ایک ملک ایک الیکشن-حقیقت یا فریب

ابو ظفر عادل اعظمی
اکتوبر 2024
onoe

گزشتہ ماہ  مرکزی کابینہ نے سابق صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں بنائی  گئی کمیٹی کی شفارت کو قبول کرلیا ہے۔ اس کمیٹی نےپورے ملک میں لوک سبھا، ریاستی اسمبلی اور مقامی الیکشنوں کو ایک ساتھ کرنے کی سفارش کی ہے۔ کمیٹی کا ماننا ہے کہ بار بار انتخابات سے غیر یقینی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ بیک وقت پورے ملک میں انتخابات سے پالیسیوں اور حکومت میں ٹھہراؤ پیدا ہوگااور زیادہ سے زیادہ لوگ ووٹ دیں سکیں گے اور خرچ بھی کم آئے گا۔اس سے معیشت میں بھی بہتری ہوگی ، مہنگائی کی شرح کم ہوگی ، سرمایہ کاری فروغ پائے گی اورحکومتی اخراجات کو بہتر بنایا جاسکے گا۔

کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگلے لوک سبھا الیکشن کے وقت تمام ریاستی اسمبلیوں اور مقامی میونسپلٹیوں اور پنچایتوں کو تحلیل کردیا جائے قطع نظر کہ ان کی مدت کار ابھی کتنی باقی ہے، تاکہ سارے الیکشن ایک ساتھ ہوسکیں ۔کمیٹی کا مشورہ ہے کہ پارلیمانی اور ساری اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوں اور اس کے 100دن کے اندر مقامی الیکشن کا انعقادکیا جائے۔ اسمبلی یا میونسپلٹی کے معلق ہونے یا وقت سے پہلے تحلیل ہونے کی صورت میں کمیٹی کا کہنا ہے کہ مختصر مدت کے لیےیعنی اس وقت تک کے لیے جب پورے ملک میں انتخابات ہونے ہوں ،اس اسمبلی یا میونسپلٹی کا الیکشن کرایا جائے  ۔ کمیٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی ریاستوں میں مختلف انتخابات میں الگ الگ ووٹر لسٹ شائع ہوتی ہےلہذا الیکشن کمیشن آف انڈیا ریاستی الیکشن کمشنر کے تعاون سے ایک ہی ووٹر لسٹ شائع کرے اور اسی سے سارے الیکشن ہوں۔

درج بالا ساری سفارشات کے لئے الیکشن پر آنے والے خرچ کو کم کرنے، باربار الیکشن کی وجہ سے ترقیاتی کاموں میں رخنہ پڑنے اور دیگر مسائل کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر الیکشن میں قومی خزانہ سے ایک خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں، امیدوار اور عوام کے ذاتی طور پر اخراجات اس میں شامل نہیں ہیں۔

اس پوری مہم کے لیے بی جے پی نے نعرہ دیا ہے ” ایک ملک ، ایک انتخاب”(One Nation One Election)۔ یعنی پورے ملک میں ایک بار ہی بار میں سارے انتخابات ہونے چاہیئے۔ بار بار انتخابات سے متعدد مسائل سامنے آتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ بی جے پی اور اس سے وابستہ دیگر تنظیمیں، ادارے اورافراد اس طرح کے خوشنما نعروں اور سلوگن کے معاملے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اکثر یہ نعرے دھوکہ  دہی اور فریب پر مبنی ہوتے ہیں۔ کشمیر سے دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے لیے نعرہ دیا گیا کہ ایک ملک میں ایک ہی سمودھان چلے گا۔ ملک کے ایک حصہ میں ایک قانون اور دوسرے حصہ میں دوسرا بنیادی اور اصولی طور پر غلط ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کی کئی ریاستوں کو دفعہ 371 کے تحت اسی طرح کے حقوق حاصل ہیں  جس طرح کشمیر کو حاصل تھے اور بی جے پی کے لیڈران نے باقاعدہ وعدہ کیا کہ وہ دفعہ 371 کو منسوخ نہیں کریں گے۔

اسی طرح تعزیرات ہند ، سی آرپی سی اور انڈین ایوڈینس ایکٹ کوبدلنے کے لیے یہ نعرہ دیا گیا کہ یہ انگریزوں کے بنائے گئے قوانین ہیں اور تب ہی سے چلے آرہے ہیں۔ ہندوستان ایک آزاد ملک ہے اور حالات بدلنے سے اب ان قوانین  کی تبدیلی ناگزیر ہے۔ کچھ لیڈران نے یہ بھی بیان دیا کہ یہ قوانین غلامی کی علامت ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ یہ قوانین انگریزوں کے زمانے سے چلے آرہے ہیں لیکن ان میں متعدد بار ترمیم ہوتی رہی ہے  اور ابھی بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن پورے مسودہ قانون کو تبدیل کرنے سے عدالتوں، وکلاء اور انتظامیہ بالخصوص پولیس محکمہ کو پورے ملک بہت سارے مسائل درپیش ہیں اور پیش آنے والے ہیں۔ حالاں کہ نئے مسودہ قوانین میں تبدیلی کے نام پر  کچھ زیادہ نہیں ہے  اور جو ہے اس سے بھی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

ایک ملک، ایک الیکشن کی حقیقت بھی ایک خوشنمانعرے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ الیکشن میں قومی خزانہ پر بوجھ کم ہو اور کم خرچ میں الیکشن منعقد ہوجائے ، اس سے بہتر کیا بات ہوسکتی ہے۔لیکن ماہرین نے اس حوالے سے کئی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پہلا سوال یہ ہےکہ ملک کے عوام کو سب سے سستی جمہوریت مطلوب ہے یا بہتر ین جمہوریت۔کیا خرچ کو کم سے کم کرنے کےلیے جمہوریت یا الیکشن کی صحت سے سمجھوتہ کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ،  کئی ماہرین نے ایک بار الیکشن میں کم خرچ  کے مفروضےکو بھی خارج از امکان قرار دیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس سےالیکشن پر ہونے والے خرچ میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں ہوگی۔ جہاں تک ووٹر لسٹ کے کئی بار شائع کرنے کا سوال ہے تو اس پر ایک جامع پالیسی بنائی جاسکتی ہے۔

الیکشن میں ایک بڑا خرچ جو سیاسی پارٹیاں اور ان سے وابستہ افراد کرتے ہیں۔ یہ اخراجات بے تحاشہ ہوتے ہیں اور ان پر قد غن لگانے کے لیے الیکشن کمیشن نے کئی اصول وضع کیے ہیں لیکن عملاَ بہت زیادہ مؤثر نہیں ہیں۔ اس حوالے بہتر پالیسی اور اس کے نفاذ کی ضرورت ہے۔اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ الیکشن کی اپنی ایک معیشت ہے۔ سیاسی پارٹیاں، امیدوار اور ان سے متعلق لوگ لاکھوں کروڑوں روپئے خرچ کرتے ہیں۔ ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کو وقتی طور پر ہی سہی روزگار ملتا ہے۔ ریلیوں اورجلسے جلوس سے بازار میں بھی تیزی آتی ہے اور کل ملا کر مارکیٹ میں بہتری آتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی اسمبلی کسی وجہ سے پانچ سال سے قبل تحلیل ہوجاتی ہے تو وہاں بقیہ مدت کے لیے الیکشن کرائے جائیں اور پھر جب ہر جگہ الیکشن ہو تو پھر ایک ساتھ پانچ سال کے لیے الیکشن منعقد ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ ریاستوں میں پانچ سال میں دو بار اسمبلی الیکشن ہوگا۔ دوسرے لوک سبھا کے قبل ازوقت تحلیل ہونے پر کیا ہوگا؟ کیا لوک سبھا کے لئے بھی پورے ملک میں انتخابات قلیل مدت کے لیے ہوں گے یا ساری اسمبلیوں کو بھی تحلیل کردیا جائے گا۔ امرواقعہ یہ ہے کہ بہر صورت پورے ملک میں انتشار اور انارکی جیسی کیفیت پیدا ہوجائے گی  اور جس خرچ کو کم کرنے کے لیے یہ سب کچھ کرنے کی بات ہورہی ہے وہ بھی  دگنا ہوجائے گا۔

دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا پورے ملک میں انتخابات کے لیے کافی وقت لیتا ہے ۔ حالیہ لوک سبھا انتخاب سات مرحلوں میں42دن میں مکمل ہوا۔ اسمبلی الیکشن کا بھی یہی حال ہے۔ اکثر ریاستوں میں ایک دن میں اسمبلی الیکشن نہیں ہو پاتے۔اترپردیش میں پچھلا اسمبلی الیکشن سات مرحلوں میں مکمل ہواتھا۔ اس کی وجہ انفراسٹرکچر اور افراد کی کمی بتائی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پورے ملک میں ریاستی اور لوک سبھا انتخابات ایک ساتھ کردئے جائیں تو اس کے لیے کتنے مہینے درکار ہوں گے  اورکتنی ای وی ایم کی ضرورت پڑے گی؟ کیا الیکشن کمیشن اس کا متحمل ہے؟ ایسے موقع پر جب ای وی ایم اور الیکشن کمیشن سمیت پورے الیکشن کے عمل پر متعدد سوال کھڑے کیے جارہے ہیں ، اس سے یہ بھی شک ہوتا ہے کہ ایک ہی بار میں ساری اسمبلیوں پر قبضہ کا یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ تو نہیں ہے؟

ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے اسمبلی الیکشن میں   ووٹروں کے پیش نظر الگ ایشوز ہوتے ہیں اور لوک سبھا میں الگ۔ کئی بارایک ہی ووٹر دونوں انتخابات میں الگ الگ پارٹیوں کو ووٹ دیتا ہے۔ اسمبلی الیکشن میں علاقائی اور ریاستی پارٹیاں بھی دوڑ میں شامل رہتی ہیں۔ کیا ایک ساتھ الیکشن سے ریاستی اور علاقائی ایشوز پس پردہ نہیں چلے جائیں گے؟ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی علاقائی ایشوپوری قومی سیاست پر چھاجائے اور دیگر اہم ایشوز دبادئے جائیں۔

موجوہ نظام انتخابات پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ بار بار الیکشن اور ضابطہ اخلاق نافذہونے سے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ جہاں الیکشن ہورہے ہیں ہو وہاں انتخابی ضابطہ اخلاق کی وجہ سے ترقیاتی کام کچھ دنوں کےلیے متاثر ہوتے ہیں لیکن انتخابی ضابطہ اخلاق کا تعلق نئے ترقیاتی کاموں اور اسکیموں کو شروع کرنے سے ہے۔ پہلے سے چلے آرہے کاموں پر کوئی  رکاوٹ نہیں ہے۔دوسرے، نئے کاموں کو بھی الیکشن کمیشن کی اجازت سے کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض دفعہ الیکشن آنے کی وجہ سے ہی سیاسی پارٹیاں کئی کام کرنے کے لیے مجبور ہوتی ہیں۔ بصورت دیگر پانچ سال تک عوام کی کون شدبد لے گا؟

کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے 100 دن کے اندر مقامی الیکشن ہوں۔ اگر پورے ملک میں ایک ہی بار میں الیکشن کرانے ہیں تو مقامی الیکشن کو اس سے الگ کیوں رکھا گیا ہے؟ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی  نے کمیٹی کی سفارشا ت کو ناقص قرار دیتےہوئے کہا ہے کہ جب پورے ملک  میں ایک الیکشن کا نعرہ دیا گیا ہے تو میونسپلٹی اور پنچایت کے الیکشن کو اس سے الگ کیوں رکھا گیا ہے، جس میں پورے ملک سے 30 لاکھ افراد منتخب ہوتے ہیں۔ دیگر امیدواراس سے کئی گنا زیادہ ہوں گے۔عوام میں بھی لوک سبھا اور اسمبلی الیکشن کی بہ نسبت مقامی الیکشن کو لے کر گہما گہمی بھی زیادہ ہوتی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ ایک ملک اور ایک الیکشن نعرے کے طور پر خوشنما تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقت میں اس سے ڈکٹیٹرانہ عناصر کو فروغ ملے گا۔ اس سلسلے میں کمیٹی کی رپورٹ تضادات کا مجموعہ ہے۔ گرچہ  موجودہ سسٹم کو پرفیکٹ نہیں کہاجاسکتا لیکن کمیٹی کے یہ مشورے انتہائی ناقابل عمل اور بودے ہیں۔اس کے نفاذ سے عوام کی طاقت کم ہوگی اور قومی سطح کی پارٹیوں کو فائدہ ہوگا۔اس سے الیکشن جمہوریت سے بڑا ہوجائے گا اور جو کچھ چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا۔ اگر انتخابی دھاندلیوں اور ای وی ایم کو ہیک کرنے کی خبروں کو صحیح مان لیا جائے تو پھر اسے ملک پر یکبارگی قبضہ کرنے کی بڑی سازش قرار دیا جاسکتا ہے۔

 

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.