بی جے پی کے نئے صدر کی تقرری میں تاخیر کیوں

 عبدالباری مسعود
ستمبر 2024

 بھارتیہ جنتا پارٹی کے بارے میں یہ بات سب جانتے ہیں کہ یہ حقیقی معنوں میں کوئی آزاد و خود مختار سیاسی جماعت نہیں بلکہ آرایس ایس کا ایک سیاسی بازو ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ  پارٹی  کے موجودہ صدر جے پی نڈا کا جانشین ابھی تک مقرر نہیں ہوسکا ہے۔ نڈا کی میعاد صدارت  امسال جنوری میں ہی ختم ہوگئی تھی اور ان کی میعاد میں  چھ ماہ کی توسیع بھی کی گئی۔ یہ توسیعی  مدت کب کی ختم ہوچکی ہے لیکن ابھی تک  نئے صدر کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں  زبردست زک کھانے کے بعد پارٹی کے اندر ایک خلفشار کی سی کیفیت ہے۔

   پارٹی میں  صدر کا انتخاب نہیں ہوتا  بلکہ وہ  نامزد کیا جاتاہے۔ انتخاب تو یہ ایک رسمی خانہ پوری ہوتی ہے ۔ لیکن اس میں بھی تاخیر کی وجہ گجرات لابی اور آ ر ایس ایس کے درمیان بالا دستی کی کشمکش ہے۔  دراصل پارٹی میں گجرات لابی یعنی  نریندر مودی اور امت شاہ کا دبدبہ انتخابات میں  مایوس کن کارکردگی کے بعد کمزور پڑگیا ہے- ان کے خلاف جو آوازیں اب تک دبی ہوئی تھیں تھیں  وہ اب اٹھ نے لگی ہیں ۔ یہ بھی سچ ہے کہ آر ایس  ایس کی مرضی و منشاء کے بغیر پارٹی کے اندر ایک پتہ بھی  ہل نہیں سکتا ہے۔ تاہم گزشتہ دس سالوں میں  مودی کے ناقابل تسخیر رہنما  کی جس طرح شبیہ بنائی گئی تھی، یہاں تک کہ مودی نے اس عرصہ میں آ ر ایس ایس سربراہ  موہن بھاگوت سے اکیلے میں ایک مربتہ بھی ملاقات نہیں کی۔  وہ  شبیہ اب افسانہ ثابت ہورہی ہے۔ چنانچہ گجرات لابی کی طرف سے پارٹی صدر کے عہدے کے لیے  جو نام پیش کیے گئے تھے انہیں آ ر ایس ایس نے مسترد کردیا ہے۔ اس سلسلہ میں 12 ا گست کو وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کی رہائش گاہ پر امت شاہ، پارٹی کے آرگنائزنگ  جنرل سیکریٹری  بی ایل سنتوش نے آ ر ایس ایس کے جنر ل سیکریٹری دتہ ریا ہوسبالے کے ساتھ پانچ گھنٹے تک تبادلہ خیال کیا۔ یہ میٹنگ اس لحاظ سے اہم تھی کہ 31 اگست کو دونوں تنظیموں کے درمیان کیرالہ کے پالگھاٹ میں ہونے والی میٹنگ کا ایجنڈا ہموار کرنا تھا۔

 بتایا جاتا ہے کہ آر  ایس ایس  نڈا کے جانشین کے طور پر مدھیہ پردیش کے وزیراعلی شیوراج سنگھ چوہان کو دیکھنا چاہتا تھا۔ تاہم مودی کسی اور او بی سی لیڈر کو اس عہدہ پر دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔  کیوں کہ وہ خود کو بطور او بی سی کے لیڈر کے  پیش کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چوہان کو  وفاقی کابنیہ میں شامل کرلیا گیا۔ حالانکہ انہیں  دسمبر 2023کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کے بعد  دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیا گیا تھا  اور ایک کمزور لیڈر کو وزارت اعلی کے منصب پر فائز کردیا گیا تھا۔  چھتیس گڑھ  میں سابق وزیراعلی رمن سنگھ اور راجستھان میں  پارٹی کی سب سے طاقتور لیڈر اور سابق وزیراعلی وسندھرا راجے کے ساتھ بھی  یہی سلوک کیا گیا تھا ۔ عام انتخابات میں مایوس کن کارکردگی کے بعد  پارٹی پر گجرات لابی کی گرفت کمزور اور پارٹی کے اندر غیرمطمئن لیڈروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ۔ یہ لاوا کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

 بی جے پی قیادت نے  مہاراشٹر کے نائب وزیراعلی دیوندر فڑ نویس،  پارٹی کے جنرل سیکریٹری  ونود تاوڑے، ’ گولی مارو سالوں کو‘ کے لیے  مشہور سابق وزیر انوراگ ٹھاکر اور یوپی بی جے پی اکائی کے آرگنائزیشن سیکریٹری سنیل بنسل کے نام پیش کیے تھے لیکن انہیں ویٹو  کردیاگیا۔ چنانچہ   بی جے پی نے آر ایس ایس کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ جب تک کسی نام پر اتفاق رائے نہیں ہوتا۔ تب تک  ایک عبوری صدر کو مقرر کرلیا جائے۔

 مذکورہ ناموں پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے  آر ایس ایس نے  یہ اشارہ دیا تھا کہ وہ اپنے تمام پر چارکوں کو جو بی جے پی کے تنظیمی عہدوں پر فائز ہیں واپس بلا لے گی۔ خیال رہے   پارٹی میں آرگنائزنگ  سیکریٹری کا عہدہ روایت  کے مطابق   آر ایس  ایس کے پرچارکوں کے لیے  محفوظ ہوتا ہے۔ اس قدم نے بی جے پی کے اندر ایک کھلبلی سی مچا دی کیونکہ اس سے دونوں تنظیموں کے درمیان رشتے مکدر ہوسکتے ہیں ۔ آر ایس ایس نے جون میں کرناٹک کے آرگنائزنگ سیکریٹری  جی وی راجیش کو واپس بلالیا ۔ پھر کیرالہ سے کے سبھاش کو بھی بلالیا گیا جو 11سال سے  بی جے پی سے وابستہ  تھے۔ ان کی جگہ پر ایم گنیشن کو بھیجا گیا۔  پارٹی کے نیشنل آرگنائزنگ  جنرل سیکریٹری  بی ایل سنتوش کو بھی ان کے عہدہ سے فارغ کیا جاسکتا ہے۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ کرناٹک کے وزیر اعلی بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔

 آر ایس ایس کی قیادت کا یہ احساس ہے کہ جن پرچارکوں کو بی جے پی میں بھیجا جاتا ہے، تاکہ دونوں تنظیموں کے درمیان  تال میل قائم کریں  وہ  اقتدار اور مراعات کی کشش کی سبب بی جے پی کے وفادار بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ نریندر مودی  کا معاملہ ہے جنہیں آ ر ایس ایس نے  بی جے پی کو مستعار دیا تھا۔ اب آر ایس ایس نہیں چاہتی کہ کوئی  دوسرا پر چارک مودی بنے۔

 یہی وجہ ہے کہ پارٹی کا صدر مقرر کرنے میں تاخیر ہو رہی ہیں۔ بی جے پی کے ترجمانوں کی طرف سے تاخیر کے معاملے میں طرح طرح  کے لولے لنگڑے عذر پیش کیے جارہے ہیں۔  ایک عذر یہ پیش کیا جارہا ہے  کہ ’ ہماری پارٹی کا دستور یہ کہتا ہے کہ   قومی صدر کے انتخاب  سے پہلے  60فیصد ریاستی اکائیوں کے تنظیمی انتخابات  منعقد کرنا ضروری ہیں چونکہ  ہم سب پارلیمانی انتخابات کی مہم میں مصروف تھے  اس لیے ہم متعدد ریاستوں میں تنظیمی انتخابات  منعقد نہیں کراسکے۔‘

 اب تک صرف چار یا پانچ ریاستوں کے تنظیمی انتخابات مکمل ہو سکے ہیں۔ بقیہ تمام ریاستوں کے انتخابات کو مکمل کرنے میں مزید کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔ کیونکہ پارٹی کے لیڈران کی توجہ اب ہریانہ اور جموں و کشمیر کے اسمبلی  انتخابات پر ہیں اس کے بعد مہاراشٹر اور  جھارکھنڈ کا نمبر ہے۔ اسی لیے  پارٹی قیادت کی طرف سے  عبوری صدر بنانے کی تجویز پیش کی گئی  ہے۔

  لیکن ابھی تک کوئی ہلچل نظر نہیں آرہی ہے۔  نڈا  بدستور  اپنے اختیارات کا استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے  23 ریاستوں کی اکائیوں کے پربھاری(  نگران ) مقرر کیے ہیں نیز شمال مشرقی ریاستوں  کے لیے  کوآر ڈینٹر  بھی مقرر کردئے ہیں ۔ یعنی جون میں اپنی  میعاد صدارت ختم ہونے کی باوجود وہ مودی اور شاہ  کے اشارے پر  اپنے اختیارات کا استعمال کر رہے ہیں۔

 دریں اثنا پارٹی اور حکومت  میں کوئی عہدہ نہ ملنے سے ناراض سبرامینم سوامی  نے دھمکی دی ہے کہ اگر نیا صدر فوراً  منتخب نہیں کیا جاتا ہے تو وہ  عدالت  میں جائیں گے۔ سوامی  پارٹی کے اندر مودی کے سب سے بڑے ناقد کی شکل میں ابھرے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نڈا کے میعاد صدارت  میں توسیع کا کیا جانا پارٹی کے دستور کی خلاف ورز ی ہے۔ الیکشن کمیشن کو بھی ایک خط سوامی نے  اس بارے میں لکھا تھا لیکن  پورا ملک جانتا ہے کہ الیکشن کمیشن مبینہ طور پر حکومت کی مٹھی میں ہے ۔اس کی آزادانہ اور غیر جانبدرانہ حیثیت پر ہر طرف سے سوال اٹھ رہے ہیں۔ اگر وہ ایمانداری سے الیکشن کا انعقاد کرتا تو موجودہ حکومت  قصہ پارنیہ بن جاتی اور پارٹی کے متعدد لیڈران  عوامی نمائندگی قانون کے تحت انتخابی سیاست  لیے  نااہل قرار پاتے۔

 بہرحال سوامی کے خط کے  بعد دو ہفتوں کے اندر پارٹی  نے ایک قومی اجلاس طلب کرکے اپنے دستور میں ترمیم کردی۔ جس کے تحت پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ  پارٹی کے صدر کے سلسلہ میں فیصلہ کرسکتی ہے اور  ہنگامی حالات میں اس کی میعاد میں توسیع کرسکتی ہے۔  چنانچہ پارلیمانی بورڈ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ  نڈا کے عہدہ صدارت میں ایک اور توسیع کردے۔ تاہم اس کا ابھی با ضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا گیا۔  اس کی کیا وجہ ہے پارٹی کی اعلی قیادت ہی جانتی ہے۔   پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ گجرات لابی نہیں چاہتی کہ کوئی ایسا صدر بنے جو خود مختار ہو اپنے طور پر فیصلے کرسکے۔  وہ نڈا  جیسا جی حضوری کرنے والا صدر ہی چاہتی ہے۔  نڈا کو  2019 میں کارگزار صدر بنایا گیا تھا جب امت  شاہ  حکومت میں شامل ہوئے تھے۔ اس کے بعد انہیں 2020میں باضابطہ صدر مقرر کیا گیا ۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ سوائے کمیونسٹ پارٹیوں کے کسی بھی سیاسی جماعت میں داخلی جمہوریت نہیں ہے۔ سیاسی جماعت جس نے قائم کی وہ اس کی جاگیر ہوتی ہے۔ اسی لیے  یہاں جمہوریت بظاہر توانا نظر آتی ہے تاہم اندر سے پوری طرح کھوکھلی ہے۔  بی جے پی کا معاملہ تو ایک  آزاد سیاسی جماعت کا بھی نہیں ہے و ہ  بڑی حدتک اپنی مادر تنظیم کے ماتحت ہے۔  آبادی کے اعتبار سے انڈیا کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ضرور کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں مودی انڈیا کو جمہوریت کی ماں بھی کہنے لگے تھے  لیکن  ان کی خود پارٹی کا کیا حال ہے اور وہ  کتنے جمہوریت پسند ہیں اظہر من الشمس ہے۔ اس کے برعکس امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں میں کوئی بھی سیاستداں تنظیمی الیکشن لڑے بغیر اس پارٹی کا صدر نہیں بن سکتا۔