ملک کے مشہورر وکیل کپل سبل اور سابق مرکزی وزیر خارجہ یشونت سنہا کے درمیان گفتگو کاایک حصہ ان دنوں خوب وائرل ہورہا ہے۔جس میں ’’آپریشن سندور‘‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے گفتگو ہورہی ہے۔کپل سبل مرکزی حکومت سے متعلق کہتے ہیں کہ ’’آپ نے پاکستان پر بھی حملہ کردیا، پاکستان کو سبق بھی سکھادیااور گودی میڈیا بھی آپ کے ساتھ ہے مگر اس سے فائدہ کیا ہوا؟‘‘ اس کے جواب میں سابق مرکزی وزیریشونت سنہا جو بی جے پی سے کئی دہائیوں تک وابستہ رہ چکے ہیں کہتے ہیں کہ’’ آپ بھول گئے بہار اسمبلی انتخابات آرہے ہیں۔” یشونت سنہاکہتے ہیں کہ ماضی میں بھی پلوامہ اور اوڑی میں دہشت گردنہ حملے کے بعدسیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ پہلگام دہشت گردانہ حملہ اورآپریشن سندور کے بعد بھی سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے بی جے پی اور وزیر اعظم کی ریلی ، جلسہ جلوس اور روڈ شوکررہے ہیں ۔
پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد جب پورا ملک سکتے کی حالت میں تھا۔وزیر اعظم مودی سعودی عرب کا دورہ درمیان میں ہی چھوڑ کر بھارت آگئے مگر انہوں نے زخمیوں کی عیادت اور زمینی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئےکشمیر کا دورہ کرنے کے بجائے حملے کے محض 48, گھنٹے بعد ہی بہار کے مدھوبنی ضلع کے جھنجھار پور میں ریلی سے خطاب کرنےکو ترجیح دی۔گرچہ اس ریلی میں سیاسی بیان بازی کے ساتھ پاکستان کو سخت پیغام بھی دیا گیا مگر وہ ایک سیاسی ریلی تھی۔ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک کے حالات اورحملے کے متاثرین کے ساتھ یکجہتی کی خاطرسیاسی جماعتوں نے اپنی تمام سیاسی پروگرام ملتوی کردئیے تھے۔ وقف ترمیمی قوانین 2025 جس میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو سلب کیا گیا، کے خلاف مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں نے بھی اپنے احتجاجی پروگرام کو معطل کردیا، مگر ملک کی حکمراں جماعت کے لئے بہار اسمبلی انتخابات کی تیاریاں اہم تھیں اور انہوں نے اس کو ترجیح دی۔ ماضی کے برخلاف اس مرتبہ یہ سوال بڑے پیمانے پر اٹھائے گئے کہ مودی کے لئے ملک زیادہ اہم ہے یا پھر بہار اسمبلی انتخابات۔
پہلگام دہشت گردانہ حملہ، آپریشن سندوراور ذات کی بنیاد پر سروے کے فیصلے کی بنیاد پر کئی تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کی رائے ہے کہ اس وقت بہار اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے اتحاد کے حق میں فضا ہموار ہے۔نیشنل ازم اور ذات کی بنیاد پر سروے کے فیصلہ نے این ڈی اے کو تقریباً اقتدار تک پہنچادیا ہے۔ راشٹریہ جنتا دل کی قیادت والے اتحاد کے لئے اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہے۔ دراصل 1999میں کارگل جنگ اور 2019میں پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے بعد لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے تناظرمیں ان سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے کس حد تک درست ہے، اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
1999 اور 2019 کے بعد ہوئے لوک سبھا انتخابات میں حکمران نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کوقوم پرستی کا بھرپور فائدہ ملا تھا، وہ بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپسی ہوا۔
تاہم یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ 1999میں اتر پردیش میں جو فوج کو سب سے زیادہ نوجوان فراہم کرنے والی ریاست تھی، وہاں بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد 57سے گھٹ کر 29 ہوگئی۔جب کہ غیر منقسم بہار میں، این ڈی اے نے 54 میں سے 41 سیٹیں جیت کر بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیاتھا۔اسی طرح 2019میں بالاکوٹ حملے کے بعد عام انتخابات میں، بہار میں این ڈی اے نے 40 پارلیمانی حلقوں میں سے 39 پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے کلین سویپ کیا تھا۔ لیکن اتر پردیش میں، اس کی تعداد 2014 میں 73 سے گھٹ کر 64 پر چلی گئی، جس کی بڑی وجہ سماج وادی پارٹی-بہوجن سماج پارٹی اتحاد تھا۔ دونوں نے مجموعی طور پر 15 سیٹیں جیتیں۔ تاہم 1999میں لوک سبھا انتخابات کےمحض چھ مہینے بعدفروری2000 میں ملک کی چار ریاستوں بہار ، ہریانہ، اڈیشہ اور منی پور میں اسمبلی انتخابات ہوئے ان چاروں ریاستوں میں نیشنل ازم اور جموں وکشمیر کے بلند و بالا پہاڑوں میں دو ماہ تک جاری رہنے والی کارگل جنگ میں فتح یابی کے ایشوز کی جگہ مقامی ایشوز حاوی رہے۔ ہریانہ و اڈیشہ میں بالترتیب انڈین نیشنل لوک دل اور بیجو جنتا دل، جو اس وقت این ڈی اے اتحادی تھے، اقتدار میں آئے اور منی پور میں کانگریس نے جیت درج کی۔ بہار میں راشٹریہ جنتا دل ایک بار پھر سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری اور کانگریس و دیگر چھوٹی جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں نیشنل ازم اور قومی ایشوز کی بنیاد پر ووٹ ہوتا ہے مگر اسمبلی انتخابات میں بالخصوص بہار میں مقامی ایشوز اور سوشل انجینئرنگ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے 1999اور 2019جیسے حالات اس وقت ملک میں نہیں ہیں۔بالاکوٹ حملے کے بعد مودی ایک ایسی شخصیت بن کر ابھرے تھے جن کے نیشنل ازم پر سوالات کھڑے نہیں کئے جاسکتے تھے۔ ان کی مقبولیت کی ہوا چل رہی تھی مگر پہلگام حملے کے بعدمودی کی کارکردگی اور نیت دونوں پر سوالات کھڑے کئے جارہے ہیں۔پہلگام حملے کے بعد یہ سوالات پوچھے جارہے ہیں کہ سیکورٹی فورسز کہاں تھیں۔ بین الاقوامی سرحد اور لائن آف کنٹرول سے پہلگام کا سوپیان مید ان 400 کلومیٹر دور ہے، دہشت گرد کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے۔سیکورٹی میں خامیوں کی ذمہ داری کس کی ہے۔جموں و کشمیر کی سیکورٹی براہ راست مرکز کے زیر کنٹرول ہے تو پھر وزیر داخلہ امیت شاہ کو اس ناکامی کی ذمہ داری کیوں نہیں لینی چاہیے؟۔ آپریشن سندور اور اچانک جنگ بندی کا اعلان بھی سوالوں کی زد میں ہے۔ ہند۔پاک تنازع کے درمیان اچانک امریکہ کی دخل اندازی کیوں ہوئی؟امریکہ کے اشارے پر جنگ بندی کیوں کی گئی۔ اگر امریکہ کا کوئی کردار نہیں تھا تو پھر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس اوروزیر خارجہ مارک پیو نے جنگ بندی کا کریڈٹ کیوں لیا۔ ٹرمپ تسلسل کے ساتھ اپنے اس دعوے پر کیوں قائم ہیں ۔غز ہ اور یوکرین میں جنگ بندی کرانے میں ناکام ٹرمپ دنیا کو کیوں بتارہے ہیں کہ ان کے سخت رویے کی وجہ سے دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتیں جنگ بندی کےلئے آمادہ ہوئیں۔ ٹرمپ نے تو مسئلہ کشمیر کو ایک بارپھرزندہ کردیا۔ انہو ں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کے لئے وہ ثالثی کے لئے تیار ہیں۔ جب کہ مودی حکومت کا زعم تھا کہ دفعہ 370کی منسوخی کے بعد مسئلہ کشمیر کا ایشو ہمیشہ ہمیش کےلئے ختم ہوگیا۔ اس لئے یہ سوال اب کافی اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ کیا اس بار بی جے پی 2025 کا اسمبلی انتخاب بھی ’’نیشنل ازم ، دہشت گردی اور ذاتی سروے ‘‘ کے نام پر جیت پائے گی؟ کیا نتیش کمار کی 20سالہ حکومت کےخلا ف لہر اور عوامی ناراضگی پر قوم پرستی کا نعرہ غالب آجائے گا؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا بہار کی سیاست اس قدر آسان ہے کہ قومی ایشوز کی بنیاد پر انتخابات جیتے جاسکتے ہیں، جب کہ بہارسے متعلق مشہور ہے کہ یہاں انتخابات میں ذات پات اور سوشل انجینئرنگ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ کیا راشٹریہ جنتادل اور کانگریس کے ساتھ صرف یادو اور مسلم ووٹ ہی ہیں اور باقی تمام ذاتیں بی جے پی اور جنتادل یو اتحاد کے ساتھ ہیں؟۔ کیا بہار کے 17فیصد مسلم ووٹرس کی بڑی تعداد اس مرتبہ بھی جنتال دیو کے حق میں جائے گی؟یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ نتیش کماراور جنتادل یو بہارکے ووٹروں کو فریب دیتی رہی ہے کہ بی جے پی اتحاد کے باوجود وہ اپنے سیکولر نظریہ پر قائم ہیں۔ ظاہر ہےکہ یہ فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ وقف قوانین میں ترمیم اور اس پر جنتادل یو کے موقف نے نتیش کمار کے سیکولرکردارکو مکمل طور پر بے نقاب کردیا ہے۔ اس مرتبہ بہار کےمسلم ووٹروں میں ناراضگی اس قدر شدید ہے کہ جنتادل یو کے مسلم لیڈرس عوام کا سامناکرنے سے کترار رہے ہیں۔ تاہم سیمانچل کشن گنج ، کٹیہار ،پورنیہ اور ارریہ جہاں مسلمانوں کی آبادی اوسطاًَ 44فیصد کے قریب ہے، اسدالد ین اویسی کی جماعت ایم آئی ایم کی مضبوط پکڑ کی وجہ سےمسلم ووٹرس کی تقسیم کا این ڈے اے کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ تاہم پہلگام حملے کے بعد اسدالدین اویسی کے بیانات اور اب بیرون ممالک میں بھارت کی نمائندگی نے اسدالدین اویسی کی شبیہ تبدیل کردی ہے۔ وہ بیرون ممالک بھارت کی نمائندگی کرتے وقت مسلمانوں کے ساتھ جاری مظالم کی پردہ پوشی بھی کررہے ہیں۔ایسے میں یہ سوال بھی لازمی ہے کہ راشٹریہ جنتادل اور مہا گٹھ بندھن کو اویسی سے اتحاد سے گریز کیوں ہے؟۔ اگر اویسی کی پارٹی کو2020کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر مہا گٹھ بندھن تین سے چار سیٹیں دیتی ہے تو سیمانچل میں این ڈی اے اتحاد کی شکست یقینی ہے۔
2014میں لوک سبھا انتخابات میں مودی راشٹروادکے نام پر ملک کے نجات دہندہ کے طور پر ابھرکر سامنے آئے تھے مگر ان کی کرشماتی شخصیت کا جادو 2015 بہار اسمبلی انتخابات میں نہیں چل سکا۔ چوں کہ نتیش کمار ان کے ساتھ نہیں تھے اس لئے وہ اقتدارمیں تو نہیں آئی تاہم سیٹوں کی بنیاد پر ریاست کی تیسری بڑی پارٹی بن گئی۔ 2019 میں راشٹرواد کے نا م پر لوک سبھا انتخابات میں شاندار کامیابی درج کرنے والا این ڈی اےاتحاد 2020کے اسمبلی انتخاب میں ناتجربہ کار تیجسوی یادوکے سامنے پست ہوگیا۔نتیش کمار کی سیٹیں بہت کم ہوگئیں اور بہار کی سب سے بڑی پارٹی کا خواب بھی بی جے پی کا پورا نہیں کرسکی۔معمولی فرق کے ساتھ این ڈی اے اقتدار میں پہنچ گئی۔ کانگریس مکمل طور پر اس وقت مایوسی کے دور سے گزررہی تھی۔ تاہم 2020کے مقابلے اس وقت مہا گٹھ بندھن اتحاد انتہائی مضبوط ہے۔ راشٹریہ جنتادل، کمیونسٹ جماعتیں، کانگریس، ملاحوں کی جماعت وی آئی پی ، پارس پاسوان کی جماعت کا اتحاد ہے۔ کئی سیاسی تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ ہندی ریاستوں کے مقابلے میں بہار میں اگر فرقہ پرستی عروج پر نہیں پہنچی ہے تو اس کے پیچھے زمینی سطح پر راشٹریہ جنتا دل اور کمیونسٹ نظریات کی مضبوط پکڑ ہے۔ انتخابی سیاست میں کمیونسٹ جماعتیں بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرپاتی ہیں مگر آر ایس ایس بیانیہ کا زمینی سطح پر نہ صرف مضبوط مقابلہ کرتی ہے بلکہ سماجی انصاف اور مساوات کے بیانیہ کو فوقیت دیتی ہیں۔ اس لئے بہار اسمبلی انتخابات میں نیشنل ازم ، ترنگا یاترا اور سندور مہم پر بی جے پی کو خودبھی زیادہ بھروسہ نہیں ہے۔ چنانچہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے آٹھ دن بعد، جب قوم، حزب اختلاف اور یہاں تک کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے کیڈرس بھی دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی توقع کر رہے تھے، نریندر مودی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ ذات پات کی مردم شماری کرائے گی۔ اس اچانک فیصلے نے ملک کو حیران کردیا۔ یہ سوال کیا جانے لگا کہ اس ماحول میں وزیر اعظم کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے سیاسی امور (سی سی پی اے) کا اجلاس اتنی فوری طور پر کیوں کرایا گیا؟۔ دراصل بی جے پی کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ پہلگام حملے کے بعد وہ سوالوں کی زد پر آجائے گی۔ اس لئے وہ اس فیصلہ پر مجبور ہوئی جس کی وہ مخالفت کرتی رہی تھی اور جو
آرایس ایس کی بنیادی سوچ کے خلاف تھا۔ذات پات سرو ے کا ایجنڈا دراصل سوشلسٹ پارٹیوں کا رہا ہے۔سماجوادی اور راشٹریہ جنتادل جیسی سیاسی جماعتیں اس ایجنڈے کو آگے بڑھارہی تھیں مگرراہل گاندھی نے ذات پات کی مردم شماری کو اپنے سیاسی ایجنڈے کی بنیادبناکراس مطالبہ کو قومی سطح پر وسعت دیدی۔ اور اسے کانگریس و سوشلسٹ پارٹیوں کے سماجی انصاف کے مطالبات کے ساتھ ہم آہنگ کردیا۔ سنگھ پریوار بشمول مودی، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ذات پات کی مردم شماری کی شدید مخالف رہے ہیں۔ جب تیجسوی یادو اور کانگریس کی حمایت یافتہ نتیش کمار حکومت نے 2023 میں بہار میں ذات پات کا سروے کرانے کا فیصلہ کیا تو مودی نے اسے ہندو سماج کو ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا پاپ (گناہ) قرار دیا تھا ۔ بی جے پی کے حمایت یافتہ وکلاء نے اس سروے کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور حکومت کی ملازمتوں میں پسماندہ طبقات کے کوٹہ کو 65 فیصد تک بڑھانے کے فیصلے کی بھی مخالفت کی۔ پہلگام حملے کے بعد کشمیریوں کی کشمیریت جو انسانیت سے ماخوذ ہے اور ملک بھر میں مسلمانوں کا یک زبان اس حملے کی شدید مذمت نے حملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کو ناکام بنادیا ۔نام پوچھ کر مارے جانے کو میڈیا کے ذریعہ بہت ہی تقویت دی گئی مگر کشمیریت اور انسانیت نےاس مہم کو بھی ناکام بنادیا، تب بی جے پی حکومت نے ذات پر مبنی سروے کرانے کا فیصلہ کیا۔ جب کہ ذات پات کی مردم شماری کا مقصد ملازمتوں اور حکمرانی میں پسماندہ برادریوں کے لیے متناسب نمائندگی کو یقینی بنانا ہے۔ بی جے پی تاریخی طور پر سماجی انصاف کے ایجنڈے کی مخالف رہی ہے۔وی پی سنگھ، جن کو جنتا پریوار کی پارٹیوں جیسے لالو پرساد یادو اور ملائم سنگھ یادو کی حمایت حاصل تھی، نے 1990 میں منڈل کمیشن کے 27 فیصد او بی سی کوٹے کو نافذ کیا تھا تب بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی نے ’’منڈل بمقابلہ کمنڈل‘‘ کی تقسیم کو جنم دیتے ہوئے رام رتھ یاترا کا آغاز کیا۔ 34 سالوں سے بی جے پی نے سماجی انصاف کی جماعتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مذہبی موضوعات رام، ایودھیا، متھرا، کاشی، سنبھل، اورنگ زیب، بابر کا استعمال کیا ہے۔آرجے ڈی کے سینئر لیڈر شیوانند تیواری نےذات پر مبنی سروے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا ا کاؤنٹ پر لکھا ہے کہ ’’ہندتوا کے حامی، جو پہلگام حملے کو فرقہ وارانہ الفاظ میں ڈھال رہے تھے اور اسے مسلمانوں سے جوڑ رہے تھے نیز اپوزیشن پر ذات پات کی تقسیم کو ہوا دینے کا الزام لگا رہے تھے اور انہیں پاکستان کے حامی بتارہے تھے ۔مگر اس میں جب انہیں ناکامی ہاتھ لگی تو ذات پر سروے کرانے کا فیصلہ کیا ۔وزیر اعظم کے طور پر ایک دہائی سے زائد عرصے میں یہ پہلا موقع ہے کہ مودی نے اپوزیشن کے ایجنڈے کو اپنایا ہے‘‘۔ مگر سوال یہ ہے کہ بہار میں ذات کی بنیاد پر سروےپہلے بھی ہوچکے۔ کیا جس کی جتنی حصہ داری اس کی اتنی نمائندگی کے مطالبہ کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی اور سوالات ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔کیا مودی ریزرویشن کی حد کو بڑھانے کے لئے تیار ہیں؟۔ کیا این ڈی اے چراغ پاسوان کی ناراضگی مول لے کر دلتوں کی چھٹ ذاتوں کے لئے سب کوٹہ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔یہ وہ سوالات ہے جواین ڈی اے کو پریشان کررہے ہیں ۔دوسرے یہ کہ بہار کی 10فیصد اعلیٰ ذاتیں بھی مودی کے اس فیصلے سے مایوس ہیں ۔ان کے لئے این ڈی اے کو غیر مشروط حمایت فراہم کرنا اب مشکل ہوگیا ہے۔ نتیش کمار کی شخصیت این ڈی اے کا اثاثہ ہوا کرتی تھی۔مگر بگڑتی ہوئی صحت، ذہنی توازن میں گراوٹ نے نتیش کمار کی معتبریت پر سوالیہ نشان لگادیاہے۔نتیش کمار کی قیادت میں انتخاب لڑنے کی بات تو کی جارہی ہے مگر نتائج کے بعد نتیش کمار ہی وزیر اعلیٰ ہوں گے، بی جے پی اس کا یقین نہیں دلا پا رہی ہے۔ ظاہر ہے ان سب کا فائدہ آرجے ڈی کو ہی ہوگا۔ کانگریس نے چراغ پاسوان اور جتن رام مانجھی کے دلت ووٹ کی سیاست کو چھیننے کی بھر پور کوشش کی ہے۔کنہیاکمار کی یاترا نے بہار کے نوجوانوں میں تلاش معاش کے لیے بیرون ممالک اور دوسری ریاستوں کو بڑا ایشو بناکر نوجوانوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ہیومن ڈیولپمنٹ کے معاملے میں بہار آج بھی بہت پیچھے ہے۔تعلیم کی صورت انتہائی خراب ہے اور اسکول ویران ہیں ۔نتیش کمار کے ترقیاتی چہرے کو جہاں تیجسوی یادو، کنہیا کمار چیلنج کررہے ہیں، وہیں بہار میں جن سوراج کی شکل میں پرشانت کشور کی موجودگی نے تمام سیاسی جماعتوں کے حساب کتاب کو بگاڑدیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بہار میں نیشنل ازم،فرقہ پرستی،سوشل انجینئرنگ کی سیاست کامیاب ہوگی یا پھرسماجی انصاف، بہار سے ہجرت، روزگار ، تعلیمی و معاشی بدحالی کا ایشو حاوی رہے گا۔تاہم یہ بات طے ہے کہ اگر بہار کے مسلمانوں نے سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا تو موقع پرست نتیش کمار کی وداعی طے ہے۔