سمیہ الغنوشی
زیر نظر مضمون عربی زبان کی معروف ویب گاہ www.noonpost.com سے لیا گیا ہے،اسے تیونس کی صحافی اور نامہ نگار سمیہ الغنوشی نے تحریر کیا ہے، مشرق وسطی ان کا خاص موضوع ہے۔(ادارہ)
سلطان محمد فاتح نے ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو فتح قسطنطنیہ کے بعد مسجد آیا صوفیہ کو بازنطینیوں کے قبضے سے چھڑایا اور اناطولیہ کے قلب سے اسلام مخالف طاقتوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ اسلام اب پوری قوت اور شان و شوکت سے اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرے گا۔ اس سے قبل دمشق اور بغداد کئی صدیوں تک اسلامی خلافت کے مراکز رہےتھے۔ یکم فروری ۱۹۲۵ء کو ایک اسلام بیزار، لبرل، آمر نے اس عظیم مسجد کو عجائب گھر میں تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا۔ مسجد کی صفوں اور قالینوں کو پھاڑ کر پھنک دیا گیا، مسجد سے متصل سلطان فاتح کے قائم کردہ مدرسے کو مسمار کردیا گیا، مسجد کو روشن کرنے والی بڑی بڑی قندیلوں کو بجھا دیا گیا، اس مدرسے کو خلافت عثمانیہ کی پہلی جامعہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ کمال اتاترک کے کارندوں نے مسجد کے میناروں کو بھی نہیں چھوڑا۔ لیکن اس خوف سے کہ کہیں پوری مسجد نہ گر جائے، کچھ میناروں کو باقی رہنے دیا۔
کمال اتاترک کے یہ سارے اقدامات اسلامی تہذیب و ثقافت کے آثار کو مٹانے اور اسلام کے مقابل قوم پرستی کے رجحان کو پروان چڑھانے کے ناپاک عزائم کا حصہ تھے۔ اس نے عثمانی عربی رسم الخط کو رومن میں تبدیل کردیا، عربی زبان میں اذان اور حجاب پر پابندی عائد کردی، سیکڑوں مساجد کو بند کردیا۔ کمال اتاترک نے اناضول (اناطولیہ) پر برطانوی اور فرانسیسی قبضے کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے قانون سازی میں آزادی کا فائدہ اٹھا کر عثمانی آثار کے خلاف کھلی جنگ شروع کر دی تاکہ اس کے مقابلے میں جدیدیت، قوم پرستی، لبرل ازم کو فروغ دےکر اپنی آمریت کو مستحکم کر سکے۔
تین دہائی بعد عدنان مندریس نے جب ان اسلام مخالف اقدامات کو روکنے کی کوشش کی، عربی زبان میں اذان کو بحال کیا تو فوج نے اسے پھانسی دے کر یہ پیغام دیا کہ کسی بھی اسلامی شعائر کو بحال کر نے کی اجازت قطعاً نہیں دی جائے گی۔
ترکی نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں، ان حالات میں اسلامی شعائر کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کے باوجود اسی معاشرے سے ایک بطل جلیل نجم الدین اربکان نے سیاسی جدوجہد اور حکمتِ عملی کے ساتھ مدارس، مساجد اور جامعات کے ذریعے اسلام کے لیے فضا کو سازگار کیا۔ ستّراسّی کی دہائی میں رجب طیب ایردوان اسی جماعت کا حصہ تھے۔ تاہم بعد میں انھوں نے اپنے استاد نجم الدین سے مختلف راستہ اختیار کیا۔ بہت سادہ ہے وہ شخص جو یہ خیال کرتا ہے کہ ایردوان کا آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد کے طور پر بحال کرنے کا فیصلہ مسیحیت اور اسلام، مسجد اور کلیسا کے درمیان مخاصمت کی بنیاد پر ہے، بلکہ حقیقت میں یہ عمل ترکی کو دوبارہ اسلامی شعائر، تہذہب و ثقافت اور اپنی اصل بنیادوں پر استوار کرنے کی دور رس حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
ایردوان ترکی کی عثمانی تاریخ اور عصر حاضر کی سیاسی تحریکات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ انہیں معلوم کہ ہے کہ ترکی کی بقا اور استحکام اسلام سے وابستہ ہے اور اس مقصد کو درست حکمتِ عملی اور متوازن پالیسیوں کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ امت کے اس عظیم رہنما نے ترکی کو اسلامی نہج پر واپس لانے کے عمل کا آغاز کردیا ہے، جس پر اتاترک نے پابندی عائد کردی تھی۔ ایردوان کی ماضی کی تقاریر کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آیا صوفیہ کی بحالی کا بہت پہلے ہی سے عزم رکھتے تھے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ایردوان کے پہلی مرتبہ جیل جانے کا اصل سبب ترکی کے شاعر ’’ضیا موقلب‘‘ کے درج ذیل اشعار کو اپنی تقریر میں پڑھنا تھا:
مینار ہمارا ہتھیار ہے
گنبد ہمارا حفاظتی حصار ہے
مسجدیں ہماری فوجی بیرکیںہیں
مومنین ہمارے سپاہی ہیں
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایردوان نیا عثمانی خلیفہ ہے جو ماضی کی طرف ہر حال میں لوٹنا چاہتا ہے بلکہ وہ جدید جمہوری ترکی کا ہی حصہ ہے، اس کے پیش نظر ترکوں کو بیدار کرنا اور دنیا کے سامنے ایک موثر طاقت کے طور پر پیش کرنا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدرسہ کا طالب علم ہے بلکہ جامعہ سرمرۃ کے اکنامکس اینڈ مینجمنٹ ڈپارٹمنٹ کا گریجویٹ اور ترکی میں اسلامائزیشن کے احیاء کے بانی اربکان کا طالب علم بھی ہے۔ ایردوان آیا صوفیہ کو مسجد کے طور پر بحال کرنے کے اس عمل کو مساوات کا اظہار سمجھتے ہیں جس کو انہوں نے اپنے منصوبے کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ وہ ایک عملیت پسند سیاست داں ہیں، وہ طاقت کے توازن اور سیاست کی رکاوٹوں سے بخوبی واقف ہیں، جس نے ان کے استاد اربکان کا راستہ روکا، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ سیاسی نظام سیکولرازم پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے انھوں نے اپنی جدوجہد کا مرکز آمرانہ اور فوجی بالادستی کو کمزور کر نے اور اسے غیر جانب دار، جمہوری اور عوامی رائے کے احترام پر مبنی نظام کی تشکیل کی طرف مبذول کیا۔ جہاں عقیدے، عبادات اور اظہار کی آزادی حاصل ہو۔
آیا صوفیہ کی بحالی نے عالم اسلام میں قانون کی حکمرانی کے بیانیہ کو نئی روح دی ہے۔ وسیع پیمانے پر اسلامی دنیا نے اس تاریخی فیصلے کو بڑی دلچسپی سے پڑھا اور سوشل و ڈیجیٹل میڈیا پر بڑے شوق سے اسے دیکھاگیا۔ اس خبر کو عالمی سطح پر بڑی اہمیت دی گئی۔
شاید یہی وجہ ہے جس نے قاہرہ، ریاض، ابوظہبی اور دیگر عرب دارالحکومتوں میں صف ماتم برپا کردیا۔ سعودی عرب جو کبھی سلفی نظریہ، عدم رواداری کا داعی تھا، اب مذہبی رواداری کا داعی بن گیا ہے۔
ریاض اور قاہرہ کیوں خوف زدہ ہیں؟
ان دونوں ممالک کے لیے پریشان کن بات یہ ہے کہ کہیں کوئی ان دونوں سے اسلامی دنیا کی سیاسی سیادت اور چودھراہٹ نہ چھین لے اور ان کی پوزیشن کو چیلنج نہ کردے۔ ایسا لگتا ہے کہ ترکی اور سعودی عرب دونوں مخالف راستوں پر چل پڑے ہیں، ایک اسلامی تاریخ سے اپنے منقطع رشتے کو استوار کرنا چاہتا ہے، دوسرا حرمین شریفین کو علامتی طور پر باقی رکھ کر، اسلامی شعائر، تہذیب و ثقافت اور اسلامی اقدار سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے، گویا کہ وہ کوئی بوجھ ہیں۔ سعودی معاشرے پر مغرب کی اخلاق باختہ کلچر اور روایات کو بزور مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب ایردوان آیا صوفیہ کے گنبدوں سے اذان کی صدا بلند کروا رہے ہیں۔ سعودی عرب جو پہلے ہی کورونا سے متاثر ہے ایک انگریزی میگزین کے لیے عریاں اور فحش ماڈلوں کی فوٹوسیشن کا انعقاد مدینہ منورہ اور قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے چند کلومیٹر کی دوری پر کررہا ہے۔
دوسری جانب ترکی اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی اور اسلامی خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ جبکہ عرب ممالک نے اپنی مفادات کے لیے نیتن یاہو سے خفیہ اور علانیہ اتحاد کر رکھا ہے۔ امریکی سفارت خانہ کے القدس منتقلی، بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی سازشوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور جب ایردوان نے قمۃ القدس کے نام سے اجلاس بلایا تو ابنِ سلمان ابن زید اور سیسی اس اجلاس میں نہ صرف غیرحاضر رہے بلکہ دوسروں کو بائیکاٹ کرنے کے لیے ورغلایا۔ ان ممالک نے اپنا روحانی، سیاسی اور دینی وقار کھو کر ترکی کے لیے اسلام کے مرکز کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ عرب ممالک ہر قسم کی دینی رجحان کو دبانے میں مصروف ہیں۔
ان کا مقصد صرف مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی سیاسی طاقتوں کو دبانا ہے۔ لہٰذا یہ اس مقصد کے حصول کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔ یہ ممالک انتشار اور بگاڑ پیدا کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں جیسا کہ لیبیا، یمن، عراق، ملیشیا، پاکستان اور صومالیہ وغیرہ میں کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب امریکا، یورپ اور ہندو انتہا پسندوں سے دوستی کی جارہی ہے۔ یہ ممالک مسلمانوں کیخلاف نسلی، علاقائی اور مذہبی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مسلمانوں کو انتہا پسند، دہشت گرد، اور نجانے کیا کیا نام دے رہے ہیں۔
بہرحال فطرت اپنی اصل کی طرف لوٹ رہی ہے، موجودہ خلا کو پُر کرنے کے لیے کوئی آگے بڑھ رہا ہے۔ عرب دنیا کی ٹوٹ پھوٹ، انتشار اور اسلامی اقدار سے دوری کے اس موقع پر ترکی اسلامی قیادت کے صف میں آگے بڑھ رہا ہے اور بھرپور قوت سے اپنی اسلامی شناخت حاصل کر رہا ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے مفاد کے لیے کام کر رہا ہے۔
جہاں تک عرب تنظیموں اور اداروں کا حال ہے تو وہ اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں اور بداعمالیوں پر اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔ عربی میں ضرب المثل ہے کہ علیٰ نفسہا جنت براقش ’’جب کوئی اپنوں کی بدشگونیاں لائے‘‘۔
ترجمہ: محمود الحق صدیقی
(بحوالہ: “noonpost.com”۔ ۱۳؍جولائی ۲