11 نومبر كی شام بچی جب اسکول سے پڑھ کر واپس آئی تو اس نے مجھ سے کہا: ابو! عربی کلاس ٹیچر نے ہمیں چلڈرن ڈے کی مناسبت سے آرٹ بنانے کے لیے کہا ہے، آپ ہمیں ایک اچھی سی آرٹ بتائیں جو چلڈرن ڈے کے مناسب ہو “۔ میں نے کہا بیٹی میں تمھاری اس آرٹ میں ضرور مدد کروں گا۔ بچوں اور ان کے حقوق کے تعلق سے میرے ذہن میں ایک بہت درد بھری تصویر کا خاکہ ہے کیا تم بنانے کے لئے تیار ہو ؟ بچی نے تعجب سے پوچھا ابو! درد بھری تصویر کیسی ؟؟ میں نے کہا آؤ بتاتا ہوں ، بیٹی! ایک کام کرو آرٹ پیپر پر ایک پلیٹ بناؤ جس میں روٹی کے چند ٹکڑے بکھیر دو ،اس کے قریب گلاس کی ایک تصویر بناؤ جس میں گندا پانی رکھا ہو ، پھر خون آلود ننھے ہاتھ کی تصویر بناؤ ، جو اس روٹی کے ٹکڑے کو لینے کے لیے پلیٹ کی طرف بڑھ رہا ہو ۔
تصویر کے نیچے ایک تحریر لکھو ” أطفال غزة يتضورون جوعًا فمن لهم” ؟؟ غزہ کے بچے بھوک سے بلک رہیں ! ان کا پرسان حال کون ؟؟ اوپر بیچ میں فلسطین کے جھنڈے کے ساتھ بیت المقدس کی تصویر بناؤ ، داہنی طرف لکھو ” یوم الاطفال” چلڈرن ڈے ” اور بائیں طرف لکھو “أین أهل حقوق الاطفال”؟؟ بچوں کے حقوق والے کہاں ہیں ؟؟ پھر بیٹی کو فلسطین کے حالات اور وہاں پر بچوں بوڑھوں عورتوں جوانوں پر ہو رہے ظلم کو بتایا۔اسے سمجھایا کہ بیٹی اس آرٹ سے تم دنیا کو ایک پیغام دوگی اور تمھاری یہ تصویر فلسطینی مسلمانوں کے حق میں ایک خاموش مگر مؤثر احتجاج کاکام کرے گی ۔
شام ڈھل چکی تھی ، رات نے دھیرے دھیرے اپنی طنابیں تان لیں ، ہم نیند کی آغوش میں جانے کے لئے بستر پر آچکے تھے ، موسم بھی ابر آلود تھا، بچی میرے پاس تھوڑا فاصلے سے لیٹی ہوئی تھی ،رات کے کوئی ساڑھے نو بج رہے تھے کہ اچانک بڑی تیز بجلی کڑکی ، آواز کی گونج نے پورا وجود ہلا ڈالا ، بچی بھی شروعاتی نیند میں تھی ، ڈری سہمی ہوئی اٹھی اور مجھ سے لپٹ گئی ، میں نے اسے اپنے قریب کر کے تسلی دی اور اسے کہا کہ بیٹی گھبراؤ نہیں ، دعا پڑھو “ويسبح الرعد بحمده والملائكة من خيفته”اس نے دعائیہ کلمات بار بار دہرائے ، میں نے کہا بیٹی عام طور پر اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ، بلکہ اللہ کی قدرت کو دیکھو یہ بجلی بھی اللہ کی حمد اور تسبیح بیان کرتی ہے ۔ اب بجلی کی کڑک بھی تھم چکی تھی اور اس کے ساتھ بچی کے چہرے پر موجود قلق واضطراب کی کیفیت بھی جاتی رہی، مگر نیند اڑ چکی تھی اس لئے جب کچھ تسلی ہوئی تو پھر میں نے شام کی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: بیٹی !یہ تو بجلی کی کڑک تھی جو تھوڑی دیر میں ختم ہو گئی مگر سوچو ان فلسطینی بچوں اور بچیوں کے تعلق سے وہ کس خوف کے سائے میں جی رہے ہیں ؟ ان کے گھروں پر رات میں سوتے ہوئے ایک سال سے بم گر رہے ہیں ،وہ بموں کی آواز سے کس قدر خوفزدہ ہوتے ہونگے؟جوان کے گھروں پر رات دن میں کسی بھی وقت گرتے رہتے ہیں ،بچے رات میں ابا اماں کے ساتھ سوتے ہیں مگر جب صبح ہوتی ہے تو ہسپتالوں کے بیڈ پر ہوتے ہیں ، یا جنازے کے تخت پر ، کوئی باپ اپنا لخت جگر کھوتا ہے تو کوئی ماں اپنے آنکھ کے تارہ سے محروم ہوجاتی ہے ، کسی بچے کے سر سے باپ کا سایہ اٹھتا ہے، تو کسی بچی سے ماں کی گود چھن جاتی ہے ۔
بیٹی !ایک سال سے وہ جنگ کی اسی کیفیت سے دوچار ہیں، پینے کے لیے پانی نہیں ، کھانے کے لیے غذا نہیں، زخم خوردہ ہیں، بیمار ہیں مگر ہاسپٹل میں دوا نہیں ، کوئی کوئی اس قدر سوکھ گیا ہے کہ صرف ہڈی کا ڈھانچہ بچا ہے ،پسلیاں باہر کو نکلی ہوئیں ، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی ، فاقوں پر فاقے ہیں ، دانہ پانی کو ترستے لوگ ہیں ، گھر بار اجاڑ دئے گئے ، جب عمارتیں زمیں دوز کر دی گئیں ، تو مظلوموں نے خیموں کا سہارا لیا ، ظالموں نے اسے بھی جلاکر سروں سے سائبان تک کو ختم کردیا ہے ، اب نہ رہائش کے لئے گھر ہیں نہ تعلیم کے لئے کوئی مدرسہ اور اسکول ” نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ” ہزاروں غنچے بن کھلے مرجھا گئے ، بغیر ماں باپ نہ جانے کتنے نونہال بلک رہے ہیں اور کتنی معصوم کلیاں سسک رہی ہیں۔
بیٹی! چند دنوں پہلے ایک نو سالہ بچی کو دیکھا جو اپنی دو سے ڈھائی سال کی بہن کو اپنے کندھے پر لادے ہوئے اپنے خیمے کی طرف جا رہی تھی ،دھول اور گرد و غبار سے اٹا ہوا جسم، بھوک سے کمھلائے ہوئے گلاب سے چہرے کودیکھ کر آنکھیں اشکبار گئیں۔ سوچو اس باپ پر کیا گذری ہوگی جو بچی کے لئے چاکلیٹ لینے گیا تھا مگر واپس لوٹا تو بچی کو کفن میں ملبوس پایا ، یقینا اس کا کلیجہ پھٹ گیا ہوگا ۔ نہ جانے دنیا کو کیا ہو گیا ہزاروں بچے ہزاروں عورتیں ہزاروں جوان شہید کر دیے گئے اور کوئی نہیں جو ان کے لیے آواز اٹھائے، احتجاج کرے ،عالم انسانی پر حیرت ہے! کبھی ایک کی زندگی بچانے کے لیے پوری دنیا یورپ و امریکہ اکٹھا ہو جاتے ہیں اور اس کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، اور کبھی ہزاروں لوگوں کے خون کی ندیاں بہادی جاتی ہیں اور حقوق انسانی اور دنیا میں حقوق حقوق کا نام لینے والے اندھے گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں، صرف اس لئے کہ مظلوم مسلمان ہیں ۔۔۔!!!
بیٹی !ہمارا ان فلسطینی بھائیوں سے خونی رشتہ اگر چہ نہیں ہے مگر ہمارا ان سے سب سے مضبوط اسلامی رشتہ ہے ، اخوت اسلامی کا تقاضا ہے کہ ہم ان کے درد کو اپنا درد سمجھیں ، ان پر بیت رہی مصیبت کو اپنی مصیبت گردانیں ، کیونکہ تمام مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں ۔ بیٹی !ظلم کی چکی میں پس رہے فلسطینی مسلمانوں کے درد کی ٹیس کو اگر ہم نے اپنے دل میں محسوس نہیں کیا تو ہمارا ایمان ناقص ہے ۔ ہم کمزور کچھ نہیں کرسکتے ، لیکن یہ کہ کر ہم اللہ کے حضور بچ نہیں سکتے، ہم اپنی وسعت کے مطابق ان کی مدد کریں ،خصوصا ان کے حق میں دعا کریں ، اللہ سے مدد مانگیں ، یقینا اس کی مدد عنقریب آئیگی اور ہم فلسطین کو آزاد دیکھیں گے ۔۔۔ہم دیکھیں گے۔۔۔ ہم دیکھیں گے ۔۔ ان شاء اللہ۔