پروفیسر ظفر حبیب
آرزو کے مقبرہ کا خاموش مجاور فلک شگاف نعروں کی آواز سن کر شکستہ دیواروں کے حصار سے غیر ارادی طور پر باہر نکل آیا۔ حصار کے باہر اس نے دیکھا چہل پہل کی ایک دنیا آباد ہے لوگ ٹولیاں بناکر نعرے بلند کرتے ہوئے ایک خاص سمت کی طرف رواں ہیں۔ مختلف قدو قامت ، رنگ روپ اور طرز و انداز کی اس بھیڑ چال میں اس نے خود کو شامل کرلیا۔ دیدئہ شوق وا ہوتا چلا گیا۔ گوش سماعت ذکی الحس ہونے لگا اور وہ مجاور ایک عجیب مسکراہٹ کے کنول ہونٹوں پر کھلائے بھیڑ میں گھستا گیا۔ اس کی مسکراہٹ سے یہ شبہ ہوتا کہ عنقریب وہ ’’پالیا پالیا‘‘ کی صدا بلند کرے گا۔ گل پاش مسکراہٹ لئے وہ مجاور اس شخص کے بالکل قریب پہونچ گیا جو کہہ رہا تھا۔
’’سجنو! آج اس ضلع کے ، ضلعی ہی نہیں صوبہ کے، صوبہ ہی نہیں سارے بھارت ورش کے ایک مہان دیکتی کے جنم کا دن ہے۔‘‘
مجاور کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا ۔ یہ سوچ کر کہ آج کا دن ایک مہاپرش کا جنم دن ہے ۔ ‘‘اور اسی وقت اس کے دل میں اس مہاپرش کے دیدارکی چاہت ابل پڑی۔ قبل اس کے کہ وہ اس بھیڑ سے نکل کر اس مہاپرش کی کھوج کرنا اس نے سنا۔ ‘‘لیکن ہمیں افسوس ہے کہ اب وہ مہان وچارک مہان پرگتی وادی اور غریبوں کے مسیحا ہمارے بیچ نہیں رہے ۔ دوسرے ہی لمحہ مجاور کے شگفتہ چہرے پر ملال کی اوس پڑ گئی ۔ وہ یہ سن کر بے چین ہوگیا ۔ اس وقت بھیڑ سے نکل بھاگنے کو تیار ہوگیا کہ پھر اس نے سنا۔ یہ ضرور ہے کہ وہ ہمارے بیچ نہیں رہے لیکن انہوں نے ہمیں جو راہ دکھائی ہے۔ وہ راہ آج بھی ہمیں پکار رہی ہے ۔ آج ہم سب مل کر یہ سنگلپ کریںکہ ہم لوگ مل کر ان کی راہ پر چلیں گے اور جب تک پورے دیش پر سکھ کی لالی نہیں چھا جاتی ہے ہم لوگ ان کی راہ پر چلنے ہی رہیں گے۔
مجاور نے دیکھا! بھیڑ کا ہر آدمی اپنا ہاتھ اٹھاکر اس کہنے والے کے اٹھے ہوئے ہاتھ کی تصدیق کر رہا ہے۔ مجاور کے مضمحل چہرے پر ایک بار پھر خوشیوں کی ہریالی چھا گئی ۔ تالیوں کی گڑ گڑگڑاہٹ کے بیچ اس نے دیکھا ۔ اس بولنے والے کی جگہ پر کوئی دوسرا بولنے والا آکر کھڑا ہوگیا۔
بھیڑ کے کچھ لوگ ادھر سے ادھر ہونے لگے ۔ مجاور بھی بھیڑ میں ادھر سے ادھر ہوتا ہو اس سے باہر نکلنے لگا۔ نکلتے ہوئے اس کی نظر ا س موٹے تیز و تند دوکاندار پر جاپڑی جو ریلوے کالونی کے نکٹرپر ’’مالک ‘‘‘ کہلاتا تھا۔ ’’مالک‘‘ یہ نام اسے ریلوے کالونی میں بسے ہوئے ان ہزاروں ملازمین نے دے رکھا تھا۔ جن کی روزی روٹی کا انتظام ا س مالک کی دوکان سے ہوا کرتا تھا۔ مالک ان لوگوں کے لئے انتہائی مہربان ہے جو ا س کی دوکان سے ادھار سوداخریدتے وقت سوچنے کی ہمت کبھی نہیں کرتے کہ وہ چیزوں کی قیمت ڈیوڑھی وصول کر رہا ہے یا دوگنی۔ مالک ان لوگوں کے لئے دیاکاپیکرہے جو ووقت ضرورت اس کے یہاں سے روپے قرض لے جایا کرتے ہیں۔ قرض لینے والے کو اتنا سوچنے کی مہلت کبھی نہیں ملتی کہ سود کی شرح کتنی ہے؟ دس فیصد ماہانہ یاپندرہ فیصد ماہانہ۔ ہاں مالک کا چہرہ ان ملازموں کو اس وقت قبیح نظر آتا ہے جب وہ تنخواہ ملنے کے دن ٹھیک پے آفس کے پاس بیٹھا رہتا ہے۔ مجاور نے اس جگہ کھڑے ہوئے چند آدمیوں سے دریافت کیا۔ ’’وہ تو مالک ہیں نا۔ کیا انہوں نے بھی غریبوں کے مسیحا کی راہ پر چلنے کا ارادہ کیا ہے۔ لوگوں نے مجاور کو بتایا ‘‘ بدھو کہیں کے ان کے بچے پکے بھگتوں میں سے ہیں۔ ‘‘ مجاور کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا لیکن ایک با ربدھو کہلانے کے بعد اسے دوسری بار کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
مجاور بھیڑ سے باہر نکل آیا___تقریر کا سلسلہ چل رہا تھا۔ بیچ بیچ میں فلک شگاف نعرے بلند ہورہے تھے___مزدور ایکتا زندہ باد۔ دنیا کے مزدورو___ایک ہو___ایک ہو اور پھر سبھی ہاتھ ایک ساتھ اٹھ جایا کرتے تھے۔ مالک بھی مزدوروں کے بیچ مزدور بنا ہوا تھا۔ بھیڑکے ایک کنارے مجاور کے قدم اچانک جم گئے۔ اس نے سنا ’’ہمارے بھارت ورش میں جب سامپر دائک دنگے ہوئے ہمارے مہان نیتا نے ہمیشہ ان کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ وہ ساری عمر سامپردائیکتا ورودھی رہے ہیں___ہم آج یہ طے کرلیں کہ ہم لوگ دیش سے سامپر دائیکتا کا سروناش کرکے رہیں گے۔ ’’اور پھر سب کے ہاتھ ایک بار اٹھ گئے۔ مجاور نے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا تو اسے ایک بار پھر سکون کا احساس ہوا۔ اس کا جی چاہا ان تمام لوگوں کے ہاتھ چوم لے جو اس وقت سامپردائکتا کے ورودھ کا عز م کر رہے ہیں۔ اس کوشش اور تلاش میں وہ بھیڑ کے چاروں طرف پھرنے لگا۔ یہاں تک کہ وہ اس چھوٹی سی بھیڑ کے پاس پہونچ گیا جہاں پر ایک ادھ پکی ڈاڑھی والا ایک بساطی اپنا بکس نما شوکیس اپنے پیروں کے پاس رکھے ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہہ رہا تھا۔ ’’بھائی صاحب! میں غریب آدمی ہوں۔ خداکے لئے میری انگوٹھیاں مجھے دے دیجئے۔ اور سامنے کھڑا ہوا گٹھیلے بدن کا نوجوان ہاتھ پر سرخ رومال باندھے اپنی پانچوں انگلیوں میں انگوٹھیاں پہنے بڑے ہی زعم سے کہہ رہا تھا کہ وہ یہاں سے چلا جائے ورنہ اس کا سارا سامان لوٹ لیا جائے گا۔ بے چارہ بساطی ایک بار پھر التجا کرنے لگا ’’بھائی صاحب ! خدا کے لیے رحم کیجئے میں غریب آدمی ہوں ۔ بمشکل بال بچوں کا پیٹ پالتا ہوں___‘‘ لیکن اس کے جواب میں رومال باندھتے ہوئے نوجوان کی جانب اسے موٹی موٹی گالیوں کی سوغات ملی۔ غریب بساطی پکار پکار کر بھیڑ والوں کو مخاطب کرنے لگا۔ آدھی بھیڑ اس بساطی کے گرد و پیش جمع ہوچکی ہے۔ لیکن رومال والا نوجوان اسے گالیاں دیتا چلا جارہا ہے۔ مجاور ایک دوسرے گٹھیلے نوجوان سے کہتا ہے کہ وہ کیوں نہیں بے چارے بساطی کی انگوٹھیاں دلوادیتا ہے۔ دوسرا نوجوان اپنی لاچاری کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دراصل وہ نوجوان جس نے انگوٹھی لے لی ہے اس کے یہاں دیسی اسلحہ کا کارخانہ ہے اور وہ اس علاقے کا سب سے زیادہ دولت مند آدمی ہے۔ مجاور ایک بار پھر مایوس ہوجاتا ہے۔ اس مایوسی کے عالم میں وہ بھیڑ سے الگ ہوجاتا ہے۔ اس کی نظر جب بازار کی دوکان پر پڑتی ہے تو اسے ایک بار پھر سکون سا محسوس ہوتا ہے ۔ وہ دیکھتا ہے کہ ہر دوکان کے ماتھے پر سہاگن کے سیندور کی طرح ایک ایک جھنڈی لگی ہوئی ہے۔ مجاور کو یقین ہونے لگتا ہے کہ غریبوں کے مسیحا بے شک ایک عظیم اور ہر دلعزیز انسان ہوں گے۔ اس شفق رنگ بازار سے گذرتا ہوا مجاور ہر شخص کی زبان پر اس سال گرہ کا ذکر سن کر دل ہی دل میں اس مہاپرش کی مہانتا کا زیادہ سے زیادہ قائل ہونے لگتا ہے۔ لیکن اسے یہ سن کر ایک بار پھر چکنا چور ہوجانا پڑتا ہے کہ گذشتہ ایک ہفتہ میں بازار کا شاید ہی کوئی دوکاندار ایسا ہوگا جس سے بزور طاقت اس سال گرہ کی تقریب کے لئے چندہ وصول نہ کیا گیا ہو۔دوکانوں کے ماتھے پر چپکی ہوئی بندیا اس چندہ کی رسید ہے۔
خیالات کی بھونچال کا جھنجھوڑا ہوا مجاور سکون کی سانس لینے بازار کے اس چائے خانہ میں گھس پڑا ہے جہاں غریبوں کی مسیحائی کا دم بھرنے والے لوگ چائے کی چسکیوں کے ساتھ انسانی زندگی کے مسائل سلجھانے میںمصروف تھے۔ مجاور نے برابرکی میز پر بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کی بات سنی۔ ایک کہہ رہا تھا۔ ادب کو ہر حال میں زندگی سے قریب ہونا چاہئے۔ زندگی کے مسائل کی جھلک اس میں نظر آنی چاہئے۔ زندگی کے بغیر ادب ذہنی عیاشی ہے۔ ادب برائے ادب کا نعرہ جاگیردارنہ نظام کی دین ہے۔
دوسرا آدمی اسے سمجھا ئے جارہا تھا ___کہ ادب زندگی کے بغیر تو کوئی مفہوم ہی نہیں رکھتا۔ لیکن زندگی کیا صرف پیٹ کی بھوک کا نام ہے۔ ؟ پیٹ کے علاوہ دل اور دماغ بھی بھوک محسوس کرتا ہے۔ اگر پیٹ بھر دیا جائے اور دل و دماغ بھوکا رہے تو انسان فرصت کے اوقات میں جگالی کرنے کے سوا اور کیا کرے گا۔ اس لئے ادب کو دل کے لئے بھی غذا فراہم کرنی چاہئے اور دماغ کے لئے بھی۔ ‘‘ پہلا شخص دوسرے کی بات کاٹ کرکہنے لگا۔ ’’جب تک انقلاب کا سرخ طوفان دنیا کے تمام نظریات و تصورات حیات کو خس و خاشاک کی طرح بہانہ لے جائے گاروٹی کے گیت اس وقت تک ضرور گائے جائیں گے۔ ‘‘
دوسرا شخص ایک بار پھر اسے سمجھاتا ہے کہ ’’طوفان آجائے سارا خس و خاشاک دور ہوجائے پھر اس کے بعد کیا ہوگا ___؟کیا صرف اس سرخ طوفان کی قصیدہ خوانی___؟‘‘
مجاور بغور ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا اور پورے انہماک اوردلچسپی کا مظاہرہ کر رہا تھا کہ اس دوکان کے سامنے ایک درویش ستار کی دھن پر یہ نغمہ الاپنے لگا:
زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا
طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
فقیر کی صدا میں سوز بھرا ہوا تھا۔ مجاور اس کی آواز سن کر ہوٹل سے باہر نکل آیا۔ باہر نکلتے ہی اس نے یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ پھر اپنے اسی مقبرہ کی طرف لوٹ جائے گا۔ جب وہ شکستہ دیواروں کے حصار میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ مقبرہ پر کچھ اضافہ ہوگیا ہے۔ دیکھنے میں وہ اب اور زیادہ خوبصورت اور دلکش معلوم ہورہا ہے۔ اپنی آرزو کے اس مقبرہ کے سامنے پہونچتے ہی بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ ‘‘ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔‘‘
٭٭٭