سوال یہ ہے کہ شام میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کا فلسطینیوں پر کیا اثر پڑے گا؟ کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بشار الاسد ایک مزاحمتی محور کا حصہ تھے، جس میں ایران، عراق، یمن، لبنان اور غزہ شامل ہیں، اور اسد کا تختہ الٹنے سے فلسطینیوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔جبکہ بعض دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسد حکومت قابض اسرائیل کی محض ایک محافظ تھی اور اس کا زوال اور ہیئۃ تحریر الشام (HTS) کا شام میں غالب قوت کے طور پر ابھرنا اسرائیل کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
ایک فلسطینی کے طور پر میں اسد کو صرف اسرائیل کا محافظ نہیں بلکہ اس کا مدافع سمجھتا ہوں۔ اسد کا خاندان، جس کا تعلق علوی فرقہ سے ہے، اسرائیل کے ساتھ مبینہ دشمنی کو اپنے مطلق العنان اقتدار جو دراصل شامی عوام پر ظلم و جبر اور ان کی آزادی کو کچلنے پر مبنی تھا،کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا تاکہ اسرائیلی قبضے کے خلاف حقیقی کوششوں کو روکا جا سکے۔درحقیقت یہ ایک عدم مداخلت یا دستبرداری کا معاہدہ تھا جو 1974 میں اسرائیل اور اسد حکومت کے درمیان طے پایا تھا، جس کے تحت چھ روزہ جنگ کے بعد ہونے والی جھڑپوں کا خاتمہ ہوا اور ایک اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک بفر زون تشکیل دیا گیا۔
بشار الا اسد حکومت نے امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے اس معاہدہ کی اپنی طرف سے بھرپور پاسداری کی۔ لیکن بچپن سے لے کر اب تک میں نے اسرائیل کی طرف سے معاہدہ کی خلاف ورزیوں کو بار بار دیکھا ہے۔ اسد حکومت کا ہمیشہ سے ردِعمل یہی رہا کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ اس معاملہ کو اٹھائے گا ۔ وہ مناسب وقت اور جگہ پر جواب دینے کا عہد کرتا ہے لیکن اس نے اس عہد کوکبھی پورا نہیں کیا۔
یہ امن معاہدہ جو عرب حکومتوں اور اسرائیل کے درمیان اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ تھا، 45 سال سے زیادہ جاری رہا۔ اس دوران اسد حکومت نے شام کو اسرائیل اور عرب و مسلم ممالک کے درمیان ایک بفر زون میں تبدیل کر دیا اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی کسی بھی کوشش کو کچلنے کےایک بہانے کے طور پر استعمال کیا۔ یہاں تک کہ اسد حکومت نے 1980 کی دہائی میں گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔
بشار الاسد اور اس کے خاندان کے دور حکومت میں نہ صرف شام کے لوگ مصائب جھیلتے رہے بلکہ 50 لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کو بھی شدید آزمائش کا سامنا رہا۔ 2011 میں شروع ہونے والے شامی انقلاب کے دوران اسد حکومت نے سیکڑوں فلسطینیوں کو قتل اور قیدکیا۔ بہت سارے لوگ جبری طو ر پر غائب اور بے گھر ہوئے۔ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اب تک 600 سے زیادہ فلسطینیوں کو جیلوں سے رہا کیا گیا ہے جن میں حماس کے عسکری شعبہ القسام بریگیڈ کے مجاہدین بھی شامل ہیں۔ حماس کے مجاہدین نے اسرائیلی قبضے کے خلاف کارروائی میں کبھی شام کی سرزمین کا استعمال نہیں کیا پھر بھی شامی حکومت نے انہیں اسرائیل کی حفاظت کےاپنے فرض کے طور پر گرفتار کرلیا۔ اگرچہ بہت سے لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسد حکومت نے حماس کی قیادت اور تربیتی مراکز کی میزبانی کی، لیکن اس کا مقصد دراصل نام نہاد “محورِ مزاحمت” کو مضبوط کرنا تھا۔ اس نے اسرائیل کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ خود کو مظلوم ظاہر کرے اور ایران اور اس کے حامی گروہوں سے درپیش “وجودی خطرے” کے خلاف جنگ کا جواز پیش کر سکے۔
اب جب کہ شامی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور حزب اللہ کواس کی سپلائی لائن کے ٹوٹنے کی وجہ سے شدید اور ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا ہے، انقلابی رہنما ابو محمد الجولانی کی قیادت میں سنی مسلمان علاقے میں ایک بڑی طاقت کے طور پر اُبھریں گے اور فلسطین کی آزادی کے لیے کام کریں گے۔
بہت سے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ الجولانی ایک انتہا پسند ہیں، اور ان کی قیادت میں شامی باغی ملک میں انتشار اور عدم استحکام کا باعث بنیں گے، ساتھ ہی شریعت کے قوانین کی انتہا پسندانہ تشریحات بھی سامنے آئیں گی۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، کیوں کہ الجولانی، جنہوں نے امریکی حمایت یافتہ القاعدہ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، نے معتدل اور مؤثر باغی دھڑوں کو متحد کر کے ادلب میں ایک مستحکم نیم خودمختار ریاست قائم کی۔ اس ریاست میں اقلیتوں کا احترام ہے اور شریعت کے قوانین صرف ان علاقوں میں نافذ کیے گئے جہاں عوام نے اسے قبول کیا۔ جن علاقوں نے اسے مسترد کیا وہاں نافذ نہیں کیے گئے۔ عیسائیوں کو کلیساؤں میں آزادانہ طور پر عبادت کرنے کا حق دیا گیا۔
الجولانی نے ایک کامیاب طرزِ حکمرانی کا نظام قائم کیا جو تمام شعبوں، بشمول فوجی صنعت، کا احاطہ کرتا ہے۔ انہوں نے جدید ترین نگرانی اور حملہ آور ڈرونز، بھاری وارہیڈ والے میزائل اور دیگر اہم ساز و سامان تیار کیے، جو بیشتر آزاد عرب اور مسلم ممالک بھی تیار نہیں کر سکے۔ اب انہیں شام کے استحکام پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ جولانی کو چاہیے کہ وہ حکومت کی پرامن منتقلی، ریاستی اداروں کی تعمیر نو، مختلف فرقوں اور نسلی گروہوں کے درمیان سماجی مفاہمت، ایک نئے آئین کی تدوین اور شام کے بین الاقوامی تعلقات کی بحالی پر کام کریں۔ جب یہ مقاصد حاصل ہو جائیں، تو وہ اسرائیل کی جانب اپنی توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔
کوئی بھی غیر مستحکم ملک، جس کا سیاسی اور سماجی نظام کمزور ہو، کسی بھی ملک کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتا، چاہے مدمقابل دنیا کا سب سے کمزور ملک ہی کیوں نہ ہو۔امید ہے کہ الجولانی، جو گولان کے پہاڑی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے وطن کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
اس دوران اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ شام کے ساتھ اپنے امن معاہدے سے دستبردار ہو رہا ہے، کیوں کہ اس کے مطابق یہ معاہدہ اب “ختم ہو چکا” ہے۔ اسرائیل نے اپنی قابض فوج کو گولان کی پہاڑیوں کے مقبوضہ علاقے، جبل الشیخ (کوہ حرمون) اور القنیطرہ صوبے کے کئی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کا حکم دیا۔ یہ الجولانی کو اسرائیل کے ساتھ نئے سرے سے آغاز کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو توقع ہے کہ امریکہ اور دیگر بین الاقوامی طاقتیں شام میں افراتفری پھیلانے کے ارادے سے ہی سہی، مداخلت کریں گی۔
موجودہ صورت حال میں اسرائیل اور اس کے تمام اتحادیوں کی کوشش ہے کہ شام کمزور ہو اورکوئی مثبت تبدیلی تاخیر کا شکار ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اسد کی معزولی اور “محور مزاحمت” کا خاتمہ فلسطینیوں کے لیے اس کے برعکس یعنی اسد کی حکومت اور نام نہاد محور مزاحمت سے زیادہ بہتر ہے۔