26 اکتوبر کو ایران پر کیے گئے اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد سعودی عرب سمیت خلیج کی چھ ریاستوں کے علاوہ مصر، اردن اور دنیا کے کئی دوسرے مسلم ممالک نے ان حملوں کی مذمت کی۔ ایران کے سرکاری ذرائع کے مطابق ان حملوں میں تہران، ایلام اور خوزستان صوبوں میں فوجی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ سنیچر کو علی الصبح ہونے والے ان ہوائی حملوں میں سے اکثر کو ایران کی فضائی دفاع نے ناکام بنا دیا لیکن ان حملوں میں ایران کے چار فوجی ہلاک ہوگئے۔
سعودی عرب نے اسرائیل کا نام لیے بغیر ایران کو “فوجی نشانہ بنانے” کی مذمت کی اور کہا کہ یہ “اسلامی جمہوریہ ایران کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی” ہے۔ وزارت خارجہ کے ایک بیان میں مملکت نے خطے میں جاری کشیدگی اور تنازعات میں مسلسل اضافے اور تشدد کے پھیلاؤ کے خلاف اپنے “مضبوط موقف” کا اعادہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ “خطے اور اس کے لوگوں کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہے”۔ اس نے تمام فریقین پر “انتہائی درجہ کے تحمل” کا مظاہرہ کرنے اور مزید کشیدگی کو روکنے کے لیے بین الاقوامی کارروائی کرنے پر زور دیا گیا۔
متحدہ عرب امارات (یو۔ اے۔ ای۔) نے ان حملوں کی “شدید مذمت” کی اور “خطے میں جاری کشیدگی اور اس کے سلامتی اور استحکام پر پڑنے والے اثرات پر گہری تشویش” کا اظہار کیا۔ یو اے ای کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں خطرات کو کم کرنے اور تنازعات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے “انتہائی درجے کے تحمل کی اہمیت” اور “تصادم اور کشیدگی کے بجائے سفارتی ذرائع سے تنازعات کو حل” کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزارت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ “بات چیت کو بڑھانا، بین الاقوامی قانون کی پاسداری اور ریاستی خودمختاری کا احترام موجودہ بحرانوں کے حل کے لیے مثالی بنیادیں ہیں”۔
مصر نے کہا کہ وہ “ایسے تمام اقدامات کی مذمت کرتا ہے جس سے خطے کی سلامتی اور استحکام کو خطرہ ہو”۔ مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے مصری حکومت نے “تمام فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے، تشدد کو روکنے اور کسی تباہ کن صورتحال سے بچنے کی اپیل کی”۔ اس نے “سنگین تصادم جو علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کو خطرہ ہے” سے خبردار کیا۔ قاہرہ نے اپنے اس موقف پر بھی زور دیا کہ غزہ میں جنگ بندی ایک معاہدے کے فریم ورک کے اندر فوری طور پر کی جائے “جس کے ذریعے یرغمالیوں کو رہا کیا جائے کیوں کہ یہ کشیدگی کو کم کرنے کا واحد راستہ ہے”۔
اردن، شام، لبنان، ترکی، ملیشیا، پاکستان اور افغانستان وغیرہ نے بھی ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی اور ان حملوں کو خطے میں استحکام کو نقصان پہنچانے کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن سعودی عرب، یو۔اے۔ای۔ اور مصر کے اسرائیلی حملوں پر مذمتی بیانات کو کافی معنی خیز سمجھا جا رہا ہے۔ اس لئے نہیں کہ ان کے بیانات میں کیا کہا گیا ہے بلکہ اس لیے کہ ان میں کیا مخفی ہے۔
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ماضی کی طرح اس بار مذمت کی لہر کلی طور پر اسرائیل کے خلاف نہیں ہے بلکہ بہت نپی تلی اور تقریباً غیرجانبدار ہے اور ان علاقائی طاقتوں کے درمیان ایک خاموش تبدیلی کے امکانات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ان تینوں قریبی ممالک نے ایران کی “خودمختاری” اور مشرق وسطیٰ میں “ڈی اسکیلیشن” (مزید کشیدگی کو روکنے) کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل کی سراسر مذمت کرنے کے بجائے علاقائی استحکام کو لاحق وسیع تر خطرات پر زور دینے کا انتخاب کیا ہے۔
سعودی عرب کا نرم لہجہ
سعودی عرب اس بار اسرائیل کی براہ راست مذمت کرنے سے کترایا ہے اور اس نے اسرائیل کا نام لیے بغیر ایران کو “فوجی نشانہ بنانے” کی مذمت کی ہے۔ ریاض نے اپنے بیان میں ایران پر حملوں کو “اسلامی جمہوریہ ایران کی خود مختاری کی خلاف ورزی” کے طور پر بیان کرتے ہوئے خطے کے ممالک (جن میں اسرائیل بھی شامل ہے) اور لوگوں کی سلامتی اور استحکام پر زور دیا ہے۔ ایک دہائی پہلے سعودی عرب کا بیان شاید زیادہ سخت ہو سکتا تھا لیکن اس کا موجودہ موقف ایک محتاط calibration (تعین کے عمل اور طریقہ کار) کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ موقف ایران کی خود مختاری کو تسلیم کرنے اور اسرائیل کے علاقائی سلامتی کے اقدامات کے بارے میں مضمر رواداری کے درمیان توازن کی طرف ایک اشارہ ہے۔ سعودی عرب کا جچا تلا لہجہ ایک اسٹریٹجک تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے جو مملکت کو ایران کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ اپنی دیرینہ، غیر سرکاری صف بندی کو برقرار رکھتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی راہ فراہم کرتا ہے۔ سعودی عرب کے مذمتی بیان کی زبان، جو کہ بالکل حمایتی اور محتاط تنقیدی ہے، اسرائیل کو مکمل طور پر الگ تھلگ کرنے سے بچنے کے ارادے کو ظاہر کرتی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی متوازن احتیاط
یو۔اے۔ای۔ کے مذمتی بیان میں اسرائیل کو لتھاڑنے کے بجائے “مذاکرات کی اہمیت اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری” کو اجاگر کیا گیا ہے اور تصادم کی بجائے سفارت کاری کی طرف ردعمل کو لطیف انداز میں آگے بڑھانے کی بات کہی گئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جملوں کا یہ انتخاب یو۔اے۔ای۔ کے وسیع تر سفارتی فلسفے اور معاہدہ ابراہیمی کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیکورٹی تعاون کی طرف اس کے حالیہ اقدامات سے مطابقت رکھتا ہے۔
مصر کی سفارتی حقیقت پسندی
مصر کے ردعمل نے اس لطیف سفارت کاری کو ایک قدم آگے بڑھا دیا ہے۔ یہ ایک ایسا بیان ہے جو غزہ اور لبنان کے وسیع تر مسائل پر آسانی سے لاگو ہو سکتا ہے۔ مصر نے “سنگین تصادم جو علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کو خطرہ ہے” سے خبردار کیا اور متعدد محاذوں پر “فوری جنگ بندی” پر زور دیا۔ اس طرح اس نے ایک وسیع جال ڈال کر مؤثر طریقے سے دنیا کی توجہ اسرائیلی حملوں سے ہٹا کر خطے کے مجموعی استحکام کی طرف منتقل کر دی۔ مصر کے عملی اور نپے تلے الفاظ ایک دیرینہ علاقائی ثالث کے طور پر اس کے کردار کی عکاسی کرتے ہیں جو اپنی سرحدوں کے ساتھ امن کو برقرار رکھنے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔
مصر کا توازن عمل اس کی منفرد جغرافیائی-سیاسی پوزیشن کا عکاس ہے۔ اس ملک نے طویل عرصے سے اسرائیل-فلسطین کی حرکیات کی پیچیدگیوں سے نمٹا ہے اور تنازعات میں اضافے کے کسی بھی ایسے خطرے کو روکنے کی کوشش کی ہے جو اس کی اپنی سرحدوں کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔ مصر کے بیان میں “علاقائی سلامتی” پر وسیع تر توجہ کو ہدف ملامت سے زیادہ اجتماعی استحکام کے مطالبے کے طور پر پڑھا گیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ایک خاموش تبدیلی؟
سعودی عرب، یو۔اے۔ای۔ اور مصر کے احتیاط سے الفاظ کے یہ جوابات اسرائیل کو الگ تھگ کرنے سے گریز کرتے ہیں اور لہجے میں تبدیلی سے بڑھ کر پورے خطے میں اسٹریٹجک ری الائنمنٹ کا اشارہ دیتے ہیں۔ تینوں ممالک اب بھی فلسطینی کاز کی حمایت کرتے ہیں اور مسلم اتحاد کو برقرار رکھنے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان کی موجودہ ترجیحات ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو روکنا، اقتصادی استحکام کو فروغ دینا اور اپنی سرحدوں کے اندر سلامتی کو فروغ دینا ہے۔
سعودی عرب، یو۔اے۔ای اور مصر کی طرف سے اسرائیل کی اس “حمایتی مذمت” سے پتہ چلتا ہے کہ شاید یہ تینوں ممالک زیادہ اہم پوزیشن کے خواہاں ہیں، ایک ایسی پوزیشن جو اسرائیل کے دفاعی موقف کو ایڈجسٹ کرتی ہو، یا کم از کم اسے رواداری کا درجہ فراہم کرتی ہو۔
گزشتہ سالوں میں ایران پر اسرائیلی حملے کی وجہ سے عرب دنیا کی طرف سے متحدہ اور کھل کر مذمت کا آغاز ہوا ہوگا، لیکن آج یہ جچے تلے جوابات اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ مشترکہ مفادات کے حق میں سابقہ نااتفاقی دھیمی پڑ رہی ہے۔ ایران کے اثر و رسوخ سے طویل عرصے سے محتاط رہنے والے یہ ممالک تہران کے علاقائی عزائم کے خلاف اسرائیل کے کردار کو خاموشی سے تسلیم کرتے نظر آتے ہیں۔ اسرائیل کے حامیوں کے لیے یہ لطیف تبدیلی مستقبل میں ایک یقین دہندہ جھلک فراہم کرتی ہے، ایک ایسی تبدیلی جس میں عرب پڑوسی اسرائیل کو نہ صرف حریف کے طور پر بلکہ علاقائی استحکام کو برقرار رکھنے میں ایک ممکنہ شراکت دار کے طور پر دیکھنا شروع کر رہے ہیں۔