سپریم کورٹ کی سات رکنی آئینی بنچ نے بالآخر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے معاملہ پر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اس معاملہ کی سماعت فروری میں مکمل ہوچکی تھی اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے اپنی مدت کارکردگی کے آخر دن اس پر فیصلہ سنایا۔ فیصلے کا مختلف جہتوں سے تجزیہ ہورہا ہے۔ اس فیصلہ سے جہاں لوگوں میں یک گونہ خوشی ہے، وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ آخر سات ججوں والی بنچ کی کون سی مجبوری تھی کی اس نے پورا فیصلہ نہ دے کر معاملہ کو تین رکنی بنچ کے پاس بھیج دیا۔ یعنی اے ایم یو ایک اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں یہ ابھی واضح نہیں ہے۔اس کے لیے ایک اور قانونی لڑائی باقی ہے۔اب اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ کرے گی۔
معاملہ کیا ہے؟
یہ معاملہ اس سوال سے شروع ہوتا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ آئین ہند کی دفعہ (1)30 میں اقلیتوں کو اپنے ادارے قائم کرنے اور چلانے کی اجازت دی گئی ہے اور آئین ہند کی دفعہ۔۔ میں واضح طور پر یہ درج ہے کہ حکومت اقلیتی ادارہ ہونے کی وجہ سے سرکاری فنڈ اور دیگر مراعات دینے میں کسی لیت ولعل یا تعصب سے کام نہیں لے گی۔ اقلیتی اداروں میں اقلیتوں کو 50 فیصد ریزرویشن ملتا ہے اور ان میں عام ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی ریزرویشن کا نفاذ نہیں ہوتا۔
یہ حقیقت جگ ظاہر ہے کہ اے ایم یو کا قیام سرسید احمد خان کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ انہوں نے مسلمانان ہند کی جدید تعلیمی میدان میں سبقت کے لیے جدوجہد کی اور 1857میں اے ایم یو کا پیش رو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج وجود میں آیا۔ سرسید کی تحریروں، تقریروں اور خط و کتابت سے یہ بات واضح ہے کہ ان کے پیش نظر مسلم قوم کی جدید تعلیم کے حوالے سے پس ماندگی کو دور کرنا تھا۔ اس کا قطعی مطلب یہ نہیں تھا کہ غیرمسلم طلبہ کے لیےاس کالج/یونیورسٹی کے دروازے بند ہوں گے۔ سرسید کا خواب تھا کہ یہ کالج ترقی کرکے یونیورسٹی بن جائے اور اس کا اظہار بھی تاریخی دستاویز سے ثابت ہے۔ 1920 میں برطانوی حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ بناکراس کالج کو یونیورسٹی بنادیا۔ تب سے 1950 تک یعنی جب آئین ہند بن کر نافذ ہوا، علی گڑھ میں مذہبی تعلیم ضروری تھی اور اس کی انتظامی کمیٹیوں میں شامل ہونے کے لیے مسلمان ہونا شرط تھی۔ 1951 میں اس میں ترمیم کی گئی اور مذہبی تعلیم کو اختیاری کردیا گیا اور انتظامی کمیٹیوں میں مسلمان ہونے کی شرط کو ختم کردیا گیا۔
اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی بنچ نے1967 میں اس کیس (عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا) میں فیصلہ دیا ہے کہ اے ایم یو کوئی اقلیتی ادارہ نہیں ہے کیوں کہ اس کا قیام کسی اقلیتی فرقہ کے فرد نے نہیں بلکہ 1920 میں پارلیمنٹ کے ایک قانون کے ذریعہ کیا گیا ہے۔ اس کے انتظامی امور میں مسلمانوں کے علاوہ اور لوگ بھی تھے۔ اس فیصلہ سے علیگ برادری سمیت مسلمانان ہند میں بڑی بے چینی پھیل گئی۔
1981 میں اس وقت کی وزیر اعظم اندراگاندھی نے پارلیمنٹ کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ کو ترمیم کرکے اس فیصلہ کو منسوخ کردیا۔ لیکن اس ترمیم شدہ قانون میں ایسے سقم موجود تھے جس کی وجہ سے قانونی مسائل پیش آتے رہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب 2005 میں اے ایم نے کئی پروفیشنل کورسس میں 50فیصد مسلم ریزویشن کو نافذ کیا تو الہ آباد ہائی کورٹ نے 2006 میں عزیز باشا کیس کا حوالہ دیتے ہوئے اور مذکورہ ترمیم شدہ قانون میں کمیوں کو اجاگر کرتے ہوئے اس ریزرویشن کو غلط قرار دیا ۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر حکم امتناع عائد کیا اور تب سے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا تھا۔ 2014 میں بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد کیس میں تھوڑی تیزی آئی۔ اس سے قبل مرکزی حکومت کا بھی کم وبیش سپریم کورٹ میں یہی موقف تھا کہ اے ایم یو ایک اقلیتی ادارہ ہے لیکن 2014 کے بعد مرکزی حکومت کے رخ میں تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ 2019 میں سپریم کورٹ نے معاملے کو سات رکنی بنچ کے پاس بھیج دیا، کیوں کہ اس سے قبل 1967 میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ اس معاملہ کو سن چکی تھی لہذ ا اس پر کوئی فیصلہ ساتھ رکنی ججوں سے کم والی بنچ نہیں لے سکتی تھی۔ اس سال فروری میں سپریم کورٹ میں تمام پارٹیوں کے دلائل مکمل ہوگئے اور سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو 8 نومبر کوسنایاگیا۔
فیصلہ کیا ہے؟
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی اس بنچ میں چار ججوں نے ایک فیصلہ لکھا ہے اور بقیہ تین ججوں نےاس سے جزوی یا کلی اختلاف کرتے ہوئے اپنے فیصلے الگ سے لکھے ہیں۔ اکثریتی فیصلہ میں عزیز باشا والے سپریم کورٹ کے 1967 کے فیصلےکو کالعدم قرار دیا گیا۔ یعنی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ اے ایم یو ایک اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اب تین ججوں پر مشتمل ایک ریگولر بنچ یہ جائزہ لے گی کہ کیا اے ایم یو ایک اقلیتی ادارہ ہے؟ لیکن اس فیصلہ میں یہ واضح طور پر طے کردیا گیا ہے کہ تین رکنی بنچ کو کن نکات پر چانچ پڑتال اور بحث وتمحیص کے بعد فیصلہ کرنا ہوگا۔اور یہ نکات صرف اے ایم یو کے ہی لیے نہیں بلکہ دوسرے تمام اقلیتی اداروں پر نافذ ہوں گے۔ وہ نکات ہیں؛
سب سے پہلےیہ دیکھا جانا چاہیے کہ کیا مذکورہ تعلیمی ادارہ کے قیام کا خیال اقلیتی فرقہ کے کسی فرد کو آیا۔ د وسرے یہ کہ وہ تعلیمی ادارہ بنیادی طور پر اقلیتی فرقہ کے فائدے کےلیے قائم کیا گیا ہو اور تیسرے اس خیال اور آئیڈیا پر اقلیتی فرقہ کے فرد یا افراد کارفرماہوں۔
مذکورہ تعلیمی ادارے کےانتظامی ڈھانچہ سے بھی یہ واضح ہو کہ وہ ایک اقلیتی تعلیمی ادارہ ہے اور اقلیتی فرقہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیاہے۔
عزیز باشا کیس میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے یہ کہا تھا کہ چوں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام 1920 میں پارلیمنٹ کے قانون کےتحت ہوا تھا اس لیے وہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ موجودہ فیصلہ نے اس رائے کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ پورے معاملے کو شروع سے دیکھا جانا چاہیے ۔
سوال یہ ہے کہ اس آئینی بنچ نے صرف اصول بنانے پر اکتفا کیوں کیا۔ کیوں نہ ان اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ بھی کردیا کہ آیا اے ایم یو ایک اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں۔ اس سوال کے جواب میں بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی بنچ عام طور پر کسی مسئلہ کے حوالے سے آئین کی تشریح کرتی ہے اور اصول مرتب کرتی ہے نہ کہ فیصلہ۔ گوکہ فیصلہ کرنا اس کے اختیار میں ہے۔ البتہ بعض حلقوں سے اس بابت تشویش کابھی اظہار کیا جارہا ہے کہ اتنی لمبی قانونی لڑائی کے بعد بھی کیوں یہ طے نہیں ہوپایا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں۔
بہر حال اب دیر سویر یہ معاملہ تین ججوں کی بنچ کے سامنے پیش ہوگا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی انتطامیہ اور وہ تمام لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس کیس کی مضبوطی سے پیروی کی اور ناقابل تردید شواہد عدالت کے سامنے پیش کیے۔ گوکہ سپریم کورٹ کی طرف سے ابھی پوری راحت نہیں مل پائی ہے لیکن جو فیصلہ آیا ہے وہ یونیورسٹی اور پوری قوم کے مفاد میں ہی کہا جائے گا۔ لیکن ابھی لڑائی باقی ہے۔ بقیہ قانونی لڑائی کو اور بہتر طریقہ سے لڑنے کے لیے اس فیصلہ کا باریک بینی سے مطالعہ ہونا ضروری ہے ۔ بقیہ تین جج جنہوں نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا ہے، ان کے فیصلہ کا بھی جائزہ لے کر پوری مضبوطی سے اللہ پر توکل کرتے ہوئے نئی بنچ کے سامنے اپنے موقف کو رکھنا چاہئے۔
امرواقعہ یہ ہے کہ اے ایم یو صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ تہذیب کا گہوارہ بھی ہے جس کی ایک زریں اور تابناک تاریخ ہے۔ ڈیڑھ صدی سے زائد عرصہ میں اس نے لاکھوں تشنگان علم کو سیراب کیا ہے۔ مسلمانان ہندو پاک کو یہاں سے متعدد اسکالرز، فلسفی، شاعر، دانشور اور لیڈر ملے ہیں، جنہوں نے زندگی کے مختلف میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ شمالی ہندوستان کا شاید ہی کوئی ایسا گاؤں یا قصبہ ہو، جہاں معتد بہ تعداد میں مسلمان آباد ہوں اور وہاں کوئی اے ایم یو کا فارغ التحصیل نہ ہو۔ سرسید نے مسلم قوم کو جدید تعلیم سے آراستہ کرکے اس کی پسماندگی دور کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے انتھک جدوجہد کی اور وہ اپنی اس جدوجہد میں کامیاب بھی رہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اے ایم یو اور اس کے فارغین میں وہ رمق باقی نہیں رہی جو کبھی اس کا حصہ تھی۔ مسلمانان ہند کا اے ایم یو سے ایک جذباتی رشتہ ہے اور ان کوتوقع ہے کہ ان کے علمی، تعلیمی ، ثقافتی ، معاشی اور سیاسی مسائل کے تصفیہ میں اے ایم یو اور اس کے فارغین نہ صرف دلچسپی لیں بلکہ عملا کوشش بھی کریں اور ان کی یہ توقع بجا بھی ہے۔ گوکہ ابھی بھی مختلف سطح پر کوششوں ہورہی ہیں جن کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن مسائل کےانبوہ کے سامنے یہ کوششیں ناکافی ہیں۔ امید ہے کہ اس فیصلہ کے بعد آگے کی قانونی لڑائی کے ساتھ اے ایم یو اور علیگ برادری اپنے فرض منصبی کے حوالے سے نئے سرے سے جائزہ لے گی اور تازہ دم ہوکر اپنے مشن کو آگے بڑھائے گی۔