جھارکھنڈ الیکشن

قبائلیوں اور مسلمانوں کو دست و گریباں کرنے کی کوشش

نور اللہ جاوید
نومبر 2024
jharkhand

میڈیا کی توجہ گرچہ مہاراشٹرکی سیاسی سرگرمیوں پر مرکوز ہے۔تاہم جھاڑ کھنڈ میں انتخاب جیتنے کے لئے  بی جے پی جو کھیل کھیل رہی ہے اس کے اثرات صرف انتخابات تک ہی محدود نہیں رہیں گے  بلکہ قبائلیوں میں مسلمانوں کے تئیں جو نفرت کے  بیج بوئے جارہے ہیں اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔بی جے پی بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ہورہے مبینہ حملوں کی ناراضگی کا پورا  فائدہ جھارکھنڈ انتخابات میں حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما تمام اخلاقی اور  آئینی حدود کا  لحاظ کئے بغیر نفرت انگیز بیانات دے رہے ہیں۔ کانگریس اور جھاڑ کھنڈ مکتی مورچہ کے مسلم لیڈران کے خلاف انتہائی نفرت انگیز بیانات دے جارہے ہیں ۔مسلم علاقوں کو نشانہ بنایا جارہاہے۔ بی جے پی جھارکھنڈ میں  گزشتہ کئی مہینوں سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آبیاری کررہی ہے۔

صحافی کونال پروہت نے اپنی کتاب The Secretive World of Hindutva :Pop Stars میں  جھار کھنڈ میں موسیقی کے ذریعہ نفرت انگیز ماحول سازی پر تفصیل سے بات کی ہے۔گرچہ یہ کتاب بھارت میں موسیقی کے ہندوائزیشن پر روشنی ڈالتی ہے تاہم کنال پروہت سفر کا آغاز جھار کھنڈ سے کرتے ہیں اور پھر چونک جاتے ہیں کہ جھارکھنڈ کے دیہی علاقوں میں مسلم مخالف موسیقی کے ذریعہ اکثریتی طبقے کے نوجوانوں میں نہ صرف مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کی جارہی ہے بلکہ ان کے ذہن و دماغ کو اس قدرمسموم کیا جارہا ہے کہ یہ نوجوان بھارت کے لئے خطرناک بھی بن سکتے ہیں۔

پانچ ماہ  قبل ہوئے لوک سبھا انتخابات میں قبائلیوں کے لئے محفوظ تمام پانچ سیٹوں پربی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔جھاڑ کھنڈ میں قبائلیوں کی مجموعی آباد 26 فیصد ہے جس میں 12.52 فیصد قبائلی سارن ازم پر یقین رکھتے ہیں اور 4.31فیصد قبائلی عیسائیت کو ماننے والے ہیں ۔باقی قبائلیوں سے متعلق دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ ہندوازم پر یقین رکھتے ہیں ۔جھاڑ کھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی 14.55 فیصد ہے۔ بی جے پی کو خوف ہے کہ سماجی سطح پر قبائلیوں اور مسلمانوں کا ووٹ اگر متحد ہوگیا تو اس کا اقتدار تک  پہنچنا ناممکن ہوجائے گا ۔اس لئے قبائلیوں کو مسلمانوں کا خوف دلایا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ بی جے پی نے جو انتخابی منشور جاری کیا ہے کہ اس میں وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ جھارکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ نافذ کرے گی مگر اس سے قبائلی مستثنی ٰ ہوں گے۔ ’’ایک ملک اور ایک قانون ‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کی بدنیتی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔

بنگلہ دیش کی سرحد آسام،تری پورہ ، مغربی بنگال اور میگھالیہ سے ملتی ہے۔ان ریاستوں میں دراندازی کا ایشو بنایا جاتا رہا ہے۔ مگر بہار اور جھاڑ کھنڈ کی سرحدیں نہیں ملتیں، اس کے باوجود بی جے پی اور ہندوتو تنظیمیں ان دونوں ریاستوں میں دراندازی کو ایشو بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ حیرت انگیزبات یہ ہے کہ حال ہی میں قومی کمیشن برائے شیڈول ٹرائب نے جھاڑ کھنڈ میں دراندازی اور قبائلیوں کی آبادی میں کمی پر ایک رپورٹ جمع کی ہے جس میں بنگال کی سرحد سے متصل صاحب گنج کو بنگلہ دیش سے متصل ضلع کےطور پر پیش کیا گیا ہے۔ممکن ہو یہ تکنیکی خرابی ہو دراصل اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کمیشن اپنے کام کے تئیں کس قدر سنجیدہ ہے اس کے ساتھ ہی وہ کس قدرجلدبازی کا شکار بھی ہے۔

جھارکھنڈ کے سنتھال پرگنہ میں مسلمانوں کی آبادی سے متعلق بی جے پی اور ہندتو تنظیمیں کے تین بڑے دعوے ہیں-  پہلا دعویٰ یہ ہے کہ جھاڑ کھنڈ کے سنتھا ل پرگنہ علاقے میں ڈیموگرافی تبدیل ہورہی  ہے اور اس کی بڑی وجہ دراندازی ہے۔ ہیمانتا سورین پر یہ الزام ہے کہ وہ دراندازی روکنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں سرحدوں کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری کس پر ہے؟۔ جب جھارکھنڈ کے سرحد بنگلہ دیش سے نہیں جڑتی ہے تو پھر درانداز وں کو روکنے کی ذمہ داری سورین پرکیونکر آتی ہے-  دوسرا دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کے واقعات رونما ہورہے ہیں اور تیسرا  دعویٰ یہ  کیا جارہا ہے کہ قبائلی خواتین سے شادی کرکے قبائلیوں کے لئے مخصوص زمین پر قبضہ کیا جارہا ہے۔

بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ  جھارکھنڈ ریاست کی تشکیل کے بعد سنتھل پرگنہ میں آدیواسیوں کی آبادی میں 16 فیصد کمی آئی ہے اور مسلمانوں کی آبادی میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ممبر پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے پارلیمنٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ سنتھل پرگنہ میں 2000 میں آدیواسیوں کی آبادی 36 فیصد تھی اور اب یہ گھٹ کر صرف 26 فیصد رہ گئی ہے اور اس کے لئے  بنگلہ دیشی دراندازی (مسلمان)  ذمہ دار ہے۔ یہ تمام دعوے حقیقت سے پرے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر میڈیا بھی حقائق کو جانچے بغیر اس پروپیگنڈے کو پھیلا رہا ہے۔ مردم شماری کے مطابق 1951 میں جھارکھنڈ میں قبائلیوں کی آبادی 36 فیصد تھی اور 1991 میں قبائلی آبادی  27.67فیصد ہوگئی ۔ جب کہ 1991 میں مسلمانوں کی آبادی 12.18 فیصدتھی۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق ریاست میں 26.21 قبائلی اور 14.53 فیصدمسلمان تھے۔ سنتھال پرگنہ میں قبائلیوں کا تناسب 2001 میں  29.9فیصدتھا اور 2011 میں 28.11 فیصد ہوگیا۔ بی جے پی کا 16فیصد اور 10 فیصد کم ہونے کا دعویٰ مکمل طور پر غلط ہے-

قبائلیوں کی آبادی میں نمایاں کمی 1951 اور 1991 کے درمیان واقع ہوئی تھی۔ مگر کمی کی وجہ بنگلہ دیش سے دراندازی نہیں بلکہ بہار، بنگا ل اور اترپردیش سے لوگ بڑے پیمانے پر جھارکھنڈ میں آباد ہوئے تھے۔کیوں کہ کان کنی کی وجہ سے بڑی بڑی کمپنیوں کے یہاں دفاتر کھلنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔جھار کھنڈ کی راجدھانی رانچی میں قبائلیوں کی آبادی 1961 میں 53.2 فیصد تھی۔ مگر 1991میں یہ کم ہوکر 43.2 فیصد ہوگئی ۔کیوں کہ اس مدت میں 10.73لاکھ افراد دوسری ریاستوں سے جھار کھنڈ میں آئے اور ان میں سےاکثر  یہیں آباد ہوگئے ۔دوسری طرف قبائلیوں میں تعلیم کی کمی ہے اس لئے جھار کھنڈ میں صنعت کاری سے قبائلی آبادی کو فیض نہیں پہنچا۔ روزگار کے لئے انہیں دوسری ریاستوں میں جانا پڑا۔ چناں چہ 2011کی مردم شماری کے بعد جھارکھنڈ کی قبائلیوں کی ایک تنظیم نے مرکزی وزارت داخلہ کو خط لکھ کر کہا کہ مردم شماری کی رپورٹ میں قبائلیوں کی آبادی میں کمی ظاہر کی گئی ہے جب کہ قبائلیوں کی آبادی 32 فیصد ہے ۔چوں کہ اس وقت فصل کا موسم ہے بڑی تعداد میں قبائلی پنجاب، ہریانہ اور راجستھان میں مزدوری کررہے ہیں ۔مرکزی حکومت کی 2017 کی اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق، ریاست سے 15-59 سال کی عمر کے تقریباً 50 لاکھ افراد نے 2001 سے 2011 کے درمیان نقل مکانی کی تھی۔  1951-91 کے درمیان،قبائلی آبادی کی سالانہ شرح نمو 1.42تھی، جبکہ جھارکھنڈ کی مجموعی طور پر 2.3فیصد ہے۔ناکافی غذائیت، ناکافی صحت کے نظام اور معاشی مجبوریوں کی وجہ سے قبالیوں کی اموات کی شرح دیگر کمیونٹیز کے مقابلے زیادہ ہے۔

آسا م کے وزیراعلیٰ ہمانت بسوا سرما انتخابی مہم کے دوران قبائلیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں ۔دراندازی کا سوال آسام سے جھار کھنڈ تک شدت سے اٹھاتے ہیں ۔مگر اس سوال پر بات نہیں کرتے ہیں کہ قبائلیوں کی معاشی حالت خراب کیوں ہے؟ آسام کے چائے باغات میں کام کرنے والے قبائلیوں کو کوئی پوچھنے والا کیوں نہیں ہے۔آسام میں 150سال سے زائد عرصے سے چائے کے باغات میں کام کرنے کے باوجو د انہیں قبائلی کا درجہ نہیں مل سکا ہے۔۔ آدیواسیوں اور آسام کے آبائی قبائل کے درمیان تناؤ بہت واضح ہے۔ خونی بوڈو-سنتھال جھڑپیں بہت عام ہیں – ان میں سے زیادہ تر میں مؤخر الذکر کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔

جھارکھنڈ میں باہری اور مقامی کی لڑائی کوئی نئی نہیں ہے۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے بانی شیبو سورین نے  بہار، اتر پردیش، مغربی بنگال، راجستھان، گجرات وغیرہ سے آکر یہاں آباد ہونے والے ساہوکاروں اور کاروباریوں کے خلاف مہم شروع کی تھی ۔باہر سے آنے والوں میں بڑی تعداد اعلیٰ ذاتوں سے وابستہ  یا مالدار تجارتی برادریوں سے تعلق رکھتی ہے۔ قبائلی ان پر معدنیات سے مالا مال خطے کی غریب اصل آبادی کا استحصال کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔سنگھ پریوار کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح آسا م جیسی صورت حال پیدا کی جاسکے تاکہ قبائلیوں اور اور مسلمانوں کے درمیان تشدد کی صورت میں وہ اپنے مفادات کی تکمیل کرسکے۔جھارکھنڈ کے کئی علاقوں میں غیرقبائلی کے لئے زمین کے خرید و فروخت پر پابندی ہے۔قبائلیوں کےلئے مخصوص علاقوں کی زمین پر بڑے بڑے صنعت کاروں کی نظر ہے۔ حالیہ برسوں میں اس قانون کی سب سے زیادہ خلاف ورزی ہوئی ہے۔ بی جے پی دعویٰ کرتی ہے کہ قبائلیوں کی زمین پر مسلمان دھوکہ دہی کے ذریعہ قبضہ کررہے ہیں، وہ لوجہاد کے ذریعہ قبائلی خواتین کے ساتھ شادیاں کرتے ہیں اور پھر زمین خرید لیتے  ہیں ۔تین ماہ قبل ایک قبائلی تنظیم نے سنتھال پرگنہ کے گھروں کا سروے کیا او ر اس کے بعد رپورٹ پیش کی کہ اس علاقے میں لو جہاد یا پھر قبائلیوں کے مسلمان بنانے کی ایسی کوئی کوشش سامنے نہیں آئی ہے۔ قبائلی   اورمسلمانوں کے درمیان شاذ و ناذر ہی شادی ہوتی ہے اور یہ پہلے سے ہوتی آئی ہے۔اسی طرح رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہیں ایسا کوئی بھی مکان نہیں ملا جہاں کوئی غیر قبائلی آباد ہو ۔خود بی جے پی نے اس قانون کی خلاف ورزی بڑے پیمانے پر کی ہے۔ بی جے پی کی گزشتہ رگھوویرداس حکومت نے اڈانی پاور پلانٹ پروجیکٹ کے لیےقبائلیوں کی زمین کو جبراً ایکوائر کیا تھا ۔اڈانی کو فائدہ پہنچانے کے لئ توانائی پالیسی میں تبدیلی کی گئی اور سنتھال پرگنہ کو اندھیرے میں رکھ کر بنگلہ دیش کو بجلی فراہم کی گئی ۔قبائلیوں سے ہمدردی کا تو دعویٰ ہے مگر جھارکھنڈ حکومت کی طرف سے پاس کردہ سرنا کوڈ، پسماندہ طبقات کے لیے 27 فیصد ریزرویشن اور کھٹیان پر مبنی ڈومیسائل پالیسی پر نہ صرف خاموشی ہے بلکہ اس کو روکنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔

دوسری جانب قبائلیوں کو ہندو ثابت کرنے کے لئے  آر ایس ایس گزشتہ کئی سالوں سے محنت کررہی ہے۔اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے۔ قبائلی علاقوں میں آر ایس ایس کی جانب سے ایکلا اسکول کے تحت سیکڑوں کی تعداد میں اسکول قائم کئے جاتے  ہیں اور ان اسکولوں میں نصابی سرگرمیوں سے زیادہ بچوں میں نفرت کی آبیاری کی جارہی ہے۔جھار کھنڈ میں 28سیٹیں قبائلیوں کے لئے مخصوص ہیں اور 9سیٹیں درج فہرست ذاتوں کے لئے باقی 44سیٹیں جنرل ہیں ۔ان غیر محفوظ سیٹیوں کی بنیاد پر بی جے پی کی پوزیشن محفوظ ہے۔مگر بی جے پی کے راستہ کی اصل رکاوٹ ریاست کے 14.5 فیصد مسلم ووٹرس ہیں۔اس لئے ایک طرف قبائیلیوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اوردوسری طرف بنگلہ دیشی دراندازوں کے ایشو کے ذریعہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی پہلی انتخابی ریلی میں انتہائی متنازع تقریر کرکے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی کوشش کی۔

جھار کھنڈ مکتی مورچہ کی قیادت میں انڈیا اتحاد کا بی جے پی سے مقابلہ سخت ہے، مگر ہیمنت سورین بھی انتہائی تجربہ کار ہیں،  وہ بی جے پی کے ہرسیاسی چال کا جواب دے رہے ہیں- انہوں نے قبائلی علاقے پر اپنی پکڑ مضبوط بنالی ہے اور انہیں مسلم ووٹوں کا فائد ہ بھی مل رہاہے۔ تاہم کانگریس اور جے ایم ایم کے درمیان تال میل کا فقدان اور بی جے پی کی بوتھ سطح پر پکڑ کا نقصان  انڈیا الائنس کو ہوسکتا ہے۔ تاہم انڈیا اتحاد نے سرنا کوڈ کے نفاذ کا وعدہ کرکے قبائلیوں کا اعتماد جیتنے کی بھر پور کوشش کی ہے اور اسی طرح پانچ گرانٹی کے ذریعہ دیہی علاقوں کے ووٹرس کو لبھانے کی بھی کوشش کی گئی ہے-  اب دیکھنا ہے کہ بی جے پی کا فرقہ وارانہ پولرائزیشن کامیا ب ہوتا ہے یا پھر ہیمنت سورین کے ترقیاتی کاموں کا ایجنڈا ۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.