بھارت میں خواتین سافٹ ٹارگیٹ کیوں ؟

اکتوبر 2024

نور اللہ جاوید

9اگست کو کلکتہ کے آرجی کار میڈیکل کالج و اسپتال میں ایک جونیئر خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کے واقعہ کودو ماہ مکمل ہوچکے ہیں مگر اس کی گونج ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ مغربی بنگال میں جونیئر ڈاکٹرس احتجاج اور بھوک ہڑتال کررہے ہیں ان کی حمایت میں ہرروز سیکڑوں افراد سڑکوں پر جمع ہوکر انصاف کی گہار لگاتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ دو ماہ کے بعد بھی ملک کی سب سے بڑی جانچ ایجنسی سی بی آئی خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کے معاملے کی جانچ مکمل نہیں کرسکی ہے۔

بہیمانہ عصمت دری کا یہ واقعہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی اتنے سخت رد عمل کے بعد بھی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رک گئے ہی بلکہ آئے دن اس طرح کی خبروں کے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔آرجی کار میڈیکل کالج و اسپتال میں خاتون ڈاکٹر کے ساتھ عصمت دری اور قتل کے واقعے کو لے کر جب ہنگامہ آرائی جاری تھی تو اسی دوران دہرادون میں ایک مسلم نرس کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا مگر اس واقعے پر سول سوسائٹی کا ضمیر نہیں جاگا ۔اسی طرح انہی دنوں بہار میں ایک نابالغ دلت لڑکی کے ساتھ گاؤں والوں کے ذریعہ اجتماعی عصمت دری کا واقعہ پیش آیا مگر موخرالذکر دوونوں واقعات اخبارات کی سرخیوں میں جگہ نہیں پاسکے ۔تاہم کلکتہ میں آرجی کار میڈیکل کالج و اسپتال کا واقعہ سماج میں ارتعاش پیدا کرنے میں ضرورکامیاب رہا۔اس واقعے نے کئی سوالات کھڑے کئے ہیں جس کا جواب آج بھی نہ سماج کے پاس ہے اور نہ ہی حکومت کوئی جواب دینے کے لیے تیار ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر کام کی جگہ پر خواتین محفوظ کیوں نہیں ہیں؟

حال ہی میں ای وائی(EY) نامی ایک کارپوریٹ کمپنی میں ایک خاتون عملہ کام کی زیادتی کی وجہ سے موت کے آغوش میں چلی گئی۔روشن خیالی ، لبرل ازم کا ڈھونڈورا پیٹنے والے سماج میں خواتین کی صورت حال کیا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاتا ہے کہ ملیالم فلم انڈسٹری میں خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی سے متعلق کوہیما کمیشن کی رپورٹ میں حیرت انگیز انکشافات کئے گئے ہیں ۔کوہیما کمیشن کی رپورٹ نے سفید پوشوں کے اصل چہروں کو بے نقاب کردیا ہے۔یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ خواتین کی آزادی، مساوات  اور انصاف کا نعرہ مستانہ بلندکرنے والوں نے خواتین  کو کس طرح جنسی تلذذ، خواہش نفسانی کی تکمیل کا ذریعہ بنادیا ہے۔یہ صورت حال صرف ملیالم فلم انڈسٹری کی نہیں ہے بلکہ تیلگو ، ٹالی ووڈ ، تمل اور بالی ووڈ سے بھی جنسی ہراسانی کی شکار ہونے والی خواتین نے آواز بلند کررہی ہیں کہ اس طرح جانچ کمیشن ان کے یہاں بھی قائم کئے جائیں ۔

چھ سال قبل ’’می ٹوی مہم‘‘ کے تحت کئی خواتین صحافیوں نے اپنی درد ناک کہانیاں عوام کے سامنے لائیں تھیں ۔شاید یہ واقعہ سبھی کو یاد ہی ہوگا کہ مین ہیٹن کے ایک مہنگے ہوٹل میں ایک بے لباس سفید فام شخص ہوٹل کے کوریڈور میں ایک پناہ گزیں سیاہ فام نوجوان خاتون کے پیچھے دوڑتے ہوئے پایا گیا تھا۔وہ اس لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتاتھا۔وہ سفید فام کوئی معمولی انسانی یا پھر بگڑیل دولت مندنہیں بلکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ IMF کاڈائریکٹر تھا، وہ فرانس کا بااثرسیاست دان بھی تھا اور ہوٹل کی 32سالہ ملازمہ کا تعلق گنی سے تھا جو فرانس کی نوآبادی رہ چکا ہے۔ قانون کی حکمرانی کی سرفہرست رہنے والے ممالک میں شامل فرانس نے آئی ایم ایف کے سربراہ کے خلاف زنابالجبر اور جنسی تشدد کے الزامات ختم کر دیے گئے مگر اس کو اپنی اس حرکت کی قیمت تو چکانا پڑی ۔آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا اور ہوٹل کی ملازمہ کو بھاری جرمانہ بھی دینا پڑا۔

جب اعلیٰ تعلیم یافتہ ، حقوق سے باخبر خواتین کام کی جگہوں پر محفوظ نہیں ہیں تو پھر عام خواتین کو کن مشکلات اور پریشانیوںکا سامنا ہے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2022 میں ہندوستان میں خواتین کے خلاف جرائم میں 4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ہر پندرہ منٹ میں ایک خاتون کو جنسی زیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے۔این سی آر بی کی رپورٹ میں خواتین کے خلاف رپورٹ ہونے والے جرائم میں خاطر خواہ اضافے کی تفصیل دی گئی ہے جو 2020 میں تین لاکھ71ہزار 503   کیسز سے بڑھ کر 2022 میں4 لاکھ 45ہزار 256کیسز تک پہنچ گئے۔رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ تعزیرات ہند (آئی پی سی) کے تحت خواتین کے خلاف جرائم کا ایک بڑا تناسب شوہر یا اس کے رشتہ داروں کی طرف سے ظلم (31.4 فیصد)خواتین کا اغوا (19.2) فیصد خواتین پر حملہ شامل ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملک میں جہیز کے امتناع ایکٹ کے تحت13,479مقدمات درج کیے گئے۔36 ریاستوں، مرکز کے زیر انتظام علاقوں، اور مرکزی ایجنسیوں سے جمع کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر، ’’بھارت میں جرائم 22‘‘کے عنوان سے رپورٹ قانون سازوں، حکومتوں اورپالیسی سازوں کے لیے اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔تاہم این سی آر بی کی رپورٹ جولائی اور اگست میں جاری کی جاتی ہےمگر کافی تاخیر کے ساتھ رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔رپورٹ میں کمزور آبادی کے خلاف جرائم میں خطرناک اضافے سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔2018میں تھامس رائٹرس فاؤنڈیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ خواتین کیلئے بھارت دنیا کے خطرناک ممالک میں سے ایک ہے۔اس سروے میں 548 ماہرین سے چھ مختلف اشاریوں  صحت کی دیکھ بھال، امتیازی سلوک، ثقافتی روایات، جنسی اور غیر جنسی تشدد، اور انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے سوالات کئے گئے تھے ۔گرچہ اس رپورٹ کو بھارتی حکومت نے سختی سے رد کردیا تھا مگر اس رپورٹ میں جوسوالات اٹھائے گئے تھے وہ انتہائی اہم تھے۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ خواتین آسان ٹارگٹ کیوں ہیں اور ملک کو خواتین کیلئے محفوظ کیسے بنایا جائے ۔ظاہر ہے کہ اس سوال کا کوئی ایک سطری جواب نہیں ہے بلکہ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔آرجی کار میڈیکل کالج و اسپتال میں عصمت دری کے واقعے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ملک بھر کے اسپتالوں میں خواتین کیلئے علاحد ہ بیت الخلا کے انتظامات شاذ و نادر ہی ہیں۔خواتین ڈاکٹر س کےآرام کیلئے علاحدہ کمرے نہیں ہیں ۔بیشتر اسپتالوں میں سی سی ٹی وی نہیں ہیں۔یہ صورت حال حکومت کی خواتین کی سیکورٹی کے تئیں سنجیدگی اور حساسیت کو واضح کرتی ہے۔دیگر شعبہ جات میں بھی یہی صورت حال ہے۔عالمی بینک کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’جنوبی ایشیا میں عورتوں اور لڑکیوں پر ہونے والے تشدد کو اس خطے میں تیزی سے رونما ہونے والی اقتصادی اور سماجی تبدیلیوں کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔اقتصادی ترقی صنفی مساوات پر اثرانداز ہوتی ہے ۔ کیوں کہ اس کی بدولت عورتوں کی لیبر فورس میں شمولیت اور تعلیم کے مواقع میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ لیبر فورس میں شمولیت سے  کیامسائل حل ہوجاتے ہیں ؟ اگر بھارت میں کام کاج کی جگہوں پر خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات کی شرح کو دیکھیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ لیبر فورس میں شمولیت مسئلے کا حل نہیں ہے اورنہ ہی تشدد کے خاتمے کا ضامن ہے ۔خواتین بڑی تعداد میں گارمنٹس فیکٹریوں اور غیر منظم سیکٹر میں کام کرتی ہیں مگر یہ خواتین کام کی جگہ سے لے کر گھر تک تشدد کا شکار ہوتی ہے۔

خواتین کےساتھ جنسی زیادتی ، استحصال اور ظلم وستم کو عموماً روایتی معاشرے کا ایک مظہر تصور کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس صورت حال کا واحد ماخذ روایتی معاشرہ نہیں ہے  بلکہ جدید لبرل اور سرمایہ دارانہ معاشرہ اس استحصال اور تذلیل کا سب سے اہم ذریعہ ہے ۔بدقسمتی سے اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔خواتین کو جن صورت حال کا سامنا ہے اس کی جڑیں صنعتی انقلاب اور اس کے بعد رونما ہونے والے حالات سے  متعلق ہیں۔صنعتی انقلاب کی وجہ سے جہاں طرز زندگیا اور بودو باش میں نمایاں تبدیلی ہوئی ہے وہیں صارفیت اور مادہ پرستی کے رجحان نے زندگی کو مشکل ترین بنادیا ہے۔توکل، صبراور قناعت کامیاب معاشرے کی کلید ہے ۔اب اس تصور کو ہی ختم کردیا گیا ہے۔ ریاکاری، خودنمائی ، دولت کی نمائش ہی معاشرے کی پہچان بن گئی۔سرمایہ دارانہ نظام اور جدید نیولبرل معاشی نظام میں مارکیٹ حکومت کے ہاتھ سے نکل کر کارپوریٹ کمپنیوں کے دائرہ اختیارات میں چلے جانے کے بعد سب سے زیادہ خواتین کا استحصال کیا گیا  ۔معیار زندگی کو بہتر بنانے کے نام پر خواتین پرتہر ا بوجھ ڈال دیا گیا۔روزی روٹی کمانے کی ذمہ داری، بچوں کی تربیت اور گھریلو ذمہ داری ۔ان ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش میں خواتین اندر سے ٹوٹتی چلی جارہی ہے اور آزادی و تحریک نسواں کے نام پر خواتین ان سب کو خوشی خوشی برداشت بھی کررہی ہے۔

انسانیت سوز خودغرضی کا شکار نیولبرل معاشی نظام نے کبھی اس سوا ل پر غور ہی نہیں کیا کہ  صنف نازک روپیہ کمانے اور گھر کا انتظام کرنے کے دونوں کام کس طرح کرے گی؟ گھروں کی ذمہ داریوں کو نظرانداز کردینے کی وجہ سے کیا کیا مشکلات پیش آئیں گی اور خاندانی نظام کس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہوگا ۔ان تما م سوالوں کو آزاد خیالی کے دلکش نعروں پر مبنی ’’تحریک آزادی نسواں ‘‘ کے نام پر نظرانداز کردیا گیا ہے۔’عورتوں کی آزادی‘‘ کے نعرے کے نام پر یہ تاثر دیا گیا کہ خواتین کو گھر کی چاردیواری میں محصور رکھنا اس پر ظلم ہے۔ مرتبہ ومقام کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اُسے مردوں کے دوش بدوش ہر کام میں حصہ لینا چاہیے۔ حصولِ معاش کے معاملہ میں اسے مرد کا محتاج ہونے کی بجائے مستقل بالذات ہونا چاہیے۔دوسری طرف پیداوار میں اضافہ کے لیے  خواتین کا استعمال کیا گیا ہے۔ہرایک شے کے اشتہار میں خواتین کے جسم کا استعمال کیا گیا ۔ نسوانی حسن کو کاروباری مقاصد کے لیےاستعمال کیا جانے لگا۔اس کی بد ترین اور سب سے گھناؤنی شکل عریاں فلموں کی صنعت کی صورت میں سامنے آتی ہے جسے مغربی معاشروں میں باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہے اور اس صنعت کا، جس سے بڑھ کر نسوانی تذلیل اور توہین انسانی تاریخ نے نہیں دیکھی ہوگی، زندہ رکھنے کے لیے غیر محفوظ اور نفسیاتی طور پر بے سہارا خواتین کو پھانسنے یا انھیں ترغیب وتحریص کے مختلف طریقوں سے اس پیشے میں لانے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔مگر کبھی اس بات پر غور نہیں کیا گیا اس کے سماج پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔انٹرنیٹ اور جدید ذرائع ابلاغ نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ اخلاقیات سے عاری اس نظام میں مردو ں کے ذہن و دماغ پر خواتین اور ان کے جسم کو حاوی کردیا گیا ہے۔رہی سہی کسر تحریک نسوا ں کے علمبرداروں نے پوری کردی ہے۔دنیا بھر میں تحریک نسواں کی کارکنوں کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ عورتوں کو اپنی جنس کی بنا پر کچھ نا انصافیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس نا انصافی کا علاج وہ ’’مساوات‘‘ کے نعرہ مستانہ میں ہے ۔خواتین کی فطری اور طبعی تقاضوں کو نظرانداز کرکے ہرشعبے میں مرد کے شانہ بہ شانہ کھڑا کرنا ہی تمام مسائل کا حل ہے۔

ایک مشہور نسائی  دانش ور تھیریسا کوربن اسلام قبول کرنے کے بعدبا حجاب رنے لگیں ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’حجاب تو استحصال اور ظلم کی علامت ہے‘‘؟تھریسا نے دل چسپ جواب دیا: ’’ہاں، میں اسکارف پہنتی ہوں۔میرا اسکارف پشت پر میرے ہاتھ نہیں باندھتا۔ یہ کیسے میرے استحصال کا ذریعہ ہوسکتا ہے؟میرا اسکارف نہ دماغ میں خیالات کے داخلے میں کوئی رکاوٹ بنتا ہے اور نہ منہ سے اس کے اظہار کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ آج مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میں ماضی میں کچھ ایسا ہی سمجھتی تھی۔میرا اسکارف البتہ مردوں کی ان ہوسناک نظروں کی راہ میں ضرور رکاوٹ بنتا ہے، جو عورت کے استحصال کی پہلی سیڑھی ہیں۔ یہ مجھے تحفظ اور احترام و عزّت عطا کرتا ہے… بلاشبہہ اسلام فیمی نسٹ تصورات سے ہم آہنگ نہیں ہے، لیکن فیمی نسٹ آئیڈیلز کی تکمیل کہیں ہوسکتی ہے تووہ صرف اسلام ہے۔ میری مراد یہ ہے کہ عورت کے وقار کی بحالی، تحفظ اور مقام‘‘۔

آج اگر خواتین آسان ٹارگیٹ ہیں تو اس کی صرف ایک وجہ ہے وہ خواتین کی طبعیاتی اور فطری صلاحیتیوں کو نظرانداز کردینا ۔مساوات کے نعرے میں خواتین کے ساتھ انصاف جیسی بنیادی ضرورت کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہت ہی کم معاملے میں خواتین کو انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔اگر خواتین کیلئے معاشرے کو محفوظ بناناہے تو اس کیلئے دہرا رویہ ترک کرنا ہوگا۔آزادی کے نام پر بے حیائی، جنسی ہیجان اور بدقماشی کی ترویج کو بند کرناہوگا۔ہمارے ہاں حقوق نسواں کے علم برداروں کو یہ ظلم تو نظر آتا ہے کہ نابالغی کی عمر میں بچیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں،لیکن یہ ظلم کسی کو محسوس تک نہیں ہوتا کہ کچی عمر کی بچیوں کو موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولتیں دے کر مخلوط ماحول میں بھیجنے اور میڈیا کے متعارف کردہ کلچر کے زیر اثر مخالف صنف سے دوستی کے نام پر جذباتی، نفسیاتی اور بسا اوقات جسمانی استحصال کا شکار ہونے کے لیے بے یار ومددگار چھوڑ دینے کا رجحان کیا ستم ڈھا رہا ہے۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.