جموں  وکشمیر کا اسمبلی انتخاب-علاقائی تقسیم واضح

اکتوبر 2024
kashmir election

اشرف حماد

حالیہ اسمبلی الیکشن  میں جموں و کشمیر کے زیادہ تر مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹروں میں ” مزاحمتی ووٹ ” کا رجحان دیکھنے کو ملا۔ یہ ایک ایسا اجتماعی ردعمل تھا جو سیاسی حالات کے خلاف تھا، جنہیں بہت سے لوگ مسلط شدہ سمجھتے ہیں۔ 2019 میں بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت نے دفعہ 370 کو ختم کر دیا جس سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت چھن گئی۔ اس اقدام کے بعد سیاسی گرفتاریاں، کرفیو، اور مواصلاتی پابندیاں عام ہو گئیں، جنہوں نے خاص طور پر وادیِ کشمیر میں بے چینی کی فضا پیدا کردی۔ یہ “مزاحمتی ووٹ” نہ صرف پالیسیوں کی مخالفت میں تھےبلکہ اپنی شناخت کو برقرار رکھنے پر اصرار بھی تھا۔ ان علاقوں کے لوگوں کے لیے ووٹنگ ایک ایسے عمل کی طرح تھی جس میں علاقائی خود مختاری کے خاتمے کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ خود مختاری کی حمایت کرنے والی روایتی جماعتیں جیسے نیشنل کانفرنس (جے کے این سی) کو بھرپور حمایت ملی، حالاں کہ ان جماعتوں کی سیاسی طاقت میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا تھا۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو کبھی کشمیر میں مضبوط حمایت حاصل تھی۔ تاہم 2015 میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے نے اس کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا۔ بہت سے کشمیریوں کے لیے بی جے پی مرکزی حکومت کی سخت پالیسیوں کی علامت ہے۔ جب پی ڈی پی نے اس جماعت کے ساتھ اتحاد کیا، تو یہ لوگوں کے لیے خطے کے مفادات کے ساتھ فریب کے مترادف تھا۔ 2018 میں اس اتحاد کا خاتمہ پی ڈی پی کی سیاسی کمزوری اور اخلاقی زوال کو مزید واضح کرتا ہے۔ انتخابات میں ووٹروں نے پی ڈی پی کو اس اتحاد کی سزا دیاور اسے انہوں نے مفاد پرستی سمجھا۔ پارٹی کی جانب سے دوبارہ اعتماد پیدا کرنے کی کوششیں سست رفتار اور بے اثر ثابت ہوئیں اور انتخابات کے نتائج نے یہ ظاہر کیا کہ وادی کے ووٹر ابھی اس گٹھ جوڑ کو بھلا نہیں پائے ہیں۔

نیشنل کانفرنس (جے کے این سی)، جو کہ عبداللہ خاندان کی قیادت میں ہے، نے جموں و کشمیر کی سیاست میں طویل عرصے تک اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم، حالیہ انتخابات میں اس کی بحالی مقبولیت کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی مجبوری کے تحت ہوئی ہے۔ پی ڈی پی کی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے سبب خراب ساکھ کے بعددیگر علاقائی جماعتوں کی کمزور تنظیم کے سبب بہت سارے لوگوں کے پاس نیشنل کانفرنس کو ووٹ دینے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ یہ ایک مجبوری کا انتخاب تھا نہ کہ جوش و خروش کا۔ این سی نے اپنی شناخت کشمیری مفادات کے محافظ کے طور پر پیش کی ہے، لیکن ماضی کی غلطیوں اور مستقبل کے لیے کوئی نیا ویژن نہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے حمایت حاصل کرنا مشکل ثابت ہواہے۔ تاہم کشمیر کے بہت سے لوگوں کے لیے نیشنل کانفرنس کو ووٹ دینا بی جے پی یا اس کے حامیوں کو روکنے کا ایک طریقہ تھا۔

جموں میں خاص طور پر، بی جے پی کو کافی ووٹ ملے۔ اسے کچھ کشمیری سیاسی حلقے “کشمیر مخالف ووٹ” قرار دے رہے ہیں۔ جموں کے سیاسی حلقے اسے جموں کے حق منڈیٹ قرار دے رہے ہیں۔ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے ہی بی جے پی نے اپنے آپ کو ایسی جماعت کے طور پر پیش کیا ہے جس نے جموں و کشمیر کو بھارت کی مین سٹریم سے جوڑا ہے۔ یہ پیغام جموں کے لوگوں کے لیے پرکشش ثابت ہوا، جنہوں نے اکثر محسوس کیا کہ کشمیر کی سیاست میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ ان لوگوں کو بی جے پی کا کشمیر کے تعلق سے رویہ، قومی سلامتی پر زور، اور جموں و کشمیر کے بھارتی یونین کے ساتھ اتحاد کا پیغام دل کو بھایا۔ ان علاقوں میں انتخابی نتائج اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کس طرح ووٹر نے ایک ایسی جماعت کی حمایت میں خود کو متحد کیا جس نے کشمیر کی سیاست کے اثر و رسوخ کو متوازن کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

دیگر چھوٹی جماعتیں جن میں انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی، جماعت اسلامی، پیپلز کانفرنس، اپنی پارٹی اور آزاد امیدوار ان انتخابات میں بڑی حد تک ناکام رہے، کیوں کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے انہیں بی جے پی کی آلہ کار قرار دے کر بی جے پی مخالف لہر پیدا کردی تھی۔ کشمیر میں بی جے پی سے کسی بھی قسم کی وابستگی کا تصور بھی نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ یہ امیدوار اپنے آپ کو مرکزی حکومت کی پالیسیوں سے الگ دکھانے کی سخت ترین کوششوں کے بعد بھی ناکام رہے، اور پہلے سے محتاط اور ووٹر نے انہیں بی جے پی کے اثر و رسوخ کی توسیع کے طور پر مسترد کر دیا۔ تاہم ان کا دعوٰی ہے کہ انہیں انتخابی مہم چلانے کے لیے نہایت کم موقعہ فراہم ہوا۔ جموں میں بھی ان چھوٹے کھلاڑیوں کا حال کچھ مختلف نہیں تھا۔ ووٹروں نے بڑی حد تک بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالا، جس نے دوسروں کے لیے بہت کم جگہ چھوڑی۔ یہ نتائج اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ لوگوں کے سامنے ترجیات واضح تھیں۔

جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کا فیصلہ ایک دلچسپ تقسیم پیش کرتا ہے، جس سے سیاسی ترجیحات اور تصورات کی حکمرانی میں گہرے علاقائی اختلافات ظاہر ہوتے ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی وادی کشمیر اور جموں کے درمیان نمایاں طور پر مختلف رہی۔ جب کہ نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد نے کشمیر میں مضبوط کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 41.08 فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ 47 میں سے 40 سیٹیں جیتی ہیں لیکن جموں میں ان کا اثر کافی کم تھا، جس کی وجہ سے 43 میں سے صرف 8 سیٹیں حاصل ہوئیں۔ اس کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی کا جموں میں غلبہ رہا ہے، جس نے 45.23 فیصد ووٹوں کے ساتھ 29 نشستیں حاصل کیں۔ جب کہ کشمیر کے علاقے میں وہ کوئی قابل ذکر رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی اورکوئی نشست حاصل نہیں کر سکی ۔ اس کو صرف 2.17 فیصد ووٹ ملے۔ اس علاقائی تقسیم کا ایک سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ دونوں خطوں کے درمیان امتیازی سلوک کے بارے میں عوامی تاثرات تبدیل ہوئے ہیں۔

تاریخی طور پر جموں کے مکینوں نے کشمیر کے مرکز کو اپنے علاقے کے ساتھ امتیازی سلوک کے طور پر دیکھاہے۔ جموں نے محسوس کیا کہ پچھلی ریاستی حکومتیں، جن کی قیادت بنیادی طور پر کشمیر پر مبنی پارٹیوں کے ذریعے کی گئی تھی، نے خطے کے ساتھ بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک روارکھا۔ تاہم پہلے سے بھیجی گئی مرکزی حکومت کے تحت، جو جموں و کشمیر کو لیفٹیننٹ گورنر راج کے تحت چلاتی ہے، ان تصورات میں تبدیلی آئی ہے۔

کشمیر میں بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے تحت طاقت کا توازن جموں کے حق میں منتقل ہو گیا ہے۔ یہ خیال دونوں خطوں کے درمیان جاری سیاسی تقسیم کو بڑھا سکتا ہے۔ کون سی پارٹی دونوں خطوں کے ساتھ مساوی سلوک کو یقینی بنا سکتی ہے اس علاقائی تقسیم کو مزید اجاگر کرتی ہے۔ جموں خطہ کے رائے دہندگان کا یقین ہے کہ بی جے پی دونوں خطوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بنانے کے لیے بہترین پوزیشن میں ہے ۔ اس کے برعکس، صرف پانچ فیصد کشمیری اس کودرست مانتے ہیں۔  ہر دس میں سے چار ووٹر نیشنل کانفرنس  کے ذریعہ مساوی سلوک فراہم کرنے پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ جموں و کشمیر کا یہ سیاسی فیصلہ دیرینہ علاقائی تعصبات اور دونوں خطوں کے ساتھ مساوی سلوک کو یقینی بنانے کے لیے کسی ایک حکومت یا پارٹی پر اعتماد کی کمی کا عکاس ہے۔ جموں میں بی جے پی کا غلبہ وادی میں این سی جیسی کشمیر پر مبنی جماعتوں کی طاقت سے متوازن ہے۔ اس تقسیم کو اس خیال سے مزید تقویت ملی ہے کہ سابقہ ​​ریاستی حکومتوں نے کشمیر کی حمایت کی تھی، جبکہ موجودہ یونین ٹریٹری حکومت کا جموں کی طرف جھکاؤ دیکھا جا رہا ہے۔ یہ نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر علاقائی اور دیگر خطوط پر تقسیم ہے۔ جہاں جموں میں بی جے پی کا اثر و رسوخ مضبوط ہے، وہیں کشمیر میں مزاحمت کی لہر یہ ظاہر کرتی ہے کہ مرکزی حکومت سے دوری کا احساس ابھی بھی موجود ہے۔ مستقبل میں کسی بھی پارٹی کے لیے چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اس تقسیم کو کیسے دور کرے۔ لیکن فی الحال جموں و کشمیر کا انتخابی نقشہ دو علاقوں کی مختلف سیاسی خواہشات کو ظاہر کرتا ہے۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.