بہرائچ ضلع کے مہاراج گنج قصبے میں گذشتہ 13؍ اکتوبر کو درگا وسرجن جلوس کے دوران مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے بعد پھوٹ پڑنے والے تشدد کے واقعات کے نئے ابٍ حقائق سامنے آ رہے ہیں۔ فساد کی شروعات اس وقت ہوئی جب مسلم اکثریتی علاقے سے درگا وسرجن جلوس نکالا گیا۔ جلوس کے دوران ڈی جے پر اشتعال انگیز ی کی گئی اور مسلم مخالف نعرے لگائے گئے ۔اس دوران ہجوم نے کھلے طور سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگائے ۔ علاقے کے مسلمانوں نے جلوس میں شامل لوگوں سے ڈی جے بند کرنے کی اپیل کی ۔لیکن جب اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تو سرفراز نام کے ایک نوجوان نے ڈی جے سسٹم سے پین ڈرائیو نکال دیا ۔اس کے بعد جلوس میں شامل شر پسندوں نے ہنگامہ شروع کر دیا اور تشدد پر آمادہ ہو گئے ۔مشتعل ہجوم نے مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر حملہ کرناشروع کر دیا ۔ایسا لگ رہا تھا کہ سب کچھ پہلے سے شدہ منصوبے کے تحت ہو رہا ہے ۔معروف سماجی کارکن تیستا سیتلواڈ کی پہل پربنارس کے سینئر صحافی وجئے ونیت نے گراؤنڈ زیرو سے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کی ہے ۔’سب رنگ ‘ کی طرف سے جاری اس رپورٹ میں بہرائچ فساد سے متعلق نئے حقائق سامنے آئے ہیں ۔ رپورٹ میں بی جے پی کے لیڈران کے علاوہ پولیس کے کردار پر بھی سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں ۔رپورٹ میں اس بات پر زور دے کر کہا گہا ہے کہ پولیس نے تشدد پرآمادہ ہجوم کو روکنے یا ان کو قابو کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔چشم دید بیانات کے مطابق درگا وسرجن جلوس جب مہسی علاقے میں عبدالحمید کے مکان کے سامنے پہنچا تو اس وقت ڈی جے پر مسلمانوں کے خلاف نہایت ا ہانت آمیز گانے بجائے جا رہے تھے ۔ہجوم میںلگاتار مسلم مخالف نعرہ لگا یا جا رہا تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں میں ناراضگی پھیلی ۔ مقامی عبد الحمید کے بیٹے سرفراز احمد نے ہجوم کے اس رویے پر اعتراض کیا اور ڈی جے سسٹم سے پین ڈرائیو نکال دیا ۔اسی وقت جلوس میں شامل نوجوان رام گوپال مشر ا غصے کی حالت میں سرفراز کے مکان پر چڑھ گیا اور چھت پر لگے سبز پرچم کو پھاڑ کر اس کی جگہ بھگوا جھنڈا پھہرا دیا ۔ یہ پورا منظر ویڈیو میں قید ہے، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے۔وائرل ویڈیو میں رام گوپال مشرا کو سرفرازکے مکان کی چھت پر چڑھتے ہوئے اور بھگوا جھنڈا پھہراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ۔اس ویڈیو میں یہ بھی نظر آرہا ہے کہ بھگوا جھنڈا پھہرانے کے بعد رام گوپال مشرا نے چھت کی ریلنگ کو دھکے مار کر گرا دیا ۔ اسی دوران کہیں سے گولی چلی جو رام گوپال مشرا کو لگی ۔اس کی موقع پر بھی موت واقع ہو گئی ۔اس واقعے کے بعد تشدد پر آمادہ ہجوم نے مسلمانوں کے گھروں اور ان کی دکانوں کو نشانہ بنایا شروع کر دیا ۔مہسی اور مہاراج گنج علاقے میں مسلمانوں کے دکانوں کو لوٹا گیا اور ان کو آگ لگا دی گئی ۔اس میں کئی بڑے شو روم اور بڑی دکانیں شامل ہیں ۔انتظامیہ نے پورے بہرائچ ضلع میں انٹر نیٹ سروس معطل کر دی اور مسلمانوں کی دھر پکڑ شروع ہو گئی ۔
17؍اکتوبر کو پولیس نے سرفراز احمد اور محمد طالب کو ایک انکاؤنٹر کے دوران دونوں پیروں پر گولی مار کر گرفتار کر لیا۔شدید طور سے زخمی سرفراز اور طالب کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ۔اس انکاؤنٹر کے بارے میں پولیس کا وہی رٹا رٹا یا بیان سامنے آیا جو ایسے موقع پر میڈیاکے لیے جاری کیا جا تا ہے ۔ رام گوپال مشرا کی موت کے بعد افواہوں کا بازا رگرم ہو گیا ۔گرچے بہرائچ میں انٹر نیٹ سروس بند کر دی گئی تھی لیکن اس کے با وجود بہت منظم طریقے سے ایسی افواہیں پھلائی گئیں کہ جس سے مسلمانوں کے خلاف جذبات کو بھڑکایاجا سکے ۔ افواہوں کے ذریعے یہ بات پھیلائی گئی کہ رام گوپال مشرا پر تشدد کرکے مارا گیا ہے ۔ اس کو کرنٹ لگائے گئے اور اس کے ناخن اکھاڑے گئے۔کئی دنوں تک چلی ان افواہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد کی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا ۔لیکن پولیس نے ان افواہوں کو روکنے اور اس کو پھیلانے والوں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی ۔بہرائچ ضلع کے چیف میڈیکل افسر کی طرف سے جاری رام گوپال مشرا کی پوسٹ پارٹم رپورٹ نے افواہوں کی شدت میں کمی لانے میں اہم کردار ادا کیا ۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ رام گوپال مشرا کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے ۔پی ایم رپورٹ میں کہا گیا کہ رام گوپال کو نہ تو کرنٹ لگا کر مارا گیا اور نہ ہی اس کے ناخن اکھاڑے گئے ۔پولیس اعلیٰ افسران نے بھی پوسٹ مارٹم رپورٹ کی تصدیق کی اور یہ تسلیم کیا کہ رام گوپال مشرا کی موت گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی ۔
بہرائچ مسلم مخالف فساد کے دوران پولیس کا کردار جانب دارانہ بلکہ مشتعل ہجوم کو مدد پہنچانے والا بھی تھا۔اس ضمن میں ’سب رنگ‘ کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں نیوز پورٹل ’’ بھاسکر ‘‘ کا حوالہ خصوصی طور پر دیا گیا ہے ۔نیوز پورٹل بھاسکر نے بہرائچ فساد پر ایک اسٹنگ آپریشن کیا تھا ۔اسٹنگ آپریشن میں جلوس میں شامل دو نوجوانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے ان کو تشدد کرنے کے لیے دو گھنٹے کی چھوٹ دی تھی ۔اسٹنگ آپریشن میں فساد میں شامل دو نوجوانوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے ان کو تشدد کو بھڑکانے کے لیے دو گھنٹے کا وقت دیا تھا۔تشدد کے دوران قیمتی گاڑیوں کو جلایا گیا اور دکانوں کو آگ لگائی گئی۔اس دوران پولیس متاثرہ علاقے سے ہٹ گئی تھی ۔دونوں نوجوانوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر کچھ لوگ موقع پر غداری نہ کرتے تو پورا بازار جل کر راکھ ہو جاتا ۔فساد کے دوران مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایاگیا ۔گھروں سے باہر کھڑی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی ۔ اس غارت گری میں سب سے بڑا نقصان ہیرو بائک کے شوروم کا ہوا ۔ شوروم میں کھڑی 35؍ بائک کو شر پسندوں نے آگ لگا کر راکھ میں تبدیل کر دیا ۔مہسی اور مہراج گنج علاقے کے مسلمانوں کی بڑی دکانوں اور ان کے کاروبار کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا ۔ اس فساد میں مسلمانوں کو اقتصادی طور پر تباہ کرنے کی منظم کارروائی کی گئی تھی ۔ تشدد اور لوٹ پاٹ کے بعد پولیس نے ایک طرفہ طور سے مسلمانوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے ۔ پولیس اب تک ایک سو سے زائد افراد کو گرفتار کر چکی ہے ۔اس میں انکاؤنٹر کا شکار سرفراز ، ان کے والد عبد الحمید ، محمد طالب ، فہیم اور ساحر خان کے نام شامل ہیں ۔پولیس ان کو فساد اور تشدد بھڑکانے کا ماسٹر مائنڈ کے طور پر پیش کر رہی ہے ۔پولیس کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے ان کی شناخت سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے کی گئی ہے ۔ سب رنگ کی جانب سے جاری فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں پولیس کے کردار پر سنگین سوال اٹھائے گئے ہیں ۔مقامی لوگوں کے مطاق مشتعل ہجوم جب توڑ پھوڑ اور آگ زنی میں مصروف تھا اس وقت علاقے سے پولیس ہٹ گئی تھی ۔گویا پولیس کی جانب سے فسادیوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی ۔یہی نہیں فساد کے دوران ضلع کے ایس ایس پی پوتر موہن ترپاٹھی بھی منظر عام سے غائب ہو گئے تھے ۔
تقریباً ایک ماہ گذرجانے کے بعد بھی مہاراج گنج میں ابھی تک حالات معمول پر نہیں آ سکے ہیں ۔مسلمانوں میں خوف کا یہ عالم ہے کہ وہ ابھی تک اپنی معمول کی زندگی شروع نہیں کر پائے ہیں ۔ان کی دکانیں جلا دی گئی ہیں اور کاروبار بند پڑے ہیں ۔مہسی تحصیل کی رام پور
چوکی ، بھگوان پور ، واجپائی پور اور منصور گنج جانے والے تمام راستوں کی پولیس نے بیری کیٹنگ کر رکھی ہے ۔ راستے سے گذرنے والے لوگوں سے سخت پوچھ گچھ کی جارہی ہے اور مشتبہ افراد سے شناختی کا رڈ طلب کئے جا رہے ہیں ۔پور علاقے میں خوف اور غیر یقینی کا ماحول ہے ۔فساد کے بعد علاقے میں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو بلڈوز کئے جانے کا خطرہ منڈرا رہا ہے ۔انتظامیہ نے متعدد دکانوں اور مکانوں پر منہدم کرنے کا نوٹس چسپاں کر دیا ہے ۔حکومت کی اس کارروائی کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی گئی ہے ۔ہائی کورٹ نے فی الحال انہدام کی کارروائی پر 11؍ نومبر تک کی روک لگا دی ہے ۔لیکن عدالت سے ماورا ریاستی حکومت نے غیر قانونی قبضہ ہٹانے کے نام پر مسلم علاقے کے بعض مکانوں کو منہدم کرنے کا نوٹس چسپاں کر دیا ہے ۔نوٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ غیر قانونی طور سے تعمیر کیا گیا ہے ۔فساد کے بعد علاقے میں کئی تھانوں کی پولیس رات میں مسلمانوں کے گھروں پر چھاپے مار رہی ہے۔پولیس ان افراد کو تلاش کر رہی ہے جن کے نام ایف آئی آر میں درج ہیں ۔پولیس کی اس کارروائی سے علاقے کے لوگوں میں خوف کا ماحول ہے۔ مہاراج گنج میں کئی خاندان اپنے مکان چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں ۔دکانیں اور کاروبار بند ہیں صرف مہاراج گنج میں ہی نہیں بلکہ آس پاس کے گاؤں میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
بہرائچ مسلم مخالف فساد میں مقامی پولیس اور حکمراں بی جے پی کی ساٹھ گانٹھ بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے ۔ اس معاملے میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب مہسی ودھان سبھا سے بی جے پی کے ایم ایل اے سریشور سنگھ نے بھاجپایووا مورچہ کے مقامی صدر ارپت سریواستو اور پنڈریک پانڈے سمیت سات دیگر افراد کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر درج کرائی ۔بھاجپا ایم ایل اے سریشور سنگھ نے ایف آئی آر میں الزام لگایا ہے کہ رام گوپال مشرا کو گولی لگنے کے بعد جب بی جے پی کارکنان لاش لیکر اسپتال کے باہر احتجاج کر رہے تھے تو وہ بی جے پی کارکنان کو سمجھانے بجھانے گئے تھے ۔لیکن اس وقت ارپت سری واستو اور پنڈریک پانڈے نے اپنے حامیوں کے ساتھ ان پر قاتلانہ حملہ کر دیا ۔بی جے پی ایم ایل اے سریشور سنگھ کی طرف سے درج کرائی گئی اس ایف آئی آر کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ۔عرضی میں عدالت سے مانگ کی گئی کہ درج کی آگئی ایف آئی آر کو منسوخ کر دیا جائے ۔عدالت نے سماعت کے بعد ارپت سری واستو اور دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر کو رد کرنے سے انکار کور دیا ۔بہرائچ فساد پر یو پی کی ایوزیشن پارٹیوں کا رد عمل بھی مایوس کن رہا ہے۔کانگریس اور سماج وادی پارٹیوں نے زبانی جمع خرچ علاوہ ابھی تک کچھ نہیں کیا ہے ۔ دونوں سیاسی پارٹیوں نے بہرائچ فساد کی رسمی مذمت کی ہے ۔ کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے بہرائچ فساد کے لیے یوگی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور پولیس کے کردار پر اپنے سوال کھڑے کئے ہیں ۔