکت قائم ہوگی ہے یعنی شام کا انقلاب کامیاب ہوگیاہے۔ یہ نظریاتی لوگ ہیں اورمستقبل میں ان سے فلسطین کے لیے بھی خیرکی ہی امیدکی جانی چاہیے۔ امریکہ اوراسرائیل دونوں کی کوشش یہ ہے کہ آئندہ غزہ کے نظم ونسق سے خودفلسطینیوں کوبے دخل رکھا جائے تاہم الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے حماس کے ایک قائداسامہ حمدان نے یہ صاف کردیاہے کہ فلسطینی اپنے امورومعاملات خودطے کرنے کے اپنے حق سے کبھی دستبردارنہیں ہوں گے اورفتح کی طرح حماس بھی فلسطینی سوسائٹی کا ایک ناگزیرحصہ ہے۔ بہرحال اب یہ دیکھنے والی بات ہوگی کہ جانبین کی طرف سے قیدیوں کے تبادلہ کا عمل اوراس کے بعدکے جنگ بندی کے مراحل کس طرح عمل میں آتے ہیں اورخطہ کی سیاست پر اس کے کیااثرات مرتب ہوں گے۔
٭ریسرچ ایسوسی ایٹ، مرکز فروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہند/تہذیب الاخلاق، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ