آج کل عرب حکمراں مغرب کی نقالی میں جس طرح اسلام اور اسلامی تہذیب وتمد ن کو نقصان پہنچا رہے ہیں ، مغرب کی عریاں، فحش اور بے ہودہ تہذیب کو اپنے ملکوں میں درانداز کررہے ہیں، یہود ونصاریٰ سے جس طرح پینگیں بڑھائی جارہی ہیں اوراسرائیل کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات استوار کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جو کوششیں ہورہی ہیں وہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہیں۔
شراب وشباب اور عریاں تہذیب وتمدن کا بدترین مظاہرہ تو ان ممالک میں ایک عرصہ سے جاری ہے تاہم اب تک سعودی عرب ظاہری طور پر ان لغویات و فواحش سے پاک تھا لیکن اس وقت یہ طوفان بلاخیز جس طرح سعودی عرب کے حدود میں داخل ہورہا ہے اس سے یہ اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ جو ملک حرمین شریفین کی تولیت کا فریضہ انجام دے رہا ہے وہ بھی شیطان کے نرغہ میں نہ آجائے ۔سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے ان چند سالوں میں ملک میں بڑے پیمانے پر فلم انڈسٹری کو فروغ دیا ہے ، دنیا کے فلمی ہیرو ہیروئینوں کی پذیرائی کی ہے، ان کے بڑے بڑے پروگرام منعقد کیے جارہے ہیں، ماڈلنگ کلچر کو پروموٹ کیا جارہا ہے، یہاں تک کی سوئمنگ سوٹ میں عورتوں کی نمائش تک کرائی گئی۔ مغرب کے معاشی اور سیاسی استعمار کے بعد اب تہذیبی استعمار نے بھی اپنے پنجے عرب ممالک میں گاڑ دیئے ہیں۔ عرب ممالک نہ تو آزادانہ طور پر اپنی معاشی پالیسیاں بنا سکتے ہیں اور نہ ہی سیاسی اور دفاعی پالیسی بنانے میں وہ آزاد ہیں۔اندیشہ ہے کہ اب مغربی تہذیب وتمد ن اسلام کی ظاہری شکل وصورت کو بھی بگاڑکررکھ دے گا۔
امریکہ اور مغربی ممالک ابراہیمی مذاہب کے درمیان مفاہمت اور انٹر فیتھ ڈائیلاگ کا ایک نیا جال لے کر آئے ہیں۔ عرب دنیا کے حکمران جودراصل امریکہ اور مغربی ممالک کے مہرے ہی ہیں ان کے اشارے پر ناچنے لگے ہیں۔ 4فروری 2019 کو کیتھولک چرچ کے پوپ فرانسس، الازہر مسجد کے شیخ احمد الطالب کے درمیان ایک فیٹرنٹی دستاویز پر دستخط کیے گئے اور طے پایا کہ ابو ظہبی کے سعدیات جزیرے پر ایک انٹرفیتھ کمپلکس تعمیر کیا جائے ،جس میں تینوں مذاہب کی عبادت گاہیں ہوں ۔ اس میں سینٹ فراسس چرچ ، الطیب مسجد اور موسس بن میمون کا سینگاگ شامل ہوگا۔یہ منصوبہ بھی بنایا گیا کہ قران ، بائبل اور توریت کا ایک مشترکہ نسخہ بھی تیار کیا جائے ۔
اس خطرناک اور سازشی منصوبہ پر جب حکومت سعودیہ نے حکومت کی سربراہی میں قائم مستقل فتویٰ کمیٹی سے رائے مانگی تو اس نے مذاہب کے اتحاد کے بارے میں واضح موقف اختیار کرتے ہوئے اس کی دعوت دینے والوں کو کفر کا مرتکب قرار دیا۔ہم ذیل میں فتویٰ کی پوری عبارت نقل کررہے ہیں۔
“مستقل فتوٰی کمیٹی کا فتویٰ – فتوٰی نمبر 19402
“تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور درود و سلام ہو اُن پر جن کے بعد کوئی نبی نہیں، اور ان کے اہلِ بیت و صحابہ اور جو ان کے طریقے پر چلتے رہے قیامت تک۔ بعد ازاں…”
مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیق و افتاء نے ان سوالات اور میڈیا میں شائع مضامین کا جائزہ لیا جو مذاہب کے اتحاد (اسلام، یہودیت، اور عیسائیت) کے بارے میں پیش کیے گئے، جن میں یہ تجویز دی گئی کہ ایک ہی جگہ مسجد، چرچ، اور یہودی عبادت گاہ بنائے جائیں یا قرآن، تورات، اور انجیل کو ایک ہی جلد میں شائع کیا جائے۔ اس مسئلے پر غور کے بعد کمیٹی نے درج ذیل فیصلہ کیا:
فتویٰ نمبر: 19402
1۔ پہلا نکتہ:
اسلامی عقیدے کی بنیاد یہ ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین حق نہیں ہے اور یہ آخری دین ہے جو تمام سابقہ مذاہب اور شریعتوں کو منسوخ کرچکا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: “بیشک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔”
2۔ دوسرا نکتہ:
قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب ہے اور اس نے تورات، زبور، انجیل اور دیگر کتب کو منسوخ کر دیا ہے۔
3.۔ تیسرا نکتہ:
تورات اور انجیل کے منسوخ ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں تحریف بھی کی گئی ہے، جیسا کہ قرآن کی آیات میں ذکر ہے۔
4.۔ چوتھا نکتہ:
حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
5۔ پانچواں نکتہ:
جو کوئی اسلام قبول نہ کرے، خواہ وہ یہودی، عیسائی یا کوئی اور ہو، وہ کافر ہے اور اللہ کا دشمن ہے اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو وہ جہنم کا مستحق ہے۔
6۔ چھٹا نکتہ:
مذاہب کے اتحاد کی دعوت ایک فتنہ انگیز اور مکارانہ سازش ہے جس کا مقصد اسلام کو کمزور کرنا اور مسلمانوں کو مرتد بنانا ہے۔
7۔ ساتواں نکتہ:
اس دعوت کا ایک اثر یہ ہو گا کہ اسلام اور کفر کے درمیان فرق ختم ہو جائے گا اور مسلمانوں کا کفار کے ساتھ بیزاری کا رویہ بھی ختم ہو جائے گا، جس سے جہاد اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی جدوجہد بھی ختم ہو جائے گی۔
8۔ آٹھواں نکتہ:
اگر کوئی مسلمان اس دعوت کو فروغ دے تو وہ دینِ اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ دعوت اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔
9۔ نواں نکتہ:
- مسلمان کے لیے اس دعوت کی حمایت کرنا، اس کے سیمینارز میں شرکت کرنا یا اس کے خیالات کو پھیلانا جائز نہیں۔
- قرآن، تورات اور انجیل کو ایک ہی جلد میں شائع کرنا یا مسجد، چرچ اور مندر کو ایک جگہ بنانا ناجائز ہے، کیونکہ یہ اسلام کی برتری کو مسترد کرنے کے مترادف ہے۔”
گزشتہ چند برسوں سے جس طرح علماء حق کو سعودی عرب میں دبایا جارہا ہے، ان کی زبانیں بند کی جارہی ہیں اور اکثر اوقات ان کو پس زنداں ڈال دیا جاتا ہے، فتویٰ کمیٹی کا یہ جرات مندانہ موقف یہ ثابت کرتاہے کہ ابھی بھی وہاں کے گھٹن زدہ ماحول میں کلمہ حق بلند کرنے والے موجود ہیں۔ دیر یا سویر اسلام دشمن طاقتوں اور یہود ونصاری کی سازشیں ناکام ہوں گی اور اسلام کا پرچم بلند ہوگا۔ ان شاء اللہ