بھارت حامی مالدیپ نے بھی چین کا رخ کر لیا

سید خالد حسین، سنگاپور
مئی 2024

سید خالد حسین، سنگاپور

بھارت کے جنوب مغربی ساحل سے تقریباً 725 کلومیٹر کے فاصلے پر ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک مالدیپ ہے۔ بحر ہند میں واقع 1,192 مرجان کے جزیروں کی ایک زنجیر پر مشتمل اس ملک کو الجزائر مالدیپ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس جمہوری ملک کا کل رقبہ نوے ہزار اسکوائر کلومیٹر ہے، جس میں سے چھ ہزار اسکوائر کلومیٹر پانی ہے اور بقیہ تین ہزار اسکوائر کلومیٹر خشکی، جو کہ دہلی کے کل رقبے کا ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ سطح سمندر سے سب سے نچلے اور دنیا کے سب سے چھوٹے اس مسلم ملک کی کل آبادی صرف سوا پانچ لاکھ ہے۔
ان حقائق کے باوجود مالدیپ اپنیstrategic location (تزویراتی مقامیت) اور geopolitical significance (جغرافیائی-سیاسی اہمیت) کی وجہ ایک طویل عرصے سے جنوبی ایشیا کے دو سب سے بڑے پڑوسی ممالک کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ جزیرہ نما ملک مشرق اور مغرب کے ایک اہم تجارتی جہازی راستے پر واقع ہے جہاں سے خلیج کے ممالک سے چین کو تیل سپلائی ہوتا ہے۔ اس کے آس پاس ایک اہم امریکی بحری اڈہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنیادی طور پر قدیم سفید ساحلوں اور ویران سیر گاہوں والا جنوبی ایشیا کا یہ سب سے مہنگا چھٹیاں گزارنے کے لئے مشہور یہ ملک ایک geopolitical hotspot بن گیا اور بھارت اور چین اس پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہو گئے۔ بالآخر اپریل 2024 کے اواخر میں مالدیپ میں ہوئے پارلیمانی انتخابات کے نتائج نے واضح کر دیا کہ اس اثر و رسوخ کے اس مقابلے میں کس کی جیت ہوئی اور کون پیچھے رہ گیا اور مالدیپ کی نئی حکومت کی وفاداریاں اب کس کے ساتھ ہیں، چین کے یا بھارت کے۔
اکیس اپریل کو ہونے والے ان انتخابات میں صدر محمد معیزو کی چین حامی پیپلز نیشنل کانگریس (پی۔ این۔ سی۔) نے 93 میں سے 70 نشستیں حاصل کرکے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لی، جسے مالدیپ میں super majority کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس سابق صدر ابراہیم محمد صالح، جنہیں عام طور پر بھارت نواز رہنما سمجھا جاتا ہے، کی مخالف جماعت مالدیدوین ڈیموکریٹک پارٹی (ایم۔ ڈی۔ پی۔) نے پچھلی پارلیمنٹ میں 65 نشستوں کے مقابلے میں صرف 15 نشستیں حاصل کیں۔
معیزو پی۔ این۔ سی۔ کے سیاست داں کی حیثیت سے ستمبر 2023 میں صدر کے انتخاب کے لئے اپنے ساتھی عبداللہ یامین کے جانشین کے طور پر نامزد ہوئے تھے، کیونکہ عبداللہ یامین بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں بند تھے اور الیکشن میں حصہ لینے کے لیے نااہل تھے۔ ان انتخابات میں معیزو نے اس وقت کے صدر محمد صالح کو شکست دی تھی اور 17 نومبر 2023 کو مالدیپ کے آٹھویں صدر کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالا تھا۔ معیزو 2021 سے 2023 تک راجدھانی مالے کے میئر رہے۔ اس سے قبل انہوں نے 2012 سے 2018 تک صدر محمد وحید حسن اور صدر عبداللہ یامین کے تحت دو مرتبہ ہاؤسنگ منسٹر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔
بھارت مخالف لہر
بھارت کے قریبی ہونے کی وجہ سے صدر محمد صالح کے پانچ سالہ دور میں نئی دہلی نے چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مالدیپ کے سب سے بڑے اقتصادی حمایتی کے طور پر ہسپتالوں، اسکولوں، ہوائی اڈوں اور دیگر بنیادی ڈھانچوں کے لیے فنڈ فراہم کیا تھا۔ اناسی (89) ہندوستانی فوجی اہلکار بھی مالدیپ میں بھارت کی طرف سے rescue (بچاؤ) اور surveillance (جاسوسی) کے لئے دیے گئے دو ہیلی کاپٹروں اور ایک ہوائی جہاز کی دیکھ بھال اور تین ایوی ایشن پلیٹ فارم چلانے کے لیے مقیم تھے۔
لیکن معیزو کے صدر کے طور پر عہدہ سنبھالنے کے بعد سے مالدیپ میں بھارت مخالف جذبات کی لہر دوڑ گئی اور ان کی مہم گزشتہ حکومت کی India First (بھارت پہلے) پالیسی کو ختم کرنے پر مرکوز ہو گئی۔ ان انتخابات میں معیزو نے India Out (بھارت نکلو) کے نعرے پر مبنی ایک مہم چلائی جس میں ملک میں تعینات ہندوستانی فوجیوں کو نکالنے پر توجہ مرکوز کی گئی- معیزو نے ہندوستانی ہیلی کاپٹروں اور ہوائی جہاز کی موجودگی سے ملک کی قومی سلامتی اور خودمختاری کو خطرے کا اندیشہ ظاہر کیا اور نئی دہلی کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے مالدیپ میں مقیم تمام ہندوستانی فوجیوں کو گھر بھیجنے کا وعدہ بھی کیا۔
عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی معیزو نے مالدیپ میں مقیم ہندوستانی فوجی اہلکاروں کی مئی تک وطن واپسی کا مطالبہ کیا، جس کے بعد بھارت اور مالدیپ نے 10 مئی تک ہندوستانی فوجیوں اور ان کے معاون عملے کی واپسی مکمل کرنے پر اتفاق کیا۔ مالدیپ نے جزیرے کے ملک کے پانیوں کے ہائیڈرو گرافک سروے پر بھی ہندوستان کے ساتھ 2019 کے معاہدے کی تجدید نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور پچھلی حکومتوں کی طرف سے دوسرے ممالک کے ساتھ کیے گئے ان خفیہ معاہدوں کو ختم کرنے کا عمل بھی شروع کیا جس سے مالدیپ کی آزادی اور خودمختاری کو خطرہ لاحق تھا۔
ناراضگی کی وجہ
معیزو کے عہدہ سنبھالنے کے ایک ماہ بعد جنوری میں اس وقت کشیدگی مزید بڑھ گئی جب ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے سیاحت کو فروغ دینے کے لیے مالدیپ سے 130 کلومیٹر شمال میں ہندوستانی جزیرہ نما لکشدیپ کا دورہ کیا۔ مالدیپ کے کچھ لوگوں، جن کی معیشت کا زیادہ انحصار سیاحوں کے ڈالر پر ہے، نے اس دورے کو اپنے ملک سے زائرین سیاح کو دور کرنے کی کوشش کے طور پر لیا اور تین وزراء کو مودی کو “دہشت گرد”، “مسخرہ” اور “اسرائیل کی کٹھ پتلی” قرار دینے پر اکسایا. ان تینوں کو ان کی اس حرکت کی وجہ سے معطل کر دیا گیا۔ بدلے میں بھارت میں بہت سے لوگوں نے سیاحوں سے مالدیپ کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا اور ایک بھارتی ٹریول کمپنی نے پروازیں بھی معطل کر دیں۔ چند ماہ قبل مالدیپ کی حکومت نے بھارت کے اعتراضات کے باوجود ایک متنازعہ چینی تحقیقی جہاز کو اپنے پانیوں میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی جس نے اسے “جاسوس جہاز” کا نام دیا تھا۔
اس سے قبل جنوری میں معیزو نے ہندوستان کے بالواسطہ حوالے سے کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی کشمکش کے درمیان کسی بھی ملک کے پاس ہمارے ساتھ “غنڈہ گردی” کرنے کا لائسنس نہیں ہے، جبکہ ہم ایک چھوٹی سی قوم ہیں۔ اس کے جواب میں ہندوستان کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے بظاہر اس حوالے سے کہ مالدیپ اب بھی ہندوستان سے بڑی رقم قبول کرتا ہے کہا کہ “بڑے غنڈے 4.5 بلین ڈالر کی امداد فراہم نہیں کرتے”۔
معیزو کا دورہ چین
اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ بعد جنوری میں صدر معیزو کا پہلا بیرونی دورہ چین کا تھا جبکہ سابقہ تمام صدور نے منتخب ہونے کے بعد پہلا دورہ بھارت کا کیا تھا۔ چین کے دورے کو بہت سے لوگوں نے معیزو کی ترجیحات کی واضح نشانی کے طور پر دیکھا۔ اس دورے کے دوران دونوں ممالک نے سرمایہ کاری کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے۔ اس کے بعد مارچ میں مالدیپ نے چین کے ساتھ غیر مہلک ہتھیاروں کی مفت فراہمی کے ساتھ ساتھ مالدیپ کی سیکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کے لیے “فوجی امداد” کے معاہدے پر بھی دستخط کیے۔ اس سے قبل مالدیپ بھارت اور امریکہ کی فوج کو تربیت دے چکے ہیں۔ اگرچہ مالدیپ نے ماضی میں بھی چین کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی معاہدے کیے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے جب دونوں ممالک نے باضابطہ طور پر دفاعی تعلقات قائم کیے ہیں۔
بھارت مخالف اور چین نواز معیزو کی پارٹی کی جیت کے بعد چین نے دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کو مزید گہرا کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ بیجنگ اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشییٹو کے حصے کے طور پر بحر ہند کے علاقے میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبے اور اقتصادی سرمایہ کاری کررہا ہے اور مالدیپ اس انیشییٹو کا حصہ ہے۔ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے اگلے روز چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے بیجنگ میں کہا کہ چین مالدیپ کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے اور تمام شعبوں میں روایتی دوستی اور تعاون کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ چین نے کہا وہ دونوں ممالک کے جامع تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داری کو مزید گہرا کرنا چاہتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ مستقبل کی کمیونٹی بنانا چاہتا ہے جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچے۔ چند پالیسی ماہرین کا خیال ہے کہ چین اپنے معاشی طاقت کو معیزو کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ ہندوستان مخالف اور قوم پرستی کا انداز نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔
کچھ بھارتی سیاسی تجزیہ نگاروں نے مالدیپ کی بدلتی وفاداری کو
ناشکری کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مالدیپ کو سالہا سال سے بھارت کی طرف سے دی گئی امداد اور سہولتوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ لیکن چند دیگر تبصرہ نگاروں کے مطابق مالدیپ کے بھارت سے منھ موڑ کر چین کی طرف مائل ہو جانے کی کہیں نہ کہیں نئی دہلی کی خارجہ پالیسی اور مودی حکومت کی مسلم مخالف پالیسیاں بھی ذ مہ دار ہے۔ مالدیپ ایک ننانوے فیصد مسلم ہونے کی وجہ سے وہاں کے لوگ مودی حکومت اور حکمراں پارٹی کی مسلمانوں کے تعلق سے پالیسی اور دس سال سے ان کے خلاف چلائی گئی مہم کی وجہ سے بھی ناراض ہیں۔ اور غالباً مودی کے لکشدیپ کے دورے کے پبلسٹی ویڈیوز نے مالدیپ کے مسلمانوں کے اس جذبے کو بڑھاوا دیا ہے۔
مشکوک رویہ
سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور حکومت سے اب تک شاید ہی کوئی ایسا دور گزرا ہوگا جب بھارت کے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ شکوک سے بالا تر دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات رہے ہوں۔ کانگریس کی حکومت کے دوران اکثر پڑوسی ممالک نے بھارت کے قدرے سخت رویے کے باعث اس پر Big Brother کا لیبل لگا رکھا تھا۔ نتیجتاً روایتی “دشمن” پاکستان کے بعد بنگلہ دیش، سری لنکا، برما (موجودہ میانمار)، نیپال اور افغانستان، سب ایک ایک کر کے بھارت کو چھوڑ کر چین کا رخ کر چکے ہیں یا ایران سے سیاسی، معاشی، اقتصادی اور سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ اب مالدیپ نے بھی بھارت کو خیرباد کہ کر چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ہے۔ بھارت کی پڑوسیوں سے فطری دوستی کو نظر انداز کر کے امریکہ اور خاص طور پر اسرائیل سے غیر فطری دوستی نے جنوب ایشیا میں بھارت کو اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ اس صورتحال میں ہندوستانی حکمرانوں کو اپنی داخلی اور اور خارجی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے بارے میں مالدیپ حکومت کے سابق مشیر اور مغربی آسٹریلیا یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسرعظیم ظہیر نے کہا کہ “یہ حیرت کی بات ہے کہ معیزو چین کے ساتھ فوجی تعلقات قائم کرنے کے لیے اتنی تیزی سے آگے بڑھے ہیں، کیونکہ یہ واضح ہے کہ یہ نئی دہلی کے لئے پریشان کن ہوگا۔ یہ ایک بہت نئی سمت ہے جو یقینی طور پر خطے میں کشیدگی کو بڑھائے گی۔”
بھارت میں منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالسز کے ساؤتھ ایشیا سینٹر کی ایسوسی ایٹ فیلو گلبن سلطانہ نے جرمنی کی ڈی ڈبلیو نیوز ایجنسی کو بتایا کہ مالدیپ میں چین کی موجودگی مختصر مدت میں بڑھے گی، خاص طور پر جنوری میں معیزو کے دورہ چین کے بعد جہاں دونوں فریقوں نے کئی شعبوں میں تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ “یہاں تک کہ اگر چین اور صدر معیزو درآمدات پر انحصار کرنے والے مالدیپ کا ہندوستان پر انحصار کم کرنا چاہتے ہیں تو اسے ملک کے قرضوں کے بوجھ اور معاشی صورتحال کے ساتھ ساتھ عالمی جغرافیائی سیاسی صورتحال کے پیش نظر تنگی کے راستے پر چلنا پڑے گا۔”
یاد رہے مالدیپ کو بڑھتے ہوئے قرضوں، کم آمدنی اور غیر ملکی ذخائر میں کمی کا سامنا ہے اور امداد اور گرانٹس کی تلاش میں ملک بجٹ خسارے پر چل رہا ہے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے چین کے ماہر سری کانت کونڈاپلی کے مطابق “سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی اور دیگر معاشی مسائل کے لیے، معیزو ہندوستان کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کر سکتے”۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کی طرف سے فراہم کردہ بجٹی امداد کی بڑی مقدار کو دیکھتے ہوئے یہ امکان نہیں ہے کہ مالدیپ بھارت سے تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کا متحمل ہوگا۔